Powered By Blogger

اتوار, اگست 14, 2022

ثناءاللہ ثنا دوگھروی کی کتاب ستاروں سے آگے،:تعارف و تبصرہ

ثناءاللہ ثنا دوگھروی کی کتاب ستاروں سے آگے،:تعارف و تبصرہ 
ڈاکٹر نورالسلام ندوی، پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢ 
ستاروں سے آگے ثناءاللہ ثنا دوگھروی کی نظموں کا مجموعہ ہے، جسے انہوں نے بچوں کے لیے تخلیق کیا ہے، اس میں حمد و نعت کے علاوہ آٹھ نظمیں اور ایک غزل شامل ہے، کتاب کا آغاز حمد باری تعالیٰ سے ہوتا ہے، جس میں شاعر نے خدائے وحدہ لاشریک کی حمد و ثنا بیان کی ہے،معبود وہی ہے، اسی کی ذات قابل تعریف و توصیف ہے، اس نے بندوں کو سب کچھ بے مانگے عطا کر دیا، ضروریات کی ساری چیزیں دیں، بے ستون کے آسمان بنایا، ابر سے پانی کا برسنا، صبح و شام کا آنا جانا، چاند سورج کا اپنے وقت پر نکلنا اور ڈوبنا سب اسی کے حکم سے ہوتا ہے، اس کی حکمت ذرہ ذرہ میں پوشیدہ ہے، ہر کام کرتے وقت اللہ کا نام لینا چاہیے، حمد کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے، 
ہےخدا کا نام بابرکت بڑا
اس سے ہر اک کام کی ہو ابتدا
 حمد کے بعد ایک نعت شریف ہے، جس میں پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ اور اخلاق محمودہ کا تذکرہ ہے، جس کے پڑھنے سے بچوں کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت پیدا ہوتی ہے اور آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، پہلی نظم کا عنوان ہے پیارا دین اسلام اس نظم میں بچوں کو دین اسلام کی بنیادی باتیں بتلائی گئی ہیں، اسلام کی بنیاد توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج پر ہے، اسلام ہمیں اچھی باتوں کا حکم دیتا ہے، انہوں نے اس نظم کے ذریعے بچوں کو اسلام کے اخلاق و کردار کو اپنانے کا پیغام دیا ہے، ایک نظم کا عنوان ہے آؤ پیڑ لگائیں، یہ نظم بھی عمدہ اوربچوں کی طبیعت کے موافق ہے،عموماً بچے پیڑ پودے سے مانوس ہوتے ہیں، پیڑ پودے خدا کی نعمت ہے، اس سے قسم قسم کے پھل اور پھول آگتے ہیں، جو غذا اور دوا دونوں کے کام آتے ہیں، پیڑ پودے سےہریالی ہوتی ہے، جو ہماری زندگی کے لیے ضروری ہے، ان باتوں کو شاعر نے خوبی کے ساتھ شعری قالب عطا کیا ہے،انہوں نےبچوں کو پیڑ پودے لگانے کی بھی ترغیب دی ہے، موجودہ حالات میں اس نظم کی اہمیت مزید دو چند ہو جاتی ہے، چونکہ ماحولیات کے تحفظ کے لئے حکومتی سطح پر پیڑ پودے لگانے کی مہم جاری ہے،نظم کےچند اشعار دیکھئے:
خوب کھاتے ہو جو مزے سے پھل
 لال پیلے یہ  رنگ  برنگے پھل
 میٹھے میٹھے سے یہ رسیلے پھل
تندرستی تمہیں یہ دیتے پھل
پیڑ پودے اگر نہیں ہوتے
یہ سماں کیسے دل نشیں ہوتے
 نظم پھول سی تتلی میں خوبصورت اور سہل انداز سے بچوں کی دلچسپی کے مدنظر تتلی اور اور اس کی دلکش اداؤں، بچوں کا اس کے لئے دیوانہ وار دوڑ نا بھاگنا، اس کو دیکھ کر خوش ہونا، جیسی پیاری اور بھولی بھالی اداؤں کو بیان کیا گیا ہے، اس کے شروع کے تین اشعار دیکھئے:
تتلی آئ تتلی آئ 
دیکھو، دیکھو تتلی آئ 
ننھی منی بھولی بھالی
پیاری پیاری پنکھوں والی
قدرت نے کیا حسن دیا
کتنا دلکش رنگ دیا
