Powered By Blogger

بدھ, فروری 22, 2023

مفتی سعد النجیب قاسمی صاحب کی آمد پر مدرسہ ضیاء العلوم پٹنہ (ضیائے حق فاؤنڈیشن) میں محفل اعزازیہ کا انعقاد

مفتی سعد النجیب قاسمی صاحب کی آمد پر مدرسہ ضیاء العلوم پٹنہ (ضیائے حق فاؤنڈیشن) میں محفل اعزازیہ کا انعقاد
Urduduniyanews72
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 22/فروری 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم) خطابت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے، جس کےذریعہ ایک خطیب ومبلغ اپنے احساسات وجذبات اور خیالات کا اظہار  دوسروں تک پہنچانے اور عوام الناس کو اسلامی افکار ونظریات سے روشناس کراتا ہے ۔بلاشک وشبہ قدرتِ بیان ایسی نعمت جلیلہ اور ہدیۂ عظمہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کوعطا فرماتے ہیں، اور خطابت وبیان کے ذریعہ انسان قیادت وصدارت کی بلندیوں کوحاصل کرتا ہے ۔ جوخطیب کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے مزین خطاب کرتا ہے اس کی بات  باوزن ہوتی ہے،جس سے سامعین کے دل و دماغ پر گہرا اثر ہوتا ہے ۔اس وقت ہندوستان کے مشہور ومعروف اور مقبول خطیب حضرت مولانا ومفتی سعد النجیب صاحب کے اعزاز میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام اعزازیہ تقریب کا انعقاد مفتی سعد النجیب قاسمی صاحب کی زیر صدارت مدرسہ ضیاء العلوم (ضیائے حق فاؤنڈیشن) میں کیا گیا ،
پروگرام کے کنوینر محمد ضیاء العظیم قاسمی اور ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن تھے، پروگرام کا آغاز قاری واجد علی عرفانی نے تلاوتِ قرآن سے کی،نعت قاری فردوس صاحب سمستی پوری نے پیش کی، نظامت کے فریضہ محمد ضیاء العظیم نے انجام دی، مہمان خصوصی کے طور پر مولانا امتیاز صاحب جامعی،قاری لقمان دانش ،مہمان ذی وقار قاری فردوس سمستی پور رہے ،اس پروگرام میں مفتی سعد النجیب صاحب کی خدمات کے اعتراف میں ضیائے حق فاؤنڈیشن نے اعزاز سے نوازا، پروگرام میں اہم شخصیات  مولانا امتیاز جامعی سوپول، جناب انصار صاحب ڈائریکٹر انصار میڈیا ٹی-وی ،قاری لقمان دانش ،قاری واجد علی عرفانی سمیت کثیر تعداد سامعین موجود تھے،اس موقع پر ضیائے حق کے برانچ اونر محمد ضیاء العظیم قاسمی نے ضیائے حق فاؤنڈیشن کا مختصر تعارف پیش کیا، اور مفتی سعد النجیب صاحب کے انداز بیان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مفتی صاحب اپنے خطابت کی وجہ سے ایک اہم شناخت قائم کرچکے ہیں ، ان کے بیان وخطابت سے عوام الناس مستفیض ہورہے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ بیان کے دوران وہ ایک مخصوص انداز میں ترنم کے ساتھ اشعار پڑھتے ہیں جس کا سامعین پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے، ان کے بیانات اصلاحی پیغامات پر مشتمل ہوتے ہیں، 
مفتی سعد النجیب صاحب نے ضیائے حق فاؤنڈیشن کے خدمات کو سراہتے ہوئے دعائیں دیں، اور اپنے مخصوص لب ولہجہ میں قرآن کی تلاوت اور نصیحت سے نوازتے ہوئے  شکریہ ادا کیا، پھر صدر محترم کی اجازت سے پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا گیا، 
واضح رہے کہ 
