Powered By Blogger

جمعہ, اگست 20, 2021

راجیو گاندھی کے یوم پیدائش پر این ایس یو آئی نے اخون عطیہ کیمپ ' منعقد کیا پورے ملک میں

راجیو گاندھی کے یوم پیدائش پر این ایس یو آئی نے اخون عطیہ کیمپ ' منعقد کیا پورے ملک میں(اردو اخبار دنیا)راجیو گاندھی کے 77ویں یوم پیدائش پر نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا (این ایس یو آئی) نے ملک گیر سطح پر خون عطیہ کیمپ کا انعقاد کیا۔ این ایس یو آئی قومی صدر نیرج کندن یادو کی ہدایت پر یہ عوامی فلاح کا کام انجام دیا گیا۔ تنظیم کے ذریعہ جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا کہ نیرج کندن کی ہدایت پر این ایس یو آئی کی سبھی ریاستی یونٹس نے اپنی اپنی ریاستوں کے مختلف اضلاع میں خون عطیہ کیمپ کا انعقاد کیا۔ اس تعلق سے نیرج کندن نے کہا کہ ''ملک بھر میں خون عطیہ کیمپ کا انعقاد کرنے کے لیے اس خاص دن کو منتخب کیا گیا تھا، تاکہ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو خراج عقیدت پیش کیا جا سکے۔ این ایس یو آئی نے یہ پیش قدمی نہ صرف لوگوں کو خون عطیہ کی اہمیت کے بارے میں بیدار کرنے کے لیے کی گئی، بلکہ انھیں یہ یاد دلانے کے لیے بھی کہ وبا کے وقت میں خون عطیہ کرنا کس قدر اہم ہے۔''

 تصویر بذریعہ پریس ریلیز  تصویر بذریعہ پریس ریلیز  تصویر بذریعہ پریس ریلیز  تصویر بذریعہ پریس ریلیز

دہلی میں منعقد ایک خون عطیہ کیمپ کا کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بھی دورہ کیا۔ وہ این ایس یو آئی قومی صدر نیرج کندن کے ساتھ دہلی ہیڈکوارٹر کے خون عطیہ کیمپ میں پہنچے اور تنظیم کی کوششوں اور ملک بھر میں خون عطیہ کیمپ منعقد کیے جانے کی پیش قدمی کی خوب تعریف کی۔ اس موقع پر راہل گاندھی نے خون عطیہ کرنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی کی۔

این ایس یو آئی دہلی کے ریاستی صدر کنال سہراوت نے اس موقع پر کہا کہ ''ہم نے دہلی میں خون عطیہ کیمپ منعقد کر کے ڈھائی سو یونٹ سے زیادہ خون جمع کیا۔ خون عطیہ کیمپ کا انعقاد کرنے کا ہمارا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ کوئی بھی شخص خون کی کمی سے نہ مرے۔'' اس درمیان این ایس یو آئی نے وزیر اعظم کی شکل میں آنجہانی راجیو گاندھی جی کے دور اقتدار میں کیے گئے کاموں پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک خصوصی قدم بھی اٹھایا۔ تنظیم نے راجیو گاندھی کی کارگزاریوں پر مبنی کئی ہورڈنگ دہلی میں لگوائے جس میں ان کا شکریہ ادا کیا گیا۔


ناندیڑ:مدینتہ العلوم اسکول کے مدرس عبدالسمیع کاانتقال

ناندیڑ:20اگست۔ (اردواخبار دنیا)نہایت افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے عبدالسمیع ولد عبدالغنی عمر48سال(مدرس مدینتہ العلوم اسکول بھوکر ) کا مختصر علالت کے بعد آج بروز جمعہ اورنگ آباد میں انتقال ہوگیا۔انکا مکان بڑی درگاہ گاڑی پورہ ناندیڑمیں واقع ہے ۔

وہ عبدالوہاب، عبدالقدیر، عبدالحئی اور عبدالبشیر کے چھوٹے بھائی تھے۔ تدفین کے بارے میں فی الحال کوئی اطلاع نہیں ملی ہے ۔ادارہ ورق تازہ اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہےکہ وہ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین

شاہ رخ خان کی بیٹی کی بالی ووڈ میں انٹری

شاہ رخ خان کی بیٹی کی بالی ووڈ میں انٹری

سہانا خان
سہانا خان

(اردو اخبار دنیا)

بالی ووڈ کنگ شاہ رخ خان کی بیٹی سہانا خان ویب سیریز کے ساتھ بالی ووڈ میں انٹری دینے کو تیار ہیں۔

ذرائع کے مطابق سہانا خان ہدایت کارہ زویا اختر کی ویب سیریز ’آرچی‘ سے بالی ووڈ میں انٹری دیں گی۔

سہانا کی پہلی ویب سیریز کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ ’آرچی‘ کا یہ دیسی ورژن نیٹ فلکس پر ریلیز کیا جائے گا۔

ویب سیریز میں سہانا کے کردار سے متعلق کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔

واضح رہے کہ شاہ رخ خان نے کئی انٹرویوز میں اعتراف کیا ہے کہ ان کی بیٹی سہانا فلموں میں اداکاری کرنا چاہتی ہے اور بالی ووڈ میں آنے کی خواہش مند ہیں۔

بیٹی کے برعکس شاہ رخ خان کا بیٹا آریان خان ہدایتکاری میں دلچسپی رکھتا ہے۔

بریکنگ نیوز : مہاراشٹر کے ضلع بلڈھانہ میں ’سمردھی مہامارگ‘ منصوبہ کے لیے مزدوروں کو لے جا رہی گاڑی پلٹ گئی 13 مزدور ہلاک

  • (اردو اخبار دنیا)

مہاراشٹر کے ضلع بلڈھانہ میں ’سمردھی راج مارگ‘ منصوبہ کے لیے مزدوروں کو لے جا رہی گاڑی پلٹ گئی جس میں کم از کم 13 افراد کی موت واقع ہو گئی ہے

مہاراشٹر سے ایک دردناک حادثہ کی خبریں موصول ہو رہی ہیں جس میں درجن بھر سے زائد افراد کی ہلاکت کی بات کہی جا رہی ہے۔ یہ دردناک حادثہ مہاراشٹر کے ضلع بلڈھانہ میں پیش آیا ہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق ’سمردھ راج مارگ‘ منصوبہ کے لیے مزدوروں کو لے جا رہی گاڑی کے پلٹ جانے سے کم از کم 13 لوگوں کی موت ہو گئی ہے۔ ایک نیوز پورٹل نے بھی پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس حادثہ میں 13 مزدوروں کی موت ہو گئی ہے۔


بتایا جا رہا ہے کہ زبردست بارش کی وجہ سے ڈمپر سڑک پر پھسل کر پلٹ گیا۔ اس وجہ سے گاڑی میں سوار 16 مزدور دب گئے۔ حادثے میں 8 مزدوروں کی موقع پر ہی موت ہو گئی جب کہ باقی کے 5 نے اسپتال لے جاتے وقت دم توڑ دیا

