Powered By Blogger

بدھ, دسمبر 20, 2023

طنزیہ و مزاحیہ کہانی)

طنزیہ و مزاحیہ کہانی) 
Urduduniyanews72 

                 شہرکی سہولت۔۔۔گاؤں کا مسئلہ

                   ٭ انس مسرورانصاری

کہتے ہیں کہ ہماراملک بھارت گاؤں میں آبادہے۔جسے اصل بھارت کودیکھناہووہ گاؤں میں جاکردیکھے۔یہ الگ بات ہےکہ یہاں کی حکومت گاؤں سے زیادہ شہروں کوسجانےاورسنوارنے میں لگی رہتی ہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ شہرخوب صورت لگیں گےتوملک کی ترقی زیادہ روشن نظرآئےگی اور ہم بھارت کو‘‘شائننگ انڈیا’’کانام دے سکیں گے۔گاؤں گرام کی بات کیجیے توابھی ہمارے ملک میں ایسے بہت سارے گاؤں موجود ہیں جہاں بجلی نہیں پہنچ سکی ہے۔کھیتوں میں آب پاشی کی قدیم روایت ہے۔دریا،تالاب اورکوئیں سے پانی کی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں۔ہل بیل سے کھیتوں کی جوتائی بوائی ہوتی ہے۔یہ کہانی ایسے ہی ایک گاؤں کی ہے۔اس کےتین کردارہیں جوشہراورگاؤں کےفرق کو واضح کرتےہیں۔
        بدروکی شادی کوآٹھ ماہ ہوچکے تھے۔بیوی شہر کے قریب ایک گاؤں کی رہنے والی تھی۔چھوٹاقد،گہرا سانولارنگ،ایک آنکھ تھوڑی دبی ہوئی سی۔خاص بات یہ تھی کہ اُسے شہری طورطریقےآتے تھے۔میکپ وغیرہ خوب کرتی اوربدروکواچھی لگتی۔اس کانام ساونتی تھا۔بڑی تلاش کےباوجودجب اُس کے لیےکوئی معقول رشتہ نہ ملاتوماں باپ نے اُس کی شادی اس دوردراز گاؤں میں بدروکےساتھ کردی کہ بیٹی کوکب تک گھر میں بٹھائے رکھتے۔بدروشکل وصورت سے بدرونہ تھا۔بس نام اچھالگاتوماں باپ نے رکھ دیا۔دس بارہ سال کی عمرمیں اس کےماں باپ دونوں ایک وبائی بیماری میں چل بسےتھے۔بس ایک چھوٹابھائی تھاجس کانام چھو ٹوتھا۔بدرواپنے بھائی سے بہت محبت کرتاتھا۔جب اس کے ماں باپ مرےتووہ بہت چھوٹاتھا۔اسی نے اس کی پرورش کی۔اب وہ پانچ چھ سال کاہوگیاتھا۔کھیت کھلیان زیادہ نہ تھے لیکن بدرومحنتی بہت تھااورگھر گرہستی کواچھی طرح چلاناخوب جانتاتھا۔
       ایک دن وہ کھیتوں میں کام کررہاتھاکہ چھوٹو روتابسورتاہوااُس کے پاس پہنچا۔چھوٹےبھائی کو یوں روتادیکھ کربدرونے کدال زمین پررکھ دی اورچھوٹوکے پاس بیٹھ کراُس کےآنسوپونچھتے ہوئے بولا:               ‘
        ۔۔کیاہوارے۔؟کائےکامنھ ٹیڑھامیڑھاکیے ہےصبح صبح۔۔۔’’بھائی کاپیارپاکراُس کی ہچکی بندھ گئی۔
         ‘‘بھوجی نے ہم کومارا۔’’چھوٹونے فریادکی۔
