Powered By Blogger

اتوار, اگست 20, 2023

مولانا سید طاہر حسین گیاوی ؒمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مولانا سید طاہر حسین گیاوی ؒ
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ 
—------------------------------------------------
 نامور عالم دین، ممتاز مناظر اسلام، ترجمان حق وصداقت، بے مثال خطیب، برجستہ گو اور حاضر جواب ، جامع مسجد امروہہ کے فارغین میں گل سر سبد، ماہر علم کلام، مصنف کتب کثیرہ، بانی دار العلوم حسینیہ پلاموں مولانا سید طاہر حسین گیاوی کا 10جولائی 2023مطابق 21ذی الحجہ 1444ھ روز سوموار پونے بارہ بجے دوپہر آرہ ضلع بھوجپور میں انتقا ل ہو گیا،وہ برسوں سے صاحب فراش تھے۔11جولائی 2023کو جنازہ کی نماز ان کی وصیت کے مطابق ان کے داماد مولانا ولی اللہ ولی نے پڑھائی، مولانا ولی اللہ احد کے قریب ایک مسجد کے امام ہیں، مدینہ منورہ میں قیام ہے، اللہ نے سہولت بہم پہونچائی اور وہ وقت پر مدینہ سے تشریف لے آئے، بعد نماز مغرب ولی گنج حویلی مسجد آرہ میں ہزاروں معتقدین کی موجودگی میں انہوں نے جنازہ کی نماز پڑھائی، تدفین آرہ کے روضہ گنج قبرستان میں ہوئی، پس ماندگان میں اہلیہ ، چار لڑکے مولانا عبد الغافر، مولانا عبد الناصر، عبد القادر ، عبد الظاہر، اور پانچ لڑکیاں شامل ہیں، مولانا عبد الغافر دار العلوم حسینیہ پلاموں اور مولانا عبد الناصر دار العلوم حسینیہ لوہردگا کے ناظم ہیں۔ مولانا  کوئی چالیس سال قبل ہی کوچ بلاک واقع اپنے آبائی وطن کا برگاؤں سے نقل مکانی کرکے آرہ کے سندیش تھانہ علاقہ میں منتقل ہو گیے تھے، یہاں انہوں نے آرہ کے ولی گنج محلہ میں اپنا مکان بنالیا تھااور آخری سانس یہیں لی۔
ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب سے حاصل کرنے کے بعد ابو المحاسن مولانا محمد سجاد بانی امارت شرعیہ کے قائم کردہ مدرسہ انوار العلوم گیا میں داخلہ لیا اور عربی سوم تک کی تعلیم یہاں پائی، وہاں سے مدرسہ مظہر العلوم بنارس چلے گیے، متوسطات کی کتابیں یہیں پڑھیں ایک سال مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور میں بھی گذارا ۔  1967مطابق 1386ھ میں دار العلوم دیو بند میں داخل ہوئے۔ دو سال تعلیمی سلسلہ جاری رہا، لیکن ہفتم کے سال 1969میں طلبہ کے اسٹرائک کی قیادت میں نامور ساتھیوں مولانا نور عالم خلیل امینی ، مولانا اعجاز احمد شیخو پور رحمھما اللہ کے ساتھ آپ بھی انتظامیہ کی نظر پر چڑھ گئے چنا نچہ آپ کا اخراج ہو گیا، مولانا سید فخر الدین صاحب ؒ کے مشورہ سے جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں دورہ حدیث میں داخلہ لیا اور 1970مطابق 1399ھ میں یہیں سے فراغت پائی تعلیمی اسناد کے اعتبار سے آپ الٰہ آباد بورڈ سے عالم فاضل اور جامعہ اردو علی گڈھ سے ادیب کامل بھی تھے۔
