Powered By Blogger

اتوار, مارچ 19, 2023

انس مسرورؔانصاری ایک پھول سے آجاتی ہے ویرانے میں رونقہلکا سا تبسّم بھی مری جا ن بہت ہے

**کُچھ تبسّم زیرِ لب**
        
       آخری خواہش
Urduduniyanews72
*انس مسرورؔانصاری 
ایک پھول سے آجاتی ہے ویرانے میں رونق
ہلکا سا تبسّم بھی مری جا ن بہت ہے
بھارت میں سب سے زیادہ بڑی ۔سب سے زیادہ غورطلب۔موذی،مہلک اوروبائی صورت میں پھیلنے والی بیماری کانام ‘‘نیتاگیری’’ہے۔یہ ایسی بیماری ہے کہ جسے لگ جاتی ہے اُس کی جان لے کرٹلتی ہے۔یہ بیماری کبھی خودلگتی ہے اور کبھی لگائی جاتی ہے۔سیاسی بیماری جب ترقی کرکے لاعلاج ہوجاتی ہے تواُسے نیتاگیری کہتے ہیں۔ہمارے ملک میں اسّی فی صدی آبادی اسی مرض میں مبتلاہے۔ہربستی ،ہرگاؤں، ہرشہراورہرنگرمیں یہ شہزادی راج کرتی ہے۔اس کے عشق میں ہرنیتاپاگل ہے۔اس شہزادی نے بہتوں کوآبادکیااوربہتوں کوبربادکیاہے۔ 
ہمارے ملک کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ اکثرنااہل اپنے آپ کوقیادت کااہل پاتے ہیں۔ہرکوئی قوم کی قیادت اوراپنی خدمت کرناچاہتاہے۔ پہلے زمانے میں وہی لوگ سیاسی میدان میں قدم رکھتے تھے جن کے دل گردے بہت بڑے اورمضبوط ہوتے تھے۔وہ ملک اورقوم کی ترقی کے لیے سوسوجتن کرتے اوراپناگھرپھونک کرتماشہ دیکھتے تھے۔موجودہ زمانہ میں سیاست ایک پروفیشنل بزنس کی طورپر سامنے آئی ہے۔اب نیتاگیری کامیاب ہوجاتی ہے تولاکھوں کروڑوں کے وارے نیارے ہوتے ہیں۔اس لیے عام آدمی کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ نیتابن جائے لیکن مشکل یہ ہے کہ اب نیتاگیری سے پہلے داداگیری سیکھنی پڑتی ہے۔بدمعاشوں اوراُٹھائی گیروں کاایک ہجوم اپنے ساتھ رکھناپڑتاہے۔نیتاگیری تب کامیاب ہوتی ہے جب چمچے اورخوشامدیوں کی تعدادزیادہ ہو۔ جرائم میں مہارت حاصل ہو۔سیاسی تجارت کے لیے بھارت کی زمین بڑی زرخیزہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثرغنڈے،موالی،بلیک میلراو رمافیا والے اپنااپنادھندہ چھوڑکرراج نیت میں آگئے کہ اس میں راجہ اورمہاراجہ بننے کے چانسزبہت زیادہ ہیں۔یہاں رام رام جپ کے پرائے مال کواپنابنالینابہت آسان ہے۔خاص بات یہ بھی ہے کہ جب کوئی نیتامنتری بنتاہے تووہ تنہامنتری نہیں بنتابلکہ گھروالی،سالے،سالی، اینڈسنزاینڈبرادرزسمیت منتری بنتاہے۔پھراُس کے پی،اے اورپیابھی ہوتے ہیں۔پرسنل سکریٹری ہرچند کہ سرکاری ہوتے ہیں مگر اصل سکریٹری تواس کے اپنے ہی خاص لوگ ہوتے ہیں۔انھیں کے رائے مشورہ سے ٹینڈرپاس ہوتے اور افسروں کے تبادلے ہوتے ہیں۔ان کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتاہے۔ نیتاگیری میں قومی املاک نیتاؤں کے لیے ‘‘جملہ حقوق محفوظ’’کے زمرے میں آتی ہیں۔ 
ماسٹرپیارے لال جب منتری ہوئے توگاؤں میں اُن کی ان پڑھ،جاہل،گنوارانگوٹھاچھاپ دھرم پتنی آپ سے آپ منترائن بن گئیں اوراُن کی سکھی سہیلی جن کی سات پشتوں میں بھی کوئی چودھری نہیں تھا،گاؤں والے اُنہیں جوکھنی،سکھاری،بدھنی کے بجائے ڈرکے مارے اچانک چودھرائن کہنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تین سال کے اندرماسٹرپیارے لال کامعمولی مکان عالی شان بلڈنگ میں بدل گیا۔ ان کامکان بن جانے سے گاؤں کی شوبھابہت بڑھ گئی۔ایک بارجب وہ فارن ٹورسے گھرواپس آئے تو ان کے کتوں نے ان کازبردست ، پُرجوش اورپُرخروش استقبال کیا۔وہ اتنابھونکے اتنابھونکے اوراس قدراپنی دُمیں ہلائیں کہ نیتاجی کوکہناپڑا۔‘‘بســ......بس......بہت ہوگیا۔اب مجھے اورشرمندہ نہ کریں۔’’ 
بعض لوگوں کاخیال ہے کہ ہمارے دیش کے نیتاکام کچھ نہیں کرتے،بس وعدے کرتے ہیں اورآرام کرتے ہیں،لیکن ایسانہیں ہے۔وہ محنت بھی بہت کرتے ہیں۔ہمارے دوستوں میں ایک سردارجی نے بتایاکہ اُن کی وائف امریکہ کی بڑی تعریف کرتی ہیں۔کہتی ہیں کہ امریکہ ایک دولت منداورمہان دیش ہے۔’’ہمارے دوست نے ایک دن جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا:‘‘کی ہوتاہے دولت سے۔؟کوئی امریکن لیڈرایک دن سے زیادہ بھوک ہڑتال کرسکتاہے؟ہمارے دیش میں ساڈھا ہرنیتا ہر سال کئی کئی مرن برت رکھتاہے۔مہان ہے ہمارادیش اوراس کے نیتا۔’’ 
    انسان غلطیوں کاپُتلاہے۔کبھی کبھی ہم سے بھی غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ایک سیاسی جلسہ میں شرکت کی غلطی ہوئی تودیکھا۔منچ پربہت سارے نیتابراجمان ہیں۔راجدھانی سے آئے ہوئے ایک بڑے نیتاکا بھاشن تھا۔پبلک بھی بہت تھی(پبلک بیچاری کیاکرے۔اُسے بھی توتفریح چاہئے)شہرکے نیتاباری باری منچ پرآتے اورمہمان لیڈرکے گن گان کرکے بیٹھ جاتے۔شہرکے ایک اورنیتاقصیدہ خوانی کے لیے جیسے ہی مائک پرآئے۔مائک والے نے اُن کے سامنے سے مائک ہٹالیا۔
‘‘کیوں ۔؟تم نے میری باری پرمائک کیوں ہٹالیا۔؟؟’’نیتاجی نے مائک والے پربرہم ہوتے ہوئے پوچھا۔
‘‘نیتاجی !تم مکھن بہت لگاتے ہو،اتناکہ میرامائک بلکہ ساراسِٹ چکناہٹ سے خراب ہوجاتاہے۔میں اپنے مائک میں تمھیں نہیں بولنے دوں گا۔’’
سارے نیتاؤں کی خصوصیات قریب قریب مشترک ہیں۔جب بھی وہ بھاشن دیں گے توساری جنتاکواپنے بھائی ،بہن،ماں ،باپ اورجانے کیاکیا بتائیں گے۔ان کی تقریرمیں سارے انسانی رشتے جمع ہوکرماں،باپ،بہن،بھائی ہوجاتے ہیں۔اسی لیے وہ اپنے ہربھاشن کی ابتداء ہمیشہ ‘‘میرے بھائیو،بہنوں اورماتاؤں’’سے کرتے ہیں۔چنانچہ شامتِ اعمال کہ ایک بار اورغلطی ہوئی اورہم ایک سیاسی جلسہ میں چلے گئے۔کسی نیتاکے اعزازمیں توصیفی تقریب تھی۔بہت دیرتک نیتاجی لگاتارجھوٹ بولتے رہے۔اپنی تعریف کرتے رہے۔عوام کوبیوقوف بناتے رہے۔جلسہ ختم ہواتومنچ سے نیچے آئے ۔بھیڑکافی تھی۔وہ لوگوں سے ہاتھ ملاتے، ہاتھ جوڑکر نمشکارکرتے ۔ لگاتارمسکراتے ہوئے ،پھول مالاؤں سے لدے پھندے پسینہ پسینہ ہو رہے تھے۔ اچانک اس وقت ایک میڈیاوالے نے اُ ن سے سوال کیا۔‘‘شری مان جی!ابھی تک آپ نے شادی نہیں کی ۔؟کیااس کی وجہ آپ بتاسکتے ہیں۔؟’’
‘‘کیوں نہیں بھائی!’’وہ مسکراتے ہوئے بڑے شرمیلے انداز میں گویاہوئے۔‘‘تین چاربہنوں کے رشتے آئے ہوئے ہیں اورایک بہن جی سے توبات بھی چل رہی ہے۔’’
بھارت کاہرنیتاجب مرتاہے توہمیشہ سورگ واس ہی ہوتاہے۔کبھی نرک واس نہیں ہوتا۔ہم نے اخباروں میں ہمیشہ یہی پڑھا۔تمام نیتاؤں کی خواہشیں بہت بڑی بڑی ہوتی ہیں مگرایک مشترکہ خواہش سب سے بڑی ہوتی ہے۔
شہرکے ایک بڑے اورمشہورنیتاسورگ واس ہوگئے۔شمشان گھاٹ جانے کے لیے بڑاہجوم اکٹھّا ہوگیا۔تل دھرنے کوجگہ نہیں رہی۔سورگ واسی نیتا کے سوگ میں ایک دن کے لیے سرکاری چھٹی کابھی اعلان ہوگیا۔ارتھی کے ساتھ جانے کے لیے بڑے بڑے نیتا،منتری،سنتری،سرکاری افسران اور ہٹوبچو کے لیے کافی تعدادمیں پولیس فورس بھی حاضروموجودتھی۔جب ارتھی بالکل تیار ہوگئی توسورگ واس نیتاجی کے آخری درشن کے لیے اُن کے عالی شان بنگلہ کے وسیع لان میں ارتھی لاکررکھ دی گئی۔بھیڑاُمنڈپڑی ۔ذراسی دیر میں ارتھی پھول مالاسے بھرگئی۔زندگی میں اتناپھول مالااُنھیں چڑھایا گیاہوتاتومارے خوشی کے پھولوں کے بوجھ سے بے موت مرگئے ہوتے۔اچانک ایک آواز اُبھری ۔
پہلی آوازـ:۔‘‘نیتارگھومل جی کی جئے ہو۔ساری عمردیش اورجنتاکی سیوامیں گزاردی۔’’
  دوسری آوازـ:۔‘‘نیتاجی مہان ہیں،مہان تھے اورسدیومہان رہیں گے(کیونکہ نیتاجی نے سدیوجنتاسے زیادہ خوداپنی خدمت کی۔جنتاسے بڑے بڑے وعدے کرکے ووٹ لیتے اور آخری سانس تک جھوٹے وعدوں پرٹرخاتے رہے) 
  تیسری آوازـ:۔ ‘‘نیتاجی بہت لوک پریئے تھے۔’’ (کیوں نہ ہوتے۔اُنھیں جنتاکواُلّو بنانے کاہنرمعلوم تھا) 
  چوتھی آواز:۔‘‘آج جمہوریت کے محل کاایک ستون گرپڑا۔جنتاپرپہاڑٹوٹ پڑا(حالانکہ نیتاجی جمہوریت کے معنی تک نہیں جانتے تھے۔نیتاگیری سے پہلے رائی کاتیل بیچتے تھے اورتیل کواصلی ثابت کرنے کے لیے اُس میں پیازکاعرق ملایاکرتے تھے تاکہ سونگھنے پرکڑواہٹ زیادہ معلوم ہواورتیل اصلی لگے)
  پانچویں آواز:۔ ‘‘ارتھی کواب اُٹھاناچاہئے۔سب نے درشن کرلیے ہیں۔؟جئے ہونیتارگھومل جی کی۔’’
  چھٹویں آواز:۔‘‘اب ارتھی اُٹھانے میں ادِھک سمئے نشٹ نہیں کرناچاہئے۔جلدسے جلددیش بھکت کی راکھ کودیش بھرمیں ہوائی جہازسے اُڑاناہے (تاکہ کھیت کھلیان بنجرہوجائیں،فصلیں تباہ ہو جائیں)آج دیش بھکت کی بھکتی سپھل ہوگئی۔ارتھی اُٹھائی جائے۔جئے ہونیتارگھومل جی کی۔نیتاجی امررہیں۔’’ 
  ساتویں آواز:۔‘‘ابھی ٹھہروبھائیو!تھوڑی دیراورکشٹ کرو۔بس میڈیاوالوں کوآجانے دو۔وہ لوگ آنے ہی والے ہیں۔نیتاجی کی آخری خواہش تھی کہ پہلے ٹی،وی اورپریس والے آجائیں تب ارتھی اُٹھانا۔’’ 
 ٭٭ 
  انس مسرورؔانصاری

