جمعرات, نومبر 11, 2021
اسد الدین اویسی نے کاس گنج میں پولیس تحویل الطاف کی موت پر دیا بڑا بیان ، کہی یہ بات میں

مولانا آزاد نمونے کے انسان تھے : مفتی محمد امداداللہ قاسمی
مولانا آزاد نمونے کے انسان تھے : مفتی محمد امداداللہ قاسمی
مدہوبنی /بی این ایسحکومتِ ہند نے آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی تعلیمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے یوم پیدائش 11 /نومبر کو یوم تعلیم کے طور پر منانے کا اعلان کیا جو 2008ء سے ملک کے تمام تعلیمی و رفاہی سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں یوم تعلیم کے نام سے منایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے مؤقر چئیر مین کی ہدایت پر مدرسہ اصلاح المومنین راگھونگر بھوارہ مدھوبنی میں مدرسہ ہٰذا کے پرنسپل مولانا جلال الدین صاحب مفتاحی کی صدارت میں تقریب یوم تعلیم کا اہتمام کیا گیا جس میں اساتذہ اور طلباء و طالبات مدرسہ ہٰذا نے شرکت کی، مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کی حیات و خدمات کا تعارف کراتے ہوئے مفتی محمد امداداللّٰہ قاسمی قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ مدھوبنی و ناظم تعلیمات مدرسہ ہٰذا نے کہا کہ مولانا آزاد ؒ کی ولادت مرکز اسلام مکہ معظمہ میں11 نومبر 1888ء مطابق ذی الحجہ1305 کو ہوئی ۔والد ِ ماجد مولانا خیر الدین احمد، غدر 1857ء کو ہندوستان مین برطانوی جبر وتشدد سے تنگ آکر مکہ معظمہ تشریف لے گئے ،اور مدینہ منورہ کے مفتی اکبر شیخ محمد طاہر کی بھانجی سے ان کی شادی ہوئی ،انہی سے مولانا آزاد ؒ دنیا ئے رنگ وبو میں تشریف لائے ۔آپ کا ذاتی نام'' محی الدین احمد'' اور تاریخی نام''فیروز بخت'' رکھا گیا،لیکن آپ کی کنیت'' ابو الکلام ''اور آپ کا لقب ''آزاد'' نے آپ کے اصلی نام پر کچھ ایسا پردہ ڈالا کہ معدودے چند لوگوں کے کسی کو اس کا علم نہیں۔ مولانا آزاد بہت کم عمری میں دینی علوم سے آراستہ ہوگئے، اللہ تعالی نے زبردست حافظہ اور قوت یاد داشت عطا کیا تھا، اسی وجہ سے آپ نے دیگر علوم کو بھی حاصل کیا اور ہر ایک میں کمال حاصل کیا، ابتدائی عمر سے کتابوں کے شوقین اور مطالعہ کے رسیا تھے، مولانا آزاد نظم اوقات کے اس قدر پابند تھے کہ:'ایک مرتبہ دن میں پانچ بجے شام گاندھی جی آگئے، مولانا کو خبر کی تو ٹس سے مس نہ ہوئے ،فرمایا: اس وقت ملنے سے معذور ہوں کل صبح نو بجے تشریف لائیں ،گاندھی جی ہشاش بشاش لوٹ گئے اور اگلے دن صبح نو بجے تشریف لائے'۔مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ، آپ ہندوستانی تاریخ کی ناقابلِ فراموش ہستی ہیں، جن کی پوری زندگی جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم کا نمونہ تھی، جو ہند میں سرمایہ ملت کے نگہبان تھے۔ مولانا آزاد مختلف کمالات کا منبع تھے، ان کی شخصیت علوم وفنون کا مصدر اور مرکز تھی۔ علم و فضل، دین و مذہب، فلسفہ و حکمت، تصنیف و تالیف، خطابت و صحافت سیاست و تدبر، غرض کون سا ایسا علم و ہنر کا میدان تھا جو ان سے اچھوتا رہا ہو۔ سیاسی بصیرت ایسی کہ مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو جیسے رہنما آپ سے مشورہ کرتے۔ وہ ایک ماہر تعلیم بھی تھے۔
ملک میں تعلیم کے فروغ کے لیے انھوں نے وہ تعلیمی نظام ترتیب دیا جو اپنی مثال آپ ہے۔
مولانا آزاد نے ۱۵ /جنوری 1947/ کو وزیر تعلیم کا عہدہ سنبھالا اور 2/فروری 1958/تک اسی عہدے پر فائز رہے۔
