Powered By Blogger

اتوار, اپریل 10, 2022

#مدارس اسلامیہ نسلوں کے ایمان کے محافظ ہیں،آپ ان کی حفاظت کیجئے!

#مدارس اسلامیہ نسلوں کے ایمان کے محافظ ہیں،آپ ان کی حفاظت کیجئے!

تحریر:#محمداطہرالقاسمی
نائب صدر جمعیت علماء بہار
6/رمضان المبارک 1443
یوم الجمعہ
____________________________
مدارس اسلامیہ کو اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے کیونکہ پندرہ سو سال پہلے جس آخری دین کو جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وفادار و جاں نثار ساتھی حضرات صحابہ کے درمیان چھوڑ کر رخصت ہوئے تھے وہ دین بعینہٖ اسی شکل وصورت میں اگر آج تک زندہ ہے تو یہ ان ہی مدارس اسلامیہ کی بدولت ہے۔گویا مدارس اسلامیہ ایسا عالم گیر نظام تعلیم وتربیت ہے جن پر دین اسلام کی حفظ و بقاء اور نشر و اشاعت کا دارومدار ہے۔یعنی صفہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو جماعت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی ومذہبی تحریک کی تبلیغ کا بیڑہ لےکر اٹھی تھی؛پندرہ سو سالہ طویل عرصے کے بعد بھی اس مقدس جماعت کا وہ عالم گیر مشن ان ہی ٹوٹے پھوٹے مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام کے ذریعے پورے عالم میں جاری و ساری ہے۔صحابہ کرام کے بعد تابعین،تبع تابعین،محدثین،ائمہ مجتہدین اور فقہاء عظام کے واسطے سے یہ دین ہمارے ملک بھارت میں بھی پہنچا۔ہم نے جب آنکھیں کھولی تو دیکھا کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دین ہمارے اردگرد چاروں طرف مدارس اسلامیہ کی شکل میں جال کی طرح پھیلے ہوئے ہیں اور ہرجگہ قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔جبکہ سقوطِ سلطنتِ مغلیہ کے بعد یہاں ایک دور ایسا بھی آیا جب محسوس ہوا کہ اب یہاں سے دین مکمل رخصت ہوجائے گا کیونکہ صف اول کے مجاہدین آزادی ان ہی مدارس اسلامیہ سے وابستہ اکابر علماء کرام تھے جنہیں جہاد آزادی وطن کی پاداش میں ظالم و جابر انگریزوں نے چن چن کر تختہ دار پر چڑھا دیا تھا اور صدیوں سے آباد مدارسِ اسلامیہ کو نیست و نابود کر دیا تھا۔لیکن قربان جائیے اکابرین علماء دیوبند پر جنہوں نے اپنی فراست ایمانی سے محسوس کرلیا تھا کہ اگر یہاں دین زندہ رہنا ہے اور ہر حال میں رہنا ہے تو فوری طور پر مدارس اسلامیہ کی داغ بیل ڈالنی ہوگی۔چنانچہ بےسروسامانی کے عالم میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی گئی اور اسی نہج پر ان کے سچے جانشینوں نے اس طرح دینی ادارے قائم کئے کہ الحمد للّٰہ ملک میں مدارس اسلامیہ کے جال پھیل گئے؛گاؤں گاؤں قریہ قریہ نور نبوت کی شمعوں سے منور ہونے لگا اور آج نوبت بایں جا رسید کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے برپا کیا گیا اللہ کا یہ سچا دین،چھوٹے بڑے مدارس اسلامیہ اور مکاتبِ دینیہ کی مختلف شکلوں میں ملک کے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک تسبیح کے خوبصورت دانوں کی طرح ایک دوسرے سے مربوط و منظم ہوکر تعلیم وتربیت کی نوارنی شمعیں جلا رہے ہیں،جس میں روز بروز اضافہ ہی ہورہاہے اور یہ اضافہ قیامت تک جاری رہے گا کیونکہ اس آخری دین کو کائنات میں پیدا ہونے والے آخری فرد تک پہنچنا ہے۔
یریدون لیطفؤا نور اللہ بافواہہم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکفرون۔(الصف/8)وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنے مونہوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنا نور پورا کر کے رہے گا اگرچہ کافر برا مانیں۔