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف  میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں ۔
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں قاری واجد علی عرفانی ، قاری عبد الماجد، مفتی نور العظیم ،شاداب خان، شارق خان، محمد افضل، حافظ اشرف، محمد یوسف، مہدی حسن،محمد دانش کا نام مذکور ہے،

یہ فتنے جو ہر اک طرف اٹھ رہے ہیںمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

یہ فتنے جو ہر اک طرف اٹھ رہے ہیں
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اسلام مخالف طاقتیں روز اول سے اس کوشش میں رہی ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں کو دین سے بیزار کر کے راہ ہدایت سے ہٹا کر راہ ضلالت پر ڈال دیا جائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایمان قبول کرنے والوں پر ظلم وستم کے پہاڑ اسی لیے توڑے جاتے تھے کہ وہ کسی طرح کلمہ کا انکار کرکے پھر سے ضلالت وگمراہی اور شرک وبت پرستی کی راہ پر لگ جائیں، لیکن یہ کام اس دور میں ممکن نہیں ہو سکا؛ کیوں کہ جام وحدت پی کر جو ایمان ویقین ان کے سودائے قلب میں جاگزیں ہو گیا تھا اور معرفت الٰہی کی جو لذت انہیں ملی تھی، اس نے اس قدر انہیں سرشار کر دیا تھا کہ ایمان کاسرور کسی بھی ظلم وستم سے دور نہیں کیا جاسکا، بعد میں مسیلمہ کذاب کے زمانہ میں خود اس نے اورجھوٹے مدعیان نبوت ومہدیت نے ایک شیطانی نظام کے تحت مسلمانوں کو برگشتہ کرنے کا کام کیا ، فرقہء باطنیہ جس کا بانی حسن بن صباح تھااورجس نے مصنوعی جنت بنا رکھی تھی چھٹی صدی ہجری میں اس فرقہ کے عروج نے کتنے ایمان والوں کو موت کے گھاٹ اتارا، اور کتنوں کو مصنوعی جنت کا خواب دکھا کر ایمان واسلام سے دور کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
ہندوستان میں حزب الشیطان نے اس مہم کے ذریعہ بھولے بھالے اور سیدھے سادے مسلمانوں کو اپنا شکار بنایا، قلوب میں شکوک وشبہات پیدا کرکے مسلمانوں کو دین سے برگشتہ کرنے اور اسلامی احکام ومعتقدات پر اعترضات کرکے اس کی حقانیت پر سوالات کھڑے کیے ، کبھی نیچریت نے زور پکڑا، کبھی حدیث کا انکار کیا گیا اور کبھی اسلام کے سارے احکامات وجزئیات کو قرآن کریم تک محدود کر دیا گیا ، ہندوستان سے باہر مستشرقین نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور بزعم خود علمی انداز میں اسلام کے مسلمات کو اعتراضات کا نشانہ بنایا، ہندوستان کا ایک طبقہ جو ہندوستان سے آکسفورڈ ، کیمبرج اور دوسری یورپی درسگاہوں میں حصول تعلیم کو فخر ومباہات کا ذریعہ سمجھتا تھا اور مغرب سے آنے والی ہر ہوا ان کے دماغ کو تروتازہ رکھتی تھی، مستشرقین کے احساسات وخیالات اوران کی غلط فہمیوں پر مبنی تخیلات وتحقیقات کو ہندوستان نے بر آمد کر لیا اور اپنی ہمہ دانی کے زُعم میں اسے ہندوستان میں تیزی سے پھیلانے کا کام کیا، اس طرح ہندوستان کی حد تک مستشرقین یورپ کی ضرورت باقی نہیں رہی، وہاں کے بیش تر فضلاءاور فارغین نے مرعوبیت کے زیر اثر مستشرقین کے شکوک وشبہات پھیلانے کے کام کو اپنے ذمہ لے لیا ، اب نقل (قرآن وحدیث) کے بجائے عقل میزان ہو گئی اور جو بھی چیز کھوپڑی میں نہیں سماسکی، اس کا انکار کیا گیا، بڑی تعداد میں مسلمان اس سے متاثر