Powered By Blogger

جمعرات, فروری 02, 2023

تیری معراج کے تو لوح وقلم تک پہونچامفتی محمد ثناء الہدی قاسمی

تیری معراج کے تو لوح وقلم تک پہونچا
اُردو دنیا نیوز 72
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
طائف کی گلیوں سے اوباشوں کے پتھرکھا کھا کر ، لہولہان جسم اور رئیسوں کے طعن وتشنیع سن سن کر ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ لوٹتے ہوئے نبی ¿ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف باچشم نم دیکھا، اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوئے:الہی اپنی کمزوری ، بے سروسامانی اور لوگوں میں تحقیر کی بابت تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں ، تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا، درماندہ اور عاجزوں کا مالک تو ہی ہے اور میرا مالک بھی تو ہی ہے ، مجھے کس کے سپرد کیا جاتا ہے ۔کسی بیگانہ ترش رو کے یا اس دشمن کے جو کام پر قابو رکھتا ہے اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں تو مجھے اس کی پرواہ نہیں ، لیکن تیری عافیت میرے لئے زیادہ وسیع ہے ۔“
زبان مبارک سے یہ کلمات نکل رہے تھے اور ادھر ملاءاعلی میں ہلچل مچی ہوئی تھی کہ آج جو کچھ ہوا وہ چشم فلک نے کاہے کو دیکھا ہوگا، فرشتوں میں سرگوشیاں ہورہی ہیں کہ آخر جس کے صدقے میں کائنات بنی، اسے اور کتنے مظالم سہنے ہوں گے ، رب کائنات کو بھی اس کی فکر تھی، اس لئے خالق کائنات نے اس شکستہ دل کی دل جوئی کے لئے طائف سے واپسی کے بعد ایسا نسخہ تجویز کیا کہ عروج نسل انسانی کی انتہا ہوگئی ، زمان و مکان کے قیود وحدود اٹھالئے گئے ، تیز رفتار سواری براق فراہم کی گئی ، مسجداقصی میں سارے انبیاءکی امامت کرائی گئی ، اور پھر اس جگہ لے جایا گیا؛ جہاں جاتے ہوئے جبرئیل کے بھی پر جلتے ہیں ،پھر قربت خداوندی کی وہ منزل بھی؛ آئی جس کے بارے میں قرآن کریم نے فکان قاب قوسین اوادنی کہہ کرسکوت اختیار کرلی ، ساتوں آسمانوں کی سیر ، جنت و جہنم کا معائنہ، ابنیاءکی ملاقاتیں ، اور پھر واپسی، کتنے گھنٹے لگے ؟ کیا تیز رفتاری تھی؟ سب کچھ رات کے ایک حصے میں ہوگیا ، اور صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ ¿مبارکہ سے نکلے ، اور لوگوں میں اس واقعہ کا اعلان کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تصدیق کرکے صدیق ہوگئے اور کئی نے تکذیب کرکے اپنی عاقبت خراب کرلی ، اور منافقین کے دل کی کدورتیں اور ایمان واسلام سے ان کی دوری، کھل کرسامنے آگئی ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سفر میں، عالم قدس میں اپنی تمام قولی ، بدنی اور مالی عبادتوں کا نذرانہ پیش کیا ، اور اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسی سلامتی بھیجی، جومومنین کے نمازوں کا جز ہوگیا ، اللہ کے رسول ، اس اہم موقع سے اپنی امت کو کیسے بھول سکتے تھے ،فورا ہی اس سلامتی میں مومنین و صالحین کو شامل کرلیا اور اس پورے مکالمہ کا اختتام کلمہ ¿ شہادت پر ہوا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ۔