‘‘بھوجی نے تیرے کومارا۔کائے کومارا۔؟جروربدماشی کی ہوگی۔’’
      ‘‘ناہیں بھیّا۔ہم نے میتھامیتھاکھانےکومانگا۔بس بھوجی نے ہم کومارا۔’’
       ‘‘اچھاہمرے ساتھ گھرچل ۔دیکھوں تواس نےکائے کومارا۔’’
      بڑابھائی کھیت کاکام چھوڑکرچھوٹے بھائی کو ساتھ لےکرگھرپہنچا۔چھوٹوکےگال پرتماچےکانشان دیکھ چکاتھااس لیے بیوی پرکافی غصہ آرہاتھا۔گھرمیں داخل ہوتےہی بڑےطیش میں ساونتی کے پاس پہنچا۔۔
      ‘‘کیوں ری حرام جادی ! تونے میرےچھوٹوکومارا۔؟
کائےکومارامیرےچھوٹوکو۔؟’’
        پتی کاغصّہ دیکھ کرپتنی کوبھی غصّہ آگیا۔بولی توکچھ نہیں البتہ سیدھےاپنےکمرےمیں گئی اورٹوتھ پیسٹ کاٹیوب اُٹھالائی۔
    ‘‘ساراجھگڑااسی گیلے منجن کاہے۔’’وہ غصّہ میں پھنکارتی ہوئی بولی۔‘‘چھوٹوکوپانچ بارٹوتھ پیسٹ دے چکی ہوں۔ہتھیلی پررکھتی ہوں توفوراََچاٹ جاتاہےاور پھرمانگتاہے۔بتاؤ کتنے روزچلے گایہ مہنگا ٹیوب۔؟میکے سے لائی ہوں ۔تم توزندگی بھرٹوتھ پیسٹ نہ لاتے۔’’
      ‘‘اری ذرامجھے بھی توچکھا۔دیکھوں بھلایہ ہےکیا  چیز۔؟’’
ساونتی نےکول گیٹ ٹوتھ پیسٹ ٹیوب سے نکال کر ذراساپتی کی ہتھیلی پربھی رکھ دیا۔پتی نے پہلے سونگھاتوخوشبواورٹھنڈک نےاُسے بہت متاثرکیا۔اُس نے ایک لمبی سانس لی اورپھرچکھاتوخوشبواور ٹھنڈک سےاُس کامنھ بھرگیا۔پتنی کےاستعمال میں رہنے والی کریم کوپہلی بارچکھاتھاورنہ وہ تو داتون کرتاتھا۔ پیکنگ، ٹیوب،اندرکی کریم سب کچھ سندراوراچھالگا۔اُس نے پتنی کی طرف بڑی تعریفی نظروں سےدیکھا لیکن پتنی کاچہرہ غصّہ اورخفگی سےلابھبھوکاہورہا
تھا۔وہ پاس میں کھڑےچھوٹوکی طرف مڑا ۔اس کے گال پرایک چانٹارسید کرتے ہوئے بولا۔
      ‘‘حرام جاداکہیں کا۔پانچ پانچ بارخالی خالی چٹ کرگیا۔ابےحرام خور!یہ بدماشی نہیں توکاتیری سراپھت ہے۔؟خالی خالی چاٹ گیا۔ابےروٹی سےکھاناتھانا۔اب آگے سے کبھی سوکھاسوکھابناروٹی کےکھایاتومارمارکرمرگا بنادوں گا۔جیسے زمیندارٹھاکرجی مجوروں کومرگا
 بناتےہیں۔۔پیٹھ پرما ٹی کےبڑے بڑے ڈھیلے رکھ دوں گا۔سمجھے۔ہاں،کان کھول کرسن لے چھوٹو!اب اپنی بھوجی سے مانگیوتوروٹی سےکھائیو۔ سمجھے۔’’بھائی کےکڑے تیوردیکھ کرچھوٹوبھاگ کھڑاہوا۔یہ ٹوتھ پیسٹ ساونتی اپنے میکےسے لائی تھی ۔وہ بدروکی طرح داتون نہیں کرتی تھی۔اُس کارنگ وروپ بہت اچھانہیں تھاتوکیاہوا۔تھی توشہرکے قریبی گاؤں کی رہنے والی۔وہ برس اورٹوتھ پیسٹ ہی استعمال کرتی تھی۔۔۔۔شہرکی سہولت گاؤں کامسئلہ بن گئی تھی۔٭٭
                