قومی اُرد وتحریک فاؤنڈیشن                           (رجسٹرڈ)      
  سکراول،اُردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر۲۲۴۱۹۰۔ 
  (یو،پی) 
رابطہ:۔۰۹۴۵۳۳۴۷۷۸۴

ہم نے ایک بڑے ادیب عظیم نقاد،اچھے انسان اور بہترین استاد کو کھو دیا:مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

ہم نے ایک بڑے ادیب عظیم نقاد،اچھے انسان اور بہترین استاد کو کھو دیا:
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
ڈاکٹر منظر اعجاز کے انتقال پر اردو میڈیا فورم،کاروان ادب کے صدر اور اردو کاروان کے نائب صدر کا تعزیتی بیان 
پھلواری شریف پٹنہ 19مارچ2023(عبدالرحیم برہولیاوی/پریس ریلیز)ڈاکٹر منظر اعجاز نے ۱۹/مارچ ۲۰۲۳ ء کو علی الصباح تین بجے تقریباً ستر سال کی عمر میں آخری سانس لی،وہ بڑے ادیب،عظیم  نقاد،اچھے انسان اور بہترین استاد ہونے کے ساتھ مجھ سے بے پناہ محبت کرتے تھے،انہوں نے میری مرتب کردہ کتاب ”دیوان اوج“ پر بسیط تبصرہ لکھا تھا،اور اس کے اجراء کی تقریب میں بنفس نفیس مہوا تشریف لے جاکر سنایا بھی تھا، ان کا آبائی وطن اشوئی ترکی ضلع ویشالی کا ایک گاؤں تھا،جہاں گاہے گاہے ان کی آمد ہوتی رہتی تھی،ان سے آخری ملاقات سلطان شمسی کے مجموعہ کلام کے اجراء کے موقع سے گورنمنٹ اردو لائبریری پٹنہ میں ہوئی تھی،وہی شفقت و محبت،وہی انکساری اور تواضع جو ان کی زندگی کا لازمہ تھا،نظر آیا،اسی انداز میں ملے،جسم کمزور ہو گیا تھا،کورونا کے شکار ہو گئے تھے،بچ گئے،لیکن اس کے اثرات نے ان کا پیچھا آخری دم تک نہیں چھوڑا،انہیں تصنیف و تالیف کا صاف ستھرا ذوق تھا،ان کی کتابیں ”شخصیات و انتقادیات،فراق اور غزل کا اسلوب،اقبال اور قومی یک جہتی،ظفر عدیم ایک سخن ساز اور معاصر غزل کا منظر نامہ،نئی غزل میں تلمیح کی معنویت،متن سے مکالمہ،قومی وطنی شاعری کا منظر نامہ،انعکاس کا“فراق نمبرخاص طور سے قابل ذکر ہیں واقعہ یہ ہے کہ ہم نے علم و ادب کی ایک عظیم شخصیت کو کھو دیا ہے،جن کی یاد برسوں آتی رہے گی،اور زمانہ دراز تک ان کی کمی محسوس کی جائے گی،اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے،اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے،اب ان کے لئے سب سے اہم کام دعائے مغفرت ہے،اللہ ان کی آخرت کی منزلیں آسان کر دے،تعزیت کے مستحق صرف ان کے پس ماندگان ہی نہیں، وہ تمام لوگ ہیں جو علمی ادبی ذوق رکھتے ہیں،میں سب سے تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہوں۔

شخصیات وانتقادیات۔ ایک تجزیاتی مطالعہ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ

شخصیات وانتقادیات۔ ایک تجزیاتی مطالعہ
Urduduniyanews72
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ
(۔ڈاکٹر منظر اعجاز کے انتقال پر ان کی زندگی میں لکھی گئی قدیم تحریر قاریین کے لیے پیش خدمت ہے)