انھوں نے تقریباً گیارہ برس تک ملک کے لئے تعلیمی خدمات انجام دیں۔وزیر تعلیم کا عہدہ سنبھالتے ہی انھوں نے یہ عزم کیا کہ وہ ہندوستان میں ایک اتنے مضبوط تعلیمی نظام کی بنیاد ڈالیں کہ آنے والی نسلیں اس پر عالی شان محل تعمیر کر سکے، مولانا ابو الکلام آزاد اس سچائی پر یقین رکھتے تھے کہ تعلیم کے بغیر ہندوستان ترقی نہیں کر سکتا۔ تعلیم کے ذریعے ہی اس ملک کو ترقی یافتہ اور مہذب ملکوں کی فہرست میں لایا جا سکتا ہے۔ان کی نگاہ میں قومی نظام تعلیم ملک کے نظام کا ناگذیر حصہ ہے۔ انھوں نے وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے تعلیم کے فروغ میں جو کارہائے نمایاں انجام دئے ، وہ ناقابل فراموش ہیں۔
اس تقریب میں مولانا جلال الدین صاحب مفتاحی، مولانا ابوالخیر قاسمی، مولانا حیدر قاسمی، مولانا ثناء اللہ، مولانا نظام الدین، حافظ سلیم، حافظ شفیع الرحمن، قاری نظام الدین، ماسٹر گلریز، ماسٹر عبداللہ کے علاوہ مدرسہ کے تمام کارکنان نے شرکت کی، اخیر میں قاضی شریعت کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا

اب الطاف کے والد کا نیا بیان میں ہوں ان پڑھ ، سمجھوتہ پولیس نے لکھوایا '
اب الطاف کے والد کا نیا بیان میں ہوں ان پڑھ ، سمجھوتہ پولیس نے لکھوایا '
کاس گنج: کاس گنج کی صدر کوتوالی میں بیت الخلا کی 2 فٹ کی ٹنکی سے ساڑھے پانچ فٹ کے 21 سال کے نوجوان الطاف کی پھانسی لگاکر خود کشی کرنے کی بات پہلے کسی کے گلے نہیں اتر رہی تھی۔ اب الطاف کے والد کا خودکشی کے اعتراف والا خط سوالات کے دائرے میں آ گیا ہے۔ الطاف کے والد کا اب کہنا ہے کہ وہ بیٹے کی موت کے بعد تناؤ میں ہیں اور اس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ ایک ناخواندہ انسان ہے اور اس سے ایک کاغذ پر انگوٹھا لگوا لیا گیا تھا، وہ خوف کے سایہ میں زندگی گزار رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کو انصاف ملے۔
الطاف کے والد چاہت میاں نے یہ بات آج کانگریس وفد کے سامنے بھی کہی ہے۔ آج یہ وفد الطاف کے گھر پہنچا ہے۔ اس وفد میں اوم ویر یادو، توقیر عمر اور ضیاء الرحمن شامل ہیں۔ ضیاء الرحمن نے نمائندہ کو بتایا کہ الطاف کی موت کے بعد کنبہ اب تک صدمہ میں ہے اور خوفزدہ ہے۔ پورا کنبہ ناخواندہ اور غریب ہے۔ الطاف کے والد چاند میاں کو لکھنا پڑھنا بالکل بھی نہیں آتا۔ پولیس نے معاوضہ کی بات کہہ کر اسے سمجھا لیا تھا مگر اسے تاحال کوئی معاوضہ حاصل نہیں ہوا ہے۔ الطاف کے والد چاند میاں کا کہنا ہے کہ جو کچھ بھی کاغذ پر موجود ہے وہ پولیس نے لکھا ہے اور اس سے تو صرف انگوٹھا لگوایا گیا ہے۔
اس معاملے میں ایک اور سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے۔ الطاف پر جس لڑکی کو لالچ دے کر لے جانے کا الزام ہے، وہ اکثریتی برادری سے تعلق رکھتی ہے۔ پہلے کہا جا رہا تھا کہ الطاف لڑکی کے گھر ٹائلیں لگانے گیا تھا۔ اسی بنیاد پر لڑکی کے گھر سے الطف کے چلے جانے کے بعد اس کے گھر والوں کو شک ہوا کہ ان کی لڑکی اس کے ساتھ گئی ہے اور اس کی اطلاع پولیس کو دی گئی۔ انسپکٹر کاس گنج اجے سروہی کی طرف سے دی گئی معلومات کے مطابق کوتوالی میں الطاف اور ایک نامعلوم شخص کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 363، 366 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے الطاف کی پھوپھی نے بتایا کہ الطاف کا لڑکی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ یہاں گھر پر ہی موجود تھا اور یہاں سے کہیں نہیں گیا تھا۔ یہ الزام سراسر غلط ہے اور اسی کی وجہ سے اس کی جان چلی گئی۔ پولیس ابھی تک لڑکی کا سراغ نہیں لگا سکی ہے۔ دریں اثنا، خاندان کے ایک فرد آزاد حکیم نے الزام لگایا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ الطاف کی پٹائی تعصب کی بنا پر کی گئی ہے۔