میں بھی روزہ رکھوں گا، اس نظم کا کردار ایک ننھا سا بچہ ہے، جس پر روزہ فرض نہیں ہوا ہے، لیکن سب کو روزہ رکھتے دیکھ کر اس کا بھی جی روزہ رکھنے کا کرتا ہے، وہ اپنی امی سے بولتا ہے، امی جان مجھے بھی سحری میں جگا دینا، گھر میں سب روزہ رکھتے ہیں، میں بھی روزہ رکھوں گا، بھوک پیاس کی شدت کو جانوں گا، اپنے رب کو راضی کروں گا، روز قیامت حشر میرا بھی روزہ داروں کے ساتھ ہوگا،اس نظم میں بچوں کے احساسات ونفسیات کی بھرپور رعایت کی گئی ہے، اسی طرح پھر سے بہاریں لوٹ آئیں گی کورونا کے عہد کی یاد تازہ کرتی ہے، اس نظم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح کورونا نے معمولات زندگی کو یکسر بدل دیا، اسکول کالج بند ہو گئے، بچے گھروں میں قید ہو گئے، بچے اپنے اسکول کے پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے، بس اب تو ایک ہی سپنا ہے، اسکول پھر سے کھل جاتے، پرانی بہاریں لوٹ آتیں، لیکن بچہ امید کا دامن نہیں چھوڑتا ہے، اور کہتا ہے ایک دن تاریکی چھٹ جائے گی،ایک نیا سویرا شروع ہوگا، دنیا معمول پر لوٹ آئے گی، اور اسکول پھر سے شروع ہوں گے، اس نظم کے ذریعے بچوں کے شوق علم کو ابھاراگیا ہے، وہ دولت کون سی دولت ہے، میں بھی علم کی اہمیت و افادیت بتلائ گئ ہے، ایک طویل نظم بچہ اور ستارہ ہے، یہ مکالماتی نظم ہے، بچہ اور ستارہ کے درمیان مکالمہ کافی دلچسپ اور سبق آموز ہے، بچہ ستارہ کو محو حیرت سے تکتا ہے، اس کی روشنی اور چمک سے لطف اندوز ہوتا ہے،بچہ ستارہ تک پہنچنے کی چاہ رکھتا ہے، ستارہ بچہ کی باتیں سن کر خوش ہوتا ہے اور جواب دیتا ہے، 
تمہاری ہیں باتیں بڑی بھولی بھالی
بڑی ہی انوکھی بڑی ہی نرالی
بڑی پیاری، پیارے تری آرزو ہے
بڑوں سے بھی تیری بڑی جستجو ہے
ترے دل میں کتنے بھرے ولولے ہیں 
بڑے اونچے پیارے ترے حوصلے ہیں 
درخشاں ہیں ہم آسماں پر جو پیارے 
تو تم بھی زمیں کے ہو روشن ستارے
نظم کورونا بھی مکالمہ کے طرز پر ہے، بچہ ماں سے کورونا کے بارے میں سوال کرتا ہے، ماں اس کو کورونا اور اس سے بچنے کی تدبیر بتا تی ہے،پانی خدائے تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، ہر جاندار کا وجود پانی سے ہے، نظم پانی کی اہمیت میں پانی کتنی ضروری اور قیمتی شئ ہے اس پر روشنی ڈالی گئی ہے، اس کے بے جا اصراف سے بچنے اور اس کی حفاظت کی تعلیم بھی دی گئی ہے، اخیر میں بچوں کی ایک خوبصورت غزل شامل ہے، 
ثناءاللہ ثنا دوگھروی نے نے چند صفحات میں اپنی بات کہی ہے،اپنی بات کتاب کا بھرپور اور خوبصورت تعارف ہے، اس میں پوری کتاب کا خلاصہ آگیا ہے، یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے :
اس کتاب کو بچوں کے لئے حتی المقدور مفید بنانے کی کوشش کی گئی ہے، جس میں تعلیم اور تربیت کے کئی پہلو روشن ہیں، کتاب میں کئی اہم موضوعات پر آسان الفاظ میں سادگی کے ساتھ کہی گئی نظمیں شامل کی گئی ہیں، تاکہ بچوں پر گراں نہ گزرے اور اشعار کی تفہیم میں دشواری پیش نہ آئے، میرا مقصد یہ ہے کہ اس کتاب سے جہاں بچوں کی تفریح طبع ہو وہیں بچے نظموں سے بھی سبق حاصل کر سکیں، 
زیر نظر کتاب کے ذریعے بچوں کی تربیت و رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کی اچھی کوشش کی گئی ہے، ان کے موضوعات بچوں کے مزاج سے مطابقت رکھتے ہیں، نظموں کی زبان سادہ سلیس اور دلچسپ ہے، ان نظموں کی قرآت سے محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نےنظموں کی تخلیق میں بچوں کی نفسیات اور ذوق و مزاج کی خاص رعایت برتی ہے، زبان سادہ اور آسان استعمال کی گئی ہے،جو بچوں کی فہم اور اس کے معیار کے مطابق ہے، ان نظموں میں مضامین کے لحاظ سے عمدہ تشبیہیں اور تراکیب استعمال میں لائی گئی ہیں،