 ڈاکٹر پروفیسر سید محمد مظہر الحق منظر اعجاز سابق صدر شعبہ اردو اے ان کالج پٹنہ،شاعر، ادیب اور نقاد کی حیثیت سے مشہور عام وخاص ہیں،ان کی تحریریں شوق سے پڑھی جاتی ہیں اور ان کی تنقید سے ادیب وشاعر کے مقام ومرتبہ کی تعیین ہوتی ہے، شخصیات وانتقادیات ان کی تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جسے انہوں نے تین باب میں تقسیم کیا ہے، پہلا باب شخصیات وکارنامے، دوسرا باب کچھ یادیں، کچھ باتیں، اور تیسرا باب مشاہیر بنام مشاہیر کے عنوان سے ہے، پہلے باب میں گیارہ مضامین سر سید احمد خان اور مدرسۃ العلوم، آگہی بردار بصیرت کے شاعر حالی، سید افضل الدین احمد اور فسانہ خورشیدی، شاد عظیم آبادی کے بعد شعری تثلیث، رضا نقوی واہی اور شعرستان، احمد یوسف اور آگ کے ہمسائے، قیصر صدیقی اور زنبیل سحر تاب کے نغمات، پروفیسر نجم الہدیٰ: شخصیت اور فن، محمد حسن اور غزل کی نکتہ چینیاں، خورشید سمیع کے تنقیدی معاملے کا معاملہ، اسد خستہ جاں، کا پہلا باب: ایک تجزیاتی مطالعہ کے عنوان سے ہے، دوسرے باب میں کچھ یادیں، کچھ باتیں کے عنوان سے وہاب اشرفی، اختر الایمان، لطف الرحمن اور ندا فاضلی کی شخصیت اور ان کے ساتھ بیتے لمحات کے یادوں کی برات نکالی گئی ہے، جن کو پڑھ کر ان حضرات کی افتاد طبع اور ذاتی زندگی کے بارے میں بہت سی معلومات ہمیں ملتی ہیں، جو عموماً ان کی سوانح اور ان کے فکر وفن پر گفتگو کرنے والوں کی نگاہوں سے اب تک اوجھل تھیں۔ تیسرا باب مشاہیر بنام مشاہیر، اقبال بنام صغرا ہمایوں مرزا، سردار بنام سلطانہ، مجروح بنام منظر اعجاز لکھے ہوئے خطوط پر مشتمل ہے، جس میں ان خطوط کی اہمیت پر ان کے اقتباس اور صاحب مکتوب کے شناخت نامہ کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے، ان مضامین میں ڈاکٹر منظر اعجاز نے اپنے مطالعہ اور مکتوب نگار سے اپنی واقفیت کا ذکر اچھے انداز اور عمدہ پیرایہ میں کیا ہے، تین سو بیس صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت چار سو نوے روپے ہے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کے ذریعہ چھپی اس کتاب کی طباعت روشن پرنٹرس دہلی میں ہوئی ہے، بک امپوریم اور پرویز ہاؤس سبزی باغ پٹنہ سے اسے حاصل کیا جا سکتا ہے، کتاب کا انتساب سید حسیب الرحمن ریٹائڑ جوائنٹ ڈائرکٹر ایگری کلچر، بہار کی نیک اطوار اورپُروقار شخصیت اور ان کی اہلیہ عشرت باجی مرحومہ کی نرم گداز یادوں کے نام ہے، کتاب کے شروع میں پروفیسر نجم الہدیٰ صاحب کا مقدمہ ”میری نظر میں پروفیسر ڈاکٹر منظر اعجاز شخصیات وانتقادیات کے خصوصی حوالہ سے“ ہے، پیش لفظ پروفیسر خورشید سمیع نے لکھا ہے اور حرفے چند خود ڈاکٹر منظر اعجاز کا ہے۔
ڈاکٹر منظر اعجاز جب کسی موضوع پر لکھتے ہیں تو اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور خلوص کے ساتھ تمام اہم فنی وادبی پہلوؤں سے بحث کرتے ہیں، اس کے نتیجے میں ان کی تحریر طویل ہوجاتی ہے اور شاید ہی کبھی کسی سمینار میں پوری تحریر پڑھنے کی نوبت آتی ہے، ڈاکٹر منظر اعجاز کو خود اس کا احساس ہے، وہاب اشرفی کے حوالہ سے انہوں نے خود ہی لکھا کہ”وہ میری تحریر وتقریر کی طوالت سے اکثر الجھن محسوس کرنے لگتے تھے... کئی بار تو ایسا ہوا کہ میری طوالت پر مجھے ٹوکا بھی اور روکا بھی، اور بعض دفعہ مجلس یاراں اور بزم ادب نگاراں میں شفقت ومحبت کے ساتھ میری سر زنش بھی کی“۔لیکن وہ علامہ شبلی کی طرح یہ نہیں کہتے کہ ”مجھے مختصر لکھنے کی فرصت نہیں ملی“۔
ڈاکٹر منظر اعجاز جو کچھ لکھتے ہیں اس میں تحقیق وتنقید کا عنصر غالب ہوتا ہے، البتہ وہ اس کو فلسفیانہ رنگ وآہنگ دینے کے بجائے سادہ، سلیس اور رواں رکھنا پسند کرتے ہیں، حالانکہ ان کے چہرے کو دیکھیے اور پڑھیے تو وہ پورے فلسفی نظر آتے ہیں، لیکن تحریر میں کہیں بھی یہ عنصر غالب نہیں ہوتا، ادب وشاعری پر بحث کرتے ہوئے وہ ادب کے مروجہ خانوں جدیدیت، ما بعد جدیدیت، ترقی پسندی وغیرہ اصطلاح سے بھی گریز کرتے ہیں،گو بعض الفاظ کے اردو بنانے کے چکر میں ان کی اصطلاح بوجھل بھی ہوجاتی ہے، جیسے موبائل جیسے چھوٹے لفظ کے لیے فارسی نما ترکیب ”آلہ سماعت اصوات بعیدہ“جب لکھتے ہیں تو قاری کے ذہن ودماغ پر ایک بوجھ محسوس ہوتا ہے۔
 کتاب کا نام شخصیات وانتقادیات دو جزء پر مبنی ہے، شخص کی جمع شخصیات عام طور پر مستعمل ہے، البتہ انتقادیات تنقید اور نقد کے معنی میں عربی زبان وادب کے واقفین کے لیے گراں بار ہے، کیوں کہ عربی میں مصدر کی جمع نہیں آتی ہے، انتقادباب افتعال کا مصدر ہے، اور اس کی جمع لائی گئی ہے، جو غیر مستعمل ہے، مجھے معلوم ہے کہ انتقادیات کے نام سے پہلے بھی کئی کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں نیاز فتح پوری، مقصودحنفی کی تنقیدی ولسانیاتی انتقادیات انہیں کی ادبی انتقادیات، سید تالیف حیدر کی خواجہ میر درد حیات وانتقادیات، احمد سہیل کی تاریخ کاری کا ساختیاتی مخاطبہ اور انتقادیات، ڈاکٹر ہلال نقوی کی انتقادیاتِ جوش، خاص طور پر قابل ذکر ہیں، یہ معاملہ خالص لسانیات کا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ الفاظ کی تشکیل وترتیب نیز ساخت میں خاندان السنہ کی رعایت ضروری ہے ورنہ الفاظ کا روٹ (Rout)ہی کہیں گم ہو کر رہ جائے گا۔
 ڈاکٹر منظر اعجاز بڑے ادیب، شاعر اور نقاد ہیں، ان کا مطالعہ وسیع ہے، انتقادیات پر بات چل پڑی تو یہ چند جملے لکھا گئے، اور یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ یہ لفظ بہت پہلے سے رائج ہے اور ادباء وشعراء اس کا استعمال کرتے ہوئے آئے ہیں۔
 ڈاکٹر منظر اعجاز کی یہ کتاب شخصیات اور ان کے ادبی شہ پاروں کوجانچنے اور پرکھنے کے سلسلے میں انتہائی مفید ہے، کیوں کہ بقول پروفیسر نجم الہدیٰ ”وہ لکھنے کے لیے جب کسی موضوع کا انتخاب کرتے ہیں تو پہلے اس کے متعلق ممکنہ حد تک تمام دستیاب مواد تک رسائی کی کوشش ضرور کرتے ہیں، گہرے مطالعہ اور اپنے حاصل کردہ مفصل معلومات کے بعد ہی قلم اٹھاتے ہیں، انتقادیات میں انصاف سے کام لیتے ہیں اور راست بازی کو مشعل راہ بناتے ہیں، ان کی تنقید کبھی تقابلی ہوتی ہے اور کبھی تجزیاتی، تقابل میں وہ کسی کو گھٹاتے بڑھاتے نہیں ہیں، مختصر یہ کہ مختلف اوقات میں لکھے گئے ان کے تاثراتی، تنقیدی اور تجزیاتی مضامین کا یہ مجموعہ اس لائق ہے کہ لائبریریوں کی زینت بنے اور اردو کا ہر قاری بقدر ظرف اس سے استفادہ کرے، خورشید سمیع صاحب کی رائے ہے کہ اسے نصاب میں شامل کرنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے۔