مہاراشٹرا میں بھیانک حادثہ 13 افراد ہلاک

مہاراشٹرا میں بھیانک حادثہ 13 افراد ہلاکممبئی:(اردو اخبار دنیا) ریاست مہاراشٹرا میں پیش آئے خوفناک سڑک حادثہ میں 13 افراد ہلاک اوردیگرزخمی ہوگئے۔ یہ حادثہ ضلع بلدھانا میں سندھ کھیڑ راجہ اورمیہکرہائی وے پردسربیڑکے قریب اس وقت پیش آیا جب مزدوروں کو لے جانے والی گاڑی تیزرفتاری کے سبب الٹ گئی، حادثہ میں 13 مزدورہلاک اوردیگر3 زخمی ہوگئے۔ زخمیوں کو علاج کیلئے ہاسپٹل منتقل کردیا گیا ہے۔ یہ مزدورناگپور-ممبئی سمرودھی پراجکٹ کیلئے جارہے تھے کہ حادثہ پیش آیا۔


یوپی میں اتوار کے لاک ڈاؤن کا سلسلہ ختم ، فیصلہ رکشا بندھن سے نافذالعمل ہوگا

یوپی میں اتوار کے لاک ڈاؤن کا سلسلہ ختم ، فیصلہ رکشا بندھن سے نافذالعمل ہوگا(اردو اخبار دنیا)لکھنؤ: اتر پردیش میں گزشتہ کچھ مہینوں سے کورونا کے معاملوں میں ہو رہی کمی کے پیش نظر وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اتر پردیش میں ہفتہ واری لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے نئے احکامات کے مطابق اس رکشا بندھن سے یوپی کو پوری طرف انلاک قرار دے یا جائے گا۔

وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے جمعہ کو یہاں کووڈ 19 کے انتظام کے لیے تشکیل دی گئی ٹیم 09 کی میٹنگ میں کہا کہ ریاست میں کووڈ کی بگڑتی ہوئی حالت کے پیش نظر اتوار کے ریاست گیر ہفتہ وار بند کے نظام کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

اس سے قبل ریاست میں ہفتہ اور اتوار کے روز کورونا کرفیو نافذ ہوتا تھا لیکن گزشتہ 11 اگست سے ہفتہ کے کرفیو کو ختم کر دیا گیا تھا۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ریاست میں اب کورونا کی صورت حال پوری طرح قابو میں ہیں۔

یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ کورونا کی دوسری لہر پر موثر کنٹرول کے ساتھ زندگی تیزی سے معمول پر آ رہی ہے۔ آج ریاست کے 15 اضلاع علی گڑھ، امیٹھی، بدایوں، بستی، دیوریا، فرخ آباد، ہمیر پور، ہردوئی، ہاتھرس، کاس گنج، مہوبا، مرزا پور، سنت کبیر نگر، شراوستی اور شاملی میں ایک بھی کووڈ کے مریض نہیں ہے۔ یہ اضلاع کووڈ انفیکشن سے پاک ہو چکے ہیں۔ روزانہ اوسطا ڈھائی لاکھ سے زائد ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں جبکہ مثبت شرح 0.01 ہے اور صحتیاب ہونے کی شرح 98.6 فیصد ہے۔

پچھلے 24 گھنٹوں میں کیے گئے دو لاکھ 33 ہزار 350 نمونوں کی جانچ میں 58 اضلاع میں انفیکشن کا ایک بھی نیا کیس نہیں ملا جبکہ 17 اضلاع میں مریض ایک ڈیجیٹ میں پائے گئے۔ فی الحال ریاست میں فعال کووڈ کیسوں کی تعداد کم ہوکر 408 رہ گئی ہے۔

اب تک ریاست میں 07 کروڑ 01 لاکھ 69 ہزار سے زیادہ کووڈ نمونوں کی جانچ کی جاچکی ہے جبکہ 06 کروڑ 24 لاکھ سے زائد ویکسین کی خوراکیں دی گئی ہیں۔ 05 کروڑ 26 لاکھ سے زائد افراد کو ویکسین کی کم از کم ایک خوراک دی جاچکی ہے ، جبکہ دونوں خوراکیں حاصل کرنے والوں کی تعداد جلد ہی ایک کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔

خیال رہے کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں دو دنوں کا اختتام ہفتہ کرفیو انلاک کے عمل کے دوران بھی نافذ تھا۔ جب صورت حال قابو میں آنے لگی تو حکومت کی جانب سے مال اور ملتی پلیکس کھولنے کی اجازت فراہم کر دی اور بازار بھی کھول دئے گئے۔ لیکن اب جبکہ یوپی کے 60 اضلاع کورونا سے پاک قرار دئے جا چکے ہیں، ایسے حالات میں حکومت نے ویک اینڈ کرفیوں سے راحت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ادھر، ہندوستان میں کورونا کے معاملوں میں اتار چڑھاؤ جاری ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوان ملک بھر سے کورونا کے 36571 نئے معاملے ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ تاہم ان میں سے تقریباً 58 فیصد معاملے تنہا کیرالہ سے سامنے آئے ہیں۔ ملک میں بیشتر ریاستوں میں کورونا کے نئے معاملوں میں کمی درج کی گئی ہے۔ اس کے باوجود ملک بھر سے درج کئے جانے والے کورونا کیسز میں سے 85 فیصد کا تعلق 5 ریاستوں سے ہے۔

اقامتِ دین کیلئے مطلوبہ صفات

از قلم ۔ ایس۔عبدالحسیب

دوستوں آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں جہاں پر ہر طرف سے مسلمانوں پر ظلم وزیادتی کے پہاڑ توڑے جا رہےہیں،جہاں مسلمانوں کو کورونا وائرس کا زمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے،جہاں حکومت ہند از سرے نو سے مسلمانوں پر زیادتیاں کرتی آرہی ہیں،کبھی مسلمانوں کو ملک سے بے دخل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں تو کبھی ہمارے تعلیمی نظام اور ملک کے آئین و دستور پر حملہ کیا جاتا ہے ان نازک حالات میں اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے ہمیں بھیجا ہے اسے بخوبی انجام دینا اور اسلام کی دعوت ہر عام و خاص تک پہنچانا ہے اور اس بات کا اعلان کرنا ہے کی اسلام از سرے نو سے ہی امن و سکون اور بھائی چارے کا درس دیتا آرہا ہے۔

دعوت اسلامی اس لحاظ سے دینا ہے کی ہم بحیثیت مسلم کے ساتھ ساتھ بحیثیت خلیفہ بھی ہے جس کہ بارے میں آخرت میں ہم سے باز پرس کی جائیں گی۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کی اقامت دین اصل میں ہے کیا۔۔۔؟؟؟

اقامتِ دین کیا ہے۔۔؟؟:اقامت یہ لفظ لفظ ‘قائم’ سے بنا ہے اور اقامت دین کا مطلب دین اسلام کو قائم کرنا ہے۔ کہنا یہ مطلوب ہے کی ہم اللہ کے اس دین کو اسکی دنیا میں قائم کردے اور اس کے ہر قوانین کو بروئے کار لائے اور ہم ہر حال میں اللہ کی پیروی و بندگی کرے اسی کا نام اقامتِ دین ہے۔

∆ ایک نظر تاریخ پر…..