تحفے نورانی اس سفر میں اور بھی ملے ، ایسے تحفے جس سے مومنین بھی معراج کا کیف وسرور پا سکتے ہیں یہ تحفہ نماز کا تھا ، پچاس وقت کی نماز تحفہ میں ملی، قربان جایئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ، جنہوں نے بار بار بھیج کر تعدادکم کرائی اور بات پانچ پر آکر ٹھہری ، ثواب پچاس کا باقی رہا ، اور سب سے بڑی بات یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ نماز مومنین کی معراج ہے ۔ہم واقعہ ¿ معراج پر سر دھنتے ہیں ، دھننا چاہئے ۔لیکن اس واقعہ کا جو عظیم تحفہ ہے اس سے ہماری غفلت بھی لائق توجہ ہے ، معراج کے واقعہ کا بیان، سیرت پاک کا اہم واقعہ ہے ، ہم اس کو سن کر خوب خوش ہوتے ہیں ، جلسے جلوس بھی منعقد کرتے ہیں اور اس خاص تحفہ نماز کو بھول جاتے ہیں جو ہمارے لئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ، اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ جہاں ہمیں کچھ کرنانہیں ہوتا، وہاں ہم بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ، اور جہاں کچھ کرنے کی بات آتی ہے ہم اپنی ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں اور ان سے پہلو تہی کرتے ہیں اگر ایسا نہ ہو توہماری مسجدیں نمازیوں سے بھری رہیں گی اور رحمت ونصرت کی وہ پرُوائی چلے گی جو مصائب والم کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی ۔یہ حال تو ہمارا معراج کے اس تحفہ کے ساتھ ہے جس کا ذکر معراج سے متعلق گفتگو میں بار بارآتا رہتا ہے ۔ لیکن قرآن نے تو”فَاَو ±حَی اِلیٰ عَب ±دِہِ مَا اَو ±حٰی“کہہ کر ہمیں بتایا کہ باتیں اور بھی ہیں اور سورہ اسریٰ ہی میں بارہ احکام کے ذکر کے بعد”ذَالِکَ مِمَّا اَو ±حَی اِلَی ±کَ رَبُّکَ مِنَ ال ±حِک ±مَةِ“(یہ تمام باتیں دانش مندی کی ان باتوں میں سے ہیں جو خدا نے آپ پر وحی کی ہیں) کہہ کر واضح کردیا کہ”مااوحی“ میں کیا کچھ تھا، آیئے ان احکامات پر بھی ہم ایک نظر ڈالتے چلیں ۔
۱۔ سب سے پہلا حکم یہ دیا گیا کہ شرک نہ کرو: کیوں کہ یہ بڑا ظلم ہے ، وہ اللہ جو اس سارے کائنات کا خالق اورمالک ہے اس کے ذات وصفات میں کسی کو شریک کرنا شرک ہے ، اللہ اس بارے میں اتنا غیور ہے کہ اس نے اعلان کردیا ہے کہ وہ اس گناہ کو معاف نہیں کرے گا۔ ”اِنَّ اللَّہَ لاَ یَغ ±فِرُاَن ± یُش ±رَکَ بِہِ وَیَغ ±فِرُمَا دُو ±نَ ذَالِکَ لِمَن ± یَشَائ۔“
۲۔ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو ان کی عزت واطاعت کرو ، اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو جھڑکنا تو بڑی بات ہے ، اف تک نہ کہو ، اور ان سے ادب سے باتیں کیا کرو ، اور ان کے سامنے اپنے کندھے عاجزی اور نیاز مندی کے ساتھ جھکا دو ، اور ان کے لئے دعا بھی کرتے رہو کہ اے رب ان پر رحم کر جیسا کہ انہوں نے مجھے صغر سنی میں پا لا۔واقعہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم ہے اور جس طرح اللہ کا شکر ضروری ہے ، اسی طرح والدین کا بھی شکرگذار ہونا چاہئے ، اس بارے میں احادیث بھری پڑی ہیں، لیکن ہم میں کتنے ہیں جو ان کا پاس و ادب قرآن کے مطلوب انداز میں کرتے ہیں حالانکہ مستدرک حاکم کی ایک روایت ہے کہ اللہ کی رضا باپ کی رضا میں ہے ، اور اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے اور یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ حسن سلوک کے لئے ان کا مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں ہے ۔