سماجوادی پارٹی کے ترجمان عبدالحفیظ گاندھی بھی اہل خانہ سے ملے۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس کی کہانی میں جھول ہی جھول ہیں۔ ایک طرف جہاں الطاف کی خودکشی کی بات منطقی نظر نہیں آتی، وہیں ان کے والد کی طرف سے پولیس کو دی گئی کلین چٹ بھی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ مثلاً الطاف کے والد ناخواندہ ہیں اور خودکشی کے اعتراف کے حوالہ سے سامنے آنے والے خط کی زبان کسی ماہر کی معلوم ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس خط کی تحریر کسی وکیل یا پولیس اہلکار نے تیار کی ہو۔ پھر انگوٹھا لگوایا گیا ہے۔ پولیس نے معاملے کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ چاند میاں کو ملنے والے معاوضے کے بارے میں ابھی تک صورت حال واضح نہیں ہے۔ عام طور پر معاوضہ چیک کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے اور وہ حاصل نہیں ہوا ہے۔ یہ معاملہ بہت سنگین ہے، اس میں کمزوروں اور غریبوں کو انصاف ملنے کی امید کو کچل دیا گیا ہے۔
کاس گنج کی سابق رکن اسمبلی زینت خان نے بھی پولیس کی نیت پر سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اہل خانہ سے ملاقات کر کے آ رہی ہیں اور یہ واضح ہے کہ پولیس کا خاندان پر بہت دباؤ ہے اور وہ خوفزدہ ہیں۔ خاندان کی خواتین میں کافی غم و غصہ ہے اور وہ انصاف کی امید کھو چکی ہیں۔ لیکن ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ چاند میاں کے گھر پر تمام اپوزیشن جماعتوں کے رہنما پہنچ رہے ہیں۔
متوفی الطاف کے ماموں آزاد حکیم نے نمائندہ کو بتایا کہ وہ پولیس کی کارروائی سے مطمئن نہیں ہیں۔ الطاف پر تشدد کیا گیا۔ یہ بات ان کی بہن اور الطاف کی والدہ نے بتائی ہے۔ الطاف کی پھوپھی مومنہ نے اپنے سر کی چوٹ بتائی۔ پولیس نے الطاف کو کسی سے ملنے نہیں دیا۔ میرے بہنوئی کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا حوالہ دے کر خاموش کر دیا گیا۔ لڑکی کا بھائی مسلسل گھر آنے کی دھمکیاں دے رہا تھا۔ پورا خاندان صدمے میں ہے۔ ہماری پولیس سے انصاف کی امید دم توڑ چکی ہے۔ ہم اس پورے معاملے کی سی بی آئی انکوائری چاہتے ہیں۔

گورنرز کانفرنس 2021 : گورنرز نے کورونا کے دوران سرگرمی سے کام کیا
گورنرز کانفرنس 2021 : گورنرز نے کورونا کے دوران سرگرمی سے کام کیا
جمعرات کو راشٹرپتی بھون میں منعقد 'گورنرس کانفرنس-2021' میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کورونا کے خلاف جنگ میں گورنروں اور لیفٹیننٹ گورنرز کے تعاون کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ گورنروں نے کورونا کے دوران فعال طور پر کام کیا ہے۔
گورنروں اور لیفٹیننٹ گورنروں کی 51ویں کانفرنس جمعرات کو صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت میں راشٹرپتی بھون میں شروع ہوئی۔ صدر کووند کی صدارت میں منعقد ہونے والی یہ چوتھی کانفرنس ہے۔ تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے گورنروں اور لیفٹیننٹ گورنروں کے علاوہ نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو، وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کانفرنس میں شرکت کی۔
امت شاہ نے پہلی بار گورنرز کانفرنس میں شرکت کرنے والے گورنروں اور لیفٹیننٹ گورنروں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس دو سال بعد کورونا کی وجہ سے منعقد کی جا رہی ہے۔ شاہ نے کہا کہ وزیراعظم کی قیادت میں ملک نے کامیابی سے کورونا کا مقابلہ کیا ہے۔ آج، 100 کروڑ ویکسی نیشن کے ساتھ، ہم تقریباً کووڈ کے سائے سے نکل آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے تمام ممالک ہندوستان کی اس کامیابی کو سراہ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کورونا کے دوران وزیر اعظم نے تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے 20 بار بات چیت کی۔ گورنروں سے بھی وقتاً فوقتاً تبادلہ خیال کیا۔ کورونا جنگجوؤں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے کئی پروگرام منعقد کیے گئے۔