رمضان کیوں؟(طلبہ و طالبات کے لیے)کامران غنی صبا، صدر شعبہ اردو نیتیشور کالج، مظفرپور

رمضان کیوں؟(طلبہ و طالبات کے لیے)
کامران غنی صبا، صدر شعبہ اردو نیتیشور کالج، مظفرپور 
Urduduniyanews72
رمضان کی آمد آمد ہے۔ اکثر کسی خاص یوم(Day) یا تیوہار کے موقع پر طلبہ و طالبات اُس خاص دن کے تعلق سے جاننے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اسی نقطۂ نظر سے یہ مضمون قلم بند کیا جا رہا ہے۔
رمضان کے معنی:
 رمضان کا مادہ ’رَمَضَ‘ ہے جس کا مطلب ’سورج کا شدت کے ساتھ ریت پر چمکنا ‘ہے۔اس مہینہ کو رمضان کا نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ جب اس مہینہ کا نام رکھا گیا اُس وقت شدید گرمی کا موسم تھا۔ (مجمع البحرین: جلد 2،صفحہ:223)
روزہ کا مقصد:
 اسلام کے تمام احکامات و عبادات کا اولین مقصد انسان کے اندر ’تقویٰ‘ کی صفت پیدا کرنا ہے۔ البتہ اسلامی احکامات و عبادات میں اتنی حکمتیں پوشیدہ ہیں کہ انہیں سمجھنے میں بعض دفعہ صدیاں گزر جاتی ہیں۔ روزہ کے تعلق سے ارشاد باری تعالی ہے:
 ترجمہ: ائے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی(پرہیز)گار بن جائو۔‘‘(البقرہ183)
 تقویٰ کیا ہے:
 تقوی کی تعریف خود قرآن کریم میں ہی موجود ہے۔ اختصار میں سورۃ البقرہ کی ہی ابتدائی آیات سے ’تقویٰ‘ کا مطلب سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ترجمہ: اس کتاب میں کوئی شک نہیں۔ متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔ جو بغیر دیکھئے ہوئے ایمان لاتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔(سورۃ البقرۃ ۔ آیت 2-3)
 اس آیت کی رو سے متقیوں کی تین صفتیں بتائی گئی ہیں:
  (1)  غیب پر ایمان لانا: آیت کے اس حصہ کے تعلق ’عقیدہ ‘ سے ہے۔ یعنی بغیر کسی چون و چرا کے اللہ کو،اس کے فرشتوں کو ،اس کی کتابوں کو، اس کے رسولوں کو ، اللہ کی طرف سے لکھی گئی تقدیر کو اورموت کے بعد کی زندگی کومان لینا۔ 
 (2) نماز قائم کرنا: آیت کے اس حصہ کا تعلق ’عبادات ‘ سے ہے۔ یعنی اللہ کی رضا اور اس کی خوشونودی کے لیے اپنا سرِ نیاز اس کے احکامات کے آگے جھکا دینا۔
 (3) اللہ کی طرف سے عطا کردہ رزق سے خرچ کرنا: آیت کے اس حصہ کا تعلق ’معاملات‘ یعنی Social Values سے ہے۔ یعنی بندگانِ خدا کے ساتھ کس طرح پیش آیا جائے؟ غریب، مسکین اور پریشان حال بندوں کے دکھ درد میں کس طرح شامل ہوا جائے۔
 اب ہم پھر سے اُس آیت کی طرف چلتے ہیں جس میں روزہ کی غرض و غایت ’تقویٰ‘ بتائی گئی تھی۔ : ائے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی(پرہیز)گار بن جائو۔‘‘(البقرہ183)۔ 
 اس آیت اور سورۃ البقر ۃ کی ابتدائی دو آیات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ روزہ کا مقصدہمارے ایمان (عقیدہ ) کو مضبوط کرنا، عبادات کی رغبت پیدا کرنا اور سماجی زندگی کو خدا کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق گزانے کے لیے تیار کرنا ہے۔
 آئیے روزہ کے ان تینوں مقاصد کو مزید گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
 ایمان کی مضبوطی: بغیر دیکھے اورچون و چرا کیے بغیر اللہ کو اس کے تمام اختیارات اور حکمتوں کے ساتھ مان لینا ہی اصل ایمان ہے۔ انسان خواہ علم کی کتنی ہی اعلیٰ و ارفع منزلوں تک کیوں نہ پہنچ جائے، اللہ کی تمام حکمتوں کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ہماری بہتری اسی میں ہے کہ اللہ کے تمام احکامات کوپہلے تو بغیر کسی دلیل اور توجیح کے قبول کر لیں، پھر اپنے علم اور عقل کے مطابق ان احکامات کے اندر پوشیدہ مصلحتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ روزہ کے تعلق سے جدید سائنس نے جتنے حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں، انہیں آج سے کچھ سال قبل تک سمجھ پانا ممکن نہیں تھا۔ طبی نقطۂ نظر (Medical Pont of View) سے روزہ کتنا مفید ہے، اسے سمجھنا ہے تو ’’یوٹیوب‘‘ پر غیر ملکی ڈاکٹروں کے کئی ویڈیوز دیکھے جا سکتے ہیں۔ امریکی ڈاکٹر پائول براگ(Paul C Bragg)(پیدائش 1895، وفات:1976) نے اپنی کتاب The Miracle of Fasting میں روزے کے جسمانی، ذہنی اور روحانی فوائدپر انتہائی تفصیل اور سائنسی استدال کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ طوالت کے پیش نظر مثال سے گریز کر رہا ہوں۔ پائول براگ نے اسی کتاب میں گاندھی جی کی تحریک کا تجزیہ کرتے ہوئے گاندھی جی کا ایک قول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اُن کی کامیابی کا اصل راز ’ورت‘ یعنی روزہ میں ہی مضمر تھا۔گاندھی جی کا قول نقل کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
All the vitality and energy I have comes to me,because my body is purified by fasting.– Gandhi
 مصنف نے اس کے علاوہ بھی کئی بڑی اور کامیاب ترین شخصیات کی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ تاریخ کی بیشتر بڑی شخصیات کی کامیابی کا اصل راز اس نکتے میں پوشیدہ ہے کہ انہوں نے اپنی بھوک پر قابو رکھا۔
 عبادات کی رغبت: ایمان لانے کے بعد اسلام کا دوسرا بڑا تقاضا اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت ہے۔ عبادت جسم کے چند اشاروں اور رسومات کا نام نہیں ہے۔ عبادت ’’عبد‘‘ سے مشتق ہے۔ جس کے معنی آخری درجے کی عاجزی و انکساری ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ’عبادت‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 ’’عربی زبان میں عبودۃ، عبودیہ اور عبدیہ کے اصلی معنی خضوع اور تذلل کے ہیں۔یعنی تابع ہو جانا، رام ہو جانا، کسی کے سامنے اس طرح سپر ڈال دینا کہ اس کے مقابلہ میں کوئی مزاحمت یا انحراف و سرتابی نہ ہو، اور وہ اپنے منشا کے مطابق جس طرح چاہے خدمت لے ۔‘‘(قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات)
 رمضان در اصل تربیت (Training) کا مہینہ ہے۔ اسی لیے اس مہینہ میں کثرت سے عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔عبادت کا مطلب عام طور سے نماز، روزہ، حج ، زکوٰۃ و، جہاد غیرہ سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ عبادت کا مفہوم بہت ہی وسیع ہے۔ پیارے نبیﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:
 جس مسلمان نے بھی درخت لگایا یا کھیتی کی پھر اس درخت یا کھیتی سے چڑیا یا انسان یا جانور کھائے تو یہ ضرور اس کی طرف سے ’صدقہ ‘ہوگا۔
 آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ:مسکین اوربیوہ کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والے کا مرتبہ خداکی راہ میں جہاد کرنے والے، روزہ دار اوررات میں نماز پڑھنے والے کے برابر ہے۔
 ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ میں تم کو نفل روزہ و نماز اور صدقہ سے بھی بڑھ کردرجہ کی چیز نہ بتاؤں۔صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ضرور ارشاد فرمائیں۔ آپ نے کہا : وہ ہے آپس کے تعلقات کا درست کرنا۔
 سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات میں چونکہ اختصار کے ساتھ ایمان کی تین بنیادی علامتیں بتائی گئی ہیں۔ اس لیے عبادات کا ذکر کرتے ہوئے ’ام العبادات‘ نماز کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں بھی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ نماز دن بھر میں پانچ بار فرض ہیں۔ یعنی دن بھر میں کم از کم پانچ بار ہمیں اپنی بندگی اور عاجزی کا ثبوت پیش کرنا ہے۔ نماز کے علاوہ اور کوئی ایسی عبادت نہیں ہے جس کے لیے اس طرح وقت متعین ہے۔ زکوٰۃ کبھی بھی دی جاسکتی ہے۔ خدمت خلق کے لیے بھی کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ اسی طرح دوسری عبادات بھی ہم اپنی سہولت اور سامنے والے کی ضرورت کے مطابق کسی بھی وقت انجا م دے سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگ صدقہ خیرات کرنے اور سماجی و فلاحی کاموں میں تو پیش پیش رہتے ہیں لیکن نماز کے معاملہ میں ان کے یہاں وہ اہتمام نہیں پایا جاتا جس کا تقاضا قرآن اور احادیث مبارکہ میں بار بار کیا گیا ہے۔ شادی بیاہ اور تقریبات کے موقع پر، کالج اور یونیورسٹیوں میں، دفتر میں، دورانِ سفر نماز کا قضا کر دینا یا چھوڑ دینا ، ہماری تساہلی کو ظاہر کرتا ہے۔ 
 سماجی زندگی میں خدائی احکامات پر عمل آوری: تقویٰ کا تیسرا بڑا تقاضا سماجی زندگی میں خدائی احکامات پر عمل آوری ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ وہ صرف ہم سے عبادات کا ہی تقاضا نہیں کرتا بلکہ معاشرے میں رہتے ہوئے، معاشرے کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ روزہ میں ایک بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ روزہ کی حالت میں بھوکے پیاسے رہ کر ہمیں اپنے معاشرے میں رہنے والے ایسے بے شمار لوگوں کی حالت کا اندازہ ہوتا ہے جو غربت و افلاس کی وجہ سے کئی کئی وقت بھوکے رہتے ہیں۔ ہم اخبارات ، ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا پر غربت و افلاس کی وجہ سے خود کشی کی خبریں دیکھتے ہیں۔ کئی علاقوں کی سروے رپورٹ دیکھ کر افسوس کا اظہار کرتے ہیں لیکن ہم اس کیفیت کا اندازہ اسی وقت صحیح طور پر کر سکتے ہیں جب ہم خود اس حالت سے گزر کر دیکھیں۔ روزہ کی حالت میں کئی گھنٹوں تک بھوکے پیاسے رہ کر ہمیں یہ احساس بخوبی ہو جاتا ہے کہ بھوک و پیاس ہی وہ بنیادی عوامل ہیں جو ہمارے معاشرے میں جرائم کو جنم دیتے ہیں۔
رمضان کے اثرات کو دیگر مہینوں میں کیسے قائم رکھیں:
 جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ رمضان دراصل تربیت(Training) کا مہینہ ہے ۔ یہ تربیت اسی وقت کامیاب سمجھی جا سکتی ہے کہ رمضان کے بعد دیگر مہینوں میں بھی اس کے اثرات ہماری زندگی میں نظر آئیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ رمضان کی ٹریننگ کے اثرات ہمیشہ ہماری زندگی میں قائم رہیں تو ان چند نکات کو پیش نظر رکھا جا سکتا ہے:
 ٭ دورانِ رمضان ہمیشہ یہ خیال رکھا جائے کہ ہم تربیت کے مرحلے سے گزر رہے ہیں اور رمضان میں کی گئیں عبادات اور اعمال کو بعد کے مہینوں میں بھی قائم رکھنا ہے۔ 
 ٭ جس طرح رمضان کے مہینہ میں کالج، یونیورسٹی، کوچنگ اور ملازمت(Job) میں رہتے ہوئے بھی ہم نے نماز اور خاص طور سے باجماعت نماز کے لیے وقت نکالے تھے، رمضان کے بعد بھی جہاں تک ممکن ہو سکے نماز باجماعت کا اہتمام کیا جائے۔
 ٭ رمضان کے بعد بھی تلاوت قرآن کا اہتمام کیا جائے۔ کوشش کریں کہ روزانہ کم سے کم ایک رکوع ہی سہی ترجمہ کے ساتھ پڑھا جائے۔ ترجمہ کا انتخاب آپ اپنی پسند اور سہولت کے مطابق کر سکتے ہیں۔ 
 ٭ کم از کم ہر مہینہ میں ایک دن روزہ رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے لیے اتوار یا چھٹی کا دن منتخب کیا جا سکتا ہے۔ اگر گرمیوں کے دنوں میں روزہ رکھنا دشوار معلوم ہو تو سردی کے موسم میں ایک دو روزے رکھے جا سکتے ہیں۔
 ٭ ہفتہ میں کم سے کم ایک دن کسی ایک وقت کسی غریب پڑوسی کی دعوت کی جائے، اگر یہ ممکن نہ ہووالدین کی اجازت سے کسی غریب کے گھر کھانا پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔
 ٭بھوک صرف کھانے کی ہی نہیں ہوتی۔ بہت سے ذہین بچے والدین کی معاشی حالت (Economical Condition) ٹھیک نہیں ہونے کی وجہ سے اپنا تعلیمی سفر بیچ میں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے بچوں کی تعلیمی کفالت یقینا ایک طالب علم تو نہیں کر سکتا۔ آپ اس بات کا خیال رکھ سکتے ہیں کہ آپ کی جماعت میں اگر کوئی طالب علم معاشی تنگی کا شکار ہے۔ اس کے پاس ضرورت کی کتابیں، نوٹس، کاپیاں وغیرہ نہیں ہیں، تو آپ دوستوں کی مدد سے اُس کی مدد کرنے کی کوشش کریں۔
 ٭ رمضان کے علاوہ عام دنوں میں بھی قیام الیل (رات میں اٹھ کر نفل نماز پڑھنا) کی کوشش کریں۔ شروع میں آپ اس طرح کر سکتے ہیں کہ جس دن نصف رات میں کسی ضرورت کے تحت آپ کی آنکھ کھل جائے تو اسی وقت وضو کر کے کم سے کم دو رکعت نفل نماز ضرور پڑھیں۔
 ٭ جس طرح رمضان میں آپ کی زندگی ایک اصول اور Routine کے مطابق گزر رہی تھی، عام دنوں میں بھی اپنے وقت کا صحیح استعمال کرنے کی کوشش کیجیے۔