 تدریسی زندی کا آغاز جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس سے کیا، کم وبیش نو سال بنارس کے مختلف مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ 1984ء مطابق1404ھ میں انہوں نے دار العلوم حسینیہ کے نام سے پلاموں میں ایک مدرسہ قائم کیا،  اسے پروان چڑھانے کے لیے کوشاں رہے، مگر مناظرہ ، خطابت اور مختلف قسم کے اسفار کی وجہ سے وہ اپنی پوری توجہ ادھر مرکوز نہیں کرسکے، اس لیے ادارہ کی اپنی کوئی شناخت نہیں بن سکی۔
 تقریر اور مناظرہ کی بے پناہ صلاحیت کے ساتھ اللہ رب العزت نے انہیں تصنیفی ملکہ اور تالیفی شعور سے وافر حصہ عطا کیا تھا، ان کی بیش تر کتابیں مناظرانہ انداز کی ہیں، ان میں عصمت انبیاء اور مودودی، اعجاز قرآنی، رضاخانیت کے علامتی مسائل، العدد الصحیح فی رکعات التراویح، نماز وں کے بعد کی دعا، شہید کربلااور یزید ، مقتدی پر فاتحہ واجب نہیں، انگشت بوسی سے بائبل بوسی تک ، ترک تقلید ایک بدعت ہے، بریلویت کا شیش محل، مسئلہ قدرت، حدیث ثقلین، خطبات مناظر اسلام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
 مناظرہ ان کا خاص موضوع تھا، کئی جگہ انہوں نے اپنے دلائل سے فتح کے جھنڈے گاڑے، کئی مناظروں میں ان کی شرکت مولانا ارشاد احمد صاحب مبلغ دار العلوم دیو بند کے ساتھ ہوئی، جھریا ، کٹک اور کٹیہار کے مناظرے ان کے یادگار مناظرے ہیں، جھریا کے مناظرے کی روداد اور تفصیلات مطبوعہ شکل میں موجود ہے۔
 مولانا کی خطیبانہ اور قائدانہ صلاحیتیں دار العلوم دیو بند کی طالب علمی کے دوران ابھر کر طلبہ کے سامنے آئیں، مولانا نور عالم خلیل امینی ؒ نے تفصیل سے ان کی اس صلاحیت کا تذکرہ اپنی کتاب ’’رفتگاں نا رفتہ‘‘ میں کیا ہے، یہاں ایک اقتباس کا نقل کرنا فائدے سے خالی نہیں ، لکھتے ہیں۔
 "وہ از خود یا کسی تجربہ کار کے مشورے سے اسٹرائک کے لائق وفائق اور مطلوبہ صلاحیت کے قائد بن کر ابھرے اور طلبہ کے انبوہ پر جس طرح چھا گئے، راقم نے اس کی مثال اپنی طالب علمانہ اور مدرسانہ دونوں زندگیوں میں تادم تحریر نہیں دیکھی۔ان کی زبان قینچی کی طرح چلتی، وہ سیلِ رواں کی طرح بہتی، کسی توقف یا انقطاع سے ان کا سلسلہ کلام جتنا نا آشنا تھا، اس کو میں صحیح تعبیر دینے سے بالکل قاصر ہوں۔ اس سے بڑھ کر یہ بات تھی کہ وہ طلبہ پرایسی حکومت کرنے لگے تھے، جیسی کوئی غیر معمولی رعب داب کا مالک مطلق العنان خودسر ڈکٹیٹر کرتا ہے، جس کے پاس اپنی بات من وعن منوانے کے لیے فوجی طاقت، اقتدار کی قوت، ملک کے سارے وسائل، انتظامی اداروں کی آہنی گرفت اور حدود و قیود نا آشنا اپنے عزم و ارادے کی زبردست کمک ہوتی ہے، وہ جب چاہے عوام کے سروں کی پکی ہوئی فصل کو یک لخت کاٹ ڈالنے کے لیے مکمل انتظام کے ساتھ تیار رہتا ہے۔ وہ طلبہ سے کہتے بیٹھ جاؤ،تو اسی سکنڈ میں سب بیٹھ جاتے، کہتے کھڑے ہو جاؤ، تو سبھی آن کی آن میں کھڑے ہو جاتے،سر جھکالو،تو سبھی اس لمحے سرنگوں ہو جاتے، صرف دائیں طرف دیکھو، تو کسی کی مجال نہ ہوتی کہ نفاذ حکم کے پورے دورانیے میں بائیں طرف دیکھ لے، سبھی طلبہ تین منٹ میں فلاں جگہ جمع ہو جائیں، تو دو ہی منٹ میں سب اس جگہ آ موجود ہوتے۔ ان کی ساری اداؤں میں نظم و ضبط ہوتا، ڈسپلن ہوتا، قائدانہ انداز ہوتا، خطیبانہ شان ہوتی، مربیانہ وقار ہوتا، استادانہ مہارت ہوتی،منتظمانہ دوررسی وحکمت عملی ہوتی اور وہ سب کچھ ہوتا، جس کی وجہ سے کوئی واجب التعظیم ومحترم المقام اور باعثِ فرماں برداری ہوتا ہے‘‘۔(ص:127-128)
اقتباس ذرا طویل ہو گیا، لیکن مولانا کی قائدانہ وخطیبانہ صلاحیتوں کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری تھا ، مولانا کی اسی خطیبانہ صلاحیت نے ملک اور بیرون ملک کے لوگوں کو ان کا گرویدہ بنا رکھا تھا، دلائل کی قوت اور طلاقت لسانی سے وہ مجمع پر چھا جاتے تھے اور دو تین گھنٹے تک مجمع انہیں پورے انہماک کے ساتھ سنتا رہتا تھا، مولانا کی مقبولیت ومحبوبیت میں جس قدر اضافہ ہوتا گیا ، مولانا کے وقت کی قیمت بھی بڑھتی چلی گئی،آخر میں تاریخ نوٹ ہونے کے لیے پیشگی" نوٹ "کی ادائیگی ضروری ہوا کرتی تھی، جلسہ والے ادائیگی کے بعد مطمئن ہوجاتے تھے، مولانا کس طرح جلسہ گاہ پہونچیں گے، یہ ان کا اپنا درد سر ہوتا تھا، بہت ہوا تو اسٹیشن یا بس اسٹینڈ سے جلسہ والے اپنی گاڑی میں لے جاتے تھے، اس موقع سے بھی مولانا اپنی غیرت اور خود داری سے سمجھوتہ نہیں کرتے تھے، گاڑی لینے نہیں پہونچی تو بلا توقف واپس ہوجاتے، مزاج کے خلاف بات ہو گئی تو اسٹیج پر خطبہ پڑھ کر واپس ہوتے بھی میں نے ان کو دیکھا تھا، ایسے موقع سے ہم چھوٹوں کی جان پر بن آتی، مولانا کے نام پر آئے مجمع کو سنبھالنا آسان کام نہیں ہوتا، مولانا کی سادہ زندگی اور بود وباش میں جو رعب تھا، وہ کم لوگوں کے حصہ میں آتا ہے۔
مولانا حق کے ترجمان تھے، اس لیے باطل قوتیں ان کے پیچھے پڑی رہا کرتی تھیں، ایک بار بھدرک اور کئی بار دوسری جگہوں پر مولانا پر قاتلانہ حملے ہوئے، لیکن اللہ نے حفاظت فرمائی، کئی بار ان کی شہادت کی افواہ اڑی، لیکن مولانا اپنا کام کرتے رہے، اور جب اللہ نے وقت مقرر کر رکھا تھا اس وقت دنیا سے تشریف لے گیے۔
 مولانا سے میری ملاقات امارت شرعیہ آنے سے قبل کی تھی، بہت ساری جگہوں پر اصلاح معاشرہ کے جلسوں کو ہم لوگوں نے ساتھ ساتھ خطاب کیا، ایک بار ہم دونوں دار العلوم دیو بند ساتھ ساتھ پہونچ گیے، مولانا دار العلوم کے مخرج تھے اور میں جمعیۃ الطلبہ کا سابق جنرل سکریٹری ، مولوی اظہار الحق مرحوم  ان دنوں انجمن تقویۃ الایمان سے جڑے ہوے تھے،انہوں نے "نودرہ" میں ہم لوگوں کا استقبالیہ انتظامیہ کی بلا اجازت کے رکھ دیا، طلبہ اپنے ہم وطنوں کو استقبالیہ دیا بھی کرتے تھے، لیکن یہ بات طویل ہو گئی اور مولوی اظہار الحق کے اخراج کے لیے جو فرد جرم  بنایا گیا، اس میں یہ بھی ایک سبب بن گیا، بعد میں مولانا دار العلوم کے اکابر کے نور نظر بن گئے ، کیوں کہ" ترجمان دیو بند" پورے ہندوستان میں ان کے طرز کا دوسرا کوئی نہیں تھا، جمعیت علماء سے بھی ان کی قربت بڑھی اور ان کی شرکت وہاں بھی ہونے لگی۔