چلئیے میں آپ کو آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے مکہ کی ایک عظیم شخصیت اور عظیم داعی کی زندگی کے چند مشہور لمحات کہ بارے میں بتاتا ہوں،جن کا نام سنتے ہی ہماری زبانوں سے بے ساختہ یہ جملہ نکلتا ہے’ صلی اللہ علیہ وسلم’۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ دنیا کے سب سے عظیم اور مشہور داعی گزرے ہے جس وقت آپکی نبوت کا اعلان ہوا ٹھیک اسی وقت سے آپ کے اندر اللہ تعالیٰ کے دین کو نافذ کرنے کی تڑپ نے دل میں جگہ بنالی۔ آپ علیہ السلام میں بے شمار صفات تھی جو کہ ایک داعی میں ہونی چاہیے میں چند صفات کا تذکرہ کروں گا۔

✓ داعیانہ صفات….

»حکمت و نصیحت

دعوت کیلئے حکمت کا ہونا نہایت ضروری ہے آپ کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کی آپ جسے دعوت دے رہے ہوتو اس کا تعلق کس طبقہ یا مذہب سے ہیں وہ کیا کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہے کہ

اُدۡعُ اِلٰى سَبِيۡلِ رَبِّكَ بِالۡحِكۡمَةِ وَالۡمَوۡعِظَةِ الۡحَسَنَةِ‌ وَجَادِلۡهُمۡ بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُ‌ؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِيۡلِهٖ‌ وَهُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُهۡتَدِيۡنَ‏ ۞

اے نبی ؐ ، اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سےمباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔ تمہارا ربّ ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے (سورة النحل -125)۔

چند مثالیں سیرت النبی سے…

1) ایک شخص معاویہ بن حیدہ نامی، نبی علیہ السلام کے پاس آیا اور آپ علیہ السلام سے پوچھا ‘اسلام کی تعلیمات کیا ہے’؟

2) نبی علیہ السلام نے فرمایا ‘اسلام کا مطلب یہ ہے کہ تم پوری زندگی اللہ کی مرضی کے تابع کر دو،اور اپنے سارے دعوے اور حقوق سے دست بردار ہو جاؤ،نماز قائم کرو اور زکاة ادا کرو’۔

2)مفروق شیبانی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ علیہ السلام سے دریافت کیا ‘اے قریشی بھائی! آپ کی دعوت کس بارے میں ہے؟

آپ نے فرمایا:’ میں لوگوں کو اس صداقت کی طرف دعوت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں۔

یہ کچھ مثالیں تھی جن سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نبی علیہ السلام کس طرح سے لوگوں کو حکمت و دانائی کے ساتھ اسلام کی دعوت دیتے تھے کی ہر فرد کو اسکے سماج کے حوالے سے دعوت دی جاتی تھی مگر مرکزی پہلوں صرف اللہ کی وحدانیت بیان کرنا تھا۔

»پاک کردار

اسلام کی دعوت لوگوں تک پہنچانے میں حکمت کی جتنی ضرورت ہے اتنی ہی ایک پاک کردار کی بھی ضرورت ہے ہمارا کردار دعوت دین کیلئے اتنا پاک ہونا چاہیے کی سماج بھی ہمارے کردار کی گواہی دے۔

اس حوالہ سے ایک واقعہ بتاتا چلوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار کیسا تھا لوگوں نے آپ کے کردار کی گواہی کیسے دی تھی یہ ہمیں اس واقعہ سے سمجھ آئے گا۔

"ایک مرتبہ آپ علیہ السلام کوہ صفا پر چڑھے اور قریش کے لوگوں کو آواز دی

جب سب لوگ جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘اے قریش والوں،اگر میں کہوں کے کوہ صفا کے پیچھے ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو کیا تم میری بات کو یقینی جانوگے..؟ سبھی نے با آواز بلند کہا ‘ہاں’ ہم آپکی بات پر یقین کرتے ہیں کیونکہ ہم نے آپ کو کبھی جھوٹ بولتا ہوا نہیں پایا۔

اس واقعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آپ علیہ السلام کا کردار کیسا بے مثال تھا کی لوگ اسلام قبول نہ کرنے کے باوجود بھی سماج نے آپ کے کردار کی گواہی دی۔ دعوت دین کیلئے ہمیں بھی یہی کردار مطلوب ہے کی ہم زندگی میں کبھی جھوٹ نہ بولے،کسی کی امانت میں خیانت نہ کرے،کسی کا دل نہ دکھائے وغیرہ وغیرہ۔

»صبر اور استقامت

ہم جس دین کی سربلندی کے لئے اٹھے ہے یہ ایک عظیم اور بہت لمبا سفر ہے جہاں ہمیں ہر کام صبر سے کرنا ہے

یہ وہ راستہ ہے جہاں قدم قدم پر آزمائش ہی آزمائش ہے اس راستے میں رکاوٹیں،پریشانیاں ہزاروں آئے گی لیکن ہمیں صبر کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہے کہ

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو صبر اور نماز سے مدد لو ۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے”.

(سورة البقرہ -153)

ایک دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کی

"جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے”.

(سورة العنکبوت-69)

یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہے کی جو لوگ اس راہ میں پیش قدمی کریں گے اللہ انھیں اپنے راستے دکھائیں گا اور یقیناً اللہ صابروں اور نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔

»اللہ کا انعام

یہ وہ سفر ہے جس پر چل کر انسان کی زندگی کامیاب ہوسکتی ہے اس راہ پر چل انسان اپنے رب کی رضا اور خوشنودی حاصل کرسکتا ہے جس انعام کا تذکرہ قرآن حکیم میں بار بار ارشاد ہوا ہے وہ نعمتوں بھری جنت اسکا مقدر ہوگی انشاء اللہ۔

"اے اطمینان والی روح، تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش،پس میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا،اور میری جنت میں چلی جا۔(سورة الفجر 30-27).

مدینہ میں غیر ملکیوں کو جائیداد خریدنے کی مشروط اجازت

مدینہ میں غیر ملکیوں کو جائیداد خریدنے کی مشروط اجازت

مکہ،مدینہ میں غیر ملکیوں کو جائیداد خریدنے کی مشروط اجازت
مکہ،مدینہ میں غیر ملکیوں کو جائیداد خریدنے کی مشروط اجازت

ریاض(اردو اخبار دنیا)

قانونی مشیر جعفر جمل اللیل نے آگاہ کیا ہے کہ کوئی بھی غیرملکی کسی بھی سعودی کے نام سے مکہ اور مدینہ منورہ میں غیر منقولہ جائدادوں کا مالک نہیں بن سکتا- تجارتی پردہ پوشی کے ذریعے مالک بننے کی کوشش کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا-

اس قسم کی جائداد نیلام کی جاسکتی ہے- سبق ویب سائٹ کے مطابق قانونی مشیر نے بتایا کہ غیرملکی مکہ اور مدینہ منورہ کے مقدس علاقوں میں زمینوں کے مالک صرف ورثے کی صورت میں بن سکتے ہیں۔ جائیدادوں سے استفادے کا حق بھی صرف وراثتی طور پر ہی ممکن ہوگا-