آزادی کے امرت مہتسوکے پیش نظر گورنروں کی کانفرنس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے شاہ نے کہا کہ ہمیں آزادی کے امرت مہتسو کو زیادہ سے زیادہ جوش و خروش سے منانا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ عوام کی شرکت کو یقینی بنانا چاہئے۔ گورنرز بھی عوامی شرکت کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
نئی تعلیمی پالیسی 2020 کا تذکرہ کرتے ہوئے مرکزی وزیر نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں ہندوستانی زبانوں کو تقویت دینے کے لیے کئی دفعات کی گئی ہیں۔ انہوں نے ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے لیے گورنرز سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ گورنر نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ میں اہم کردار ادا کریں گے

جون پور کے قریب مال گاڑی کی 21 بوگیاں الٹ گئیں ، وارانسی - سلطان پور ریل روٹ بلاک
جون پور: اترپردیش کے ضلع جونپور میں جمعرات کی صبح سلطان پور سے مغل سرائے جانے والی مال گاڑی کی 21 بوگیاں شری کرشنا نگر (بدلہ پور) ریلوے اسٹیشن کے نزدیک اُد پور گھاٹم پور کے قریب الٹ گئیں جس کی وجہ سے جونپور- وارانسی ریل روٹ پر ریل آمدورفت بند ہونے کی وجہ سے اس روٹ پر چلنے والی ٹرینیں اپنی جگہوں پر کھڑی کردی گئی ہیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق مال گاڑی مغل سرائے سے کوئلہ لانے کے لیے صبح 6:58 بجے سلطان پور سے روانہ ہوئی۔ مال گاڑی میں 59 بوگیاں تھیں۔ یہ مال گاڑی سری کرشن نگر (بدلہ پور) ریلوے کراسنگ کو عبور کرنے کے بعد صبح 7:58 بجے اُد پور گھاٹم پور کے قریب پہنچی ہی تھی کہ اچانک کچھ بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔ ٹرین کی تیز رفتاری کے باعث آگے سے 16 اور پیچھے سے 21 کو چھوڑ کر باقی 21 بوگیاں الٹ گئیں۔

تعلیم ہے امراض ملت کی دوا_____✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا دوسرا سیمی فائنل آج ناقابل شکست پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان دبئی میں کھیلا جائے گا۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا دوسرا سیمی فائنل آج ناقابل شکست پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان دبئی میں کھیلا جائے گا۔
ڈاکٹر آج صبح دونوں کھلاڑیوں کا چیک اپ کریں گے۔ میچ سے قبل شعیب ملک اور محمد رضوان کی طبیعت بہتر نہ ہونے کی صورت میں سرفراز احمد اور حیدر علی کو پلئینگ الیون میں شامل کئے جانے کا امکان ہے۔ آج کے میچ سے متعلق چیئرمین پی سی بی رمیز راجا کا کہنا ہے کہ سیمی فائنل میں کپتان بابر اعظم کو کچھ نیا کرنے کی ضرورت نہیں، قومی ٹیم کا اعتماد بلند ہے۔ کپتان بابر اعظم کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ کے لیے جو کھلاڑی چاہیے تھے وہی ملے، نڈر ہو کر فیصلے کررہے ہیں۔
واضح رہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2021 میں پاکستان واحد ناقابل شکست ٹیم ہے اور بابر الیون نے گروپ میں تمام 5 میچز کے دوران ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ محمد رضوان، بابر اعظم، فخر زمان، محمد حفیظ، شعیب ملک، آصف علی، شاداب خان، عماد وسیم، حسن علی، حارث رؤف اور شاہین آفریدی نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے تمام گروپ میچز میں پاکستان ٹیم کی نمائندگی کی ہے۔ گزشتہ روز پہلے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ نے انگلینڈ کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد 5 وکٹوں سے شکست دیدی تھی۔ آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ 2021 کا فائنل 14 نومبر کو دبئی میں کھیلا جائے گا۔