 مولانا کی علالت کے زمانہ میں ایک بار ہوسپیٹل میں ان سے ملا اور دوسری بار ان کے گھر آرہ میں ملاقات کی سعادت ملی، یہ موقع تھا مولانا قاری علی انور کے مدرسہ کے جلسہ کا ، وقت فارغ ہوا تو میں ان کی عیادت کے لیے جا پہونچا، مولانا کی صحت وعافیت کے لیے اللہ سے دعا کرکے لوٹا، کئی سال ہو گیے، ادھر زمانہ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، انتقال کی خبر آئی تو میں سفر پر تھا، جنازہ اور تعزیتی مجلس میں حاضری سے بھی محروم رہا، دعا تو کہیں سے بھی کی جا سکتی ہے، سو دعاء مغفرت اور ایصال ثواب کا سلسلہ جاری ہے، اللہ مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین۔

ہملٹن کاسفرنامۂ ہند۔اوراورنگ زیب عالمگیر ✍️ ٭انس مسرورؔانصاری

ہملٹن کاسفرنامۂ ہند۔اوراورنگ زیب عالمگیر
اردودنیانیوز۷۲ 
                    ✍️  ٭انس مسرورؔانصاری
       بھارت ایک قدیم ملک ہے۔اس کی قدامت اورپر اسراریت۔اس کےدریااورپہاڑ۔اس کے جنگل اور میدان۔سرسبزوادیاں۔شہراورقصبات۔اس کے گاؤں۔اس کے کسان اورکھیت کھلیان۔اس کی بساطِ رنگین وسنگین ۔ مافوق الفطرت واقعات۔اس کی عبادت گاہیں اور تعمیرات۔اس کی تہذیب وتمدّن۔سماجی رسوم ورواج۔ تایریخی عمارتیں۔قلعے۔اجنتا۔ ایلورہ،کھجوراہو۔تاج محل۔شاہ جہانی مسجد۔لال قلعہ۔جھولتے میناروں والی عمارتیں۔اوربہت سارے عجائبات ہمیشہ غیرملکی سیّاحوں کے لیے کشش اورتوجہ کامرکزرہے ہیں۔قدیم چینی سیّاح فاہیان سے ابن بطوطہ اوران کے بعدیہاں آنے والےسیّاحوں کےناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔انھوں نے سفرنامے لکھےاوراس ملک کےجغرافیائی، تاریخی وتہذیبی اورتمدّنی منظروں کی عکس ریزی کی۔ ان سفرناموں میں ہندوستان رچا بسا ہوا ہے۔ 
        مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیرکے عہدمیں برطانوی سیّاح الیکزینڈرہملٹن ہندوستان میں واردہوا، اورمشرق کے اس پُراسرارملک میں پچیس سال تک گھومتارہا۔ اُس نےاورنگ زیب عالمگیرسے بھی ملاقات کی۔بادشاہ نے اس کی ایسی شاندارخاطرتواضع کی کہ ہملٹن متاثرہوئے بغیرنہ رہ سکا۔اُس نے اپنے سفرنامۂ ہندمیں اورنگ زیب کی بہت تعریف کی ہے۔اُس کایہ سفرنامہ بہت مشہوراورمقبول ہوا۔
    چونکہ اورنگ زیب ہندوستان کےعظیم مغل تاجدار کے علاوہ ایک دین دارمذہبی آدمی بھی تھا،اس لیے ہندوبرہمنیت اس کی سخت مخالف رہی ہے۔وہ برہمنیت جس نےکبھی کسی مذہبی واصلاحی تحریک اور دوسرے مذہبی لوگوں کوپسندنہیں کیا۔ان سے نفرت کی اور انھیں مٹادیناچاہا۔سناتن دھرم کے علاوہ اس کے نزدیک ہرمذہب باطل ہے۔ اس نے اورنگ زیب کے خلاف ہمیشہ محاذ آرائی کی۔ مشہورمورّخ پنڈت ایشوری پرشاد لکھتے ہیں۔ 