۳۔ حق داروں کے حق کی ادائیگی کرو : والدین کے علاوہ بہت سے اعزو اقربائ، مسکین اور مسافر کے بھی حقوق ہم سے متعلق ہیں اور ہم ان کے ساتھ جو حسن سلوک کررہے ہیں یا کریں گے اصلا یہ ان کے حق کی ادائیگی ہے ان پر احسان نہیں ہے ۔
۴۔ فضول خرچی اور اسراف سے بچو : کسی گناہ کے کام میں اور بے موقع خرچ کرنے یا ضرورت سے زائد خرچ کرنے سے بھی منع کیا گیا ، اسی کے ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا کہ اپنے ہاتھ بخالت کی وجہ سے گردن سے باندھ کرنہ رکھو ، اور نہ اس طرح کشادہ دست ہوجاﺅ کہ فقر و فاقہ کی نوبت آجائے ، خلاصہ یہ کہ افراط وتفریط سے بچتے ہوئے ،اعتدال اور میانہ روی کی راہ اپناﺅ ۔
۵۔ مفلسی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو: اس لئے کہ روزی ہم تم کوبھی دیتے ہیں ان کو بھی دیں گے ، ان کا مارنا بڑی خطا ہے دراصل اس حکم کا تعلق اللہ کی صفت رزاقیت سے جڑا ہوا ہے ، بچوں کو اس خوف سے ماردینا یا ایسی ترکیبیں کرنا جس سے ان کی ولادت ممکن نہ ہو ، اللہ کی صفت رزاقیت پر یقین کی کمی کا مظہر ہے ،جب اللہ کا اعلان ہے کہ روئے زمین پرجتنے جاندار ہیں سب کا رزق میرے ذمہ ہے ۔اورمیں رزق اس طرح دیتا ہوں جو بندہ کے وہم وگمان سے بھی بالاتر ہے ۔اس صورت میں مفلسی کے خوف سے اولاد کا قتل کرنا، کس طرح جائز ہوسکتا ہے ۔
۶۔ زنا کے قریب مت جاﺅ: اس لیے کہ یہ بے حیائی کا کام ہے اور یہ برا راستہ ہے ، حدیث میں ہے کہ زانی زنا کرتے وقت مسلمان نہیں رہتا ، ایمان اس کے قلب سے نکل جاتا ہے ،آج جس طرح فحاشی بے حیائی اور کثرتِ زنا کے واقعات پیش آرہے ہیں اس سے پورا معاشرہ فساد وبگاڑ میں مبتلا ہوگیا ہے ، کاش اس حکم کی اہمیت کوہم سمجھتے ۔
۷۔ ناحق کسی کی جان مت لو: حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ قتل ناحق حرام ہے ، اور یہ ایسا جرم عظیم ہے کہ اسے قرآن میں ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا، اسی طرح اگر کسی نے ایک جان کو بچالیا تو گویا اس نے بنی نوع انسان کی جان بچالی ، اس حکم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آج بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے ۔
۸۔ یتیم کے مال کے قریب مت جاﺅ: یتیم اپنی کمزوری اور کم سنی کی وجہ سے اپنے مال کی حفاظت نہیں کرسکتا ، اس لئے بہت سے لوگ اسے سہل الحصول سمجھ کر ہڑپ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، اس حکم میں ہڑپ کرنے اور نائز جائز تصرف کرنے کا معاملہ تو کجا؟ اس کے قریب جانے اورپھٹکنے سے بھی منع کیا، کمزوروں کی اس قدر رعایت صرف اسلام کاحصہ ہے ۔
