اردودنیانیوز۷۲
✍️ ہمایوں اقبال ندوی
( ارریہ ، بہار )
وطن عزیز میں حالیہ کچھ سالوں سے گھر واپسی کی تحریک زور پکڑنے لگی ہے، جگہ جگہ دھرم سنسد منعقد کرکے ملک کی دوسری بڑی اکثریت سے یہ کہا جارہا ہے کہ اپنے آباء واجداد کے پرانے دھرم میں لوٹ آو،ہندوستان کی قدیم تہذیب وثقافت کو اپنالو، تمہارے پوروج ہندو ہیں، باہر سے آکر مسلم راجاؤں نے تمہیں مسلمان بنایا ہے،اسلام مذہب یہاں کا نہیں ہے، سناتن دھرم قدیم ہے اور یہیں پیدا ہواہے،اسلام تو ابھی چودہ سو سال کی پیداوارہے، یہ ملک ہندوں کا ہے اور یہاں کا ہرناگرک ہندو ہے،یہ باتیں کہ کر کم علم مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش ہورہی ہے،مزید یہ کہ جہاں مسلمانوں کی چھوٹی آبادی ہےانہیں یہ کہ کرڈرایا اور دھمکایا بھی جارہا ہے،ساتھ ہی کم علم مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش ہوتی ہے، پیار ومحبت کے نام پر بھی مسلم لڑکیوں کو ارتداد کے جال میں پھانسنے کی بات ہوتی ہے، ان حالات میں خاموش رہنا یہ کوئی دانشمندی کی بات نہیں ہے،سامنے کنواں ہے اور اندھا اس میں گرنے جارہاہے،ایسے میں ایک بینا شخص کی خاموشی گناہ ہے
می بینی کـہ نابینـا و چاہ است
اگر خاموش بنشینی گناہ است
گزشتہ کل جمعیت علماء ہند کے ۳۴/ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب نے مختلف مذاہب کے دھرم گروں کے سامنے مذکورہ بالاسوالوں کا اطمینان بخش جواب دیدیاہے، حضرت نے بیباک انداز میں یہ کہا کہ دنیا کا سب سے پہلا انسان آدم ہیں، جنہیں آپ منو کہتے ہو، وہ ایک خدا کی عبادت کرتے تھے، ایک اوم کے بندہ تھےاوراسی کی بندگی کرتے، یہ پہلے پیغمبر بھی ہیں، اسی بھارت کی سرزمین میں اتارے گئے ہیں،آدم علیہ السلام ہمارے پوروج ہیں،سب سے قدیم مذہب توحید کا یے،شرک کا نہیں ہے،ہم اسی مذہب کے ماننے والے ہیں،دنیا کا سب سے قدیم مذہب بھی اسلام ہی ہے،
اب اگر گھر واپسی کی بات کرتے ہو،اپنے پوروج کے دین پر واپس آنے کی بات کرتے ہو، سب سے قدیم مذہب پر عمل پیرا ہونے کی بات کہتے ہو،تو ہم اپنے پوروج بابا آدم کی چرنوں میں ہیں، اپنے پوروج کی سرزمین پر ہیں،ان کے دین پر ہیں، سب سے قدیم دین کے ماننے والے ہیں، اب گھر واپسی کا مطلب اسی دین پر آنا ہوگا اور مذہب اسلام کا کلمہ پڑھنا ہوگا، "نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری رسول ہیں" _
یہ واقعی تاریخی خطاب ہے، حضرت امیر الہند مولانا ارشد مدنی صاحب نے اپنے عہدہ کے ساتھ انصاف کیا ہے اور ملت اسلامیہ ہند کو ایک نئے انداز میں گفتگو کرنے کا طریقہ تعلیم کیا ہے، دیکھنے میں ابتک یہی آتا رہا ہے کہ ان جیسے سوالات پر ہمارا انداز مدافعت کا ہوجاتا ہے، بار بار صفائی پیش کرنے کی نوبت آجاتی ہے، سامنے والا اسے کمزوری پر محمول کرتا ہے، اور اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتا ہے،حضرت نے اس موقع پر بھی ہمیں اقدام سکھایا ہے، اپنی چھوٹی سی تقریر میں انسانی آبادی کی پوری تاریخ سامنے کردی ہے،اور اسے دین اسلام کی دعوت کا سامان بھی بنادیا ہے _
شکر شـکوہ کو کیـا حسن ادا سے تونے
ہم سخن کردیا بندے کو خدا سے تونے