Powered By Blogger

جمعرات, مئی 29, 2025

حج یہ "مہاکمبھ" کا میلہ نہیں ہے !              


آرایس ایس کا ہفتہ واری اخبار پنچ جنیہ ہے، اس کے ٹویٹر ہینڈل سےحجاج کرام کے قیام مزدلفہ کی ایک تصویرشائع کی گئی ہے، اس پر ایک نوٹ بھی تحریرکیا گیا ہے جس میں لکھا ہے: "٥٦/ اسلامی دیش، پیسے کے معاملے میں سبھی طاقتور، اس کے باوجود مکہ میں حج یاتریوں کی حالت اور بےبسی دیکھیے، یہ توچند لوگوں کی بھیڑ ہے، مہا کمبھ میں ۵٦/ کروڑ سے زائد لوگ ائے، پھر بھی ایسی کوبھ ویوستھانہیں رہی"
مذکورہ تحریر کے ذریعے سمجھے بغیر حج جیسی افضل ترین عبادت پرسوال قائم کیا گیا ہے، قیام مزدلفہ کےموقع کی ایک تصویربھی اس کے ساتھ شئر کی گئی ہےجس میں حجاج کھلے میدان میں ارام کر رہے ہیں اور کچھ لوگ عبادت میں مصروف ہیں، ان کی کسم پرسی دکھانے کی کوشش ہے، اور یہ کہنا ہے کہ مال و دولت کی ریل پیل کے باوجود یہ مسلمان ممالک حجاج کے لیے بندوبست نہیں کرتے ہیں ،یہاں کوئی ٹینٹ ہے نہ چھپڑ،سبھی رام بھروسے کھلے میدان میں پڑے ہیں۔
انصاف کی بات تو تھی کہ پہلےسمجھنے کی کوشش کرتےکہ آخر اس کھلے میدان میں یہ حجاج کیا کر رہے ہیں؟ کیوں اس پتھریلی زمین پر لیٹےپڑے ہیں؟ یہ ساری معلومات کے بعد مذہب اسلام کے اس بنیادی رکن پر سوال اٹھاتے، اور سوشل میڈیا کیاسے زینت بناتے، مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہیں کیا گیا، بس ایک تصویر ہاتھ لگی اور میدان مزدلفہ کی جسے مکہ مکرمہ کہ کر بنا کچھ سوچے سمجھے پوسٹ کر دیا، اس کا مقصد اسلام ومسلمان کو ذلیل کرنے اور نیچا دکھانے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے؟اخبار کے اس عمل سے ہمیں ٹھیس پہونچی ہے اور سب سے پہلے ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔
حج کے مختلف ارکان ہیں، ان کو سمجھنے کے لیے حج کے پورے سفر کا مطالعہ ضروری ہے، پہلی بات تو یہ کہ حج کے سفر پہ جانے والا کوئی غریب نہیں ہوتا ہےجس کا رونا رویا جارہا ہے، حج اسلام میں اسی پر فرض ہے جو مال و دولت رکھتا ہے، مذکورہ سوال جو مزدلفہ کی ایک تصویر کے ذریعہ کیا جارہا ہے، اس قدر دور جانے کی ضرورت کیا ہے؟ بلکہ یہ توحج کے سفر کی ابتدا ہی سے قائم ہوسکتا ہے، اس کی تصویربآسانی یہیں دستیاب ہوسکتی ہے وہ یہ ہرحاجی ایک ہی طرح طرح کا کپڑا زیب تن کیا ہوا ہے،گرمی کا زمانہ ہے، سفر سب کے سر کھلے ہیں، ٹوپی ہے نہ پگڑی ہے، سیدھی دھوپ سر پر پڑ رہی ہے، اس کے بچاؤ کے لیے کوئی نظم نہیں ہے، جبکہ عام دنوں میں اور اپنی عبادتوں میں یہ مسلمان ٹوپی اور پگڑی میں نظر اتے ہیں،میری سمجھ سے یہ پہلا اور ابتدائی وبنیادی سوال اگر حل کر لیتےتو باقی تمام سوالات خود بخود حل ہوتے چلے جاتے۔ 
حج مالداروں پر فرض ہے، انسان کی فطرت یہ ہے کہ دولت جب اس کے پاس آتی تو اپنے کو وہ خود کو بڑی چیز سمجھنے لگتا ہے، حج کے سفر میں اس بیماری کابھی علاج بھی اللہ کی طرف سے کیا گیا ہے۔ ایک ہی لباس میں جسے احرام کہتے ہیں ،وہ سفید کپڑے کا اورسلا ہوا نہیں ہوتا ہے ،مردہ کو جس کپڑے میں دفن کیا جاتا ہے وہ بھی سفید ہوتا ہے اور بغیرسلاہوتا ہے، خواہ بادشاہ ہو یا فقیر،اسی کپڑے میں دفن کیا جاتا ہے، یہی کپڑا حج کے سفر میں ہر حاجی کو پہننا پڑتا ہے، اور سبھوں کے منہ سے ایک ہی ترانہ جاری ہوتا ہے جیسے تلبیہ کہتے ہیں، اس میں خدا کی بڑائی کا اعلان ہے، اپنی بڑائی کہیں نہیں ہے ،حاجیوں کے لیے حج کے سفر میں خیمے اور ٹینٹ کا بھی نظم ہے، مگر وہ منی اور عرفات کے میدان میں ہے، ان خیموں میں کوئی تفریق نہیں کی جاتی ہے، بادشاہ کا بھی خیمہ وہی ہوتا ہے جو ایک عام ادمی کا ہے، عرفات کے میدان سے چل کر حجاج مزدلفہ جاتے ہیں، مزدلفہ میں رات گزارنا حاجیوں کے لیے واجب و ضروری ہے، مگر یہاں خیمہ ہے اور نہ کوئی چھت ہے، بلکہ کھلے اسمان کے نیچے کھلے میدان میں رہنا ہے، عبادت کرنی ہے۔
 دراصل اس بات کا یہاں پر احساس کرنا ہے کہ کس طرح وہ لوگ زندگی گزارتے ہیں جنہیں گھر نصیب ہے اور نہ کوئی سائبان، اسی درد کو یہاں آکرمحسوس کرنا ہے ، پتھریلی زمین پر بیٹھنا ہے،اور ان کے درد و غم میں شریک ہونا ہے، ایک بادشاہ بھی اسی طرح کنکریلی زمین پر بیٹھاہوا،لیٹا ہوا، عبادت کرتا ہوا نظر اتا ہے جس طرح ایک عام حاجی کا معمول ہے، یہاں کوئی وی ائی پی کوٹا نہیں ہے، یہ مساوات اور برابری کا بڑا پیغام ہے ،جو مزدلفہ کے میدان سے پوری دنیا کو دیا جاتا ہے۔
 افسوس کے اس پیغام کو نہیں سمجھا گیا اور اج اس اہم پیغام کو اعتراض کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، مذہب اسلام میں نماز کے ذریعے ایک ہی صف میں محمود و ایاز کو کھڑا کر کے یہی پیغام دیا گیا ہے، اسلام میں ایمان والے کی قیمت ایک ہے، یہاں سب کے لیے یکساں معاملہ کیا جاتا ہے۔
اسی حج کے سفر کی بات ہے، مکہ کے قریشی لوگ خود کو وی ائی پی سمجھتے تھے، عرفات کے میدان نہیں جاتے تھے، 
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امد سے پہلے مکہ کے قریشی لوگ خود کو وی ائی پی سمجھتے تھے وہاں حاجیوں کے ساتھ عرفات کے میدان نہیں جاتے تھے حضرت علی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں جاہلیت میں قریش حاجیوں کے ساتھ عرفات نہیں جاتے تھے اللہ تعالی نے قرآن میں یہ آیت نازل فرمائی:ہاں تو تم وہاں جا کر واپس اؤ جہاں سے لوگ واپس اتے ہیں (سورہ بقرہ)
مذہب اسلام میں نسل کی بنیاد پر کوئی امتیاز کسی کو حاصل نہیں ہے،اور نہ کسی کے لیے کوئی اسپیشل قانون ہے۔ افسوس کہ لاعلمی کی بنیاد پر اج اس عمل کا غلط مطلب نکالا جارہا ہے،یہ سراسر جھوٹ اور مذہب اسلام کے خلاف پروپگنڈا ہے، حج کی عبادت کا نام ہے، یہ کوئی کمبھ کا میلہ نہیں ہے ،ایام جاہلیت میں لوگوں نے اسے میلہ بنا دیا تھا، تفریح، کھیل، تماشے اور لڑائی جھگڑے جومیلوں میں ہوتے ہیں، یہاں بھی ہونے لگےتھے، قران نے یہ اعلان کیا:" حج میں نے کوئی فحش بات ہونے پائے اور نہ کوئی بےحکمی اور نہ کوئی جھگڑا( سورہ بقرہ)
عبادت کا مطلب صرف اور صرف خدا کی بڑائی وبندگی ہے،خدا کا پہلا گھر دھرتی پر کعبہ ہے ،حاجی وہاں جا کر طواف کرتے ہیں، اور حضرت ابراہیم اور اسماعیل اور حضرت ہاجرہ علیہم السلام کی قربانیوں کو تازہ کرتے ہیں، صفا مروہ کا چکر لگا کر ایک ماں کی ممتا اوراس کی تڑپ کو تازہ کرتے ہیں، مزدلفہ کے ویرانے میں رات گزار کر اس بات کا احساس اپنے اندر پیدا کرتے ہیں کہ اللہ کے گھر کو اباد کرنے کے لیے اس ویرانہ کا انتخاب ان بزرگوں نے کیا ہے،مقصد کھیتی باڑی نہیں ہے، بلکہ خدا کی عبادت اور اس کے گھر کی حفاظت ہے۔ اسی مزدلفہ میں ایک وادی بھی ہےجسے وادی محسر کہتے ہیں، یہ وہی مقام ہے جہاں ابرہہ کی فوج کو اللہ نے نیست و نابود کیا تھا اور اپنے کعبہ کو بچا لیا تھا۔ اس جگہ حاجیوں کو ٹھہرنے سے منع کیا جاتا ہے، اس لیے کہ وہاں خدا کا عذاب ایا تھا، یہ تاریخی مقامات ہیں، اور ان میں بڑے پیغامات ہیں۔ آج انہیں عام کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ کہیں کا روڑہ کہیں کا پتھر، مارے گھٹنا پھوٹے سر۔
مفتی ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
یکم ذی الحج ۱۴۴۶ھ بروز جمعرات

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...