Urduduniyanews72
شہرکی سہولت۔۔۔گاؤں کا مسئلہ
٭ انس مسرورانصاری
کہتے ہیں کہ ہماراملک بھارت گاؤں میں آبادہے۔جسے اصل بھارت کودیکھناہووہ گاؤں میں جاکردیکھے۔یہ الگ بات ہےکہ یہاں کی حکومت گاؤں سے زیادہ شہروں کوسجانےاورسنوارنے میں لگی رہتی ہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ شہرخوب صورت لگیں گےتوملک کی ترقی زیادہ روشن نظرآئےگی اور ہم بھارت کو‘‘شائننگ انڈیا’’کانام دے سکیں گے۔گاؤں گرام کی بات کیجیے توابھی ہمارے ملک میں ایسے بہت سارے گاؤں موجود ہیں جہاں بجلی نہیں پہنچ سکی ہے۔کھیتوں میں آب پاشی کی قدیم روایت ہے۔دریا،تالاب اورکوئیں سے پانی کی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں۔ہل بیل سے کھیتوں کی جوتائی بوائی ہوتی ہے۔یہ کہانی ایسے ہی ایک گاؤں کی ہے۔اس کےتین کردارہیں جوشہراورگاؤں کےفرق کو واضح کرتےہیں۔
بدروکی شادی کوآٹھ ماہ ہوچکے تھے۔بیوی شہر کے قریب ایک گاؤں کی رہنے والی تھی۔چھوٹاقد،گہرا سانولارنگ،ایک آنکھ تھوڑی دبی ہوئی سی۔خاص بات یہ تھی کہ اُسے شہری طورطریقےآتے تھے۔میکپ وغیرہ خوب کرتی اوربدروکواچھی لگتی۔اس کانام ساونتی تھا۔بڑی تلاش کےباوجودجب اُس کے لیےکوئی معقول رشتہ نہ ملاتوماں باپ نے اُس کی شادی اس دوردراز گاؤں میں بدروکےساتھ کردی کہ بیٹی کوکب تک گھر میں بٹھائے رکھتے۔بدروشکل وصورت سے بدرونہ تھا۔بس نام اچھالگاتوماں باپ نے رکھ دیا۔دس بارہ سال کی عمرمیں اس کےماں باپ دونوں ایک وبائی بیماری میں چل بسےتھے۔بس ایک چھوٹابھائی تھاجس کانام چھو ٹوتھا۔بدرواپنے بھائی سے بہت محبت کرتاتھا۔جب اس کے ماں باپ مرےتووہ بہت چھوٹاتھا۔اسی نے اس کی پرورش کی۔اب وہ پانچ چھ سال کاہوگیاتھا۔کھیت کھلیان زیادہ نہ تھے لیکن بدرومحنتی بہت تھااورگھر گرہستی کواچھی طرح چلاناخوب جانتاتھا۔
ایک دن وہ کھیتوں میں کام کررہاتھاکہ چھوٹو روتابسورتاہوااُس کے پاس پہنچا۔چھوٹےبھائی کو یوں روتادیکھ کربدرونے کدال زمین پررکھ دی اورچھوٹوکے پاس بیٹھ کراُس کےآنسوپونچھتے ہوئے بولا: ‘
۔۔کیاہوارے۔؟کائےکامنھ ٹیڑھامیڑھاکیے ہےصبح صبح۔۔۔’’بھائی کاپیارپاکراُس کی ہچکی بندھ گئی۔
‘‘بھوجی نے ہم کومارا۔’’چھوٹونے فریادکی۔
‘‘بھوجی نے تیرے کومارا۔کائے کومارا۔؟جروربدماشی کی ہوگی۔’’
‘‘ناہیں بھیّا۔ہم نے میتھامیتھاکھانےکومانگا۔بس بھوجی نے ہم کومارا۔’’