۹۔ اپنا عہد پورا کرو،معا ہدہ کی خلاف ورزی سے بچو، اس لئے کہ وعدوں کے بارے میں بھی پرشش ہوگی یعنی جس طرح قیامت میں فرائض واجبات کے بارے میں سوالات ہوں گے ، ویسے ہی معاہدات کے بارے میں بھی سوال ہوگا ، عہد کے مفہوم میں وعدہ بھی شامل ہے اسی وعدہ خلافی کو حدیث میں عملی نفاق سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
۰۱۔ ناپ تول میں پیمانہ اور ترازو کو ٹھیک رکھو :یعنی ڈنڈی نہ مارواورنہ کم ناپو، اس لیے کہ انجام کے اعتبار سے یہ اچھا اور بہتر ہے ، اگر تم نے ناپ تول میں کمی کی تو جہنم کے ’’ ویل‘‘ میں ڈالے جاﺅ گے یہ تواخروی عذاب ہے ، دنیاوی اعتبار سے پیمانے اور اوزان ٹھیک رکھنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ تجارت میں برکت بھی ہوگی ۔کاروبار بھی خوب چمکے گا۔
۱۱۔ جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل مت کرو: کیوں کہ کان، آنکھ ، اور دل سب کے بارے میں قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوگی ، ہمارا حال یہ ہے کہ ایک بات سن لیا اور بغیرکسی تحقیق کے اسے دوسروں سے نقل کردیا ۔یا اگر کچھ فائدہ نظر آیا تو اپنی زندگی میں اتارلیا ،قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں خبر کی تحقیق کا حکم دیا گیا ہے کہ اگرتم بغیر تحقیق کے کام شروع کردوگے تو کبھی تمہیں ندامت کاسامنا کرنا پڑے گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ کفی بالمرءکذبا ان یحدث ماسمعہ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ اس نے جو سنا ہے وہ بیان کردے ، آج جب سنی ہوئی بات کو بغیر تحقیق کے نمک مرچ لگا کر بیان کرنے کا مزاج بن گیا ہے اورسنی سنائی باتوں پر عمل کی بنیاد رکھی جارہی ہے ۔ تو ہمیںدنیامیں ندامت کا سامناکرناپڑسکتا ہے اور آخرت کی رسوائی الگ ہے ، جہاں مجرموں کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور ان کے ہاتھ بولیں گے ، پاﺅں گواہی دیں گے کہ ان اعضاسے کیسے کیسے کام لئے گئے ۔
۲۱۔ اور آخری حکم اس سلسلے کا یہ ہے کہ زمین پر مغرور بن کر مت چلو : اس لئے کہ تم اپنے اس عمل سے نہ تو زمین کی چھاتی پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑ کی چوٹی سر کرسکتے ہو ، گویا یہ ایک احمقانہ فعل ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں پستی ذلت وخواری تمہارا مقدر ہے ، کیوں کہ قدرت کا اصول ہے کہ اکڑ کر نیچے آیا جاتا ہے اوپر نہیں ، اوپر جانے کے لئے جھک کر جانا ہوتا ہے جو کبر کی ضد ہے ۔آپ کو جب پہاڑ پر چڑھنا ہو تو جھک کر ہی چلنا ہوگا ، سائیکل اونچی سڑک پر چلا رہے ہوں یا پیدل ہی نیچے سے اوپر کو جارہے ہوں تو جھک کر چلنا ہوگا، ورنہ آپ الٹ کر کھائی میں جاگریں گے ، معلوم ہوا کہ اوپر جانے کے لئے جھکنا ہوتا ہے لیکن جب پہاڑ سے نیچے آنا ہو تو اکڑکر آنا ہوتا ہے اس لئے کہ اگر جھک کر آئے گا تو ڈھلک کر کھائی میں جا پڑے گا ۔ البتہ یہ جھکنا جاہ ومنصب اور کسی آدمی کے خوف سے نہ ہو بلکہ جھکنا صرف اللہ کے لئے ہو اسی کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے من تواضع للہ رفعہ اللہ سے تعبیر کیا ہے ۔