دوسری طرف ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ان مدارس سے وابستہ علماء کرام نے دین محمدی کی آبیاری میں خود کو اس طرح وقف کرلیا کہ دنیا ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے کہاں سے کہاں چلی گئی لیکن دیوانوں اور فاقہ کشوں کی یہ مخلص جماعت رفتار زمانہ کے ساتھ چلنے کے بجائے پیچھے بہت پیچھے رہ گئی۔اس طرح مسلمانوں کی نسل نو کی تعلیم وتربیت اور ان کے ایمان و عقائد کے تحفظ میں وہ اپنی ہی دنیاوی ترقی بھول گئی۔جسموں پر پھٹے پرانے کپڑے،موٹے جھوٹے کھانے،آسان و سادہ طرز زندگی،خواہشات پر چلنے کے بجائے ضروریات کی تکمیل پر قناعت،خاموش شب و روز،سماجی و معاشرتی زندگی میں اس طرح اجنبیت کہ نہ کوئی غم خوار و غمگسار،نہ آؤ بھاؤ تاؤ،نہ ہٹو بچو کے نعرے،نہ ہلا ہنگامہ،نہ چیلے چپاٹے اور نہ یاروں کے ساتھ سیر سپاٹے؛بس ملا کی دوڑ مدرسہ یا مسجد تک۔یعنی ایک ہی دھن مسجد،مکتب اور مدرسہ۔سخت لو والی گرمی ہو یا کپکپادینے والی ٹھنڈک یا پھر جھوم جھوم کر برسنے والی برسات؛ان اہل مدارس کے دل و دماغ میں بس ایک ہی فکر دامن گیر رہی کہ مسلمانوں کی نسل نو کو دینی تعلیم وتربیت سے کس طرح آراستہ و پیراستہ کیا جائے اور ان کے ایمان و عقائد کی حفاظت کس طرح کی جائے!
مدارس اسلامیہ سے وابستہ علماء کرام خواہ وہ طلبہ ہوں یا اساتذہ یا پھر منتظمین ان کی اس دھن اور لگن کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں دوطبقے بن گئے،ایک طبقہ مدارس سے وابستہ علماء کرام کا اور دوسرا اصحابِ ثروت و معاونین کا۔الحمد للہ دونوں طبقے ایک دوسرے سے مل کر مدارس اسلامیہ کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔البتہ اسی دوسرے طبقہ میں سے دین بیزاروں کا ایک تیسرا طبقہ اب ایسا بھی پیدا ہوچکا ہے جن کی نظروں میں نہ تو ان مدارس کی کوئی اہمیت و افادیت ہے اور نہ ہی ان سے وابستہ علماء کرام کی کوئی عظمت و رفعت۔اس بےرخی اور دین بیزاری کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک کے چپے چپے میں پھیلے ہوئے خون جگر سے سینچے گئے یہی مدارس خود اپنی ہی برادری کی آنکھوں میں کانٹے بنے ہوئے ہیں۔
ملک بھر میں مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام کی تعداد ایک مٹھی بھر جماعت سے زیادہ نہیں ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق یہ  قوم مسلم کا محض چار فیصد حصہ ہے۔لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ مدارسِ اسلامیہ مختلف مسائل سے دوچار ہیں اور فی الوقت انتہائی کس مپرسی کے مراحل سے گذررہے ہیں۔بالخصوص عالمی وبا کورونا اور اس کے نتیجے میں وقفے وقفے سے جاری ہونے والے لاک ڈاؤن کے بعد تو بہت سے چھوٹے چھوٹے مدارس یا تو بند ہوگئے ہیں یا پھر مالی بحران کا شکار ہوکر بند ہونے کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔
مدارس اسلامیہ پر آنے والی اس بحرانی کیفیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں ہزاروں لاکھوں معصوم بچے ان مدارس میں تعلیم وتربیت سے آراستہ ہوکر قوم مسلم کی دینی خدمات انجام دینے کے اہل ہورہے تھے؛اب وہ مدارس کا رخ کرنے کے بجائے دہلی ممبئی بنگلور و ہریانہ کام کرنے کے لئے ہجرت کررہےہیں جبکہ اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ جن علماء و حفاظ کے کاندھوں پر ملت کے ان نونہالوں کی دینی تعلیم وتربیت کی ذمےداریاں تھیں وہ مسلسل ان حالات سے مایوس ہو کر چھوٹے موٹے کاروبار یا محنت و مزدوری کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح یہ طبقہ بنگلور و حیدرآباد کی فیکٹریوں میں بارہ بارہ گھنٹے کام کرتا ہےاور اپنے وقار و عہدہ کو بھول کر ایک عام مسلمان کے طرز زندگی پر گامزن ہے۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ طبقہ علماء کا کاروبار یا محنت مزدوری کرنا نہ تو ناجائز ہے اور نہ ہی عیب کی بات ہے لیکن یہ بات بھی مسلم ہے کہ ان ہی کے ناتواں کاندھوں پر ملت اسلامیہ ہندیہ کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا بوجھ بھی ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ اگر یہ طبقہ لگاتار اسی روش پر قائم رہا تو آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مستقبل میں قوم مسلم کے معصوموں کے ایمان و عقائد کا کیا حال ہوگا!