رمضان المبارک کی فضیلت قرآن و حدیث کی روشنی میں۔محمد ضیاء العظیم قاسمی ،پھلواری شریف پٹنہ

رمضان المبارک کی فضیلت قرآن و حدیث کی روشنی میں۔
Urduduniyanews72
محمد ضیاء العظیم قاسمی ،پھلواری شریف پٹنہ 
موبائل نمبر 7909098319 

اللہ رب العزت نے مسلمانوں پر رمضان المبارک کا روزہ فرض کیا ہے ۔اور روزہ نام ہے صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے رک جانے کا۔
روزہ ارکان اسلام کا ایک رکن ہے،  رمضان المبارک اسلامی سال کا  نواں مہینہ ہے اس ماہ کی فضیلت واہمیت، افضلیت و برتریت دیگر ماہ سے بڑھے ہوئے ہیں ۔کیوں کہ یہ ماہ اپنے اندر کئ اہم تاریخ رکھتا ہے اور سب سے بڑی تاریخ وفضیلت یہ ہے کہ اسی ماہ میں کلام اللہ کا نزول ہوا جس کی شہادت خود قرآن مجید نے دی ہے 

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ
ترجمہ : رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں (پر مشتمل ہے۔) 
اللہ رب العزت نے روزے کی فرضیت کے وجوہات بھی خود قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا 