قانونی مشیر سے دریافت کیا گیا کہ ’کیا غیرملکی سعودی عرب میں جائیدادیں خرید سکتے ہیں‘؟ تو انہوں نے بتایا کہ ’مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مقدس علاقوں کے علاوہ غیرملکی سعودی عرب میں کسی بھی مقام پر جائیدادوں کے مالک بن سکتے ہیں-

اس کے لیے انہیں وزارت داخلہ سے منظوری لینا ہوتی ہے- غیرملکی رہائشی مکان خرید سکتے ہیں تاہم ایک سے زیادہ مکان خریدنے کے مجاز نہیں- غیرملکیوں کے لیے مقرر قانون ملکیت کی دفعہ 2 میں اس 

(اردو اخبار دنیا)مدینہ میں غیر ملکیوں کو جائیداد خریدنے کی مشروط اجازت

مکہ،مدینہ میں غیر ملکیوں کو جائیداد خریدنے کی مشروط اجازت


مکہ،مدینہ میں غیر ملکیوں کو جائیداد خریدنے کی مشروط اجازت


ریاض


قانونی مشیر جعفر جمل اللیل نے آگاہ کیا ہے کہ کوئی بھی غیرملکی کسی بھی سعودی کے نام سے مکہ اور مدینہ منورہ میں غیر منقولہ جائدادوں کا مالک نہیں بن سکتا- تجارتی پردہ پوشی کے ذریعے مالک بننے کی کوشش کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا-


اس قسم کی جائداد نیلام کی جاسکتی ہے- سبق ویب سائٹ کے مطابق قانونی مشیر نے بتایا کہ غیرملکی مکہ اور مدینہ منورہ کے مقدس علاقوں میں زمینوں کے مالک صرف ورثے کی صورت میں بن سکتے ہیں۔ جائیدادوں سے استفادے کا حق بھی صرف وراثتی طور پر ہی ممکن ہوگا-


قانونی مشیر سے دریافت کیا گیا کہ ’کیا غیرملکی سعودی عرب میں جائیدادیں خرید سکتے ہیں‘؟ تو انہوں نے بتایا کہ ’مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مقدس علاقوں کے علاوہ غیرملکی سعودی عرب میں کسی بھی مقام پر جائیدادوں کے مالک بن سکتے ہیں-


اس کے لیے انہیں وزارت داخلہ سے منظوری لینا ہوتی ہے- غیرملکی رہائشی مکان خرید سکتے ہیں تاہم ایک سے زیادہ مکان خریدنے کے مجاز نہیں- غیرملکیوں کے لیے مقرر قانون ملکیت کی دفعہ 2 میں اس 

مرکزی حکومت نے سرکاری ملازمتوں میں 4 فیصد ریزرویشن کوٹہ ختم کر دیا ، جانیے کونسا طبقہ نقصان اٹھائے گا

نئی دہلی: 20.اگست۔مرکزی حکومت نے نوکریوں میں معذور افراد کے لیے چار فیصد ریزرویشن کا کوٹہ ختم کر دیا ہے۔ گزٹ نوٹیفکیشن کے مطابق حکومت نے بعض اداروں کو رائٹس آف پرسنز ڈس ایبلٹیز ایکٹ 2016 کے دائرہ کار سے مستثنیٰ قرار دیا ہے جس میں معذور افراد کے لیے ملازمت میں ریزرویشن کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔

اس ایکٹ کے تحت ، معذور افراد پولیس فورس ، ریلوے پروٹیکشن فورس جیسے یونٹس میں تقرریوں میں چار فیصد ریزرویشن حاصل کرتے تھے ، جسے اب ختم کر دیا گیا ہے۔

اس نوٹیفکیشن کےپہلے میں ، حکومت نے انڈین پولیس سروس ، دہلی ، انڈمان و نکوبار جزائر ، لکشدیپ ، دمن اور دیو اور دادرا اور نگر حویلی کے تمام عہدوں کو پولیس سروس کے تحت اور انڈین ریلوے پروٹیکشن فورس سروس کے تحت تمام زمروں میں ریزرویشن لاگو نہ کرنے کی چھوٹ دی ہے۔