الحاصل اسلام دشمن طاقتوں کے اپنے خطرناک ایجنڈے اور عزائم ہیں اور جن اصحابِ ثروت مسلمانوں کو  اپنے ان مدارس کا محافظ رہنا چاہئے ان کی جانب سے الگ اشکالات و اعتراضات بلکہ بے رخی و بیزاری ہے۔ان کا حال یہ ہے کہ کوئی رفتار زمانہ کے ساتھ اداروں کی جدید کاری چاہتاہے تو کسی کو ان مدارس کے طلبہ نکمے و فرسودہ نظر آتے ہیں تو کسی کی نظر میں مدارس کی انتظامیہ خائن و مشکوک ہے۔اس لئے ان کے کام کاج پر انہیں اعتماد و اعتبار ہی نہیں ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ موجودہ مدارس اور اہل مدارس میں بھی بہت ساری کمیاں اور خامیاں ہیں اور ماضی کی طرح کماحقہ وہ اپنی خدمات انجام نہیں دے پا رہے ہیں۔لیکن انصاف کے ترازو کے ایک پلڑے میں جب اہل مدارس کی کمیوں اور خامیوں اور دوسرے میں اس کی نافعیت و افادیت کو تولا جائے گا تو لامحالہ ان مدارس کی افادیت و نافعیت کا پلڑا بھاری پڑجائے گا۔
جب سالم لکڑیوں سے ٹیبل کرسی بنائی جاتی ہے تو لکڑیوں کا ایک حصہ آرے کی نوکوں میں پس کر برباد ہوجاتاہے لیکن اگر ایسا نہیں ہوگا تو آپ کو بیٹھنے کے لئے کرسی یا لیٹنے کے لئے پلنگ بھی نہیں مل سکے گی۔ٹھیک اسی طرح عمارت کی تعمیر میں اگر بعض سالم اینٹیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوں گی تو خوبصورت محل کی تعمیر بھی ممکن نہیں ہوسکےگی یا پھر درزی مہنگے کپڑوں کو کاٹ کاٹ کر اس پر سلائی نہیں کرےگا تو آپ عمدہ کپڑے اپنے جسموں پر زیب تن بھی نہیں کرسکیں گے۔تو کسی بھی چیز کا سوفیصد حصہ مکمل کارآمد کبھی نہیں ہوتا،کچھ نہ کچھ حصہ نکما یا ضائع ہوجاتا ہے۔لیکن ان ہی نکمے اور ضائع شدہ حصوں کی بدولت بقیہ حصے کارآمد و خوبصورت بناکرتے ہیں۔
الغرض اپنی تمام تر خامیوں اور کمیوں کے باوجود مدارس اسلامیہ ہی کا نظام ہے جن پر دین اسلام کی حفظ و بقاء اور نشر و اشاعت کا دارومدار ہے۔صفہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو جماعت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی ومذہبی تحریک کا بیڑہ لےکر اٹھی تھی؛پندرہ سو سالہ طویل عرصے کے بعد بھی اس مقدس جماعت کا وہ عالم گیر مشن اگر زندہ ہے تو بخدا یہ ان ہی ٹوٹے پھوٹے مطعون مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام کی دین ہے۔
تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ملک میں جاری فرقہ پرستی کے عروج اور کمرتوڑ مہنگائی کے درمیان آخر کس طرح ہم موجودہ یا آنے والی اپنی نسل کے دین وایمان کا تحفظ کرسکتے ہیں؟
تو جواب یہ ہے کہ اس کا واحد راستہ یہی ہے کہ ملک میں جال کی طرح پھیلے ہوئے چھوٹے بڑے مدارس اسلامیہ اور مکاتبِ دینیہ کو پوری قوت کے ساتھ سنبھالا دیا جائے،ان کی کمیوں کو نشانہ بنانے کے بجائے آپس میں مل بیٹھ کر دور کیا جائے،ان کی تعمیر وترقی میں اپنا موثر کردار ادا کیا جائے،ان سے وابستہ علماء و منتظمین کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کے زخموں پر ایک شفیق ڈاکٹر کی طرح مرہم پٹی کی جائے،انہیں مایوسیوں کے دلدل سے باہر نکالا جائے،ان کی بھرپور حمایت و حوصلہ افزائی کی جائے اور ادارے کے ساتھ ان کی ذاتی ضروریات تک کا خیال کرتے ہوئے ان کے ساتھ داد و دہش اور عزت و تکریم کا معاملہ کیا جائے۔آخر ا ہلِ ثروت اپنے گھربار کی ایک ایک شادی پر لاکھوں کروڑوں خرچ کرسکتے تو مہمانانِ رسول اور وراثت نبوی کے علم برداروں پر اپنا سینہ کشادہ کیوں نہیں کرسکتے!!!
رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رخصت پذیر ہے،جلد ہی دوسرا عشرہ سایہ فگن ہونے والا ہے اور پھر تیسرا عشرہ بھی آجائے گا اور یوں رمضان المبارک ایک سال کے لئے ہم سے پھر رخصت ہوجائےگا۔کل کو کون زندہ رہے گا اور کس کو چار لوگ مل کر قبرستان میں دفن کرآئیں گے۔کل تو کل ہے پل کی خبر نہیں ہے۔قبل اس کے کہ ہم کف افسوس ملیں دیگر تمام تر عبادات کے ساتھ مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام،ائمہ عظام و حفاظ کرام کے ساتھ خصوصی شفقت و مروت کا ایسا مظاہرہ کرلیں کہ خدا بھی خوش ہوجائے اور جب روضہ رسول میں ہمارے ان خوبصورت اعمال کی پیشی ہو تو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارکہ بھی ہم سے خوش ہو جائے!

رمضان المبارک __پیغام مؤمنوں کے لیے رحمتوں کا ہےمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیسہ وجھارکھنڈ پھلواری شریف پٹنہ

رمضان المبارک __پیغام مؤمنوں کے لیے رحمتوں کا ہے
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیسہ وجھارکھنڈ پھلواری شریف پٹنہ (9431003131)
رمضان کا مہینہ آگیا، ہر سو رحمت کی بارش شروع ہو ئی ، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس باران رحمت سے فائدہ اٹھانے کے لیے پوری طرح تیار ہیں، جنہوں نے اس ماہ میں اپنی اخروی زندگی کو بنانے اور دنیاوی زندگی کو صحیح سمت اور صحیح ڈگر پر گامزن کرنے کے لیے کمر کس لیا ہے ، رحمت کے اثرات مسجدوں میں بھی نظر آتے ہیں، اور بازاروں میں بھی ، رونقیں دونوں جگہ ہوتی ہیں، کشش ہر دو میں ہوتی ہے، جن کے دل اللہ کی طرف مائل ہیں اپنی زندگی میں فوز وفلاح چاہتے ہیں، اور آخرت میں جنت کے طالب ہیں، ان کی توجہ مسجدوں اور اعمال خیر کی طرف ہوتی ہے، بازار میں ان کا وقت ضرورت کے مطابق ہی گذرتا ہے ، انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہر وقت یاد رہتا ہے کہ روئے زمین پر مسجد سب سے اچھی جگہ او ربازارسب سے بُری جگہ ہے ، اس احساس کی وجہ سے ضروریات زندگی کی خرید وفروخت کے لیے ان کا بازار جانا ہوتا ہے ، لیکن دل مسجد میں ہی اٹکا ہوتا ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جن کا شمار صالحین میں ہوتا ہے اور رحمت خدا وندی انہیں اس ماہ میں خصوصیت سے شرابور کردیتی ہے ، وہ رمضان کے پہلے عشرہ کا سفر حصول رحمت کے لیے کرتے ہیں، دوسرے عشرہ میں انہیں مغفرت کا مژدہ ملتاہے اور اخیر عشرہ میں انہیں جہنم سے گلو خلاصی کا پروانہ مل جاتا ہے ، مؤمن کا مطلوب ومقصود یہی  تو ہے ۔
 اس بابرکت مہینے میں بھی بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن پر مسلسل ہو رہی باران رحمت کا کوئی اثر نہیں ہوتا ، ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ، لہو ولعب کی مشغولیات میں کوئی کمی نہیں ہوتی، نزول رحمت اور شیطان کے پابند سلاسل ہونے کے با وجود ان کے اعمال اور حرکات وسکنات پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور وہ حسب سابق نافرمانیٔ الٰہی میں لگے ہوتے ہیں ، ان کے پاس دل ہوتا ہے ، لیکن سمجھنے کی قوت نہیں ہوتی ، انہیں قوت سماعت ملی ہوتی ہے ، لیکن وہ اچھی باتیں سننے سے محروم ہوتے ہیں، ان کے پاس آنکھیں ہوتی ہیں، لیکن وہ صحیح چیزوں کو نہیں دیکھ پاتے ، ان کی ذات پر اس باران رحمت کا اثر اس لیے نہیں ہوتا کہ ان کے دل پتھر سے زیادہ سخت ہوتے ہیں، زیادہ سخت، اس لیے کہ بعض پتھر سے تو پانی کے چشمے پھوٹتے ہیں، نہریں نکلتی ہیں، وہ خشیت الٰہی سے گر بھی پڑتے ہیں، لیکن ان لوگوں کے دل کے سوتے ایسے خشک ہوتے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں بھی ان کی آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے اور ان کے دل خوف خدا سے نہیں لرزتے ، اور وہ اپنی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ موت انہیں آ لیتی ہے، او روہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کے ایندھن بن جاتے ہیں، اللہ رب العزت سے ایسی زندگی سے پناہ چاہنی چاہیے، اور کوشش آخری حد تک اس کی کرنی چاہیے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کو رو دھو کر منالیں۔
 کاغذ پر بہت سے حروف ونقوش ابھرے ہوتے ہیں، ان کے صاف کرنے کے لیے ہم ربر کا استعمال کرتے ہیں،تو کاغذ صاف وشفاف ہوجاتا ہے اور ہمارے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ ہم اس کا غذ کو پھر سے کام میں لاکر اپنی من پسند چیزیں لکھ سکیں ، یہی حال تو بہ واستغفار کا ہے ، ہماری بد عملی اور بے عملی کی وجہ سے ہمارے دل پر گرد جم گئی ہے؛ بلکہ متواتر اور مسلسل گناہ کی وجہ سے یہ کالا ہو گیا ہے ۔اس پر کوئی دوسری تحریر نہیں اُگ پا رہی ہے، ضرورت ہے دل کی سیاہی کی صفائی کی، جب تک یہ سیاہی دور نہیں ہوگی ، گناہ کے اثرات ختم نہیں ہوں گے ، طاعت وبندگی کے حروف اُگانے کے لیے پہلے اس سیاہی کو صاف کرنا ہوگا، توبہ استغفار، گناہوں پر ندامت اس ربر کی طرح ہے ، جس سے نا پسندیدہ الفاظ وحروف کو مٹایا جا سکتا ہے ، اللہ بھی کیسا غفور الرحیم ہے ، بندہ جب تو بہ استغفار کرتا ہے ، ندامت کے آنسو بہاتا ہے ، اللہ سے اچھی امید رکھتا ہے تو اللہ اس کو ایسا بنا دیتے ہیں، جیسے اس نے کبھی گناہ کیا ہی نہیں تھا ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کبھی گناہ کیا ہی نہیں ہے ، اس توبہ پر رحمت خدا وندی کو ایسا جو ش آتا ہے کہ وہ گناہوں سے تو پاک کر ہی دیتاہے ، ان گناہوں کو بھی نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے ، جو اس نے توبہ سے قبل کیے تھے، صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ مراحم خسروانہ کا لفظ انسانوں پر مجازی معنی میں بولا جاتا ہے ، حقیقی مرحمت کا تعلق تو اللہ رب العزت کی ذات سے ہے ، دوسرا کوئی ایسا ہوہی نہیں سکتا، کیوں کہ اللہ کی کٹیگری کا دوسرا ہے ہی نہیں ۔ وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ کُفُوا اَحَد۔ 
 رمضان المبارک کے اس مہینے میں روزہ سب سے بڑی عبادت ہے، جو پورے شرعی تقاضوں کے ساتھ بند ے نے رکھا ہو ۔ تلاوت قرآن، تہجد کا اہتمام ، ذکر واذکار کی کثرت، تراویح کی پابندی، فرض نمازوں کی با جماعت ادائیگی ، غرباء ومساکین کا خیال ، جھگڑے لڑائی سے اجتناب اور پر ہیز ان چیزوں میں سے ہے جس سے روزہ ، روزہ بنتا ہے ، پورے ماہ اس طرح کا روزہ رکھیے کہ سال بھر نیکیوں کی طرف دل مائل رہے اور برائیوں سے نفرت پیدا ہوجائے۔