یہ ہے درحقیقت معراج کا پیغام اور تحفہ، جن پر عمل کرنے سے یہ دنیا جنت نشاں ہوسکتی ہے ، آج ہم نے اس پیغام کو بھلا دیا ہے ، اور شب معراج کے ذکر سے اپنی محفل کو آباد کر رکھا ہے حالانکہ شب معراج تو ہمیشہ ہمیش کے لئے وہی ایک رات تھی جس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں تشریف لے گئے تھے ، قیامت تک کوئی دوسری رات شب معراج نہیں ہوسکتی ہے ، وہ تاریخ آسکتی ہے ، لیکن وہ نورانی رات پھر کبھی نہیں آئے گی، ہم نے بھی اپنی جہالت وغفلت سے کیسی کیسی اصطلاحیں وضع کر رکھی ہیں اللہ تعالی ہم سب کو شب معراج میں دیئے گئے پیغام کی اہمیت ومعنویت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ، آمین یا رب العلمین وصلی اللہ تعالی علی النبی الکریم وعلی الہ وصحبہ اجمعین۔

گد ا گر ی کتنے افسوس کی بات ہےکہ دنیا میں آج تک گداگروں کی مردم شماری نہیں ہوئی۔ہوئی ہوتی

             گد ا گر ی   

اردو دنیا نیوز ٧٢
        کتنے افسوس کی بات ہےکہ دنیا میں آج تک گداگروں کی مردم شماری نہیں ہوئی۔ہوئی ہوتی تو لوگوں کو پتا چلتا کہ کتنے ملین افراد اس قوم میں پائے جاتےہیں۔یہ کم وبیش دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنی کثرت تعداد پرلوگوں سےاپنالوہامنوائے ہوئے ہیں۔آپ صرف انڈیا کو لے لیجئے۔ مشاھدہ بتاتا ہے کہ یہاں گداگرو ں کافی صدحیرت انگیزہے۔ دنیاجیسےجیسےترقی کر تی جارہی ہے،یہ قوم بھی خوب پھل پھلول رہی ہے۔گداگری اب ایک پروفیشنل بزنس بن چکی ہے۔وہ توکہئےکہ ابھی تک سیاسی لیڈروں کی نگاہ ان کے تناسب پر نہیں پڑی ورنہ یہ قوم اور بھی ترقی کرتی۔شہر شہر قصبہ قصبہ قریہ قریہ، گلی گلی کوچہ کوچہ ہر جگہ گداگروں کی موجودگی درج ہے۔یہاں تک کہ جہاں کوئی نہیں ہوتا وہاں بھی یہ موجود ہوتے ہیں۔ ان کی ذات وصفات بھی مختلف ہیں۔ان کے انداز بھی جداجداہیں۔ 
       اسلام نے گداگری کو سخت ناپسند کیاہے۔ 
اس کی مذمت کی ہے اوربلا ضرورت کسی کے آگے دست سوال درازکرنےکومعیوب کہاہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اسی اسلام کوماننے والی مسلمان قوم میں گداگروں کی تعدادریکارڈتوڑہے۔ایسا اقتصادی بحران کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس قوم میں حرام خوروں کی بہتات ہوگئی ہے۔اسلام کہتاہے کہ اپنی زکات اور صدقات کومستحق تک پہنچاؤ۔انھیں تلاش کرو کہ غیرت کی وجہ سے وہ دست سوال نھیں پھیلاتے۔وہ ضرورت مند ہوتے ہیں مگر بھیک مانگنے سے حیاکرتےہیں،تو انھیں تلاش کرو۔وہ مستحق ہیں۔
     مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ نادانستہ مستحق کونظراندازکرتےہوئےعام طورسے غیر مستحق کوزکات وخیرات د ے کران کی حوصلہ افزائی کرتے رہتےہیں۔ اس طرح زندگی کے سب سے آسان اورنفع بخش راستے پر چلنے والی بھیڑ میں اضافہ ہوتاجاتاہے۔لوگ نیکی کر کے دریا میں ڈالتے رہتےہیں۔
      اندراگاندھی نے ایمرجنسی پیریڈ میں بھیک مانگنے پر پابندی عائدکردی تھی۔ سخت پابندی کی وجہ سے کہیں کوئی گداگر نظر نہیں آتاتھامگرایسانہیں ہوا کہ گداگر بھوکوں مرنےلکےہوں۔ بھوک سے کسی گداگر کےمرنےکی خبر نھیں آئی تھی۔
     فی زمانہ مسلم قوم میں گداگری کاپیشہ بےحد مقبول ہے۔ خوب ترقی پزیر ہے۔آپ نے اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ پھٹے پرانے کپڑوں میں بھیک مانگنے والا یا مانگنےوالی مرگئی تو اس کے گھر سے لاکھوں روپئے برآمد ہوئے۔ایک گداگرنےتوحدہی کردی۔اس نے اپنے ہونے والے
خسر یعنی متوقع بیوی کے باپ سے جہیز میں وہ علاقہ طلب کیا جو کافی زرخیز تھا۔اس شرط پر لڑکی کاباپ راضی ہوگیااور بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی حالانکہ لڑکی بھی خالص بزنس میڈم تھی۔ نقاب میں گھر گھر جا کر اپنی شرافت کی دہائی دیتے ہوئے خوب کمالیتی تھی۔ 
رنگ رنگ کےگداگر۔رنگ رنگ کےحلیے۔رنگ رنگ کی صدائیں۔ نئے نئے انداز۔دعاؤں کاپٹارہ لیے ہوئے گلی گلی گھومتےرہتےہیں۔زبان حال سے کہتے رہتے ہیں۔ آتے جاؤ، پھنستےجاؤ،،بھولے بھالے، سادہ لوح،نیک لوگ ان کا شکار ہوتے ہیں۔
   ایک صاحب کے بارےمیں مشہور ہے کہ وہ ممبئی میں گداگری کرتےتھے۔ کا فی بڑےعلاقہ پرقابض تھے۔ سکہ جم گیا تھا۔خوب کماتےتھے۔ہرماہ ڈھیروں روپیہ گھربھجتےتھے۔گھر والوں کوبتارکھاتھاکہ وہ دبئی میں ایک اچھی پوسٹ پر ہیں۔ 
    ایک روزہم کسی کام سےبازارگئےتوایک عجیب وغریب تماشا دیکھا۔ایک فقیرنےدونوں ہاتھوں میں کاسےلے رکھےتھے۔دائیں ہاتھ کا کاسہ ہمارےسامنےکرتےہوئےکہا-
      ۔۔ بابا۔!خدا کے نام پر ایک روپیہ دیتاجا۔تیرےبچےجیئں۔ تجھے حج نصیب ہو۔تیری ساری مرادیں پوری ہوں۔خداشادوآبادرکھے۔،، 
       ایک روپیہ میں اتنی ساری دعائیں پاکر ہم نہال ہوگئے۔ایک روپئےکاسکہ اس کے کاسہ میں
 ڈال کر پوچھا۔۔بابا۔! یہ تم نے دونوں ہاتھوں میں کا سے کیوں لے رکھے ہیں۔؟،،   
    فقیرنےجواب دیا۔۔کاروبار ترقی پرہے۔میں نےپچھلےہفتےسے ایک برانچ آفس کھول دیا ہے۔۔ ہم لاحول پڑھتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ 
      ان گداگروں کی بہت ساری پلٹنیں اور کوالٹیاں ہیں۔ایک فقیرنےکسی بڑے آدمی کے درپرصدالگائی تواندرسےآواز آئی۔۔بابا معاف کرو،بی بی جی گھر میں نہیں ہیں۔۔،  
      فقیرنےنہایت معصومیت سے کہا۔۔ایک دوروپئےخیرات کردو بابا۔مجھےبی بی جی کی ضرورت نہیں ہے۔،، 
     ۔۔بانکےسائیں نے سیٹھ جی سےکہا۔۔۔سیٹھ جی۔!تین سال پہلے تم مجھے ہرجمعرات کو پانچ روپئےدیاکرتےتھے۔دوسال سے تین روپئے دینےلگے۔اب ایک روپیہ پرٹرخارہےہو۔۔؟ ،، 
     سیٹھ جی نے بڑی نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔سائیں!دوسال پہلے میری شادی ہوگئی تھی۔تم جانتے ہو کہ شادی کےبعدخرچہ بڑھ جاتاہے۔ 
اورپھر دوسال میں دو بچے بھی ہوگئے۔خرچہ اور بڑھ گیا۔،، 
      ۔۔بہت خوب۔بہت خوب۔،، بانکےسائیں بولے۔توگویامیرا
روپیہ تم اپنے کنبہ پرلگارہےہو۔؟،، 
     ایک گداگر کایہ انداز بھی دیکھئے۔اورقربان جائیے۔ اس نے
 ایک دروازہ پرصدالگائی۔۔بی بی جی۔!خدا کے نام پر کچھ خیرات کردو۔آج جمعرات کا مبارک دن ہے۔دل کی مراد پوری ہو گی۔شادوآبادرہوگی۔بچےجیئں گے۔مال و اموال میں،آل و اولادمیں برکت ہوگی۔،،