شاعر  نے اپنی بات کے تحت ایک جگہ تحریر کیا ہے کہ شاعر اور ادیب کو بچوں کا ادب تخلیق کرنے کے لئے اپنے آپ کو بچوں کی سطح پر لے جا کر سوچنا اور غور و فکر کرنا ہوتا ہے، یہ حقیقت ہے، اس کے بغیر بچوں کا بہترین ادب تخلیق کرنا مشکل ہے، انہوں نے جو نظمیں تخلیق کی ہیں وہ بچوں کی سطح پر جاکر تخلیق کی ہیں، بچوں کا ادب تخلیق کرنا قدرے مشکل اور نازک فن ہے، اور اس نازک فن پر وہی مکمل اتر سکتا ہے جو بچوں کی نفسیات، اس کے مزاج، مذاق اور پسند و ناپسند سے واقف ہو، اور اس سطح پر سوچنے اور فکر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، عصر حاضر میں بچوں کے تخلیقی ادب پر کم دھیان دیا جا رہا ہے، اس پس منظر میں ہے ثنا دوگھروی کی یہ کاوش حوصلہ مندانہ اور قابل ستائش ہے، 
مصنف بچوں کے بھی شاعر ہیں اور بڑوں کے بھی،شعری وادبی دنیا میں معروف و مشہور ہیں، اس سے قبل ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ اڑان سے آگے شائع ہو کر داد تحسین وصول کرچکا ہے، صحافت و ادب سے یکساں دلچسپی رکھنے والے بچوں کے ادیب ثناء اللہ ثنا دوگھروی کی تازہ تصنیف ستاروں سے آگے ادب اطفال میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے، کتاب کا سرورق خوبصورت اور کاغذ عمدہ ہے، 32صفحے کی مختصر کتاب کی قیمت پچاس روپے ہے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی سے شائع اس کتاب کو بک امپوریم، سبزی باغ ،پٹنہ اور ناولٹی بک ہاؤس، قلعہ گھاٹ، دربھنگہ وغیرہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے،
Dr Noorus Salam Nadvi
Vill +Post Jamalpur
Via Biraul, District Darbhanga
Bihar, Pin Code 847203
E-mail : nsnadvi@gmail.com

یوم آزادی _____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

     یوم آزادی _____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
===================================
(اردو دنیا نیوز٧٢)
 پندرہ اگست ۲۰۲۲ء کو ہندوستان اپنی آزادی کی پچھہتر ویں سالگرہ منا رہا ہے، اس سالگرہ کو یاد گاری بنانے کے لیے مرکزی حکومت نے پورے سال آزادی امرت مہوتسو کا انعقاد کیاہے، جس میں ا پنی مرضی کی تاریخ بیان کرائی گئی اور ان لوگوں کو ہائی لائٹ کیا گیا، جن کی کارکردگی تحریک آزادی میں یا تو تھی نہیں یا تھی تو برائے نام تھی، اس معاملہ میں خصوصیت سے مسلمانوں کو نظر انداز کیا گیا، مولانا ابو الکلام آزاد ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حسرت موہانی، مولانا محی الدین قادری، مولانا منت اللہ رحمانی، مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی، اشفاق اللہ خان، مولانا احمد اللہ صادق پوری، مولانا جعفر تھانیسری رحمہم اللہ اور ان جیسے ہزاروں مجاہدین کی خدمت کو قابل ذکر نہیں سمجھا گیا، حالاں کہ جد وجہد آزادی میں مسلمان دوسرے لوگوں کی بہ نسبت سو سال قبل سے لگے ہوئے تھے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کو پہلے غدر کہا جاتا تھا، اب شعور بیدار ہوا ہے تو اسے پہلی جنگ آزادی سے تعبیر کیا جاتا ہے، جب کہ مسلمان ۱۷۵۷ء سے ہی انگریز بھگاؤ مہم سے لگ گیے تھے، ٹیپو سلطان وغیرہ کا دور ۱۸۵۷ء سے پہلے کا ہے ، جنہوں نے انگریزوںسے لوہا لیا اور یہ کہتے ہوئے جان جاں آفریں کے سپرد کر دی کہ ’’گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے‘‘۔