                     *انس مسرورانصاری
             قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن(انڈیا)
                     رابطہ//.9453347784//

پارلیامنٹ بھی غیر محفوظ

پارلیامنٹ بھی غیر محفوظ
اردودنیانیوز۷۲ 
مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلوار ی شریف، پٹنہ 
===========================================
 پارلیامنٹ پر حملے کی بائیسویں برسی 13؍دسمبر کو ایک بار پھر چند لوگوں نے پارلیامنٹ میں افرا تفری مچا کر یہ باور کرادیا کہ نئی پارلیامنٹ بھی غیر محفوظ ہے، جب پارلیامنٹ کی کارروائی چل رہی تھی تبھی سامعین گیلری سے دو جوان نیچے کود گیا اور اس نے بے ضرر قسم کے گیس چھوڑ کر ارکان پارلیمان کو حواس باختہ کر دیا، کچھ ممبروں کی مدد سے اسے دھر دبو چا گیا، پٹائی بھی ہوئی، پھر سیکوریٹی والوں کے حوالہ کر دیا گیا، دو لوگ پارلیامنٹ کے قریب ہی بھارت ماتا کی جے اور جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے، ان میں ایک خاتون تھی، جس کا نام نیلم تھا وہ مختلف نعروں کے ساتھ ایک نعرہ تانا شاہی نہیں چلے گی کا بھی لگا رہی تھی اوراپنی بے روزگاری کا رونا رو رہی تھی، اس واقعہ میں پولیس نے چھ لوگوں کو حراست میں لے لیا ہے، تحقیق جاری ہے، سبھی اکثریتی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، بھاجپا رکن پرتاپ مہرا کی تصدیق پر انہیں وزیٹر گیلری کا پاس جاری کیا گیا تھا، یہ بھارت ماتاکی جے اور جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے اس لیے میڈیا میں کسی نے بھی انہیں دہشت گرد قرار نہیں دیا، پارلیامنٹ کے تحفظ پر سوالات ضرور اٹھائے گئے؛ لیکن دہشت گردانہ حملہ کا جھوٹا پرپیگنڈہ نہیں کیا گیا، جن لوگوں نے یہ ہنگامہ برپا کیا، ان میں ساگر شرما لکھنؤ، منور نجن ڈی کرناٹک،نیلم حصار ہریانہ اور امول شنڈے مہاراشٹرا کا رہنے والا ہے، دو اور گرفتگان کی شناخت ابھی سامنے نہیں آئی ہے، ایک ملزم للت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
 ان لوگوں نے یہ تماشہ کیوں کیا، اس کا پتہ مکمل جانچ کے بعدہی سامنے آئے گا؛ لیکن یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ نہ تو ہماری پالیامنٹ محفوظ ہے اور نہ اس کے ارکان، جب ملک کے سب سے محفوظ علاقہ کا یہ حال ہے تو عوام کے تحفظ کا جو حال ہو سکتا ہے وہ اظہر من الشمس ہے، یہ ٹھیک ہے کہ وہ جو گیس فضا میں تحلیل کر رہے تھے وہ بے ضرر تھی، ذرا سوچیے اگر وہ گیس ضرر رساں ہوتی تو ہم ملک کے کتنے بڑے بڑے سیاسی قائدین کو کھو چکے ہوتے اور ملک کا کتنا بڑا نقصان ہوتا، اللہ کا فضل ہے کہ یہ سب محفوظ رہے، فضل یہ بھی ہے کہ ان میں کوئی مسلم نہیں ہے اور نہ ہی کسی مسلم ارکان کی سفارش پر انہیں پاس دیا گیا تھا، اگر ایسا ہوتا تو پارلیامنٹ کے باہر ایک دوسری جنگ ٹی وی چینلوں پر شروع ہوتی اور نفرت کی دکان سجانے کا ایک اور موقع فرقہ پرستوں کو مل جاتا۔