        سائل کی آوازسن کر دروازہ میں ایک شخص نمودار ہوا۔بڑی لجاجت سے بولا۔۔ 
      ۔۔سائیں! میری ایک ہی دلی مرادہے۔پوری کردوتوبڑااحسان ہوگا۔،،
      ۔۔ فقیرسےدل کی بات کہہ دےبیٹا۔،،سائل نے قلندرانہ شان سےکہا۔ہم دعا کریں گے اور تیری مرادضرورپوری ہوگی۔،، 
        ۔۔بابا جی!افسوس کہ آج جمعرات کے مبارک دن آپ کودینےکےلیےمیرےپاس کچھ بھی نہیں۔ایسا کرو کہ اگرلےجا سکوتومیری بوڑھی ساس کو خیرات میں اپنےساتھ لیتےجاؤ۔۔
         ۔۔میں خیرات میں بوڑھی ساس نہیں لیتا۔،،سائل نے منھ بنا کر جواب دیا۔
        ۔۔ توپھرباباجی! میری ساس کےلیے کوئی ایسی اثر اندازدعاکردوکہ اس سے میرا
پیچھا چھوٹ جائے۔کم بخت نے اپنی بیٹی کے کان بھربھرکےمیرا جیناحرام کررکھاہے۔کوئی تعویز
 ہی عنایت کردو۔،، 
      ۔۔ بیٹا!ساس ایسی مخلوق ہےجس کے حق میں کوئی دعا
 قبول ہوتی ہےنہ تعویذ،گنڈے کام آتےہیں۔۔میں نےتجھےمعاف کردیا،توبھی مجھےمعاف کردے۔
    دامادکوسخت مایوسی ہوئی اور سائل خداسےامان طلب کرتا ہواآگےبڑھ گیا۔ 
        اس دن سلیم سیٹھ بہت اداس تھے۔برآمدے میں کرسی پر اداس بیٹھے کسی سوچ میں غرق تھے۔اچانک ایک گداگر ان کے سامنےآکھڑاہوا۔
        ۔۔سیٹھ جی!خدا کے نام پر کچھ دیجئے۔
        ۔۔ معاف کروبابا۔،، 
          گداگر۔۔کیسے معاف کردوں۔؟الله نے آپ کو بہت کچھ دےرکھاہے۔خدا آپ کو اورترقی دےگا۔کچھ تو خیرات کردیجئے۔آپ کےبچے پھولیں پھلیں۔،، 
         سیٹھ جی۔۔ کہہ دیا نا بابا معاف کرو۔آگےبڑھو۔ابھی کل ہی تو
 میرے مکان میں چوری ہوئی ہے۔چور کم بخت میری بیوی کو چھوڑ کر سب کچھ سمیٹ لےگیا۔،، 
      گداگر۔۔تو پھر اپنی بیگم صاحبہ کو ہی خیرات میں دےدیجئے۔خدا آپ کو دو بیویاں عطاکرے۔،، 
     سیٹھ جی۔۔بھاگ جاؤ۔کیسی بےہودہ خیرات مانگتےہو۔شرم نہیں آتی۔؟،، 
        گداگر۔۔ کیا کروں بھائی۔میرےپاس تو بے ہودہ بھی نہیں ہے۔آپ ذرا دل کو بڑا کر لیں اور جی کوکڑاکرلیں۔میں اسےباہودہ بالوں گا۔،، 
        سیٹھ جی۔۔کیبےبےشرم اوربےحیامانگنے
والےہو۔ٹلنےکانام ہی نہیں لیتے۔کہہ دیا آج ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔،، 
          گداگر۔۔توپھرائےشریف اورمحتاج آدمی!فالتواوربیکارکیوں بیٹھےہو؟جب کچھ نہیں بچا ہے تو اپنی بیگم سمیت ہمارے ٹولے میں کیوں نہیں شامل ہو جاتے۔؟بہت جلد چوری گئے مال سےزیادہ واپس آ جائے گا۔گارنٹی میں لیتاہوں۔،، 
        سیٹھ جی(غصہ سےکانپتےہوئے)بس اب خیریت اسی میں ہے کہ تو جلدی سے بھاگ جا ورنہ ابھی نوکروں کوبلاتاہوں۔،، 
       گداگر۔۔ جاتا ہوں بابا،جاتا ہوں۔میں تو آپ کو دکھی سمجھ کر آپ کےبھلےکےلیےہی کہہ رہاتھا۔آپ نہیں چاہتے توآپ کی مرضی۔،، 
     گداگر کی باتوں سے تنگ آکر سلیم سیٹھ
حلق پھاڑکردہاڑے۔۔ ابےجاتاہےیااٹھاؤں ڈنڈا۔؟،، 
     ناسازگارحالات کودیکھتے ہوئےگداگر نےبھا گ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔وہ بڑبڑاتاجا