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
ترجمہ:
اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم متقی (پرہیز گار) بن جاؤ۔
اللہ رب العزت نے انسانوں کو اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازا اور دنیا کی تمام چیزیں اس کے تابع کیا ہے ،انسان اگر اپنا تخلیقی پس منظر پر غور وفکر کرے تو اسے اس بات کا اندازہ ہوگا کہ خداوند قدوس نے اس کی تخلیق کیوں فرمائ ہے تو اسے واضح طور پر یہ معلوم ہوگا کہ اللہ رب العزت نےانسانوں سے بندگی کا تقاضہ فرماتے ہیں تاکہ انسان کو بڑے انعامات واکرامات سے نواز کر اسے اعزازات بخشے، یقیناً اللہ کی ذات انسانوں پر بے پناہ احسانات فرمائے ہیں، انسانوں کے تابع دنیا کے دیگر خلائق کو بنایا، انسانوں کی تمام ضروریات کی تکمیل فرمائ، اس کی بناوٹ اور تخلیقی اعتبار سے دنیا کو پیدا فرمایا، انسانوں کے جذبات واحساسات کا بھر پور خیال رکھتے ہوئے اسے آداب زندگی بندگی سکھائی ۔انسانوں کے اوپر کوئی ایسے احکامات پابندیاں عائد نہیں فرمائی جس کا انسان متحمل نہ ہو، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے,,, لا یکلف اللہ نفسا إلا وسعها،،، کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ احکامات نازل نہیں کئے گئے ہیں ۔
اللہ رب العزت کا شکر واحسان ہے کہ اس نے انسانوں پر نعمتوں کے انبار لگا دیئے ہیں جس کا شمار انسان کرہی نہیں سکتا،،، وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا،،، اگر اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار کر ہی نہیں سکتے، 
,, فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ،، تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے، 
انہیں نعمتوں میں سے ایک نعمت رمضان المبارک بھی ہے، 
یہ ماہ اپنی عظمتوں اور برکتوں کے  لحاظ سے  دیگر مہینوں سے   ممتاز  ہے ۔
ماہ رمضان المبارک کے روزے سے انسان کے اندر تقوی اور خوف الہی پیدا ہو، تقوی اور خوف خدا نام ہی ہے اللہ کے بنائے ہوئے قوانین واحکامات کے دائرے میں رہ کر زندگی گزارنا، اور قوانین الہی یہ فطری قوانین ہے، اسی میں انسانی فلاح وترقی ہے، اور یہی تقاضۂ بندگی اور مقاصد زندگی ہے ۔
ماہ رمضان میں  اللہ تعالی  جنت  کے دروازے کھول  دیتا ہے  او رجہنم   کے دروازے  بند کردیتا ہے  اور شیطان  کوجکڑ دیتا ہے تاکہ  وہ  اللہ کے بندے کو اس طرح گمراہ  نہ کرسکے  جس  طرح عام دنوں میں کرتا  ہے، اور یہ ایک ایسا  مہینہ ہے  جس میں اللہ تعالی خصوصی طور پر اپنے  بندوں کی مغفرت کرتا ہے اور  سب  سے زیاد ہ  اپنے بندوں کو  جہنم  سے آزادی کا انعام  عطا کرتا ہے۔رمضان المبارک کے  روزے رکھنا اسلام کےبنیادی ارکان میں سے ہے  نبی کریم ﷺ نے ماہ رمضان اور اس میں کی  جانے والی عبادات  ( روزہ ،قیام  ، تلاوت قرآن ،صدقہ خیرات ،اعتکاف ،عبادت  لیلۃ القدر وغیرہ )کی  بڑی فضیلت بیان کی   ہے ۔روزہ کی دوسرے فرائض سے  یک گونہ فضیلت کا ندازہ اللہ تعالٰی کےاس فرمان ہوتا ہے’’ الصیام لی وانا اجزء بہ‘‘ یعنی روزہ خالص میرے  لیے  ہےاور میں خود ہی اس بدلہ دوں گا۔
اللہ رب العزت اپنے بندوں کو کبھی پریشانیوں دشواریوں میں نہیں ڈالتے، بلکہ اس کے لئے سہولیات فراہم کرتے ہیں,, یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘، اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ سہولت آسانی چاہتے ہیں تمہیں دشواریوں میں نہیں ڈالتے ہیں، رمضان المبارک کے روزے بظاہر تو دشوار نظر آتے ہیں کیوں کہ انسان بھوکے پیاسے رہ کر ایک ماہ گزارتا ہے مگر اس کے نتائج ہر محاذ پر بہتر ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے"صوموا تصحوا" روزہ رکھو صحت مند رہو گے، انسان پورے سال کھاتا پیتا ہے لیکن ایک ماہ بھوکے رہنے سے جسمانی توانائی گھٹتی نہیں بلکہ بڑھتی ہے، شرعی لحاظ سے ہو یا طبی لحاذ سے نتائج مثبت ہی ہیں اس کے۔
روزہ کے ذریعہ تحمل برداشت، صبر، شکر خداوندی ،تقاضۂ بندگی ،سلیقۂ زندگی، یہ تمام اوصاف پیدا ہوتے ہیں، روزہ داروں کے لئے بہت سی خوشخبریاں نص قرآنی وأحاديث میں وارد ہو چکے ہیں، اسی طرح اس کا اکرام احترام نہ کرنے والوں کے سلسلے میں بہت سی وعیدیں آئی ہیں،
رمضان المبارک ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ ہم احکامات خداوندی کو ہرگز نہ توڑیں ،اس کے پیغامات اس کے احکامات، اس کی بندگی کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ سمجھیں، رمضان المبارک کا مہینہ اللہ رب العزت کو راضی کرنے کا بڑا باوثوق ذریعہ ہے،
رمضان المبارک کی ہی ایک بابرکت شب میں آسمانِ دنیا پر پورے قرآن کا نزول ہوا لہٰذا اس رات کو اﷲ رب العزت نے تمام راتوں پر فضیلت عطا فرمائی اور اسے شبِ قدر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ
القدر، 97 : 3
’’شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، 

رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت اور فیوض و برکات کے باب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِيْنُ.

بخاری، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب صفة إبليس و جنوده، 3 : 1194، رقم : 3103
’’جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔‘‘

رمضان المبارک کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارک سے لگایا جا سکتا ہے۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّإِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّم مِنْ ذَنْبِهِ.

 بخاری، الصحيح، کتاب الصلاة التراويح، باب فضل ليلة القدر، 2 : 709، رقم : 1910

’’جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
رمضان المبارک کی ایک ایک ساعت اس قدر برکتوں اور سعادتوں کی حامل ہیں کہ باقی گیارہ ماہ مل کر بھی اس ماہ کی برابری و ہم سری نہیں کر سکتے۔
الحاصل رمضان المبارک کا یہی پیغام اور تقاضہ ہے کہ ہم صرف رمضان میں ہی اللہ کی بندگی کے تقاضے پورے نہ کریں بلکہ جب تک ہماری زندگی کی ایک ایک سانس ہے وہ سب بندگی کے ساتھ چلے، کیوں کہ یہی باتیں اللہ نے انسانوں سے تقاضے کرتے ہوئے اس کی تخلیق فرمائ اور اسے ہر طرح کی نعمتوں سے آسودہ کیا ۔

اردو صحافت کا فن و ارتقائی سفرمحمد ضیا ء العظیم (پھلواری شریف ،پٹنہ

اردو صحافت کا فن و ارتقائی سفر
Urduduniyanews72
محمد ضیا ء العظیم (پھلواری شریف ،پٹنہ)
موبائل نمبر 7909098319 

صحافت عربی زبان کا لفظ ہے ۔ جو لفظ صحیفہ سے مشتق ہے ۔ صحافت کا مترادف لفظ Journalism ہے ۔ جس کا ماخذ لاطینی لفظ Diumal ہے ۔ صحافت کو ابتداء ہی سے اطلاع رسانی کے ساتھ ساتھ معاشرتی بیداری کا سب سے موَثر وسیلہ تصور کیا جاتا ہے ۔ اردو صحافت کا جنم اردو شاعری کی طرح فارسی صحافت کی کوکھ سے ہوا ۔ ہندوستان میں فارسی زبان کے اخبارات مغل حکومت کے سنہری دور میں جاری ہوئے ۔ لیکن یہ فارسی اخبارات بھی فارسی شاعری کی طرح عام ہندوستانی معاشرے سے لاتعلق تھے فارسی اخبار تک صرف طبقہ اشرافیہ کی دسترس تھی ۔ علامہ عتیق صدیقی کی مشہور کتاب ’’فوزی‘‘کے حوالے سے گروبچن چندن نے اپنے ایک مضمون میں مغلیہ اخبار کے متعلق گفتگو کی ہے:

’’اورنگ زیب عالمگیر ر ح کے زمانے میں شاہی محل کے لیے روزانہ ایک اخبار شاءع کیا جاتا تھا ۔ یہ اخبار آج کی طرح چاندنی چوک میں آواز لگا کر بیچا نہیں جاتا تھا ۔ مزید ان کے پیش رومغل بادشاہوں کے وقت میں بھی ایک اخبار شاہی محل کے لیے جاری ہوتا تھا ۔ اور اسکی نقلیں دور دراز کے علاقوں کے امرا وغیرہ کو بھیجی جاتی تھیں ۔ مغل عہد کے کئی سو اخبارات لندن کے رائل ایشیا ٹک سوساءٹی کی لائبریری میں محفوظ ہیں ۔ ‘‘(اردو صحافت ماضی اور حال ۔ از خالد محمودو سرور الہدی ص ۱۶۴ ۔ )