ہوئے، روس کے انقلاب کے بعد ایک بڑا طبقہ مارکسزم اور لینن واد کے زیر اثرآ گیا، جس کی وجہ سے مارکسی اور ترقی پسند ادب نے یہاں فروغ پایا ، معاش کے حصول اور سرمایہ دارانہ نظام کو معطل اور کالعدم کرنے کے چکر میں مذہب بیزاری ، دین سے دوری ، اس قدر عام ہوگئی کہ دین ومذہب، خدا ورسول ، جنت وجہنم ، تقدیر خیر وشر کا تصور ذہن سے نکل گیا ، اس شجر خبیث سے جو سلسلہ چلا اس نے دہریت اور خدا کے تصور کے بغیر ساری کائنات کوعناصر میں ظہور ترتیب کا نتیجہ قراردیا ، اس لیے اس دور کے بہت سے ادبا، شعراءاور مفکرین نے مرنے کے بعد دفن ہونے کے بجائے، ”پنج تنر میں ویلین“ ہونے کے لیے اپنے کو آگ کے حوالہ کرنے کی وصیت کی اور دنیاہی میں ان کو آگ نے جلا کر نمونہ عبرت بنا دیا ، فکری ارتداد کا یہ سلسلہ مختلف عنوانوں سے آج بھی جاری ہے، بقول حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب ”ارتداد دبے پاوں آتا ہے، غیر محسوس طریقہ پر داخل ہوتا ہے اور ایسا میٹھا زہر بن کر حلق سے اترتا ہے کہ زہر کھا کر بھی انسان تحسین وتعریف کے جملے کہتا ہے۔“
ایک دوسرے طبقہ نے ارتداد کے جراثیم، مذہب کی چادر اوڑھ کر پھیلانا شروع کیا، مہدویت اور قادیانیت کی تحریک نے ختم نبوت کے عقیدے پر چوٹ کیا اور مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے چیلوں نے ارتداد کی نئی مہم شروع کی، یہ مہم مذہب کی آڑ میں شروع کی گئی تھی؛ اس لیے زیادہ خطرناک تھی، چنانچہ مولانا ثناءاللہ امرتسری ؒ، حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ ، قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ وغیرہ نے اس کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے پوری توانائی لگادی، حضرت مونگیری کا یہ جملہ ایک زمانہ میں زبان زد خلائق تھا کہ ”قادیانیوں کے خلاف اتنا لکھو اور اتنا چھاپو اور اس قدر تقسیم کرو کہ ہر مسلمان جب صبح اٹھے تو اس کے سرہانے قادیانیوں کے خلاف کوئی نہ کوئی رسالہ اور کتابچہ موجود ہو“۔
علماءکے نتائج سامنے آئے، اس فتنہ کے سیلاب بلا خیزپر بند باندھا گیا، اس کی طغیانی میں کچھ کمی آئی، پاکستان میں قادیانیوں کو پارلیامنٹ کے ذریعہ غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے باوجود اس فتنہ کا پورے طور پر قلع قمع اب تک نہیں کیا جا سکاہے، انگریزوں کی یہ کاشت امریکہ ، برطانیہ ہی میں نہیں، ہمارے ملک میں بھی اپنے قدم جمانے میں لگی ہوئی ہے، اس کے عبادت خانے مختلف شہروں میں موجود ہیں، اس کے مکتبے اور رسائل اس کے معتقدات کو پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔
 قادیانیت ہی کی ایک شاخ شکیل بن حنیف کا فتنہ ہے، جوان دنوں یونیورسٹی اور کالج کے طلبہ میں برگ وبار لا رہا ہے، شکیل بن حنیف (ولادت ۸۶۹۱) پیدا عثمان پور رتن پورہ دربھنگہ میں ہوا، تعلیم انجینئرنگ کی پائی، اس نے پہلے لکچھمی نگر دہلی میں ایک مکان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور اب ان دنوں اورنگ آباد شہر سے باہر ”پڑے گاوں“ میں جا کر پڑگیا ہے، رحمت نگر کے نام سے پوری کالونی پولیس اکیڈمی کے قریب بنا لیا ہے اور جس طرح قادیانی جال میں پھانس کر قادیان لے جاتے ہیں اسی طرح یہ اپنے ماننے والوں کو اورنگ آباد بلاتا ہے، اور ذہنی تطہیر کے مرحلہ سے گذارتا ہے، یہ فتنہ اس قدر بڑھ رہا ہے کہ ابھی چند سال قبل ایک مذہبی خانوادہ میں نکاح پڑھانے کے لیے جانا ہوا،حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری ؒ بھی تشریف لے گیے تھے، نکاح سے قبل خبر ملی کہ یہ لڑکا شکیل بن حنیف کا مرید ہے، بلا کر حضرت نے بہت سمجھایا ، مہدی موعود کی علامت والی حدیثیں بھی سنائیں؛ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوا، مجبورا ہمیں اس نکاح کو روک دینا پڑا، حضرت مولانا جب کوئی حدیث سناتے تو وہ کہتا کہ یہ علامت شکیل بن حنیف میں پائی جا رہی ہے، بالآخر وہ گاوں چھوڑ کر شکیل کے پاس چلا گیا ، یہ ایک واقعہ ہے، لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے، کہ اس کا فتنہ دیندارمسلم گھرانوں تک پہونچ رہا ہے، اس لیے اس کے تعاقب کی سخت ضرورت ہے، واقعہ یہ ہے کہ فتنوں کے اندھیرے ہماری دیواروں تک پہونچ گیے ہیں، اور ہمارے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔
 اس لیے اس فتنہ کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہرسطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ہمت اور ثابت قدمی کے ساتھ اہل خانہ کی فکری وایمانی تربیت اس انداز میں کرنی چاہیے کہ وہ فتنوں سے با خبر رہیں، تاکہ ان کے جال میں نہ پھنسیں، جن علاقوں میں فتنے پھیل رہے ہیں، اس کا جائزہ لے کر علمائ، ائمہ مساجد ، مذہبی تنظیموں کو متوجہ کیا جائے، تاکہ اس فتنہ کے تدارک کے لیے وہ آگے آسکیں۔ بچوں کو فکری ارتداد سے بچانے کے لیے انہیں مشنری اسکولوں اور ایسے اداروں میں پڑھانے سے بھی گریز کرنا چاہیے، جہاں دیوی دیوتاو ¿ں کی پوجا ، وندنا ، یوگا، پرارتھنا،ان کی روٹین کا حصہ ہو اور جہاں عیسائیت اور ہندوازم کو قومی ثقافت وکلچر ، تہذیب ووراثت کا حصہ بتاکر بچوں کے معصوم ذہنوں کو زہر آلود کیا جا رہا ہو۔
ایک بڑا فتنہ ان دنوں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ مسلم لڑکیوں کی شادی اور ان کے گھر سے فرار ہونے کا ہے، اس فتنہ کی وجہ سے ارتداد کی نئی لہر نے مسلم گھرانوں پر دھاوا بول دیا ہے، ہماری لڑکیاں ان کے جال میں جن وجوہات سے پھنستی ہیں ان میں ایک بڑا سبب اختلاط مرد و زن ہے، یہ اختلاط تعلیمی سطح پر بھی ہے اور ملازمت کی سطح پر بھی ۔ کوچنگ کلاسز میں بھی پایا جاتاہے اور ہوسٹلز میں بھی، موبائل، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ اختلاط زمان و مکان کے حدود و قیود سے بھی آزاد ہوگیا ہے، پیغام بھیجنے اور موصول کرنے کی مفت سہولت نے اسے اس قدر بڑھاوا دے دیا ہے کہ لڑکے لڑکیوں کی خلوت گاہیں ہی نہیں، جلوت بھی بے حیائی اور عریانیت کا آستہ خانہ بن گئی ہیں، ارتداد کی اس نئی لہر سے ہر ایمان والے کا بے چین ہونا فطری ہے، ضرورت ہے کہ ان اسباب کو دور کیا جائے، جن کی وجہ سے ہماری لڑکیا مرتد ہورہی ہیں، جن علاقوں میں ارتداد کی یہ نئی قسم سامنے آئی ہو اس کا مقامی سطح پر سروے کرایا جائے، گارجین کی جانب سے گم شدگی کا ایف آئی آر درج کرالیا جائے، وکلاءسے قانونی مدد لی جائے تاکہ ایسی لڑکیوں کی گھر واپسی کا کام آسان ہوجائے۔