سانحۂ کربلا کی عصری معنویت ۔ ڈاکٹرقمر صدیقی

سانحۂ کربلا کی عصری معنویت ۔ ڈاکٹرقمر صدیقی(اردو اخبار دنیا)۱۰ محرم ۶۱ ھجری میں کربلا کی سرزمین پر پیغمرِ اسلام حضرت محمد ؐ کے نواسے حضرت امام حسین ؓ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت نے بنی نوع انسان کو انسانیت کی سربلندی کے لیے برائی کی خلاف جد جہد کا درس دیا۔ان کی اس قربانی کو تاقیامت فراموش نہیں کیا جاسکتا۔امام حسینؓ نے اُس وقت جبراً تبدیل کی جارہی سیاسی، معاشی اور تہذیبی صورتِ حال کے خلاف عَلم بلند کیا تھا جب اسلامی طرزِ حکومت یعنی ''خلافت'' کو مٹانے کے اقدامات ہورہے تھے، جب خلافت 'ملوکیت' میں تبدیل ہورہی تھی، جب اسلامی تمدن کو غیر اسلامی اور خاندانی عصبیت کے رُخ پر موڑنے کے مذموم سازشیں کی جارہی تھیں، جب مذہبی مجالیس میں سب شتم نے اپنی جگہ بنا لی تھی، جب عہد اور بد عہدی میں تفریق کرنے والوںکو گوشہ نشینی پر مجبور کیا جانے لگا تھا ۔ ایک ایسے وقت میں جب برائی نے مختلف جہتوں سے اپنے پاؤں پسارنے شروع کردیئے تھے، امام حسینؓ نے ان برائیوں کے سد باب کے لیے عملی قدم اٹھایا۔ کربلا کی تاریخ سے کیا اہل علم و دانش اور کیا ہم جیسے معمولی علم رکھنے والے سبھی واقف ہیں۔لہٰذا آج کے اس پر فتن دور میں اس کی اشد ضرورت ہے کہ ہم غور کریں کہ کربلا کی تاریخ سے ہم نے کیا سیکھا ہے۔ دونوں عالمی جنگوں کی ہولناک تباہی اور ایٹمی دھماکوں کے سبب موت کی ہیبت کا آنکھوں میں بس جانا، خانہ جنگی، دہشت گردی اور ان سب وجوہات کی باعث موجودہ صدی میں انسانی زندگی کی بے وقعتی کی وجہ سے دانشوروں کی فکر، جذ بے اور اعصاب پر خاتمے کا احساس کچھ اس درجہ حاوی ہوگیا ہے کہ ہمارے دور کو ''عہدِ مرگ'' کے نام سے موسوم کیا جانے لگا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارا ذہن فنا کےتصور سے بالکل عاری ہے بلکہ ہمارے حافظے میں آتشِ نمرود سے ریگزارِ کربلا تک کی داستانِ شجاعت اب بھی محفوظ ہے ۔ طوفانِ نوح کا علم سب کو ہے اور قیامت کے دن صور پھونکا جائے گا اس سے بھی ہم آگاہ ہیں۔ لیکن آج جس طرح سماج دشمن اور انسان دشمن لوگوں نے ٹکنالوجی کے مخصوص استعمال کے ذریعے انسانوں کی موت کو اتنا سستا اور آسان بنا دیا ہے کے اس باعث خاتمے کے احساس نے انسان کو اندرسے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ صرف اکیسویں صدی کے اِن 18برسوں می تشدد کے سبب اتنی اموات ہوئی ہیں ،کہ اتنی اموات پچھلے دو سو سال میں نہیں ہوئیں۔ شاید ولیم فاکنر نے صحیح کہا تھا: ''آج ہر آدمی کے سامنے ایک ہی سوال ہے کہ میں کب کہاں بھَک سے اُڑ جائوں ''۔ ایک ایسے دور میں جب احساسِ مرگ نہ صرف انسان کے ذہن بلکہ اعصاب پر بھی سوار ہوچکا ہے، 'کربلا' سے حاصل کیے گئے سبق کا اعادہ کرنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے کیونکہ کربلا تاریخ کا ایک واقعہ ہی نہیں بلکہ مسلسل جد و جہد کا استعارہ بھی ہے۔ سال بیلو نے تحریر کیا تھا کہ '' انسان ہونے کے کیا معنی ہیں؟ایک شہر میں، ایک صدی میں، ایک ہجوم میں ، ایک تغیر میں جسے سائنس نے ایک منٹ میں بدل دیا ہے۔ ایک منظم قوت جس نے کئی طرح کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں ۔ یہ ایک ایسی صورتِ حال ہے جو میکانکی عمل سے وجود میں آئی ہے۔ ایک ایسا سماج ہے جس میں برادری نہیں ہے اور فرد کی حیثیت ختم ہورہی ہے۔'' یہاں بنیادی سوال یہ نہیں ہے کہ بشمول سماج و فرد تاریخ ، ادب ، آرٹ اور انسان کی ایک منفی تعبیر و تشریح سامنے آرہی ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ اس طرح کے نظریات کو فروغ دینے کی وجوہات کیا ہیں؟ ان کا مقصد کیا ہے؟ آخر کیوں رائج قدروں کی نفی کرتے ہوئے انسان کو محض طبقاتی کشمکش، جنسی جبلت اور لاشعوری جبریت کا پُتلا گردانا جا رہا ہے۔ غور کیا جائے تو یہ ساری صورتِ حال سائنسی دریافتوں اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے ساتھ پیدا ہوئیں۔ ٹیکنالوجی شروع سے ہی صاحبِ زر کے ہاتھوں گروی رہی ہے۔ یورپ کے نشاۃالثانیہ کے بعد جب وہاں کےعوام چرچ اور سرمایہ داروں کی جکڑ بندی سے آزاد ہوئے تو ٹکنالوجی کے اسپانسرس بہت گھبرائے۔ انھوں نے اس صورتِ حال سے بچاؤ کی یہ تدبیر کی کہ ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ نظریات بھی اسپانسر کرنے لگے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب یورپ کے دیہات اُجڑ رہے تھے اور شہر کانکریٹ کے جنگل بن رہے تھے اس وقت ایک طرف مساوات ، بھائی چارے اور انسانی حقوق کی باتیں ہورہی تھیں اور دوسری طرف مزدوروں کے حقوق پامال ہورہے تھے۔ جب یہی مزدور بھوک سے بلبلا کر احتجاج کرتے تو نظریات کی افیون انھیں سلادینے کے لیے کارگر ثابت ہوتی۔ یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ ہمارے زمانے میں بودریلا جیسے دانشور نے عراق امریکہ جنگ سے متعلق یہ تحریر کیا: Gulf war did not happen, and was only as televized simulation of a war (خلیجی جنگ واقع نہیں ہوئی ، یہ صرف ٹیلی ویژن کے ذریعے پیش کی گئی جنگ کی شبییہ محض تھی۔) ہم دیکھ رہے ہیں ہمارے زمانے میں اظہار و دانش کے تقریباً تمام ذرائع فروخت ہوچکے ہیں۔ دانشور، تخلیق کار، صحافی ایک لمبی فہرست ہے بازار میں اپنے دام لگانے والوں کی۔ دراصل کارپوریٹ ایک ایسا سماج تیار کررہا ہے جو مارکیٹ یا بازاری سماج ہو۔ جہاں ٹوتھ پیسٹ سے لے کر انسانی رشتے سبھی بازار کے بکائو مال بن جائیں۔اس کام کی ابتدا دنیا کو ایک عالمی گائوں بنانے کی کوشش سے شروع ہوچکی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس نئے سماج کی تشکیل کچھ مخصوص لوگوں کے ہاتھوں تک محدود ہے۔ وہ لوگ جن کے پاس خزانے تک پہنچنے کا پاس ورڈ موجود ہے۔ وہ اپنی اتھاہ دولت کے بوتے پر پیپسی کلچر رائج کررہے ہیں، ناچنے گانے والوں کو عوامی ہیرو بنا رہے ہیں، ٹی وی چینلس، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی مدد سے اپنے من چاہے رواج کو عوام میں رائج کررہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ تازہ ہوا ہر ذی نفس کی بنیادی ضرورت ہے مگر تازہ ہوا کے نام پر طرح طرح کی کثافت کو برداشت کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ ہمیں اس ثقافتی ، سیاسی اور معاشی یلغار کا مقابلہ کبھی نہ کبھی کرنا ہی ہوگا۔ ایک ایسی یلغار جو صرف لامحدود ہی نہیں متنوع جہات کی حامل بھی ہے اور جس کے پاس وقتی فوائد اور سرور و نشاط کی الف لیلیٰ بھی ہے۔ اس برائی کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ہمیں ایندھن تاریخ سے ہی حاصل کرنا ہوگا۔ امام حسینؓ سے ہم آج بھی برائی کے خلاف عَلم بلند کرنے کا سبق سیکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ کربلا کی سرزمین کو اپنے لہو کی خوشبو سے معطر کرتے وقت امامَ حسینؓ اور ان کے قافلے کا مقصد نہ حصولِ خلافت تھا نہ حصولِ زر بلکہ ان کے نزدیک تو ایک عظیم مقصد تھا، تبدیلی کے اس عمل کے خلاف سینہ سپر ہوجانا جس کا غالب پہلو برائی تھی۔ آج ہمارے سامنے بھی تبدیلی کا ویسا ہی عمل جاری ہے جس میں غالب پہلو برائی کا ہی ہے۔ مگر ہمارے درمیان امامِ حسینؓ نہیں ہیں ، ہوبھی نہیں سکتے: قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں گر چہ ہے تابدار ابھی گیسوے دجلہ و فُرات لیکن اس پر فتن دور میں ہم اتنا تو کرہی سکتے ہیں کہ برا کو برا کہیں۔ ہر چند کہ آہ بھی بھرنے میں بدنام ہونے کا خطرہ ہے تاہم یہ بھی تو سچ ہے : مشکیزے سے پیاس کا رشتہ بہت پرانا ہے