ملک کے پہلے وزیرتعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کا 133 واں یوم پیدائش ، جانیے مولانا آزاد کی حیات و خدمات
سنہ 1912 میں اردو ہفتہ وار ''الہلال'' جاری کیا جو انگریز مخالف اور حب الوطنی پر مبنی مواد کے لیے کافی مقبول ہوا لیکن حکومت نے اس پر 1914 میں پابندی عائد کر دی۔ اس کے بعد مولانا آزاد نے ''البلاغ'' کے نام سے دوسرا اخبار شروع کر دیا اور قومی آزادی کے اپنے مشن کو جاری رکھا۔
مولانا ابو الکلام آزاد کی کتابیں:
ترجمان القرآن
تصورات قرآن
قرآن کا قانون عروج و زوال
یاجوج ماجوج
رسول رحمت ( سیرت رسول ﷺ پر مشتمل مقالات کا مجموعہ )
سیرت رسول ﷺ کے عملی پہلو
صدائے حق
حقیقت زکوٰۃ
حقیقت حج
حقیقت الصلوٰۃ
جامع الشواہد فی دخول غیر المسلم فی المساجد
تحریک آزادی
ایمان اورعقل
اولیا اللہ و اولیا الشیطان
انسانیت موت کے دروازے پر
اسلام میں آزادی کا تصور
ارکان اسلام
رسالہ عزیمت و دعوت
ہجر و وصال
ہماری آزادی
غبار خاطر
حیات سرمد
آزادئ ہند (Indian wins freedom)
تحریک نظم جماعت
اسلام اور نیشنلزم
عروج و زوال کے فطری اصول
اسلام کا نظریہ جنگ
شہادت حسین
مسئلہ خلافت
غضب ناک محبوبہ (ایک افسانہ کا ترجمہ)
صدائے رفعت
ذکرٰی
درس وفا
قول فیصل
مولانا ابو الکلام آزاد کی حیات و خدمات پرچند کتابیں :
مولانا ابو الکلام آزاد کی قرآنی خدمت از افضل حق قرشی
مولانا ابو الکلام آزاد بحیثیت صحافی و مفسر از عبد الرشید عراقی
نقوش ابوالکلام و مقالات آزاد ازعبد المجید سوہدروی
تذکرہ آزاد ازعبد الرشید عراقی
ذکر آزاد ازعبد الرزاق ملیح آبادی
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد از ابوعلی اثری
خطوط ابوالکلام آزاد ازمالک رام
مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافت ازڈاکٹر ابوسلمان شاہجہاں پوری
ابو الکلام آزاد از شورش کاشمیری
ملفوظات آزاد از محمد اجمل خان
مولانا آزاد کی نثر تو دنیا ادب میں منفرد شناخت کی حامل تھی ہی، لیکن ان کی شاعری بھی بے پناہ انفردیت اور تخلیقیت کی حامل تھی۔ مولانا کی ایک غزل بہ طور نمونہ پیش ہے۔
کوئی اسیر گیسوئے خم دار قاتل ہو گیا
ہائے کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو اے دل ہو گیا
اُس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے
دل کا ہر ارماں فدائے دستِ قاتل ہو گیا
کوئی نالاں کوئی گرریاں کوئی بسمل ہو گیا
اس کے اٹھتے ہی دِگر گوں رنگِ محفل ہو گیا
قیس مجنوں کا تصور بڑھ گیا جب نجد میں
ہر بگولہ دشتِ لیلیٰ کا محمل ہو گیا
انتظار اُس گل کا اس درجہ کیا گُلزار میں
نور آخر دیدۂ نرگس کازائل ہو گیا
یہ بھی قیدی ہو گیا آخر کمندِ زلف کا
لے اسیروں میں ترے آزادؔ

جانیے! : فتح پوری مسجد کیوں ہے ہندو ۔ مسلم اتحاد کی علامت ؟
_(1).webp)
منصور الدین فریدی : اردو دنیا نیوز
فتح پوری مسجد محتاج تعارف نہیں،راجدھا نی کی دوسری بڑی اور تاریخی عبادت گاہ ،جو آج کل اپنی خستہ حالی کے سبب سرخیوں میں ہے۔ یہ خستہ حالی اس کی بنیادوں سے میناروں تک ہے مگر اس خستہ حال عبادت گاہ کی یادوں کے کچھ ایسے خزانے ہیں جو ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی خوبصورتی کو اب بھی اجاگر کررہے ہیں بلکہ آج بھی اتحاد اور یک جہتی کا مضبوط پیغام دے رہے ہیں۔۔
در اصل اس سرخ پتھر والی مسجد کی تاریخ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک ایسی کہانی سمیٹے ہوئے ہے جو آج کے ماحول اور سوچ کو آئینہ دکھا رہی ہے۔بتا رہی ہے کہ اس ملک میں فرقہ وارانہ بھائی چارہ اور مذہبی رواداری سب سے بڑی طاقت ہے۔ جن کی بنیادوں کو ہلانا ممکن نہیں ہے۔