مادر وطن کے ایسے جانباز سپوتوں کو فراموش کرکے دوسرے لوگوں کے گن گان کرنا اور تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی بات اس تحریک کا حصہ ہے، جسے ہم ہندتوا کے نام سے جانتے ہیں اور جس کی جڑیں ہندوستانی سیاست میں اس قدر پیوست ہو گئی ہیں کہ بظاہر اس سے باہر آنے کی شکل ناممکن تو نہیں، دشوار معلوم ہوتی ہے، ایسے میں ہمیں بھی یوم آزادی کے موقع سے ان مجاہدین کو خصوصیت سے یاد کرنا چاہیے جن کو قصدا بھلا نے کی کوشش کی جا رہی ہے، حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی قاضی القضاۃ امارت شرعیہ نے آزادی کے پچاس سال مکمل ہونے پر کاروان آزادی کے نام سے پورے ہندوستان کا سفر کیا تھا، گرد کارواں کے طور پر یہ حقیر(محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) بھی بہت ساری جگہوں پر شریک تھا، ہر جگہ قاضی صاحب نے یہ تحریک چلائی کہ گم نام مجاہدین آزادی پر کتابیں مرتب کی جائیں، چنانچہ بہار کے مسلم مجاہدین آزادی پر مولانا مفتی نسیم احمد قاسمی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب تیار کی تھی، احقر کا ایک مضمون بھی اس میں شامل تھا، یہ ضرورت اب بھی باقی ہے، ہم تاریخ کے دفینوں سے گمنام مسلم مجاہدین آزادی کو نکال کر لائیں اور علمی دنیا کے سامنے رکھیں، جب تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش ہو رہی ہو تو ہماری ذمہ داری صحیح تاریخ لکھنے اور پیش کرنے کی کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے۔
 یقینا ہندوستان نے آزادی کے ان پچھہتر سالوں میں بیش بہا ترقی کی ہے، کئی معاملوں میں ملک خود کفیل ہوا ہے، غربت کا رونا ہم چاہیں، جتنا روئیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد لوگوں کے معیار زندگی میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں،غلام ہندوستان میں زمیندار اور رجواڑے ہی چین کی زندگی گذارتے تھے، عام لوگوں کی حیثیت رعیت اور بندھوا مزدوروں جیسی تھی، آزادی کے بعد عام لوگوں کے لیے سہولیات کے دروازے کھلے، زمین داری ختم ہوئی تو زمین کا بڑا حصہ کاشتکاروں کے ہاتھ لگا، ونوبا بھاوے کی بھودان تحریک نے بھی سماج کے پس ماندہ طبقات تک زمین پہونچانے کا کام کیا، بہت ساری جگہوں پر سرکاری اداروں کے کھولنے کی شکل بنی، جن گھروں میں سائیکل دستیاب نہیں تھی، اب ان گھروں میں کئی کئی موٹرسائکل بلکہ کار یں نظر آتی ہیں، ہندوستان میں غذائیت کی کمی کے باوجود ہندوستان، صومالیہ ایتھوپیا، سری لنکا، نیپال کی طرح پریشان حال نہیں ہے۔ 
دوسری طرف گذشتہ بیس سالوں میں مختلف حوالوں سے آزادی پر پابندی لگائی جا رہی ہے، اب حکومت طے کرتی ہے کہ ہم کیا کھائیںگے، کہاں نماز پڑھیں گے، اذان مائیک سے ہوگی یا نہیں، نصاب میں کیا پڑھایا جائے گا، بے گناہوں کو کس طرح این آئی اے اور ای ڈی کے ذریعہ ہراساں کیا جائے گا، مخالفین کی زبان بندی کے کیا طریقے ہوں گے، اہم موضوعات سے عوام کی توجہ ہٹا کر کس طرح انہیں غیر ضروری معاملات میں الجھا دیا جائے گا، آزادی کا مطلب اب یہ ہے کہ حکومت آزاد ہے ، وہ جس طرح چاہیے معاملہ کرے، عوام کی قسمت میں مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے، تشدد ہے اور نظروں میں امن وسکون کی آس ہے، جو دور دور تک غائب ہے، اس طرح فیض کے لفظوں میں یہ داغ داغ اجالا اور  شب گزیدہ سحر ہے،  اور یقینا مجاہدین آزادی نے اپنی جان کا نذرانہ ان داغ داغ اجالوں کے حصول کے لیے نہیں دیا تھا، اسی لیے فیض کہتے ہیں۔
 ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی  نجات دیدہ ودل کی گھڑی نہیں آئی  چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...