        ‘‘پرماتماکی شان ہے کہ اورنگ زیب رعایاکاجتنا بڑاخیرخواہ تھا، برہمنی نفرت نے اسے اتناہی بدنام کیا۔کوئی اسے ظالم کہتاہے اورکوئی قاتل کہتاہے۔کوئی مندروں کوگرانے والابتاتاہے۔کوئی ہندوؤ ں کاکٹّردشمن سمجھتاہے لیکن حقیقت میں وہ‘‘عالمگیر’’کے لقب کا مستحق ہے۔اورنگ زیب کے ہم عصرہندووقائع نگار وں کابیان ہے کہ وہ ایک نیک دل حکمراں اورنیک صفت انسان تھا۔اس کاعہدِحکومت اتنااچھاتھااوروہ خود اتنااچھاتھا کہ پرماتما نے ہندوستان کی باگ ڈوراور حکومت اس کے حوالے کرکے بے فکری سے اپنی آنکھیں بندکرلی تھیں۔اورنگ زیب سلطنت کے باغیوں کے لیے سخت گیراورعام رعایاکے لیے نہایت نرم دل تھا۔’’
          (تاریخِ ہند۔ص، 58/طپنڈت ایشوری پرشا؛د)
     دوسرے سیّاحوں کی طرح کیپٹن الیکزینڈر ہملٹن نے بھی اس ملک کاجغرافیہ،تہذیب وتمدّن ،زبان اور لوگوں کے رہن سہن کے بارے میں اپنے سفرنامۂ ہندمیں تفصیل سے لکھاہے۔اورنگ زیب سے ملاقات کے باب میں لکھتاہے۔
      ‘‘بادشاہ اپنے مذہب پر پوری طرح کاربندہے۔اس کی خواہش ہےکہ عام مسلمان بھی اپنےمذہب کےپابندہوں۔ان کے کرداروعمل سے ظاہرہوکہ وہ مسلمان ہیں۔لیکن مسلمانوں پراس کے مذہبی حقوق کے باوجوداُن پر سختی نہیں کرتا۔پھربھی اس کی مذہبی شخصیت کے اثرات رعایاسے ظاہرہوتے ہیں۔ہندوستان میں بہت سے مذاہب اورعقائدکے لوگ رہتے بستے ہیں لیکن وہ سب ایک قوم کہلاتے ہیں۔مذہب کوریاست سے الگ رکھاگیا ہے۔ مذہب کی تبلیغ واشاعت کے لیے کسی فرقہ پرکوئی پابندی نہیں ہے۔وہ جس طرح چاہے اپنے مذہب وعقائد کی تبلیغ کرسکتاہے۔’’ ’ 
       ‘‘یہی حال تجارت،صنعت وحرفت اورزراعت کابھی ہے۔ بادشاہ نے بہت سارے اضافی ٹیکس معاف کررکھے ہیں جس کے نتیجے میں ہرپیشہ سے متعلق افرادخاصے مطمئین اورخوش نظرآتے ہیں۔ہرچیز فروغ پارہی ہے۔ برائے نام ٹیکس ہونے کی وجہ سے بازاروں میں ہرچیز سستے داموں میں ہے۔اسی مناسبت سےاشیائےخوردنی کے نرخ بہت ارزاں ہیں۔عام طورپرخوشحالی کادَوردَورہ ہے۔خوشحالی کی وجہ سے رعایا خودبادشاہ کی مدد  گارہے۔ ایسامیں نے ہندوستان کے علاوہ کہیں اورنہیں دیکھاکہ بادشاہ اوررعایاکے درمیان رشتہ ورابطہ اتنا قریبی ہو جتناکہ اورنگ زیب اوراس کی رعایامیں ہے۔’’ 
     ‘‘مسلمانوں اوریہاں کےقدیم باشندوں کےرہن سہن اورلباس وغیرہ میں اب بھی نمایاں فرق نظرآتاہےمگر یہ فرق بھی خاص خاص موقعوں پرظاہرہوتاہے۔’’ 
     ہملٹن لکھتاہے کہ ‘‘ہندوستان کی تجارت کامقابلہ یورپ کے بڑے بڑے ممالک بھی نہیں کرسکتے۔یہاں کا صرف ایک تاجر سالانہ بیس بیس مال بردار جہاز دوسرے ملکوں کوبھیجتاہے۔ہرجہاز میں دس ہزارپونڈ سے پچیس ہزارپونڈتک کی ما لیت کاسامان ہوتاہے۔ہزاروں پونڈسالانہ کی مچھلیاں ما لابارسے یورپ کے ملکوں میں روانہ کی جاتی ہیں۔سیکڑوں جہاز  ہندوستانی مال کی برآمدات کے لیے یہاں کی بندرگاہوں میں مال سے لدے کھڑے رہتے ہیں۔’’ 