رہاتھا۔۔بڑا بیوقوف آدمی نکلا۔۔میں نے اس کے ساتھ ہمدردی کی۔نیک مشورہ دیا پروہ نہیں مانا۔گداگری کرتا تو بہت جلد ترقی پاجاتا۔بد نصیب ہے بے چارہ۔۔۔،،، 
      آپ نےگداگرکی ڈھٹائی دیکھی۔۔یہ توکچھ  بھی نہیں۔اس سے بھی بڑے بڑے ڈھیٹ آپ  کےدروازہ پر دستک دیتے ہوں گے۔اس لیے ہر دستک کومزدہء جاں فزانہ سمجھیں اور دیکھ بھال کر دروازہ کھولیں۔ہوسکتاہےدروازہ پر خطرہ موجودہو۔۔
        رمضان المبارک رحمتوں کا مہینہ ہے۔اس مہینے میں بڑی خیروبرکت ہے۔خاص طور سے گداگروں کےلیےبہارکاموسم ہوتا ہے۔دنیابھر کے گداگر اجتماعی طورپرنمودارہوتےہیں۔اوراس طرح چھاپوں پرچھاپےمارتےہیں کہ گویا سالانہ لگان وصول کر رہے ہوں۔نتیجے میں جو لوگ زکات وخیرات اور صدقات کےمستحق ہوتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں۔اورغیر مستحق مالامال ہوجاتے ہیں۔ 
       ہمارےمیردانشمندگداگری کوایک قومی مسئلہ مانتےہیں۔کہتےہیں۔۔یہ گداگر قوم کے لیے ذلت و رسوائی کا سبب ہیں۔ان کی حوصلہ افزائی بھی خوب کی جاتی ہے۔سادہ لوح طبیعت لوگ گداگروں سے بہت ڈرتے اور انھیں پیرومرشد تک مان لیتے ہیں۔وہ لوٹتے ہیں اور یہ دل کھول کرلٹتےہیں۔بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ہم کمائیں اور تم کھاؤ۔انھوں نے ضعیف اور معذوروں کواس سے مثتثنی رکھاہے۔ایک بارایک تندرست اور ہٹے کٹےفقیرکونصیحت کرتے ہوۓ انھوں نےکہا۔۔ 
         میاں جی!تمھیں خدا سے ڈر نہیں لگتا۔ 
اچھےخاصےہو۔صحت بھی قابل رشک ہے،پھر بھی بھیک مانگتےہو۔چاہوتودوچارلوگوں کو اورکماکرکھلاسکتےہو۔پھربھیک کیوں مانگتے ہو۔کچھ کام دھندہ کیوں نہیں کرتے۔؟،، 
      گداگرنےجواب دیا۔۔ہم بھیک مانگنا چھوڑ دیں توآپ خیرات کس کو دو گے۔ہمارا احسان مانو کہ ہم خیرات لےکر ثواب کمانے کا موقع دیتےہیں۔،، 
       میردانشمنداس گداگرپربہت ناراض ہوئے۔
کیامدرسےاوریتیم خانےبندہوگئےہیں؟ہم تم جیسے کام چوروں کو خیرات وصداقت کیوں دیں۔۔،، 
    گداگروں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کااندازہ
لگانا کچھ مشکل نہیں۔صورت حال یہ ہےکہ کسی کے والد، والدہ،بیوی،بھائی،بھتیجہ،عزیز و اقارب کسی کا فاتحہ ہو،تیجہ ہو،چالیسویں ہویامرنےوالےکی سالانہ تقریب۔!کسی فقیر سے کہئے کہ باباکھاناکھالیجئےتوباباکاسوال ہوگا  کہ پہلےسوروپئے یا پچاس روپئےدوتب کھائیں گے۔باباکوکھلانااس لیے ضروری ہےکہ لوگوں کے بےہودہ خیال میں اگر ان کو نہ کھلایا پلایا جائےتو میت کی مغفرت کےلیے مسئلہ پیدا ہو
ہوسکتاہے۔ان گداگروں میں ایک اضافی خصوصیت کاعلم فلم انڈسٹری والوں کوابھی تک نہیں ہو پایا ہے کہ میکپ کے فن میں یہ کتنی مہارت رکھتےہیں۔اگر علم ہوجائےتوکتنے
ہی فلمی میکپ مینوں کی روزی جاتی رہے اور وہ گداگری بلکہ گدھاگری پر مجبور ہو جائیں۔ 
    ***
                     انس مسرور انصاری 
   قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ) 
  سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکر نگر۔یو،پی۔ 
             رابطہ/9453347784

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...