فتح پوری مسجد بھی1857 کے غدر کے بعد دہلی کی سینکڑوں مساجد کے ساتھ سنسان اور ویران ہوگئی تھی۔ مسلمانوں پر غدر کے بعد انگریزوں کے بے انتہا مظالم نے انہیں شہر چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا اور جو بچے ہوئے تھے وہ گھروں تک محدود ہوگئے تھے۔خوف اور دہشت کا ماحول تھا۔عبادت گاہیں بند ہوگئی تھیں۔اذان اور نمازکی اجازت نہیں تھی۔
حد تو یہ ہوگئی تھی کہ1857کے غدر میں سرکاری جائداد اور املاک زبردست نقصان کے سبب انگریزوں نے متعدد جائدادوں اور املاک کو نیلام کردیا تھا ۔جن میں فتح پوری مسجد بھی شامل تھی۔ اصل کہانی اس نیلامی کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔ جس نے ملک میں ہندو مسلم اتحاد اور بھائی چارے کی مضبوط بنیادوں کے سبب فتحپوری مسجد کو ایک نازک وقت میں محفوظ رکھا بلکہ آج بھی سلامت ہے۔
نیلامی اور لالہ چنا مل
جب انگریزوں نے1870میں نیلام گھر سجایا تو فتح پوری مسجد کو خریدنے والا کوئی اور نہیں بلکہ چا ند نی چوک کا سب سے بڑا نام لالہ چنا مل تھا جو کہ اس وقت کپڑوں کے بہت بڑے تاجر تھے۔ ان کی تاریخی چنا مل حویلی اب بھی چاندنی چوک میں سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ جس کی تعمیر1864 میں ہوئی تھی ۔ ایک خالص کاروباری ہونے کے سبب اس وقت انہوں نے مسجد کے اردگر متعدد دکانوں کے پیش نظر یہ سودا کیا تھا۔ اس کے لیے انیس ہزار روپئے ادا کیے تھے۔
انگریزوں نے نیلامی اس لیے کی تھی کہ مسجد کو مہندم کرکے نئی دکانیں اور مکان تعمیر کیے جائیں گے۔ اہم بات یہ رہی کہ لالہ چنا مل نے مسجد کو حاصل کرنے کے بعد منہدم نہیں کیا تھا۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اس وقت دہلی میں مسلمانوں کے داخلہ پر پابندی عائد تھی اور تمام عبادت گاہوں پر تالے پڑے تھے۔فتحپوری مسجد میں فوجی خیمہ زن تھے اور انگریزوں کے گھوڑے باندھے جاتے تھے۔ اس لیے لالہ چنا مل نے فتح پوری مسجد کوبند رکھا تھا،وہ وقت بدلنے کا انتظار کرتے رہے۔
شاہی دربار میں مسجد کا معاملہ
ایسا ہی ہوا اور وقت بدلا 1877 میں انگریزوں نے دہلی میں مسلمانوں کے داخلے (یا رہنے) پر پابندی ختم کر دی۔ یہ 1877 کے دہلی دربار کے وقت کیا گیا تھا ، جس میں ملکہ وکٹوریہ کو ہندوستان کی شہنشاہ قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ہی فتحپوری مسجد کو مسلمانوں کو واپس کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔
اس بارے میں فتح پوری مسجد کے موجودہ امام مولانا مفتی محمد مکرم احمد بتاتے ہیں کہ دہلی کے اہم شخصیات اور شرفا نے اس وقت لال قلعہ میں شاہی دربار میں شرکت کی تھی۔مسجد میں نماز بالکل بند تھی،مسلمانوں نے یہ درخواست کی تھی کہ مسجد کو کھول دیا جائے۔ غدر کا اثر کم ہوچکا تھا جس کے بعد اس مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت ملی تھی۔اس کے بعد مسجد کو انگریزوں نے حاصل کیا اور مسلمانوں کو نماز کے لیے دستیاب کرائی۔
مسجد کی مسلمانوں کے حوالے
اہم بات یہ ہے کہ نیلامی میں فتح پوری مسجد کو حاصل کرنے والے تاجر لالہ چنا مل نے اپنے کاروباری فائدے کو نظر انداز کرتے ہوئے مسجد کو مسلمانوں کے حوالے کردیا تھا۔
بقول پڑ پوتے سنیل موہن انگریزوں نے ہی فتح پوری مسجد کو واپس کرنے کے عوض میں لالہ چنا مل کو میوات میں دو گاوں دئیےتھے۔ اس وقت دہلی کے مسلمانوں میں بے حد بے چینی تھی کیونکہ نیلامی سے قبل انگریزوں نے فتح پوری مسجد کو چھاونی اور اصطبل بنا دیا تھا۔جس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات یوں بھی مجروح ہورہے تھے۔ لالہ چنا مل نے دو گاوں خوشدلی سے قبول کئے اور مسلمانوں کو مسجد واپس کردی ۔