      ‘‘حکومت کوسالانہ مالیہ ساٹھ کروڑروپئے وصول ہوتاہے۔صنعت وحرفت کوخوب فروغ حاصل ہے۔اورنگ زیب نےاپنی رعایا پرسے اُن تمام نامناسب ٹیکسوں کو ہٹا لیاجو اس کے باپ شاہ جہاں اور اس سے بھی پہلے کے مغل بادشاہوں نےلگارکھےتھے۔اورنگ زیب نے تخت نشین ہوتے ہی رعایاپرسےاسّی(80) قسم کے ٹیکس ہٹالیے تھے جورعایاکی ترقی اورخوش حالی میں مانع تھے۔’’ 
      ‘‘ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان پرانی تفریق کم ضرور ہوئی ہے مگرختم نہیں ہوئی ہے۔ان کے کھانے،پینے اورپہننے اوڑھنے میں یہ تفریق اب بھی نمایاں ہے لیکن ایسالگتاہے کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرے گاکہ یہ تفریق کم سے کم ہوتی جائےگی۔دونوں قوموں کے درمیان یک رنگی اوریکجہتی کی رفتاربتارہی ہےکہ جیسےجیسے وقت گزرے گا،سوائے مذہب کےسب ایک رنگ میں رنگ جائیں گے۔’’ 
      ‘‘اورنگ زیب نے اپنی حکمتِ عملی اورعدل گستری سےہندومسلم قومی ایکتااوراتحادکوقائم وبرقراررکھا ہے۔یہی و جہ ہے کہ حکو مت کاوفادارکوئی بھی ہو، خواہ مسلمان ہویاہندو،بڑے بڑے عہدوں پرفائزہے۔ وفاداروں کے لیےترقی اوردرجۂ کمال کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ صلاحیت کی بنیادپربڑے بڑے منصب عطاکیے جاتے ہیں۔اس سلسلے میں مذہب،قومیت اورنسل ورنگ میں تمیزنہیں کی جاتی۔ایک طرف جہاں میرجملہ اس کافوجی کمانڈرہے وہیں مشہوراورنامور سالاروں میں جسونت سنگھ اورجَے سنگھ کی طرح اوربھی بہت سے ہندو منصب دارہیں جن پروہ پوری طرح اعتمادکرتاہے۔اس کی عظیم سلطنت کاسارانظم ونسق اورتمام مالی اُمورکانگراں یعنی وزیرِخزانہ دیوان رگھوناتھ کھتّری ہے۔یہ اتنابڑاشاہی منصب ہے جس کے حصول کے لیے سلطنت کے اُمراء ورؤساءہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔حکومت کے دوسرے کلیدی شعبوں میں مسلمانوں کی طرح ہندوبھی اعلاعہدوں پرہیں۔بادشاہ وفاداروں کووفاداری کابھرپور صِلہ دیتاہے لیکن اپنے دشمنوں اورغدّاروں کوکبھی معاف نہیں کرتا۔اسی کےعہد حکومت میں۔انڈیا‘‘سونے کی چڑیا’’کے نام سےمشہور ہوا۔اس نے پچاس سال تک نہایت شان وشوکت اور دبدبہ کے ساتھ حکومت کی ۔’’
       (سفرنامۂ ہند۔۔کیپٹن الیگزینڈرہملٹن۔۔بحوالہ/ اورنگ زیب عالمگیر،،۔مصنف/انس مسرورؔانصاری)

                     ٭ انس مسرورؔانصاری
          قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ)
      سکراول،اُردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈ کرنگر(یو،پی)
                       رابطہ/9453347784-

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...