ڈیزل کے داموں میں لگاتار تیسرے دن کمی ، پٹرول 33 ویں دن بھی بلند ترین سطح پر برقرار

ڈیزل کے داموں میں لگاتار تیسرے دن کمی ، پٹرول 33 ویں دن بھی بلند ترین سطح پر برقرارنئی دہلی(اردو اخبار دنیا): بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں جاری گراوٹ کی وجہ سے جمعہ کے روز مسلسل تیسرے دن ملک میں ڈیزل 20 پیسے فی لیٹر سستا ہو گیا، جبکہ پٹرول کی قیمتیں 33 ویں دن بلند ترین سطح پر برقرار رہیں۔

بدھ کے روز چار ماہ بعد ڈیزل کی قیمت میں 20 پیسے فی لیٹر کی کمی کی گئی تھی ۔ دہلی میں آج انڈین آئل کے پمپ پر پٹرول 101.84 روپے فی لیٹر رہا، وہیں ڈیزل 20 پیسے سستا ہوکر 89.27 روپے فی لیٹر پر آگیا ۔ آئل مارکیٹنگ کمپنی انڈین آئل کارپوریشن کے مطابق بدھ کو دہلی میں پٹرول 101.84 روپے فی لیٹر پر مستحکم رہا جبکہ ڈیزل 20 پیسے سستا ہوکر 89.27 روپے فی لیٹر ہو گیا۔

بین الاقوامی سطح پر خام تیل کےسب سے بڑا صارف امریکہ میں خام تیل کی مانگ اس طرح سے نہیں بڑھ رہی ہےجس کی امید تھی ۔ فیڈرل ریزرو نے کووڈ -19 کو دیے جا رہے پیکج کوختم کرنے کے اشارے دیے ہیں ۔ اس سے خام تیل میں جمعرات کو بھی گراوٹ آئی ۔ کل کاروبارختم ہوتے وقت برینٹ کروڈ 1.78 ڈالر فی بیرل کی کمی سے 66.45 ڈالر فی بیرل اور امریکی کروڈ بھی 1.67 ڈالر فی بیرل کم ہو کر 63.79 ڈالرپر بند ہوا۔

پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کا یومیہ جائزہ لیا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر ہر روز صبح 6 بجے سے نئی قیمتیں لاگو کی جاتی ہیں ۔ ملک کے چار بڑے شہروں میں ڈیزل اور پٹرول کی قیمتیں مندرجہ ذیل ہیں:

شہر ------ پٹرول ------ ڈیزل

دہلی ----- 101.84 ----- 89.27

ممبئی ----- 107.83 ----- 96.84

چنئی ----- 102.49 ----- 93.84

کولکاتا ----- 102.08 ----- 92.32

مولانا آزاد نے محرم کے بارے میں کیا کہا؟

مولانا آزاد نے محرم کے بارے میں کیا کہا؟

تحریک آزادی
تحریک آزادی
  • (اردو اخبار دنیا)

 ثاقب سلیم،نئی دہلی

دس محرم الحرام 61 ہجری مطابق 680 عیسوی کو حسین ابن علی کو شہید کر دیا گیا۔ وہ پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے تھے۔

امام حسین بن علی اپنے اہل خانہ کے ساتھ کربلا (عراق )میں یزید کی ایک بہت بڑی مسلم فوج شہید کردیا۔ صدیوں سے اس دن کو مسلمان عوامی غم کے طور پر منا رہے ہیں۔

حسین کی شہادت ظلم کے خلاف لڑنے کی علامت بنی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں کربلا کے واقع کو حق و باطل کی جنگ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کے دوران کچھ مسلم رہنماؤں نے کربلا کو علامت کے طور پر بھی پیش کیا ہے۔

جہاں برطانوی حکومت کی نمائندگی کو یزید سے تشبیہ دی گئی ہے تو وہیں ہندوستانیوں کو حسین کے پیروکار کے طور پر پیش کیا جاتا تھا کہ ہندوستان سچائی کے لیے لڑ رہے ہیں۔

سنہ 1921 میں مولانا ابوالکلام آزاد نے ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتہ میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے شہدائے کربلا کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا۔

مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک بڑے اجتماع سے کہا تھا کہ 680 عیسوی میں سانحہ کربلا کو انسانی تاریخ کا سب سے بڑا ماتمی واقعہ قرار دیا تھا۔

ان کا خیال تھا کہ دس محرم کا سانحہ اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے، جتنا یاد کیا جاتا ہے۔

مولاناآزاد کی یہ تقریر بعد میں ایک کتابچہ کی شکل میں شائع ہوا۔

مولانا کے مطابق قدیم زمانے سے انسانوں نے ان واقعات کو یاد رکھا ہے، جن سے وہ سیکھ سکتے ہیں۔

خیال رہےکہ سبھی مذاہب کے تہواروں کا مقصد کسی نہ کسی طرح تعلیمات یاد رکھنا ہوتا ہے۔

دراصل محرم حسین اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے واقعہ کو یاد کرنے کے لیے نہیں منایا جاتا ہے۔ مولانا کا خیال ہے کہ محرم ایک طاقتور ظالم کی یاد میں نہیں منایا جاسکتا جس نے بظاہر کم طاقتور صالح آدمی کو شہید کیا تھا۔

اگر ایسا ہوتا تو تہذیبوں کی تاریخ میں سیکڑوں واقعات ہوئے ہیں، جہاں ظالموں نے ان کے خلاف کھڑے لوگوں کو پھانسی دی ہے، اگر ایسا ہوتا دیگر واقعات کو بھی جوش و خروش کے ساتھ منائی جا سکتی ہے۔

تاہم حسین کی شہادت کو کبھی ماتم کے طور پریاد نہیں کیا گیا۔ اس کو ایک الگ طرح سے دیکھنا ہوگا؟

درحقیقت مولانا کا خیال ہے، یہ یادگار حسین کی تعلیمات کو یاد رکھنا ہے جو کہ اصل میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تعلیمات ہیں جو کہ دراصل قرآن اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہی تعلیمات ہیں۔

کربلا کی صورت میں ہم سچائی کو یاد کرتے ہیں، جس کے ساتھ حسین کھڑے تھے۔

صرف تحریر شدہ الفاظ ہی لوگوں کی رہنمائی نہیں کر سکتے۔ ہمیں سچ ، صبر اور تقویٰ کا سبق سکھانے کے لیے زندہ رول ماڈل کی ضرورت ہوتی ہے۔

حسین ایک ایسی مثال ہے۔

مولانا کا خیال ہے کہ اللہ نے اپنی کتابیں انبیاء کے ساتھ بھیجی ہیں کیونکہ مثال کے بغیر لوگ ان کی باتوں کا صحیح مطلب نہیں سمجھ سکتے۔استاد کے بغیر ہم کوئی کتاب یا مذہب نہیں سیکھ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا اس دعوے پر حیران نہیں ہوتے کہ پیغمبر کے داماد حضرت علی ابن ابی طالب قرآنِ نطق تھے۔