‘‘اچھاہمرے ساتھ گھرچل ۔دیکھوں تواس نےکائے کومارا۔’’
بڑابھائی کھیت کاکام چھوڑکرچھوٹے بھائی کو ساتھ لےکرگھرپہنچا۔چھوٹوکےگال پرتماچےکانشان دیکھ چکاتھااس لیے بیوی پرکافی غصہ آرہاتھا۔گھرمیں داخل ہوتےہی بڑےطیش میں ساونتی کے پاس پہنچا۔۔
‘‘کیوں ری حرام جادی ! تونے میرےچھوٹوکومارا۔؟
کائےکومارامیرےچھوٹوکو۔؟’’
پتی کاغصّہ دیکھ کرپتنی کوبھی غصّہ آگیا۔بولی توکچھ نہیں البتہ سیدھےاپنےکمرےمیں گئی اورٹوتھ پیسٹ کاٹیوب اُٹھالائی۔
‘‘ساراجھگڑااسی گیلے منجن کاہے۔’’وہ غصّہ میں پھنکارتی ہوئی بولی۔‘‘چھوٹوکوپانچ بارٹوتھ پیسٹ دے چکی ہوں۔ہتھیلی پررکھتی ہوں توفوراََچاٹ جاتاہےاور پھرمانگتاہے۔بتاؤ کتنے روزچلے گایہ مہنگا ٹیوب۔؟میکے سے لائی ہوں ۔تم توزندگی بھرٹوتھ پیسٹ نہ لاتے۔’’
‘‘اری ذرامجھے بھی توچکھا۔دیکھوں بھلایہ ہےکیا چیز۔؟’’
ساونتی نےکول گیٹ ٹوتھ پیسٹ ٹیوب سے نکال کر ذراساپتی کی ہتھیلی پربھی رکھ دیا۔پتی نے پہلے سونگھاتوخوشبواورٹھنڈک نےاُسے بہت متاثرکیا۔اُس نے ایک لمبی سانس لی اورپھرچکھاتوخوشبواور ٹھنڈک سےاُس کامنھ بھرگیا۔پتنی کےاستعمال میں رہنے والی کریم کوپہلی بارچکھاتھاورنہ وہ تو داتون کرتاتھا۔ پیکنگ، ٹیوب،اندرکی کریم سب کچھ سندراوراچھالگا۔اُس نے پتنی کی طرف بڑی تعریفی نظروں سےدیکھا لیکن پتنی کاچہرہ غصّہ اورخفگی سےلابھبھوکاہورہا
تھا۔وہ پاس میں کھڑےچھوٹوکی طرف مڑا ۔اس کے گال پرایک چانٹارسید کرتے ہوئے بولا۔
‘‘حرام جاداکہیں کا۔پانچ پانچ بارخالی خالی چٹ کرگیا۔ابےحرام خور!یہ بدماشی نہیں توکاتیری سراپھت ہے۔؟خالی خالی چاٹ گیا۔ابےروٹی سےکھاناتھانا۔اب آگے سے کبھی سوکھاسوکھابناروٹی کےکھایاتومارمارکرمرگا بنادوں گا۔جیسے زمیندارٹھاکرجی مجوروں کومرگا
بناتےہیں۔۔پیٹھ پرما ٹی کےبڑے بڑے ڈھیلے رکھ دوں گا۔سمجھے۔ہاں،کان کھول کرسن لے چھوٹو!اب اپنی بھوجی سے مانگیوتوروٹی سےکھائیو۔ سمجھے۔’’بھائی کےکڑے تیوردیکھ کرچھوٹوبھاگ کھڑاہوا۔یہ ٹوتھ پیسٹ ساونتی اپنے میکےسے لائی تھی ۔وہ بدروکی طرح داتون نہیں کرتی تھی۔اُس کارنگ وروپ بہت اچھانہیں تھاتوکیاہوا۔تھی توشہرکے قریبی گاؤں کی رہنے والی۔وہ برس اورٹوتھ پیسٹ ہی استعمال کرتی تھی۔۔۔۔شہرکی سہولت گاؤں کامسئلہ بن گئی تھی۔٭٭
*انس مسرورانصاری
قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن(انڈیا)
رابطہ//.9453347784//