اس فتنہ کا تدارک کسی ایک شخص اور تنظیم کے بس میں نہیں ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ گاو ¿ں اور محلہ کے مسلم اور غیر مسلم دانشور سر جوڑ کر بیٹھیں، اس لیے کہ اس کی وجہ سے سماج میں تناؤ پیدا ہوتا ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ٹھیس پہونچتی ہے اور سماجی تانا بانا بکھر کر رہ جاتاہے، وقت کی اس اہم ضرورت کو سمجھنا چاہیے اور سب کو اس فتنہ کے تدارک کے لیے آگے آنا چاہیے۔

قیامت خیز زلزلہ ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

قیامت خیز زلزلہ ___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
ترکیہ(سابق نام ترکی) اور شام میں 6/فروری2023 کو آنے والے پچھتر(75) سیکنڈ کے ریکٹر اسکیل پر 7.8 کی شدت والے زلزلوں نے جو تباہی مچائی ہے، اس نے ہزاروں افراد کو بے گھر کرنے کے ساتھ ترکیہ میں 34870 اور شام میں 29600 افراد کو موت کی نیند سلا دیا، ترکیہ میں 80270 اور شام میں 7280 افراد ایک اندازہ کے مطابق زخمی بھی ہوئے ہیں، 84.1 بلین ڈالر کا نقصان ابتدائی سروے میں سامنے آیا ہے ہے، جس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔فلک بوس عمارتیں ملبوں کا ڈھیر بن گئیں اور لوگ ان کے نیچے دب گئے، بعضوں کے تو پورے خاندان کا صفایا ہو گیا، سخت سردی اور بارش نے ملبوں سے لوگوں کو نکالنے کے عمل کو متاثر کیاہے، جس تیزی سے اس کام کو ہونا چاہیے تھا، نہیں ہو پارہا ہے، اور گزرتے ہوئے شب و روز کے ساتھ ملبوں میں دبے لوگوں کے زندہ نکالے جانے کی امیدیں ختم ہوتی جا رہی ہیں بلکہ ختم ہو گئی ہیں۔
حالانکہ اس وقت ستر ملکوں کے ماہرین کی ٹیمیں اس کام میں لگی ہوئی ہیں، جن میں ہمارا ہندوستان بھی شامل ہے۔ راحت اور بچاؤکے کاموں میں 60217 افراد اور 4746 گاڑیاں سر گرم عمل ہیں،ہندوستان نے 4C سترہ  طیارے ترکیہ بھیجے ہیں جن میں ایک سو آٹھ ٹن سے زیادہ وزنی امدادی پیکج تھے، سو سے زیادہ فوجی اہل کار بھی بھیجے گئے ہیں، تاکہ وہ خصوصی آلات کی مدد سے ملبے میں دبے لوگوں کو نکالنے میں مدد کر سکیں۔کچھ سدھائے ہوئے کتے بھی بھیجے گئے ہیں تاکہ وہ ملبہ میں دبے زندہ لوگوں کی نشاندہی کر سکیں۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان متاثرہ علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں، جو وسائل دستیاب ہیں اس سے سڑکیں بنائی جا رہی ہیں، تاکہ امدادی رسد متاثرین تک پہونچ سکے۔
صدر اردگان گھوم گھوم کر لوگوں کو حوصلہ پیدا کرنے کی تلقین کے ساتھ انہیں یقین دلا رہے ہیں کہ ہم کسی کو سڑک کے کنارے کھلے آسمان کے نیچے نہیں چھوڑیں گے، اتنی بڑی اپیل کا نتیجہ بھی سامنے آنے لگا ہے، عالمی بینک نے امداد اور باز آبادکاری کے لیے ایک ارب اٹھہتر کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے،اور اٹھہتر کروڑ ڈالر فوری دینے کی پیش کش کی ہے، یہ ساری رقم مل جائے تو بھی ترکیہ کو اس بحران سے نکلنے کے لیے مزید رقم کی ضرورت پڑیگی، کیوں کہ باز آبادکاری کے لیے چار ارب ڈالر سے زیادہ کی مالیت درکار ہو گی،ترکیہ میں زلزلہ اور اس سے مچنے والی تباہی کوئی نئی نہیں ہے، 1668ء کا زلزلہ جو شمالی اناطولیہ میں آیا تھا، اس نے بڑی تباہی مچائی تھی، 1939ء میں ایرزنکن اور 1999ء میں ازمیت کے زلزلہ کے بعد یہ سب سے تباہ کن زلزلہ ہے۔