لیکن بعض بدبخت وہ بھی ہوتے ہیں جن کے قلوب اس مہینے میں بھی شیطان کے نرغے میں ہوتے ہیں، شیطان پابند سلاسل ہوتا ہے، لیکن اس کے اثرات کسی نہ کسی درجہ میں انسانوں پر باقی رہتے ہیں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کا نفس امارہ ہی شیطان بن جاتا ہے، اور اس ماہ میں چل رہی باد بہاری سے وہ متاثر نہیں ہوتا، بالکل اسی طرح جس طرح رحمت کی برسات بھی اُسّراور بنجر زمینوں میں ہر یالی پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہے، وہ حسب سابق مسجد کا رخ نہیں کرتے ، روزہ نہیں رکھتے اور بہت بے شرمی سے ہوٹلوں میں کھاتے رہتے ہیں ، پہلے شرم ایسوں کو آتی تھی، ان کے شرم کی حفاظت کے لیے ہوٹلوں پر پردے پڑے ہوتے تھے اور ایسے لوگ چھپ کر کھا یا کرتے تھے، اب یہ شرم ختم ہو گئی ہے ، گھر اور باہر سب جگہ ایسے روزہ خوروں کی بڑی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے، گو اب بھی بعض ہوٹلوں پر پردے پڑے ہوتے ہیں، لیکن دن بدن اس میں کمی آتی جا رہی ہے، جو اچھی علامت نہیں ہے ۔
ان روزہ خوروں سے پوچھیے کہ سال کے گیارہ مہینے تو کھاتے ہی ہو، ایک مہینہ دن میں اللہ کی خوشنودی کے حصول اور فرض کی ادائیگی کے جذبے سے نہ کھاؤ تو کیا فرق پڑتا ہے تو بڑی لجاجت سے کہیں گے کہ حضرت! طبیعت خراب رہتی ہے، ڈاکٹروں کی ہدایت ہے کہ روزہ نہ رکھوں؛ اس لیے مجبوری ہے، یقینا مریضوں کو چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ صحت یابی کے بعد قضاء رکھیں ، لیکن عموما یہ بیماری فرضی ہوتی ہے اوررمضان میں روزہ خوری کے بعد کبھی روزے کی قضا کا خیال بھی نہیں آتا، حالاں کہ روزہ عبادت بھی ہے اور مختلف امراض کا علاج بھی ۔
 جدید تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم کی قوت مدافعت بڑھتی ہے، چوں کہ اعضاء رئیسہ کو روزے کی حالت میں آرام ملتا ہے اور اس آرام کے نتیجے میں ان کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ رمضان میں معدہ کے مریض کو بھی اسہال کی شکایت نہیں ہوتی ، پیٹ خراب نہیں ہوتا ، ہارٹ کے مریضوں میں دل کی بے چینی اور سانس پھولنے کی تکلیف کم ہوجاتی ہے، دفاع کی صلاحیت بڑھ جانے کی وجہ سے جسمانی کھچاؤ اور ڈپریشن سے بھی نجات مل جاتی ہے، روزہ خوروں کی ایک بڑی تعداد شوگر کے مریضوں کی ہے ، اور انہیں ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق ہر دو گھنٹے پر کچھ نہ کچھ کھانا ہوتا ہے، یہ عذر صحیح ہے، لیکن اگر آپ کی قوت ارادی مضبوط ہے اور اللہ کے فضل پر بھروسہ ہے اور آپ روزہ رکھنا چاہتے ہیں تو اللہ کی نصرت آپ کے ساتھ ہوگی اور شوگر کنٹرول ہو جائے گا۔
 ضرورت قوت ارادی کی ہے، آپ روزہ نہیں رکھنا چاہتے تو آپ کا نفس جواز کے لیے دسیوں اسباب ومحرکات پیش کردے گا ، اور اگر آپ رکھنا چاہتے ہیں تو صرف اللہ کی خوشنودی کے حصول کا جذبہ پورے مہینے آپ کو روزہ رکھنے پر خوش دلی سے تیار کردے گا۔ 
