Powered By Blogger

پیر, دسمبر 13, 2021

بے کس اور بے بس قیدی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ جو لوگ مجرم ہیں، انہیں یقینا سزا ملنی چاہیے اور ہمارا ماننا ہے کہ اس میں قانون کو اپنا کام کرنے دینا چاہیے

بے کس اور بے بس قیدی 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 جو لوگ مجرم ہیں، انہیں یقینا سزا ملنی چاہیے اور ہمارا ماننا ہے کہ اس میں قانون کو اپنا کام کرنے دینا چاہیے ، لیکن پریشانی اس وقت محسوس ہوتی ہے جب مختلف قانون کے تحت لوگوں شکوک وشبہات کی بنیاد پر گرفتار کر لیا جاتا ہے اور زمانہ دراز تک چارج شیٹ داخل نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع بھی میسر نہیں آتا اور کہنا چاہیے کہ جیل میں انہیں سڑا دیا جاتا ہے ، قصور قانون کا نہیں اس سسٹم کا ہے ، جس کی وجہ سے پولیس من مانی کرتی ہے ، اپنی تحویل میں لے کر تعذیب کے ذریعہ جسے ان کی اصطلاح میں تھرڈ گریڈ کہا جاتا ہے ، نا کردہ گناہوں کا اقرار کراتی ہے ، پولیس تحویل میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی کہانی بار بار ہمارے سامنے آچکی ہے، اس لیے ملزم کے لیے عدالتی تحویل نسبتا راحت کا سبب ہوتا ہے اور وہ جسمانی اذیت سے بڑی حد تک محفوظ رہتا ہے ۔
 چارج شیٹ داخل بھی ہوجائے تو ہمارے یہاں انصاف کا حصول اس قدر مہنگا ہے کہ اوسط قسم کا انسان عدالت میں اپنی بے گناہی کے لیے وکلاء کی موٹی فیس ادا کرنے پر بھی قادر نہیں ہوتا، پھر بار بار جوتاریخیں پڑتی رہتی ہیں اس کے اخراجات الگ ہیں، صورت حال اس قدر خراب ہے کہ شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خان کو منشیات کے ایک مبینہ معاملہ میں اٹھائیس روز لگ گئے، جب کہ ممبئی کے سرکردہ اور نامور وکلاء کی پوری ٹیم شاہ رخ خان نے کھڑی کر دی تھی ، ان کے وکیل تیش مانشندے نے بڑی اہم بات کہی کہ آرین خان خوش نصیب ہیں جنہیں بہترین قانونی ٹیم ملی، ظاہر ہے جیلوں میں بند دوسرے قیدی اس قدر خوش نصیب نہیں ہیں، اس کی تصدیق نیشنل کرائم رکارڈس بیورو (این سی آر بی) کی اس رپورٹ سے ہوتی ہے جو کئی سال کے بعد شائع ہوئی ہے ، اور جس میں ۳۱؍ دسمبر ۲۰۱۶ء تک کے ہی اعداد وشمار درج ہیں۔
 رپورٹ کے مطابق ملک کی چودہ سو جیلوں میں ۲۰۱۶ء تک چار لاکھ تینتیس ہزار قیدی تھے، ان مں سے جن پر جرم ثابت ہو چکا اورجنہیں سزا سنادی گئی ان کی تعداد ۱۳۵۶۸۳؍ تھی اور زیر سماعت قیدیوں کی تعداد ۲۹۳۰۵۸ تھی، اس کا مطلب ہے کہ ۶۷ ؍ فی صد قیدی زیر سماعت تھے۔ اسے اعداد وشمار کے اعتبار سے آپ دو تہائی بھی کہہ سکتے ہیں، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ۱۶۴۹ ؍ قیدی خواتین کے ساتھ ۱۹۴۲؍ بے گناہ اور معصوم بچے بھی جیل کی ہوا کھا رہے ہیں، ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اس ماں کے بچے ہیں جو قید ہیں، اور ان کے مقدمات زیر سماعت ہیں، جیل ضابطہ کے مطابق چھ سال تک وہ اپنی ماں کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
ان اعداد وشمار کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیدی خواتین سے زیادہ جیلوں میں بے گناہ معصوم بچے ہیں، ہم بار بار اس بات کو لکھ چکے ہیںکہ نصاف میں تاخیر بھی بے انصافی جیسا عمل ہے ، یقینا ہندوستانی عدلیہ پر ہمیں بھرسہ ہے ، لیکن انکوائری ، چارج شیٹ اور ٹرائل میں جو تاخیر ہوتی ہے اس کی وجہ سے جیلوں میں بند قیدی بے کس بھی ہیں اور بے بس بھی ، عدالت اور سسٹم کو اس پہلو بھی دھیان دینا چاہیے

مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضےڈاکٹر محمد حفظ الرحمن کی ایک قابل قدر کاوشکامران غنی صباشعبئہ اردو نیتیشور کالج مظفرپور

مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے
ڈاکٹر محمد حفظ الرحمن کی ایک قابل قدر کاوش

کامران غنی صبا
شعبئہ اردو نیتیشور کالج مظفرپور
............ 
کل الیکشن ڈیوٹی میں مظفرپور کے کٹرہ بلاک کے انتہائی دور افتادہ گاؤں "کٹائی" جانے کا اتفاق ہوا. گاؤں تک جانے کا راستہ انتہائی ناہموار، تکلیف دہ اور پریشان کن تھا لیکن الیکشن ڈیوٹی کا معاملہ ایسا ہے کہ آپ چاہ کر بھی جان نہیں چھڑا سکتے. البتہ گاؤں کے ماحول نے متاثر کیا. ایسے دور افتادہ اور وسائل سے محروم گاؤں میں کئی ایسے نوجوان ملے جو ملک کے بڑے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں. 
یہاں برادرم سیف الرحمن سے اتفاقی طور پر ملاقات ہو گئی. سیف الرحمن ملت ٹائمز سے وابستہ ہیں اور واٹس ایپ کے توسط سے رابطے میں رہتے ہیں. انہوں نے اپنے بھائی ڈاکٹر محمد حفظ الرحمن (جواہر لال نہرو یونیورسٹی) کی کتاب "مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے" پیش کی. موضوع میری دلچسپی کا تھا چنانچہ کتاب کا بیشتر حصہ وہیں پڑھ گیا. باقی گھر پہنچ کر مکمل کیا.
کتاب اپنے موضوع کے لحاظ سے گرچہ کوئی نئی نہیں ہے. اس موضوع پر بہت کچھ لکھا اور بولا جا رہا ہے لیکن اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ مصنف نے بہت ہی معروضیت کے ساتھ حقائق کا جائزہ لیا ہے اور صرف مسائل ہی نہیں رکھے ہیں، قابل عمل تجاویز بھی پیش کی ہیں. اس موضوع پر لکھنے اور بولنے والے زیادہ تر لوگ اعتدال و توازن برقرار نہیں رکھ پاتے ہیں. چنانچہ کچھ لوگ تنقید کا سہارا لے کر مدارس اسلامیہ اور ان کے اساتذہ کو تنقیص کا نشانہ بناتے ہیں وہیں مدارس سے وابستہ اہل علم حضرات پرانی کھینچی ہوئی لکیر سے ایک قدم بھی آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہوتے.
ڈاکٹر محمد حفظ الرحمن نے انتہائی خلوص اور درد کے ساتھ مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے بہت ہی مفید اور کارآمد مشورے پیش کیے ہیں.آج ہمارے یہاں ایسے افراد کی بہت کمی ہے جن کے اندر دینی غیر و حمیت کے ساتھ عصری آگہی بھی ہو.
مصنف نے کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے. پہلے باب میں "نصاب تعلیم" عنوان کے تحت درج ذیل عناوین قائم کیے گئے ہیں 
موجودہ علمی تحدیہ اور مدارس اسلامیہ
مشترکہ تعلیمی لائحہ عمل
تخص فی السیاسہ
تخصص فی القتصاد
تخصص فی الاجتماع
دوسرے باب میں "مشورے اور گزارشیں" عنوان کے تحت درج ذیل عناوین پر بہت ہی معروضیت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے:
انگریزی کے اساتذہ کی قلت کا مسئلہ 
فارسی کتب سے استفادہ میں مشکلات
انگریزی داں علماء اور مدارس و مساجد
نصاب میں تبدیلی کے مثبت اثرات
اتحاد ملت اور مدارس اسلامیہ
ہماری ترجیحات میں تبدیلی ضروری 
مدارس اسلامیہ اور عصری تعلیم 
اسلامی اقامت خانہ کا قیام 
دینی و اخلاقی تربیت 
مدرسہ اور مسجد کی نام گزاری 

اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اتنی بات تو بااطمینان کہی جا سکتی ہے کہ مصنف کے دل میں قوم کا درد ہے. پوری کتاب میں کہیں کوئی جذباتی جملہ نہیں ہے. کسی پر کوئی طعن و تشنیع نہیں ہے. اپنی بات کو منوانے کی کوئی ضد نہیں ہے بلکہ یہ اعتراف ہے:
آج ہم تاریخ کے اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہمیں کثیر جہتی نظریاتی اور علمی چیلنجز کا سامنا ہے. اس لیے مدارس اسلامیہ کے لیے ایسی تعلیمی پالیسی وضع کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے جو ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے والے افراد پیدا کر سکے..... اسی ضرورت کے احساس نے راقم الحروف کو خامہ فرسائی پر مجبور کیا. لہٰذا یہ کتاب اہل نظر کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے. راقم کو اس کا اصرار نہیں کہ اہل نظر اس کتاب کے ہر جز سے پوری طرح متفق ہوں، بلکہ اعتراف ہے کہ غور و خوض کا جب مرحلہ آئے گا تو تجربہ کار آنکھیں ان گوشوں کو دیکھ سکیں گی جو راقم کی نظر سے اوجھل رہ گئی ہیں. "
تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی و سیاسی پس منظر میں مدارس اسلامیہ کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے. دانشوران مدارس اگر وقت کی آواز کو وقت رہتے سمجھ کر مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنے میں کامیاب ہو پائیں تو ان شاء اللہ تاریکی کے بطن سے خوشگوار صبح نمودار ہوگی.
اللہ تعالی ڈاکٹر محمد حفظ الرحمن کی اس کاوش کو قبول فرمائے. میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب مدارس سے وابستہ ہر فرد اور قومی و ملی جذبہ رکھنے والے ہر شخص کو ضرور پڑھنی چاہیے. مصنف کا رابطہ نمبر ٩٩٩٠٤٥٧١٠٤

سعودی عرب نے تبلیغی جماعت اور دعوہ گروپ پر پابندی لگائی

سعودی عرب نے تبلیغی جماعت اور دعوہ گروپ پر پابندی لگائیریاض ،12دسمبر- سعودی عرب نے تبلیغی جماعت پر پابندیا ں عائد کی اور ان پر الزام لگا یا کہ وہ دہشت گردی کوہوا دینے میں نما یا رول ادا کیا ہے۔
ان کے پابندی کا اثر ہندستان میں بھی دیکھائی دے گا ۔ پچھلے سال ہندستانی حکومت نے تبلیغی جماعت کے صدر دفتر کو بند کردیا ۔ او ران کے سینئر رہنمائوں کو گرفتار کیا گیا ۔ کیونکہ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے کوروناوائرس پھیلانے کا کام کیا ۔ حالانکہ بعد میں عدالت سے انہیں راحت ملی ۔ سعودی عرب کی اسلامی امور کی وزارت نے تمام مساجد اور تبلیغی ررہنمائوں کو ہدایت دی کہ وہ اپنے جمعہ میں خطبہ کید وران بتلیغی اور دعوی گروپ پر پابندی کے سلسلے میں نمازیوں کو آگاہ کرے۔ ان سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ لوگوںکو تبلیغی جماعت کے مجلسوں میں شرکت کے بارے میں انتباہ کرے۔ اسلامی امور کے وزیر ڈاکٹر عبدالطیف الشیخ نے اپنے ہدایتی پیغام میں کہا کہ یہ جماعت لوگوںکو گمراہ کررہی ہے۔ اور انتہا پسندی کو بڑھاوا دے رہی ہے۔
حالانکہ وہ اس سے انکار بھی کررہے ہیں اس جماعت نے جو غلطیاں کی ہیں اس سے اسلامی معاشرہ خطرے میں پڑ گیا ہے اس لئے سعودی عرب نے تبلیغی جماعت او ردعوہ گروپ پرپابندی لگائی ہے ۔ چونکہ سعودی عرب وہابی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے وہ تبلیغی جماعت کے مخالف ہیں کیونکہ وہابی مسلک تبلیغی جماعت کے نظریہ کے خلاف ہے ۔
سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم عبدالعزیز بن باز نے 2016میں تبلیغی جماعت کے خلاف فتوی جاری کیا کیونکہ وہ اسلامی نظریہ کے خلاف کام کررہے ہیں۔ تبلیغی جماعت کی بنیاد ہندستان میں ایک سوسال پہلے مولانا محمد الیاس خنڈلوی نے شروع کی ۔ اور وہ اسلام کو اپنے صحیح روپ میں پیش کرنے کی کوشش کررہے تھے یہ تحریک میوات خطے سے شروع ہوئی او ربعد میں پورے ملک میں پھیل گئی اور دنیا کے مختلف ملکوں میں اس کا اثر رسوخ بڑھ گیا ہے۔ ملیشیاء ،انڈونیشیاء ،پاکستان اور بنگلہ دیش میں اس جماعت سے لاکھوں لوگ وابستہ ہیں ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...