صحافت کو سماجی تبدیلی کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے میں اس کے رول کو اساسی سمجھا جاتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ آزادی وطن سے قبل کے متعدد سماجی مصلحتوں ،سیاسی لیڈروں ،مفکروں ،دانشوروں نے فرسودہ معاشرتی رسوم کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کرنے اور غیر ملکی تسلط کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے اخبار و جرائدکو ہی وسیلہ بنایا اور اخبارات نکالے اور اسی کے ذریعہ صدائے حق بلند کیں ۔ ہندوستان کی تحریک آزادی میں صحافت کا کردار تاریخی رہا ہے،یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صحافت نے آزادی دلانے میں بنیادی رول ادا کیا ۔ صحافت کی آزادی میں کی گئی خدمات کو دیکھتے ہوئے بلامبالغہ یہ کہا جا سکتا ہیں کہ اردو صحافت نہ ہوتی تو شاید ہندوستان کی آزادی کا کو سورج دیکھنا نصیب نہ ہوتا ۔ آزادی اور انقلاب کے جذبے کو بیدا ر کرنے میں اردو صحافت کا اہم رول رہا ہے ۔ ساتھ ہی اردو زبان و ادب کو فروغ دینے میں جوخدمات صحافت نے انجام دی اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ آج کے عہد میں اردو زبان بہ ذریعہ صحافت عوام تک پہنچ رہی ہے او رسیع پیمانے پر خدمات انجام دے رہی ہے ۔

دنیا کے تمام فنون کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں ،صحافت کا فن بھی ایسا ہی ہے ۔ انسان جب سے دنیا میں سماجی زندگی بسر کررہا ہے ۔ خبروں کی ترسیل بھی اسی عہد سے جاری ہے ۔ ابتدا میں انسانی معلومات کی ترسیل کا کیا معیار تھا یہ اس عہد کے مذہبی صحیفوں سے بخوبی پتہ چلتا ہے ۔ جیسے جیسے انسان متمدن اور مہذب طرز معاشرت کی طرف بڑھتا رہا خبروں کی ترسیل کا مرحلہ بھی فنی لحاظ سے مستحکم بننے لگا ۔ اور دیگر علوم کی طرح اس کے بھی اپنے کچھ اصول و ضوابط تیار کیے گئے ۔ عہد جدید میں صحافت کو باقاعدہ ایک علمی فن تسلیم کیا گیا ہے ۔ آج زندگی کا شاید ہی کوئی گوشہ ہے جس میں اس کا عمل دخل نہ ہو ۔ ماہرین صحافت نے اس فن کو جدید خطوط پر دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ ہندوستان میں اس فن کو انگریزوں نے ترقی دی اور اسے کچھ قوانین کا پابند بھی بنایا ۔ حالانکہ آگے چل کر انگریزوں نے فن صحافت پر قدغن بھی لگائی لیکن گزرتے وقت کے ساتھ بحیثیت فن صحافت اور اس کا دامن وسیع سے وسیع تر ہوتا رہا ۔ اس ضمن میں محترم محمد شکیل و نادر علی خان ہندوستانی پریس کے حوالے سے لکھتے ہیں :

’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے وجود سے جہاں لامتناہی نقصانات کا سلسلہ شروع ہوا ۔ وہیں فنون طباعت و صحافت میں مفید اضافے بھی ہوئے چناچہ موجودہ صحافت کا سنگ بنیاد بھی اسی کا رہین منت ہے ۔ ‘‘ (اردو دنیا دسمبر ۲۰۱۵ ۔ ص ۔ ۲۱ ۔ )

اسی طرح صحافت کے سلسلے میں ذیل میں چند تعریفیں ملاحظہ فرمائیں ، جس سے صحافت کے ساتھ ساتھ اس کے فن کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ عبدالسلام خورشیدلکھتے ہیں :

’’صحیفے سے مراد مطبوعہ مواد ہے جو مقررہ وقفے کے بعد شاءع ہوتا ہے چنانچہ تمام اخبارات و رسائل صحیفے ہیں اور جولوگ اس کی ترتیب وتحسین اور تحریرسے وابستہ ہیں انھیں صحافی کہا جاتاہے اور ان کے پیشے کو صحافت کا نام دیا گیا ہے ۔ ‘‘(عبدالسلام خورشید ۔ فنِ صحافت، مکتبہ کاروان، لاہور)

اسی طرح ولیم ایل راءکرس لکھتا ہیں ’’عوام یا عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے ہر واقعہ کو خبر بنایا جا سکتاہے ۔ ‘‘

ویلم بروکس کے مطابق :’’جو واقعہ معمول سے ہٹ کر ہو وہ خبر ہے ۔ ‘‘جب کہ فریڈ مورس کے لفظوں میں ’’جو چیز ہماری زندگی کو فوراً متاثر کرنے والی یا اثر انداز ہونے والی ہو خبر ہے ۔ ‘‘

اسی طرح مشرقی مفکر ڈاکٹر عبدالسلام خورشید صحافت کے ضمن میں لکھتے ہیں :

’’صحافت ایک عظیم مشن ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو تازہ ترین خبروں سے آگاہ کیا جائے ۔ عصر حاضر کے واقعات کی تشریح کی جائے اور ان کا پس منظر واضح کیا جائے تاکہ رائے عامہ کی تشکیل کا راستہ صاف ہو ۔ صحافت رائے عامہ کی ترجمان اور عکاس بھی ہوتی ہے ۔ اور رائے عامہ کی رہنمائی کے فراءض بھی سر انجام دیتی ہے ۔ عوام کی خدمت اس کا مقصد فرض ہے ۔ اس لیے صحافت معاشرے کے ایک اہم ادارے کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ‘‘(بحوالہ : ابلاغیات ۔ ۔ از ڈاکٹر محمد شاہد حسین ص ۴۴ )

ان تعریفوں میں بیان کردہ موضوعات کے علاوہ بھی جنسیات،تشدداور معاشیات سے جڑی بد عنوانیاں ،علمی،ادبی شخصیات،کھیل اور فلم کے فنکاروں سے متعلق معلومات اور بیداری مہم سے متعلق موادبھی خبر کے دائرے میں آتے ہیں ۔ اس طرح خبر کی کوئی ایک جامع تعریف کرنی مشکل ہے ۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ:

صحافت یا خبر وہ ہے جو عوام کی زندگی سے جڑی ہوئی حقیقتوں سے عوام کو روشناس کرائے، کسی بھی واقعے، حادثے،سانحے، تشدد، ارضی و سماوی آفات یا اس سے متعلق پیشین گوئیاں ، اقتصادی سرگرمیاں ،سیاسی نشیب وفرازاور تفریحی مشاغل وغیرہ خبر کے دائرے میں آتے ہیں ۔ فن صحافت کی تفہیم کے لیے چند رسومیات فن صحافت درج ہیں ۔ (۱)خبروں کی حصولیابی کے تمام طریقہء کار سے با خبری(۲) ذراءع ابلاغ سے رشتہ (۳)خبروں کی تفہیم پر دسترس (۴) الیکٹرانیک میڈیا کا شعور(۵) زبان و بیان پر گرفت(۶) صحافتی کو حق گو ہونا چاہیے،(۷) بے باک بھی ہونا چاہیے(۸)، صحافی کا شعور انتہائی مستحکم اور پائدار ہونا چاہیے،(۹)صحافتی فرقہ پرستی سے پاک ہو(۰۱) کسی بھی گروہ بندی کا شکار نہ ہو ۔ وغیرہ یہی وہ عناصر ہیں جو کسی بھی صحافی کو صحافت کے میدان میں سرفراز اور کامیاب بناتے ہیں ۔

ہندوستان میں اردو صحافت کا باضابطہ آغاز سن ۱۸۲۲ سے ہوا ۔ جام جہاں نما‘‘ اردو کا اولین مطبوعہ اخبار ہے ۔ جو ۲۷ مارچ ۱۸۲۲ کو کلکتہ سے جاری ہوا ۔ اس اخبار کے ایڈیٹر منشی سداسکھ لعل اور مالک ہری ہر دت تھے ۔ یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا ۔ یہ اخبار فارسی ٹاءپ میں چھپتا تھا ۔ چوں کہ اْس وقت فارسی ٹاءپ کا ہی رواج تھا اس اخبار کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ یہ اردو کا پہلا اخبار تھا اور اسکے ایڈیٹر اور مالک غیر مسلم تھے ۔ جدو جہد آزادی ۱۸۵۷ سے قبل ہندوستان کے مختلف شہروں سے متعدد اردواخبارات جاری ہوچکے تھے ۔