چنامل خاندان کے ساتھ رشتوں اور یادوں کو مولانا مفتی مکرم نے قیمتی قرار دیا
چنامل خاندان رواداری کی علامت ۔ مفتی مکرم
فتح پوری مسجد اس وقت اپنی خستہ حالی کے لیے موضوع بحث ہے لیکن حقیقت ہے کہ ملک کی یک جہتی اور فرقہ وارانہ بھائی چارہ کی بڑی اور بے مثال کہانیوں کی گواہ ہے اور انہی پر قائم بھی ہے۔
فتح پوری مسجد کے امام مولانا مفتی محمد مکرم احمد کہتے ہیں کہ ۔۔ چنا مل خاندان بہت ہی روشن خیال اور روادار رہا ہے۔ غدر اور اس کے بعد جو کچھ ہوا تو تاریخ کا حصہ ہے لیکن ان کی جن نسلوں سے ہمارا تعلق رہا ہے وہ ایک ذاتی تجربہ ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ چنا مل خاندان مذہبی رواداری کی مثال ہے،فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا علمبردار ہے۔ بھائی چارے پر یقین رکھتا ہے۔ دولت کے نشے اور گھمنڈ سے پاک رہا تھا یہ خاندان ۔کاروباری ہونے کے باوجود انسانی جذبات اور مذہبی فرائض کو اہمیت دیتا رہا یہ خاندان ۔ ان کے دادا مرحوم مفتی اعظم محمد مظہر اللہ کے اس خاندان کے ساتھ بہت گہرے رشتے رہے ۔لالہ چنا مل خاندان ان سے بہت عقیدت رکھتا تھا۔
نسل در نسل کی دوستی تھی
مولانا مفتی مکرم کہتے ہیں کہ میرے والد مرحوم مولانا مفتی محمد احمد ایک دندان ساز تھے وہ بلیماران میں مشہور و معروف ڈاکٹر یوسف کے معاون تھے ،انہیں سے کام سیکھا تھا اور اپنے ہلکے ہاتھ اور مہارت کے سبب مریضوں میں بہت مقبول تھے۔ساتھ ہی مسجد فتحپوری میں نائب امام بھی تھے۔جب انہوں نے اپنا کام شروع کیا تو ڈاکٹر یوسف کے متعدد پرانے مریض ان کے والد مرحوم کے کلینک آنے لگے تھے جن میں ان کے پوتے لالہ دوارکا ناتھ اور لالہ راجناتھ بھی شامل تھے۔
مولانا مفتی مکرم یادوں میں جھانکتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر تہوار خاص ہوا کرتا تھا۔کیا عید اور کیا ہولی۔ ہر تہوارکے موقع پر پکوانوں کی شکل میں محبت بانٹی جاتی تھی۔ سب مل کر بیٹھا کرتے تھے۔خوب محفلیں سجتی تھیں۔
عدالت میں گواہی بھی دی تھی
لالہ چنا مل کے دو وارث ان کے پوتے لالہ راجناتھ اور لالہ دوارکا ناتھ کا بھی فتح پوری مسجد سے بہت لگاو تھا۔ بقول مولانا مفتی مکرم میں انہیں اپنے بچپن میں دیکھا تھا ،وہ فتح پوری مسجد میں آیا کرتے تھے۔ میرے والد مرحوم سے بہت دوستی تھی۔ تہواروں میں بہت رونق رہتی تھی۔وہ بہت ملنسار اور روادار لوگ تھے۔
مولانا مفتی مکرم کہتے ہیں کہ ایک وقت ہمارے خاندان میں کچھ تنازعہ ہوگیا تھا ،میرے والد کے بڑے بھائی نے مقدمہ کردیا تھا ،مسئلہ مسجد کے کمرے کا تھا جس میں ہم رہا کرتے تھے۔ اس وقت میرے والد کے مقدمہ میں لالہ دوارکا ناتھ نے گواہ کے طور پر پیش ہوکر یہ گواہی دی تھی کہ اس کمرے میں شروع سے ہی ہمارا خاندان رہا کرتا تھا ۔جس کے بعد مقدمہ کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوا۔
مولانا مفتی مکرم کے مطابق ان کے چنامل کا خاندان ان کے والد سے دانتوں کا علاج کرانے کلینک میں آیا کرتا تھا۔ان کے والد مسجد کی رہائش گا ہ میں ہی پریکٹس کیا کرتے تھے ،جہاں وہ امام بھی تھے۔
حویلی اور وارث
چاندنی چوک میں آج ماضی کی عظمت کو بیان کرتی ہے چنامل حویلی موجود ہے۔ یقینا خستہ حال ہے لیکن یادوں کے خزانہ کے سبب انمول ہے۔ تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کی توجہ کا مرکز رہتی ہے۔ جس میں ان کی چھٹی نسل رہتی ہےجس کو آج بھی لالہ جی کے فیصلہ پر فخر ہے۔جسے وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال ہی مانتے ہیں ۔ لالہ چنا مل کے ایک پڑ پوتے سنیل موہن ہیں جو اس جائداد کے سب سے بڑے حصے کی دعویداری کرتے ہیں ۔باقاعدہ انٹر نیٹ پر اس حویلی کی تشہیر کررہے ہیں بلکہ پرانے واقعات کا ذکر بھی کرتے ہیں ۔
