Powered By Blogger

اتوار, ستمبر 18, 2022

میم سرور پنڈولوی کے اعزاز میں شعری نششت

میم سرور پنڈولوی کے اعزاز میں شعری نششت 
اردو دنیا نیوز٧٢
پھلواری شریف پٹنہ پریس ریلیز 18/ستمبر مدھوبنی سے تشریف لائے ملک کے معروف ومشہور شاعر ممیم سرور پنڈولوی کے اعزاز میں ڈاکٹر نصر عالم نصر کے دولت کدہ پر نذر فاطمی کی صدارت میں شعری نششت کا انعقاد ہوا، جس میں شعراء کرام نے بہترین اشعار سناکر سامعین سے داد وصول کیے ، اس نششت میں شامل شعراء کرام کے نام اور اشعار مندرجہ ذیل ہیں، 
اشکوں کی روانی ہے
سب جھوٹی کہانی ہے، 
میں اس کا نہ ہو پایا
جو میری دوانی ہے، 
محمد ضیاء العظیم

سر جھکاتے نہیں ہم لوگ جو درباروں میں
اس لیے نام نہیں آتا ہے اخباروں میں
سلیم شوق پورنوی

بارش میں بھیگنے کا مزہ ہم سے پوچھئے
پھر کتنی کھائی ہم نے دوا ہم سے پوچھئے
نصر عالم نصر

چپکے چپکے مرے کانوں میں صدا دیتا ہے
کون بجھتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتا ہے
میر سجاد

مری قلندری کو گوارا کہاں ہے یہ
مری مدد کو کچھ شہ دربار بولتا ہے
میم سرور پنڈولوی

قصہء عہد وفا یاد نہیں
بھول بیٹھے ہو خدا یاد نہیں
شمیم شعلہ

بہت وزنی ہے ارمانوں کی گٹھری
حیات مختصر ہے اور میں
نذر فاطمی،
نششت کی نظامت  میزبان شاعر نصر عالم نصر نے کی جبکہ آخر میں سلیم شوق پورنوی نے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے کہا کہ مہمان جس معیار کے ہوتے ہیں مہمان نوازی بھی اسی معیار کی ہونی چاہیے، جیسا کہ ڈاکٹر نصر عالم نصر صاحب نے اس شعری نششت کا انعقاد کرکے  بہترین مہمان ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے اس لیے ہم انہیں مبارکبادی پیش کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی صدر محترم کی اجازت سے اس نششت کے اختتام کا اعلان کرتے ہیں 
 پروگرام کو خوبصورت بنانے میں جن ناموں کی فہرست ہے وہ شبیر عالم، فاطمہ خان، ثناء العظیم، عفان ضیاء شامل رہے

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی میں شعرا کرام کی نظر میں : ایک جائزہ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی میں شعرا کرام کی نظر میں :  ایک جائزہ