اردو کے مشہور و معروف ادیب مولانامحمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نے ۱۸۳۶ میں جاری کیا تھا ۔ یہ اخبار اپنے عہد کی عکاسی کرتا تھا ۔ جدوجہد آزادی میں مولوی محمد باقر کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ اردو کے پہلے شہید صحافی کے طورپر آپک کوموسوم کیا جاتا ہے ۔ مولوی محمدباقر کا اپنا ایک چھاپا خانہ اور ایک بڑی لائبریری بھی تھی ۔ جو ۱۸۵۷ کی لڑائی میں تباہ ہوگئی ۔ لیکن ’’دلی اردو اخبار‘‘ نے ایک تاریخ ضرور ثبت کردی ۔ ہندستان کی تاریخ میں یہ عہد اردو اخبارات کا سنہرا دور بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس عہد میں ہندستان کے کونے کونے سے کئی اہم اخبارات و رسائل جاری ہوئے ،کئی اہم پریس کھلے جس کے سبب اردو زبان و ادب کو بھی فروغ ہوا،مثلا ۱۸۴۲ میں چنئی سے ’’جامع الاخبار‘‘ جاری ہوا ۔ اسے جنوبی ہند کا پہلا اردو اخبار تسلیم کیا جاتا ہے ۔ سید رحمت اللہ اس اخبار کے ایڈیٹر تھے ۔ یہ اخبار اپنے عہد کا دلچسپ مرقع اور دل کش ترجمان تھا ۔ اسی طرح ایک اور اہم خبار ۱۸۴۵ میں دہلی کالج سے ہفت روزہ ’’قرآن السعدین‘‘ جاری ہوا ۔ اس کے پہلے ایڈیٹر پنڈت دھرم نارائن بھاسکر تھے جو غیر معمولی صلاحیت کے مالک تھے ۔ اس اخبار میں سائنسی،ادبی اور سیاسی مضامین شاءع ہوتے ۔ علمی افادیت اور اردو مضامین کے تنوع کے اعتبار سے ہندوستان کے ممتاز اخبارات میں شمار ہوتا تھا ۔ اسی طرح اتر پردیش لکھنوَ کا پہلا اخبار’’لکھنوَاخبار‘‘ کے نام سے۱۸۴۷ میں جاری ہوا،جس کے ایڈیٹر لال جی تھے ۔ ۱۸۵۶ میں لکھنءو سے کئی اخبار ات جاری ہوئے ۔ رجب علی بیگ سرور کے دوست مولوی محمد یعقوب انصاری نے ’’اخبار طلسم لکھنو‘‘ جاری کیا ۔ اس کے علاوہ امیر مینائی اور رگھوویر پرشاد نے’’سحر سامری‘‘ اور عبد اللہ نے’’مخزن الاخبار‘‘جاری کیا ۔ میرٹھ سے ’’جام جمشیدی‘‘ جاری ہوا ۔ اس اخبار کے ایڈیٹر بابو شیو چندر ناتھ تھے ۔ اس سے قبل آگرہ سے ۱۸۴۶ میں ’’صدرالاخبار‘‘ جاری ہوا جسے آگرہ کا پہلا اردو اخبار تسلیم کیا جاتا ہے ۔ سن ۱۸۴۹ میں چنئی سے ایک اور اخبار ’’آفتاب عالم تاب‘‘ جاری ہوا ۔ اس کی خبروں کا حوالہ مشہور ریاضی داں ماسٹر رام چند ر کے اخبار ’’فوائد الناظرین‘‘ میں پایا جاتا ہے ۔ ۱۸۵۰ میں لاہور سے ’’کوہ نور‘‘ جاری ہوا ۔ اس اخبار کے ایڈیٹر منشی ہری سکھ رائے تھے ۔ ۱۸۶۶ میں ’’سائنٹفک سوساءٹی‘‘ کا اجرا عمل میں آیا ۔ جس کے روح رواں اور مرکز اور محور سرسید احمد خان تھے ۔ سن ۱۸۷۷ میں لکھنو سے ایک بڑا اخبار’’اودھ پنچ‘‘ منظر عام پر آیا ۔ اسے منشی سجاد حسین نے ’’لندن پنچ‘‘ کے طرز پر جاری کیا تھا ۔ یہ اخبار ۳۵ برس تک جاری رہا ۔ اردو عربی اور فارسی کی کتابوں کی طباعت میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے منشی نول کشور نے ۱۸۵۸ میں لکھنو سے ’’اودھ اخبار‘‘شروع کیا ۔ یہ اخبار پہلے ہفت روزہ تھا پھر یہ سہ روزہ ہوا اور ۱۸۷۷ میں یہ اخبار روزنامہ ہوگیا ۔ اپنے دور کا اردو کا یہ بہت بڑا اخبار تھا ۔ یہ پہلا اردو اخبار تھا جس کے رپورٹرمختلف صوبوں کی راجدھانیوں میں نمائندے رہے ۔ اردو کے نامور ادیب و شاعر اس اخبار سے وابستہ تھے ۔ آج بھی اس اخبار کی تحریریں بڑے ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں ۔ یہ اخبار کئی معنوں میں تاریخی اہمیت کا حامل ہے ،آج بھی اردو زبان و ادب کی تاریخ میں اس اخبار کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔

اردو صحافت کی تاریخ مولانا ابوالکلام آزاد کے ان اخبارات کے ذکر کے بنا ادھوری تسلیم کی جاتی ہے ۔ ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ یہ تاریخ ساز اخبارات تھے ۔ سن ۱۹۰۱ میں شیخ عبدالقادر نے لاہور سے ’’مخزن‘‘ جاری کیا ۔ اردو کے مشہور و معروف شاعر حسرت موہانی نے سن ۱۹۰۳ میں ’’اردوئے معلی‘‘ اخبار جاری کیا ۔ یہ ایک ادبی رسالہ تھا ۔ لیکن سیاسی موضوعات پر بھی اس میں مضامین شاءع ہوتے تھے ۔ سن ۱۹۰۸ میں خواتین کا رسالہ ’’عصمت‘‘دہلی سے جاری ہوا ۔ اس کے ایڈیٹر شیخ محمد اکرام اور پھر علامہ راشد الخیری رہے ۔ اردو کے ایک عظیم صحافی مولانا محمد علی جوہر نے ۱۹۱۲ میں دہلی سے ’’ہمدرد‘‘ اخبار جاری کیا ۔ یہ اخبار حکومت کا نکتہ چیں تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۱۵ میں یہ اخبار بند ہوگیا ۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد جاری ہوا ۔ ان کے علاوہ سینکڑوں اخبارات جاری ہوئے ۔ لیکن ان کی اشاعت،مالی وسائل اور قارئین کی کمی کے باعث بند ہوگئے ۔ لیکن بعض اخبارات مختلف مسائل کے باوجود آج بھی جاری ہیں اور قابل تحسین خدمات انجا م دے رہے ہیں ۔ اردو اخبارات کی ایک طویل تاریخ رہی ہے ۔ اردو صحافت نے معاشرے کو ایک خاص ڈگر پر لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آج بھی کررہے ہیں ۔ جس کا اعتراف ہ میں کھلے دل سے کرنا چاہیے ۔ اکیسویں صدی میں بھی یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے ۔ حالانکہ آج کے عہد میں بہت سی تبدیلیاں آچکی ہیں ،پہلے جیسا ماحول نہیں رہا لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اردو اخبارات بڑی تعداد میں آج بھی نکل رہے ہیں ،جن میں سیاسی ،سماجی ،معاشی ،معاشرتی موضوعات کے ساتھ ساتھ علمی وادبی ،مذہبی اور سنجیدہ موضوعات ہر بھی مضامین لکھے جارہے ہیں ۔ اردو صحافت کی تابناک تاریخ اور اس کے فن کا احاطہ ایک مختصر مضمون میں ممکن نہیں لیکن اس چھوٹی سی کوشش میں تمام اہم پہلووَں کو سمونے کی ان کا حاطہ کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے ۔ امید ہے میری کاوش آپ سب کو پسند آئے گی ۔

استفادہ کتب

(1)ابلاغیات ڈاکٹر شاہد حسین،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوَس ،دہلی ۔

(2)الیکٹرانک میڈیا میں ابھرتے رجحانات ڈاکٹر طارق اقبال صدیقی ۔

(3)عوامی ذراءع ترسیل ڈاکٹر اشفاق محمد خاں ۔

(4)میڈیا روپ او ربہروپ سہیل انجم ۔

(5)آئینہ خانے میں ، مطبوعہ، افکار، کراچی، دسمبر، 1963 ۔

(6)اردو صحافت نگاری ،اودھ نامہ ڈاٹ کام ۔

(7) ابلاغیات ۔ ۔ از ڈاکٹر محمد شاہد حسین ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوَس ،دہلی ۔

(8)فن صحافت ۔ از ڈاکٹر عبدالسلام خورشید ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوَس ،دہلی ۔

(9)اردو صحافت ماضی اور حال ۔ از خالد بجمحمودو سرور الہدی ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوَس ،دہلی ۔

(10)اردو صحافت مسائل اور امکانات ۔ از ڈاکٹر ہمایوں اشرف ۔

(11)اردو دنیا شمارا دسمبر۵۱۰۲ ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...