اردودنیانیوز٧٢
✍️ شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
وہ قحطِ مخلصی ہے کہ یاروں کی بزم میں ، غیبت نکال دیں تو فقط خامشی ہے ۔
زبان کے ذریعہ سے جو گناہ صدور میں آتے ہیں اور جن کے ذریعہ کھلم کھلا اللہ رب العزت کے ساتھ بے شرمی اور بے حیائی کا ثبوت دیا جاتا ہے ان میں ایک گھناؤنا جرم غیبت کا ہے یہ وبا آج چاۓ کے ہوٹلوں سے لے کر سفید پوش حاملین جبہ ؤ دستار کی مبارک مجلسوں تک پھیلی ہوئی ہے مجلس کی گرمی آج غیبتوں کے دم سے ہوتی ہے اور سلسلہ گفتگو دراز کرنے کے لیے عام طورپر غیبت ہی کا سہارا لیا جاتا ہے اب یہ مرض اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اس کی برائی اور گناہ ہو نے کا احساس تک دل سے نکلتا جا رہا ہے یہ صورتِ حال افسوس ناک ہی نہیں بلکہ اندیشہ ناک بھی ہے
غیبت کی شناعت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم نے غیبت سے بچنے کا حکم کرتے ہوئے غیبت کرنے کو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے کے مثل قرار دیا ہے
مفہوم ،
اور برا نہ کہو پیچھے ایک دوسرے کے بھلا خوش لگتا ہے تم میں کسی کو کہ کھائے گوشت اپنے بھائی کا جو مردہ ہو سو گھن آتی ہے تم کو اس سے (الحجرات)
ظاہر ہے کہ کوئی شخص ہرگز ہرگز اس بات کا تصور نہیں کرسکتا کہ کسی بھی مردہ کا گوشت کھائے چہ جائیکہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا قرآن کریم یہ یقین ہمارے دل میں بٹھانا چاہتا ہے کہ جس طرح تمہاری طبعیت اپنے بھائی کا گوشت کھانے پر آمادہ نہیں ہوتی اسی طرح تمہیں اس کی برائی کرنے سے بھی پوری طرح احتراز کرنا چاہیے کیونکہ غیبت کرنا گویا کہ اس کی عزت نفس کو بیج کھانا ہے جو اسی طرح مکروہ اور ناپسندیدہ ہے جیسے اس کا گوشت کھانا نا پسندیدہ اور کراہت کا باعث ہوتا ہے
غیبت کیا ہے ؟
جب غیبت پر کسی کو ٹوکا جاتا ہے تو وہ فوراً جواب دیتا ہے کہ کیا ہوا میں تو حقیقت حال بیان کر رہا ہوں گویا کہ یہ حقیقت بیان کرنا جائز ہے حالانکہ یہ خام خیالی ہے رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کیا تمہیں معلوم ہے غیبت کیا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اپنے بھائی کے بارے میں ان باتوں کا ذکر کرنا جو اسے ناپسند ہو ( غیبت ہے ) ایک شخص نے سوال کیا کہ اگر میرے بھائی کے اندر وہ صفات ہوں جو میں نے کہی ہیں ( تو کیا پھر بھی غیبت ہوگی ) تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر وہ برائی تیرے ساتھی میں پائی جائے تبھی تو غیبت ہوگی اور اگر وہ بات اس کے اندر نہ ہو تو تونے اس پر بہتان باندھا ہے ( جو غیبت سے بھی بڑا گناہ ہے )
اس سے معلوم ہوا کہ اس برائی کا بیان کردینا بھی غیبت ہے جو برائی مذکورہ شخص میں پائی جاتی ہو اور اس کے غموم میں ہر ایسی برائی کا بیان شامل ہے جس سے مذکورہ شخص کی عزت میں فرق آتا ہو خواہ وہ دنیا کی برائی ہو یا دین کی جسم کی برائی ہو یا اخلاق کی اولاد کی برائی ہو یا بیوی کی خادم کی برائی ہو یا غلام کی الغرض جس چیز کے بیان سے کسی کی بےعزتی ہوتی ہو اس کا اظہار غیبت کے حکم میں داخل ہے ( روح المعانی)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
ولا تغتب اخاک المسلم ۔ اپنے مسلمان بھائی کی غیبت نہ کرو