حال ہی میں شائع ایک تحقیق کے مطابق روزہ کینسر جیسے موذی مرض کی روک تھام میں بھی مؤثر کردار ادا کرتا ہے، اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ روزہ کی حالت میں گلوکوز کی کمی ہوجاتی ہے جسم کو جب گلوکوز نہیں ملتا ہے تو قدرتی طور پر چربی کا استعمال شروع کر دیتا ہے، اس عمل کے نتیجے میں پروٹین چھوٹے ذرات کی شکل میں بکھرنے سے محفوظ ہوجاتے ہیں، کینسر کے خلیات اور ٹشوز اپنی نشو نما کے لیے ان ذرات کا سہارا لیتے ہیں، روزے کی حالت میں یہ ذرات نہیں ملتے تو کینسر کی نشو نما نہیں ہو پاتی ، روزہ موٹا پے کے مریضوں کے لیے بھی نعمت ہے، اس سے وزن کم ہوتا ہے اور روزہ رکھنے والے کو ڈائٹنگ یعنی غذا میں کمی کی ضرورت نہیں پڑتی ، جاپان کے ایک ڈاکٹر ٹیسدایوشی ہیسی کے مطابق روزہ رکھنے سے بانجھ پن دور ہوجاتا ہے ، اس کا تجربہ اس نے چھ خواتین پر کیا ، جن میں سے چار خواتین ، تین مہینے کے ا ندر حاملہ ہو گئیں اور انہوں نے صحت مند بچوں کو جنم دیا ، اسی طرح نفسیاتی مریضوں کے لیے بھی روزہ رکھنا مفید ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے اور بندہ کی توجہ ہمہ وقت مولیٰ کی طرف ہوتی ہے جس سے اسے ذہنی سکون ملتا ہے۔
مختصر یہ کہ روزہ خوری عام حالات میں معصیت ہے، سوائے ان لوگوں کے جو واقعتا مریض ہیں، جو عورتیں حاملہ ہیں، جو دودھ پلا رہی ہیں اور جو لوگ مسافر ہیں ان کو شریعت نے روزہ مؤخر کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن مؤخر کرنا اور چیز ہے اور سرے سے روزہ نہ رکھنا بالکل دوسری چیز ، اس فرق کو ہمیں ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے ، سِرے سے روزہ نہ رکھنا ایسا جرم ہے جس کی تلافی کے لیے کوئی کفارہ نہیں ہے۔
 سن ایاس کو پہونچا ہوا شخص جو روزہ کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس کو شریعت نے روزہ کے بدلے بعض حالتوں میں فدیہ دے کر اس کی تلافی کی اجازت دی ہے ، ان کے علاوہ جو لوگ روزہ خوری کرتے ہیں، وہ اللہ سے بغاوت کرتے ہیں، او راللہ کا باغی کبھی کامیابی وکامرانی سے سر فراز نہیں ہو سکتا ، خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ ہوٹل کے گیٹ پر پردہ کرکے کھانے اورڈاکٹروں کے فرضی نسخے دکھاکرآپ لوگوں کو تومطمئن کر سکتے ہیں، لیکن اس مالک کائنات کو جو دلوں کے احوال کو جانتا ہے اور جس کے نزدیک جلوت کے تماشے اور خلوت کی بے راہ رویوں کو چھپا یا نہیں جا سکتا، اس سے بچ کر کہاں جائیے گا اور اس کو کس طرح دھوکہ دے پائیے گا۔
 اللہ نے اپنے کرم سے شیطان کو پابند سلاسل کر دیا ہے، تاکہ خیر کی طرف لوگ متوجہ ہوں اور اپنے رب کی مغفرت کی طرف دوڑیں ، لیکن اگر ہم نے اپنے نفس امارہ کو پابند سلاسل نہیں کیا تو وہ اس پورے ماہ کی برکت ، رحمت اور مغفرت کو کھا جائے گا، قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے، رمضان کے اس بابرکت مہینے میں عہد کیجئے کہ ہم اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی لا ئیں گے ، جس سے ہمارا مولیٰ راضی ہو جائے گا اور ہم حضرت جبرئیل کی اس وعید کے مستحق نہیں ہوں گے ۔ جس پر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر سے اترتے ہوئے آمین کہی تھی ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...