حضرت علی کی زندگی نبی کی عکاسی کرتی ہےاور اس طرح ان کے اعمال قرآن کی تعلیمات کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

ایسے رول ماڈل ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں، کیونکہ ان کے بغیر ہم اللہ کا کلام نہیں سمجھ سکتے۔

مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں، اس شہادت کو ہمیشہ سکھائی جانی چاہئیں اور اس مقدس شہادت کی روح کو ہر سال کم از کم ایک بار یاد رکھنا چاہیے۔

یہ سانحہ کربلا اپنے اندر تقویٰ ، صبر ، سچائی ، جمہوریت اور انصاف کے اسلامی اسباق پر مشتمل ہے۔ اسلامی روایات نبوت پر یقین رکھتی ہے۔ شروع سے ہی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو سیدھے راستے پر چلانے کے لیے مختلف انبیاء اور رسول نازل کئے۔

بعض اوقات ان نبیوں نے ظالموں سے جنگ کی۔ لیکن ، کسی بھی نبی کے خاندان نے کبھی حق کی راہ میں خود کو قربان نہیں کیا۔ ابراہیم علیہ السلام کے فرزند قربان ہونے کے قریب آئے، لیکن اُسے بچا لیا گیا۔

نبیوں کی صف میں آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ سچائی کا پیغام مکمل کیا۔ چنانچہ اس کے ساتھ حق کے لیے لڑنے کی حتمی حقیقت بھی سامنے آئی۔ کربلا میں؛ نبی کے خاندان بوڑھے اور جوان نے حق کو قائم کرنے کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔

یہ ایک ایسا مذہب ہے جو انصاف، ہمدردی ، محبت ، رحم و ایثار کا درس دیتا ہے۔

ان کی شہادت کے ساتھ پیغمبر کے خاندان والوں نے آنے والے زمانے کے لیے ایک مثال قائم کی ہے کہ سچ اور جھوٹ کے درمیان جنگ میں زندگی کا کوئی معنی نہیں ہے۔

اس شہادت میں اسلام کی قربانی شامل ہے، جہاں ایک اکیلا آدمی ایک طاقتور فوجی کا دفاع کرتا ہے۔ سچائی چاہے کتنا ہی اکیلا کیوں نہ ہو ، کبھی بھی وہ ایک طاقتور جھوٹ کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرے گا۔

مولانا آزاد نے ظفر علی خان کا ان کے کچھ اشعار نقل کئے ہیں:

کرتی رہے گی پیش شہادت حسین ؓکی

زندگانی حیات کا یہ سرمدی اصول

چڑھ جاۓ کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر

پھر بھی یزیدوں کی اطاعت نہ کر قبول

نوٹ: ثاقب سلیم مصنف و تاریخ نگار ہیں

دہلی میں تھوکنا مہنگا پڑے گا

دہلی میں تھوکنا مہنگا پڑے گا

راجدھانی دہلی میں کورونا وبا کے دوران عوامی مقامات پر تھوکنے، ماسک نہیں لگانے اور سوشل ڈسٹینسنگ پر عمل نہ کرنے کے الزام میں 2,57,293لوگوں سے جرمانہ کے طورپر ساڑھے 41کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم وصول کی گئی ہے۔

دہلی پولیس کے ذرائع نے جمعرات کو بتایا کہ 19اپریل سے 18اگست 2021تک 41,65,26,279روپے جرمانہ کے طورپر وصولے گئے۔ عوامی مقامات پر 1387لوگ تھوکتے ہوئے پکڑے گئے۔ جنوب مغربی دہلی میں سب سے زیادہ 399، جبکہ روہنی ضلع میں 229 اور اس کے بعد شمالی دہلی میں 217لوگوں کو ان کی تھوکنے کی عادتوں کی وجہ سے جرمانہ ادا کرنا پڑا۔

انہوں نے بتایا کہ راجدھانی کے جنوبی، مغربی، وسطی ضلع اور دہلی میٹرو اور اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے سرحدی علاقوں میں گزشتہ چار مہینہ میں ایک بھی شخص عوامی مقامات پر تھوکتا ہوا نہیں ملا۔ دوارکا میں 57، شمال مغربی دہلی 84، مشرقی دہلی 25، شمالی دہلی میں تین، شمال مشرقی دہلی میں 92، باہری دہلی 105، جنوب مشرقی دہلی 12، شاہدر ضلع اور دہلی کے ہندستانی ریلوے کے سرحدوں علاقوں میں محض دو دو اور باہری شمالی دہلی میں 160لوگوں کو تھوکنے کے لئے جرمانہ دینا پڑا۔

حالانکہ ماسک نہیں پہننے کے لئے سب سے زیادہ 2,27,833اور سوشل ڈسٹینسنگ پر عمل نہیں کرنے پر 28,073لوگوں کے چالان کئے گئے۔

خیال رہے کہ کورونا وبا کے پھیلاو کو روکنے کے لئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے جاری کووڈ گائڈلائنس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف 2000روپے تک کے جرمانہ کا التزام ہے۔ بسوں اور دہلی میٹرو میں بغیر ماسک سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ میٹرو کے علاوہ بسوں میں بھی سیٹوں کی گنجائش سے زیادہ لوگوں کو سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بس اڈہ، ریلوے اسٹیشنوں سمیت تمام عوامی مقامات پر کووڈ سے متعلق گائڈلائنس پر عملدآمد کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یوپی میں ایک کروڑ طلبہ کو ملیں گے اسمارٹ فون ، لیپ ٹاپ

یوپی میں ایک کروڑ طلبہ کو ملیں گے اسمارٹ فون ، لیپ ٹاپ(اردو اخبار دنیا)اترپردیش میں آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخاب سے پہلے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ریاست کے ایک کروڑ طلبہ کے لئے تمام سہولیات دینے کا اعلان کیا ہے۔

اسمبلی میں عبوری بجٹ پر بحث کے دوران ایوان سے خطاب کرتے ہوئے یوگی نے کہا کہ ان کی حکومت بی اے، ایم اے اور ڈپلومہ کورس کررہے طلبہ و طالبات کو اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ دستیاب کرائے گی۔ اس کے لئے بجٹ میں تین ہزار کروڑ روپئے کی تجویز رکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مسابقہ جاتی امتحانات میں شرکت کرنے والے امیدواروں کو مسابقہ جاتی بھتہ اور اسکالرشپ دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کے 28لاکھ سرکاری ملازمین اور پنشن پانے والوں کو یکم جولائی 2021 سے 11فیصدی اضافہ کے ساتھ 28فیصدی مہنگائی بھتہ دیا جائے گا۔ ایک بڑے اعلان کے تحت وزیر اعلی نے کہا کہ مافیا کے قبضے سے آزادی کرائی گئی زمین پر غریب اور ضرورت مندوں کے لئے مکان بنائے جائیں گے۔