سنیل موہن کےترجمان امیت واہی نے ’آواز دی وائس ‘ کو بتایاکہ تاریخ یہی بتاتی ہےکہ لالہ جی نےفتح پوری مسجدکومسلمانوں کےحوالہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مسلمانوں نےانہی اس کےعوض دوگاوں دئیےتھے۔یہ خاندان کی مذہبی رواداری کا ثبوت ہے کیونکہ لالہ چنا مل ایک کامیاب تاجر تھے انہوں نے کاروباری فائدے کے لیے ہی مسجد کو نیلامی میں خریدا تھا لیکن جب اس سے مسلمانوں کے جذباتی لگاو کو محسوس کیا تو یہ قدم اٹھایا۔
لالہ چنامل کے ایک اور پڑ پوتے انل پرشاد کا کہنا ہے کہ میں اس حویلی کبھی دور نہیں ہوسکتا۔یہ ہماری وراثت کی شان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پرانی یادیں ہی ہمارے لیے خزانہ ہیں ۔جو آج بھی ہمارے لیے ایک مثبت پیغام دے رہی ہیں۔
چنامل خاندان کے وارثوں میں سے دائیں جانب سنیل موہن اور دائیں جانب انل پرشاد
عمارت کمزور مگر فرقہ وارانہ اتحاد کی مضبوط علامت
بلا شبہ فتح پوری مسجدکو آثار قدیمہ نے حالانکہ قومی یاد گار کا درجہ نہیں دیا ہے لیکن اس کی تاریخی حیثیت اس کو توجہ کا مرکز بناتی ہے۔جس کو شاہ جہاں کی ایک بیگم فتح پوری نے 1650میں تعمیر کرایا تھا۔ دوسرا اس کا مقام جو کہ چاندنی چوک ہے جس کی اپنی ایک تاریخ ہے ۔اس کے ساتھ دوسری جانب لال قلعہ ہے جس پر ترنگا شان سے لہراتا ہے۔
بلاشبہ یہ مسجد آج اپنی کمزور بنیادوں کے سبب سرخیوں میں ہے ،لیکن اس سے جڑی یادوں میں ایسی کہانیاں ہیں جو ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو طاقت اور استحکام دیتی ہیں۔
ضرورت ہے جیسے چنا مل خاندان نے اپنی وراثت کو سنبھال کر رکھا ہے ویسے ہی فتح پوری مسجد کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے کیونکہ یہ صرف ایک عبادت گاہ نہیں بلکہ ہندوستان میں مذہبی رواداری،بھائی چارے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا جیتا جاگتا نمونہ بھی ہے۔

اردودنیانیوز۷۲
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے! Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...
-
ٹرین میں ناری شکتی پردرشن Urduduniyanews72 عالمی یوم خواتین سے سبھی واقف ہیں، یہ ہرسال مارچ کی آٹھویں تاریخ کوپوری دنیا میں من...
-
گستاخ نبی کی قرآنی سزا اردودنیانیوز۷۲ مکہ میں سب سے پہلےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنےوالا کوئی اور نہیں بل...
-
یہ بیماری نہیں عذاب الہی ہے ! Urduduniyanews72 سی این این یہ امریکی نشریاتی ادارہ ہے،اس کی ایک رپورٹ جسے ملک کے اکثر اخبارات ...
-
بچیوں کی تربیت: ایک اہم ذمہ داری Urduduniyanews72 1. بچیوں کی تربیت کی اہمیت بچیوں کی تربیت ایک معاشرتی فریضہ ہے۔ ایک اچھی تربی...
-
مدارس اسلامیہ کنونشن میں منظور شدہ تجاویز اردودنیانیوز۷۲ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھن...
-
ملکِ ہند میں اسلامی انگریزی اسکول: وقت کی اہم ضرورت Urduduniyanews72 ہندوستان میں مسلمان قوم کا شمار ملک کی سب سے بڑی اقلیت میں...
-
نئے سال کا آغاز: ایک نیا سفر Urduduniyanews72 نیا سال ایک نیا آغاز، ایک نئی امید اور نئی جدوجہد کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ دن نہ...
-
پیام انسانیت کے وفد کا سیمانچل دورہ Urduduniyanews72 Urduduniyanews72 @gmail.com ملک میں ایک ایسی تحریک جو خالص انسانی بنیاد پ...
-
سنبھل میں کرفیو کی ایک رات ) * انس مسرورانصاری Urduduniyanews72 رات آئی تو خوف کا عفریت...
-
خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ دربہنگہ، بہار کی دینی و عصری تعلیم اور اصلاحی خدمات۔ Urduduniyanews72 تعارف: خنساء اسلامک انگلش ...