مہوا موئترا کا جرم

مہوا موئترا کا جرم 
اردودنیانیوز۷۲ 
مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلوار ی شریف، پٹنہ 
===========================================
ترنمول کانگریس کی مہوا موئترا سے پارلیامنٹ کی رکنیت چھین لی گئی ہے، ان پر الزام تھا کہ وہ روپے لے کر پارلیامنٹ میں سوالات اٹھاتی ہیں اور وہ بھی مودی جی کے محبوب اڈانی گروپ پر، جس الزام کے تحت انہیں نکالا گیا وہ الزام سپریم کورٹ کے ایک وکیل نے لگایا تھا جو مہوا موئترا کا سابق عاشق تھا، اس کا کہنا تھا کہ مہوا نے ہیرا نندان جواڈانی گروپ کا حریف ہے، اس سے روپے لے کر سوالات اٹھائے، اس کو بنیاد بنا کر بی جے پی کے ایم پی نشی کانت دوبے نے تحریری شکایت اسپیکر کو دی اورمقدمہ چل پڑا، پوچھ تاچھ کے لیے مہوا کو جانچ ایجنسی کے سامنے پیش ہونا پڑا اور اس سے جو سوالات کیے گیے وہ بالکل نجی قسم کے تھے،مثلا آپ رات میں فون پر کس سے بات کرتی ہیں، رات میں کہاں رہتی ہیں، اس قسم کے اول جلول سوال سے خفا ہو کر مہوا موئترا نے اس جانچ کا بائیکاٹ کیا اور اٹھ کر چلی آئیں، اس کے بعد سے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ اخلاقیات کمیٹی انہیں معاف نہیں کرے گی اور ان کو رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا، اب مہوا موئترا سپریم کورٹ پہونچ گئی ہیں، دیکھنا ہے کہ انہیں وہاں سے بھی راحت ملتی ہے یا نہیں؟
اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ مرکزی حکومت اس قسم کے اقدام انتقامی جذبہ سے کرتی ہے، دلیل یہ ہے کہ اسی قسم کے جرم میں بھاجپا کے ارکان ماخوذ نہیں ہوتے اور ان کی رکنیت نہیں جاتی ہے، مہوا کے خلاف تحریری شکایت درج کرانے والا ایم پی نشی کانت دوبے پر خود جعلی اسناد پر انتخاب لڑنے کا مقدمہ درج ہے، اس پر آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی، رمیش بدھوری بھی پارلیامنٹ میں گالی بک کر رکنیت سے ہاتھ نہیں دھو سکا، البتہ راہل گاندھی زد میں آئے تو ان سے سب کچھ چھن لیا گیا، جنسی استحصال کے سنگین مجرم ایم پی برج موہن سنگھ پر بھی اب تک کوئی کاروائی نہیں ہوسکی؛ کیوں کہ وہ بھی منظورنظر ہیں۔
 مہوا موئترا کا ایوان میں رہنا اور ان کا بار بار اڈانی گروپ پر سوال اٹھانا اور وہ بھی پچاس کی تعداد میں، بھاجپا کی نظر میں غیر معمولی جرم تھا، اس لیے ان کو باہر کا راستہ دکھایا گیا، اگر مہوا موئترا مجرم تھیں تو اس پر پارلیامنٹ میں گفتگو ہونی چاہیے تھی، اخلاقیات کمیٹی میں اتنی اخلاقی حس تو ہونی ہی چاہیے تھی کہ انہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع دیا جاتا، اسپیکر چاہتے تو تنبیہ اور ہلکی سرزنش سے بھی کام چلا سکتے تھے؛ لیکن یہ بات ان کے آقا کے چشم وابرو کے خلاف تھی، اس لیے اسپیکروہی کر سکتے تھے جو ان کی پارٹی چاہتی تھی، پہلے اسپیکر غیر جانبدار ہوتا تھا؛ لیکن اب وہ حق کے طرفدار نہیں پارٹی کے جانب دار ہوا کرتے ہیں، واقعات ومشاہدات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
 در اصل یہ طریقہ ہی غلط ہے کہ لاکھوں عوام کی رائے کی بنیاد پر جیت کر آنے والے ارکان کو چند لوگ مل کر پارلیامنٹ سے باہر کر دیں، جو پارلیامنٹ بھیج رہا ہے اسی کو واپس لینے کا بھی اختیار ہونا چاہیے، جن ارکان پر الزامات لگے اسے پھر عوام کی عدالت میں بھیج دینا چاہیے؛تاکہ وہ نوٹا کا استعمال کرکے اسے واپس لے، یہ جمہوری نقطہ نظر کے عین مطابق  ہوگا اور عوام کی آرا کی توہین بھی نہیں ہوگی، سرکار کو اس قسم کا قانون بنانا چاہیے، تاکہ ارکان کے ساتھ ہونے والی ظلم اور زیادتی، نیزبرخاستگی کے انتہائی عمل کو روکا جا سکے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...