✍️ قمر اعظم صدیقی
              9167679924
اردو دنیا نیوز٧٢
زیر مطالعہ کتاب  " مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں "  کے مرتب نوجوان اسکالر اور قلمکار میرے مخلص دوست عبدالرحیم برہولیاوی ہیں ۔  وقتا فوقتاً آپ کے شخصی  مضامین و تبصرے ہندوستان کے مشہور ومعروف اردو روزنامہ اور ویب سائٹ پر شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ صحافت میں بھی آپ دلچسپی رکھتے ہیں ۔ آپ العزیز میڈیا سروس کے بانی و ایڈمن ہیں ۔ العزیز میڈیا سروس فیس بک پر چلایا جانے والا ایک فعال اور معیاری اردو ویب پورٹل ہے ۔ جس میں مشاہیر اہل قلم کے ساتھ ساتھ نوجوان قلمکاروں کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ عبدالرحیم صاحب معہد العلوم اسلامیہ چک چمیلی میں استاد ہیں ساتھ ہی سراۓ بازار کی مسجد میں امامت کے فرائض بھی انجام  دے رہے ہیں ۔ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی سے آپ کی بے پناہ عقیدت و محبت کی یہ زندہ دلیل ہے کہ آپ نے بہت ہی محنت و مشقت کے ساتھ تمام وہ منظوم کلام جو شعرائے کرام نے مفتی صاحب کی شان میں لکھا تھا اسے یکجا کر کے کتابی شکل دے دی ہے ۔ آپ کی یہ کاوش قابل قدر بھی ہے اور قابل ستائش بھی ۔ ان کے اس عمدہ کاوش پر میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور یہ امید کرتا ہوں کہ ادبی دنیا میں یہ کتاب قدر کی نگاہوں سے دیکھی جایے گی اور مقبولیت کی منزل تک پہنچے گی ۔ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت اور ان کے کارنامے ہی کچھ ایسے ہیں کہ جس کا اعتراف قبل میں بھی کیا گیا ہے ۔ موجودہ وقت میں بھی لوگ آپ کی علمیت اور صلاحیت کے قائل ہیں اور آنے والی نسلیں بھی آپ کے کارناموں پر فخر کرے گی  اور فیضیاب ہوگی ۔ مفتی صاحب کی گراں قدر علمی خدمات کے اعتراف میں انہیں پانچ ستمبر 2001 ء کو صدر جمہوریہ ہند کے آر نارائنن کے ہاتھوں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے ۔ 
آپ کو صدارتی اعزاز سے نوازے جانے کے بعد سرزمین ویشالی کی اس وقت کی فعال اور متحرک تنظیم انجمن ترقی اردو ویشالی نے آپ کی علمی و ادبی خدمات کے  موضوع پر مورخہ 21 اکتوبر 2001 ء کو وکالت خانہ حاجی پور کے  ہال میں ایک شاندار سمینار کا انعقاد کیا جس کی صدارت مولانا ابوالکلام قاسمی شمشی پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمش الہدی پٹنہ نے فرمائ تھی اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے بہار اردو اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر رضوان احمد ( مرحوم ) ، معروف صحافی ڈاکٹر ریحان غنی  پٹنہ ، مولانا ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی ، کہنہ مشق شاعر ذکی احمد دربھنگہ ،  اور جواں سال شاعر و محقق واحد نظیر پٹنہ شریک ہوۓ تھے ۔ جس کی نظامت انجمن ترقی اردو ویشالی کے صدر ڈاکٹر ممتاز احمد خاں نے فرمائ تھی ۔ اس موقع پر  ڈاکٹر ممتاز احمد خاں ، انوار الحسن وسطوی ، نذر الاسلام نظمی ، مصباح الدین احمد اور ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق(مرحوم) نے اپنے اپنے مقالے بھی پیش کیے ۔ جناب ذکی احمد مرحوم اور جناب واحد نظیر نے مفتی صاحب کے تعلق سے اپنے منظوم تاثرات پیش کیے ۔  ( بحوالہ : انجمن ترقی اردو ویشالی کی خدمات مرتبہ انوار الحسن وسطوی صفحہ 96 ) 
آپ کی شخصیت اور کارناموں سے متاثر ہو کر تقریباً بیس سال قبل ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق (مرحوم) نے ایک کتاب ترتیب دی تھی جس کا نام ہے " مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات " یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ  اس کے دو اڈیشن شائع ہوۓ ۔ آپ کی خدمات کے اعتراف کا دائرہ یہیں تک نہیں روکا بلکہ آپ کی شخصیات پر ڈاکٹر راحت حسین نے متھلا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی اور اس مقالے کو کتابی شکل دی جس کا نام ہے " مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی ادبی خدمات " جو شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہے ۔ 
کتاب کے حوالے سے جناب عبدالرحیم " اپنی بات " میں لکھتے ہیں کہ : 
" مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی حیات و خدمات پر جس طرح نثر نگاروں نے خامہ فرسائی کی ہے اسی طرح شعرائے کرام نے بھی مختلف موقع کی مناسبت سے اپنا اپنا کلام پیش کیا ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ان نظموں کو ترتیب دے کر ہر خاص و عام کے سامنے پیش کرنے کی سعادت میرے حصے میں آئ ہے "
  ( صفحہ 5 ) 
پیش لفظ میں کامران غنی صبا مفتی ثناء الہدی قاسمی کے تعلق سے لکھتے ہیں : 
" آج دنیا مفتی صاحب کو ایک ہر دل عزیز عالم دین ، مبلغ ، داعی ، خطیب اور ملی رہنما کےطور پر تو جانتی ہے لیکن کم لوگ ہی واقف ہیں کہ مفتی صاحب ایک صاحب طرز ادیب اور انشاء پرداز بھی ہیں ۔ ادبی موضوعات پر ان کے معروضی تاثرات دانشوران ادب کو حیرت میں ڈالتے ہیں ۔ مفتی صاحب کے ادبی مضامین اور تبصرے ان کے ادبی شعور کا اعتراف کرواتے ہیں ۔ ( صفحہ 9 )
دو باتیں کے عنوان سے عطا عابدی اپنے تحریر میں لکھتے ہیں کہ :  شخصیت نگاری خصوصا منظوم شخصیت نگاری کے ذیل میں مدح و
ستائش کا معاملہ مبالغہ آرائی کے بغیر بہت مشکل  بلکہ ناممکن جیسا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ شعری تولیف کے باب میں مبالغہ آرائی کوفن کا درجہ حاصل ہے ،تعریف و توصیف یعنی قصیدہ کے حوالے سے شاعری کی تاریخ میں حقیقت نگاری سے آگے تخیل آفرینی کو جگہ دی گئی ہے، یہاں پیش کردہ زیادہ تر نظموں میں تخیل اور حقیقت کے امتزاج سے کام لینے کی اچھی کوشش کی گئی ہے۔  ( صفحہ 11 )
مفتی صاحب کے تنظیمی ذمہ داریوں کے تعلق سے محمد انوار الحق داؤد قاسمی کا شعر ملاحظہ فرمائیں : 
کتنی تنظیم کے ہیں حسیں سربراہ
 ان سے آباد ہیں کئی عدد درسگاہ
 سب پہ یکساں نظر ہے گدا ہو کہ شاہ
 دور بیں ان کی فطرت، عقابی نگاہ
رابطہ سب سے رکھتے ہیں وہ من وعن
 ہیں" ثناء الہدی" خود میں اک انجمن
(صفحہ 22)
پروفیسر عبدالمنان طرزی نے مفتی صاحب کی ادبی سرگرمیوں اور تصنیف و تالیف کے حوالے سے کہا ہے : 
سلسلہ ان کی تصنیف وتالیف کا 
گیسوئے یار سے رکھتا ہے رابطہ
 عالم دیں کا ہو ادبی مشغلہ 
شاذ و نادر ہی ایسا ہے دیکھا گیا
 ہاں مگر ہیں جو مفتی ثناء الہدی
 ان کا ہے ان سبھوں سے الگ راستہ 
ان کو دلچسپی ہے اردو تحقیق سے
 ان کے اس میں بھی میں کارنامے بڑے
(صفحہ 30)
مفتی صاحب کی شخصیت کو کامران غنی صبا نے کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے : 