دیر سویر ترکیہ اس مصیبت سے باہر نکل آئے گا، لیکن اندیشہ ہے کہ مغربی ممالک اپنے قرضوں اور امداد کے بدلے میں معاہدہ لوزان جو اسی سال24  جولائی کو ختم ہو رہا ہے، اس کو غیر مؤثر بنانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کر لے۔اگر ایسا ہوا تو ترکیہ کے لیے ان کے مکر جال سے نکلنا دشوار ہو جائے گا، اور ترکیہ جو اپنے صدررجب طیب اردگان کی زیر قیادت عظمت رفتہ کی بازیابی کی طرف گامزن تھا، اس میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔

ساتواں نعتیہ مشاعرہ واصلاح معاشرہ زوم ایپ پرتحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار

ساتواں نعتیہ مشاعرہ واصلاح معاشرہ زوم ایپ پر
اردودنیانیوز۷۲ 
تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے گزشتہ (21/02/2023 ) شب ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا, جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں
حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری(سکریٹری تحفظ شریعت) اور قاری عظمت اللہ نور فیضی 
زیر سرپرستی حضرت مولانامشتاقاحمدصاحب قاسمی گنگولی/
قاری مطیع اللہ صاحب جبکہ 
نظامت کی اہم ترین ذمہ داری حضرت مولانا شمشیر صاحب مظاہری گڈاوی نے بحسن وخوبی انجام دیا, مجلس کا آغاز حافظ وقاری شہزاد صاحب رحمانی استاد دارالعلوم صدیق نگر ڈینگا چوک مینا 
قاری بدالھد صاحب  دیوبند کے تلاوت کلام اللہ شریف سے ہوا, جبکہ ابتدائ
نعت پاک شاعر اسلام محمد اعظم حسن صاحب ارریہ صاحب کے مسحور کن آواز نے سامعین کے دل میں جگہ بنالی--
خطیب عصر حضرت مولانا عبد السلام عادل صاحب ندوی ارریہ
حضرت مولانا ومفتی عادل امام صاحب کھگڑیا
جناب قاری جمشید انجم صاحب کھگڑیا حضرت مولانا گلشادصاحب صاحب قاسمی گنگولی 
شعراء کرام 
شاعر سیمانچل مولانا فیاض راہی صاحب ارریہ'قاری کوثر آفاق صدیقی صاحب مقیم حال حیدرآباد'قاری انور غفاری صاحب حیدرآباد'شاعر اسلام محمد علی جوہر پورنوی'
 شہاب صاحب دربھنگہوی مولانا اظہر راہی صاحب پورنوی'شاعر جھارکھنڈ دانش خوشحال صاحب گڈاوی 
جناب افروز انجم صاحب اڑیسہ'حافظ سرور صاحب لکھنوی' مولانا اخلاق صاحب ندوی'حافظ عابد حسین صاحب دہلوی'حافظ ریحان صاحب کٹیہاروی' قاری اعجاز ضیاء صاحب سیتا مڑھی' قاری انوار الحق صاحب مقیم حال بنگلور 
 اورقاری خورشید قمر صاحب
حسن آواز صاحب ارریہ 
قاری مجاہد صاحب فیضی نرپتگنج 
حیات اللہ صاحب کے نام قابل ذکر ہے-- ہم جملہ شرکائے پروگرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت دے کر اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر کی ہمت افزائ فرمائ اور آئندہ بھی کسی طرح کے پروگرام میں شرکت کرکے حوصلہ افزائ فرمائیں گے یہی امید ہے -- ساتھ ہی ہماری آواز جہاں تک پہنچے لبیک کہیں گے-- 
واضح ہو کہ 9 بجے شب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دیر رات 11 :30بجے صدر مجلس کی دعاء پر اور شکریہ کے ساتھ اختتام ہوا
اس پروگرام کے انتظام قاری محبوب عالم رحمانی تھے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...