پیٹھ پیچھے اپنے بھائی کی کوئی ایسی بات کرنا جو اگر اس کے سامنے کی جائے تو اسے نا پسند ہو اسے غیبت کہتے ہیں
غیبت صراحتاً بھی ہو سکتی ہے اشارتاً بھی ہو سکتی ہے زبان سے بھی ہو سکتی ہے قلم سے بھی ہو سکتی ہے نقل اتار کر بھی ہو سکتی ہے اور کسی کے نسب اخلاق جسم معاملات اور عبادات میں عیب نکال کر بھی ہو سکتی ہے غیبت حرام ہے اور سورہ حجرات میں غیبت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے گویا جیسے کوئی شخص جوش غضب میں سنگدلی کی وجہ سے اپنے مردہ بھائی کا گوشت نوچ کھاتا ہے اسی طرح غیبت کرنے والا بھی اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتا ہے پھر جیسے مردہ اپنا گوشت نوچنے والے کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا اسی طرح جس کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی کی جائے وہ اپنا دفاع کرنے کی طاقت نہیں رکھتا
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا شب معراج میں میرا گزر ایسی قوم پر ہوا جس کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں جبرئیل نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور ان کے عزت و آبرو پر حملہ کرتے تھے
غیبت میں کئی معاشرتی اور اخلاقی برائیاں پائی جاتی ہیں باہمی تعلقات خراب ہوتے ہیں بعض اوقات قتل و قتال تک نوبت پہنچ جاتی ہے اپنی برائیوں اور کمزوریوں سے نظر ہٹ جاتی ہے اور تجسس ہی میں لگ جاتا ہے کسی بھی مسلمان کو بد نام کرنا اس کی پردہ دری کرنا ہے خود ایک بڑی برائی ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے وہ لوگو جو زبانی تو ایمان لائے ہو لیکن دلوں میں اب تک ا یمان پیوست نہیں ہوا تم مسلمانوں کو ایذا نہ پہنچاؤ انہیں عار نہ دلاؤ ان کی لغزشیں نہ ٹٹو لو نہ مسلمانوں کی غیبت کرو نہ انکی پوشیدگیوں کے پیچھے پڑ و جو اپنے کسی مسلمان بھائی کی پوشیدگی کی ٹٹول اور ٹوہ میں لگ جائے گا اللہ تعالی اس کے پوشیدہ عیوب کے پیچھے پڑ جائے گا اور یقین مانو کہ جس کے عیوب کے پیچھے اللہ تعالی پڑ جائے اسے رسوا اور بد نام کر کے ہی رہے گا یہاں تک کہ خود اس کے گھر میں بھی اس کی بدنامی رسوائی اور فضیحتی ہو جائے گی
کسی کے شر سے لوگوں کو بچانے کے لئے غیبت کرنا ۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ آخر کہاں تک اور کب تک تم بدکار لوگوں کی برائیوں کو بیان کرنے سے رکے رہو گے ان کے پردے چاک کر دو تاکہ لوگ ہوشیار ہو کر ان کی برائیوں سے بچاؤ کر لیں
یہ حدیث دلیل ہے کہ فاسق بدکاروں کی برائیاں مسلمانوں کی مصلحتوں کے لحاظ سے بیان کرنا یا دینی مصالح کی بنا پر کرنا درست ہے یہ چیز غیبت میں داخل نہیں
غیبت کی سزا
روز محشر عدالت خداوندی میں غیبت کرنے والے سے اس کی نیکیاں لے کر جس کی غیبت کی گئی ہو اس کو دلائی جائیں گی اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں تو جس کی غیبت کی گئی اس کے گناہ غیبت کے بقدر اس پر ڈال دئیے جائیں گے
الغرض مسلمانوں کو ایذا پہنچانا کبیرہ گناہ ہے مسلمانوں کی غیبت کرنا کبیرہ گناہ ہے مسلمانوں کی عیب جوئی کرنا کبیرہ گناہ ہے ان کی لغزشوں کو ٹٹولنا کبیرہ گناہ ہے ان کی پوشیدگیوں کے پیچھے پڑجانا کبیرہ گناہ ہے ان کی ہتک عزت کبیرہ گناہ ہے
کرو نہ غیبت انساں بچو برائی سے
کرو جو بات کرو منھ پہ پشت رو نہ کرو