ہیں علم شریعت کے وہ راز داں
 خموشی میں جن کی نہاں داستاں

ہے جن کے تبسم میں سنجیدگی
 عجب سی ہے لہجے میں پاکیزگی
 وہ ہیں عالم باعمل 
بالیقیں 
جنہیں کہیے اسلاف کا جانشیں

مفکر ، مدبر کہ دانشوراں

 سبھی ان کے حق میں ہیں رطب اللساں
( صفحہ 39 )
امان ذخیروی نے مفتی صاحب کی صفات کا نقشہ کچھ اس انداز میں کھینچا ہے : 

اک بحر بیکراں ہے ثناء الہدی کی ذات
 ملت کی پاسباں ہے ثناء الہدی کی ذات

ملت کا درد ان کے ہے سینے میں جاگزیں

 اس غم سے سرگراں ہے ثناء الہدی کی ذات

سینے میں ان کے علم کا دریا ہے موجزن 
ساکت نہیں ، رواں ہے ثناء الہدی کی ذات

تحریر لازوال ہے تقریر
 بےمثال 
ماضی کی داستاں ہے ثناء الہدیٰ کی ذات
(صفحہ 62)
اس طرح کے سینکڑوں اشعار مفتی صاحب کی خصوصیات کے تعلق سے کتاب میں بھرے پرے ہیں ۔ لیکن  بخوف طوالت سبھوں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ البت ان تمام شعرا کے نام کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جن کے کلام اس کتاب میں شامل ہیں وہ ہیں محمد انوارالحق داؤد
قاسمی، مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی ، حسن نواب حسن ، عبدالمنان طرزی ، طارق ابن ثاقب ، کامران غنی صبا ، ڈاکٹر منصور خوشتر ، احمد حسین محرم قاسمی ، شمیم اکرم رحمانی ، اشتیاق حیدر قاسمی ، منصور قاسمی ، ذکی احمد ذکی ، محب الرحمن کوثر ، مظہر وسطوی ، زماں بردہوای ، محمد ضیاء العظیم ، محمد مکرم حسین ندوی ، ڈاکٹر امام اعظم ، عظیم الدین عظیم ، کمال الدین کمال عظیم آبادی ، وقیع منظر ، فیض رسول فیض ، ڈاکٹر عبدالودود قاسمی ، امان ذخیروی ، ولی اللہ ولی ، آفتاب عالم آفتاب ، یاسین ثاقب ، مولانا سید مظاہرہ عالم قمر ، محمد بدر عالم بدر ، ثنا رقم مؤی ، فیاض احمد مظطر عزیزی ، عبدالصمد ویشالوی اور تحسین روزی 
قابل مبارکباد ہیں یہ تمام شعرائے کرام جنہوں نے مفتی صاحب کے لیے اپنے بہترین پیغام تہنیت پیش کیے ہیں ۔ 
72 صفحات کی یہ کتاب بہت ہی دلکش اور معیاری ہے ۔ عمدہ قسم کے کاغز کا استعمال کیا گیا ہے۔ کمپوزنگ کا کام مفتی صاحب موصوف کے لائق فرزند مولانا محمد نظر الہدی قاسمی اور راشد العزیزی ندوی نے مل کر انجام دیا ہے ۔ جبکہ اس کی طباعت عالم آفسیٹ پرنٹر اینڈ پبلیشرس ، دریا پور پٹنہ سے ہوئ ہے جسکی قیمت صرف 60 روپیہ ہے جسے مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی، بکساما اور ادارہ سبیل الشرعیہ ، آواپور ، سیتا مڑھی سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ آخری صفحہ پر مرتب کتاب عبدالرحیم برہولیاوی کا مختصر تعارف درج ہے جس کے مطالعہ کے بعد ان کے تعلق سے قاری واقف ہوتا ہے ۔ بیک کور پر مفتی صاحب موصوف کی کتابوں یا ان پر لکھی گئ کتابوں کی تصویر درج ہے۔ کتاب کے سلسلے میں مزید معلومات کے لیے، مرتب کتاب سے رابطہ کیا جا سکتا ہے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...