خطاب کے دوران وزیر اعلی نے اپوزیشن پر تلخ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کے مشکل وقت میں جب پوری حکومت سڑک پر تھی اور لوگوں کی خدمت کررہی تھی اس وقت اپوزیشن کے لیڈرگھروں میں آرا م فرما رہے تھے۔ حکومت کی حصولیابیاں گناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم بغیر تفریق کے حکومت کے منصوبوں کو سماج کے ہر طبقے تک پہنچا رہے ہیں۔ مسٹر یوگی نے کہا کہ یہ پہلی وبا تھی جب بھوک کی وجہ سے کسی غریب نے دم نہیں توڑا، اپوزیشن نے غریبوں کو مفت راشن تقسیم پر بھی اعتراض کیا تھا۔

کورونا بحران میں فیلڈ ملازمین کے کام کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے ایک جانب جہاں روزگار سیوکوں، پی آر ڈی جوان ، آشا، آنگن باڑی رضاکاروں، منی آنگن باڑی و اسسٹنٹ رضاکاروں، روزگار سیوکوں وغیرہ کے مشاہرے میں اضافے کا اعلان کیا گیا وہیں ریاستی حکومت کے 16لاکھ ملازمین اور 12لاکھ پنشن پانے والوں کی طویل مدتی امید کو پورا کرتے ہوئے 11فیصدی کے اضافہ کے ساتھ ان کے مہنگائی بھتے کو بحال کرنے کا بھی اعلان کیا۔

ایک گھنٹے سے کچھ زیادہ وقت تک کے اپنے خطاب میں انہوں نے نوجوانوں سے کہا'نئے زمانے کی تعمیر نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ پوری دنیا نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ طاقت ور ہتھیار سچ مانو آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ کامیابی تو آپ کے ہاتھ میں ہے ۔نوجوانوں کو ڈیجیٹل تکنیک میں اہل بنانے کے ارادے کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بی اے، ایم اے، انجینئرنگ،ڈپلوما وغیرہ کے ایک کروڑ طلبہ کو ٹیبلیٹ،اسمارٹ فون دینے کے ساتھ ہی مفت میں ڈیجیٹل ایکسیس بھی دیا جائےگا۔

مسابقہ جاتی بھتے کا اعلان کرتے ہوئے یوگی نے کہا کہ حکومت مقابلہ جاتی امتحان کے لئے جانے والے ہر امیدوار کو تین بار بھتہ فراہم کرے گی۔ یہ فیصلہ اراکین اسمبلی کے جذبات، نوجوانوں کی ضرورتوں اور سرپرستوں کو بڑی راحت دینے والا ہوگا۔

محرم کی روایت، بن گئی ہندومسلم اتحادکی علامت



محرم کی روایت، بن گئی ہندومسلم اتحادکی علامت
 

غوث سیوانی،نئی دہلی

محرم، غم والم کا مہینہ ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت حسین اور ان کے اہل خاندان واحباب کی شہادت کویاد کرکے سخت دل انسان بھی غمگین ہواٹھتاہے۔ علاوہ ازیں ہندوپاک میں محرم کا ثقافتی پہلو بھی ہے۔ ملک میں صدیوں سے یوم عاشورہ کو ایک الگ انداز میں منانے کی روایت رہی ہے جس میں مسلمانوں کے کندھے سے کندھا ملاکرغیرمسلم بھی مناتے ہیں۔

ملک میں بہت سے شہراور گائوں ایسے مل جائیں گے جہاں تعزیہ داری،ماتم،نوحہ وغیرہ میں ہندوبرادران وطن بھی شامل ہوتے ہیں۔اس معاملے میں سب سے زیادہ شہرت کا حامل لکھنو ہے جہاں نوابوں کے عہد سے عزاداری کی روایت چلی آرہی ہے اور اس میں ہندووں کی شرکت کی بھی تاریخ ہے۔

یہاں بہت سے ہندوایسے مل جائیں گے جو شیعوں کی طرح سیاہ ماتمی لباس میں ملبوس ہوتے ہیں۔ گھروں میں امام بارگاہ سجانے ،حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا تاج رکھنے، علم لگانے کی روایت کو آگے بڑھانے میں نہ صرف شیعہ اور سنی بلکہ ہندو عزادار بھی جوش وخروش دکھاتے ہیں۔

پرانے لکھنوشہر میں بہت سے ہندو خاندان ہیں ، جو اودھ کی گنگا جمنی تہذیب کو نسل در نسل لے کرآگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ تعزیے بنانے کا کام کر رہے ہیں۔تعزیہ بنانے والے ایسے ہندو فنکار بھی ہیں ، جوکہتے ہیں کہ وہ محرم کے لیے حسین بابا کے تعزیے بنا رہے ہیں۔ سعادت گنج کے پرمود نے تعزیے کے بارے میں بتایا کہ عراق کے شہر کربلا میں واقع حضرت امام حسین کی مزار کی شبیہ (کاپی)تعزیہ ہے۔

انھوں نے بتایا کہ میری گزشتہ 21 پشتیں تعزیہ بنا رہی ہیں۔انھوں نے کہاکہ غم کے 68 دن تعزیہ بنا کر پورے سال کے کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے دادا بھی تعزیہ بناتے تھے، پھر اپنے والد کے بعد ، وہ اس روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ انھوں نے مزیدکہا کہ وہ آرڈر پر تعزیے بناتے ہیں ،اور اس کام کے لئے انھیں دور دراز علاقوں میں بلایا جاتا ہے۔

اسی طرح ہریش چندرا اور سنتوش کمار بھی برسوں سے یہاں کام کر رہے ہیں۔ دوباگا کے نریش کمار اور آزاد نگر کے روی کمار کا خاندان بھی کئی دہائیوں سے تعزیے بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔

اسی طرح حسین آباد ، مفتی گنج ، صدر ، بالا گنج اور حیدر گنج سمیت کئی لوگوں میں درجنوں خاندان تعزیہ بنانے کا کام کر رہے ہیں۔ کورونا وبا کی وجہ سے ، کاغذ ، آرائشی اشیاء اور دیگرسازوسامان کی قیمت بڑھ گئی ہے،ایسے میں تعزیوں کی لاگت بھی بڑھ گئی ہے۔

بہار کے کٹیہار میں ایک گاؤں ہے جہاں ہندو اپنے باپ دادا سے کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کے لیے محرم مناتے ہیں۔ حسن گنج بلاک کے جگرناتھ پور پنچایت کا ہری پور گاؤں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک منفرد مثال پیش کر تا ہے۔

اپنے آباؤ اجداد سے کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کے لیے آج بھی ہندو برادری کے لوگ ، مہدیہ ہری پور میں محرم مناتے ہیں۔ تقریبا 1200 کی ہندو آبادی والا یہ گاؤں آج بھی سرخیوں میں ہے ۔کہا جاتا ہے کہ اس گاؤں کی ہندو برادری سو سال سے زائد عرصے سے اہتمام کے ساتھ محرم مناتی ہے۔

محرم کے حوالے سے تمام رسم و رواج کی بھی اچھی طرح پیروی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پورے گاؤں میں تعزیے کا جلوس نکالا جاتا ہے۔ لیکن اس بار کورونا وبا کی وجہ سے حکومت نے اپیل کی ہے کہ محرم کا تہوار سادگی اور سماجی دوری پر عمل کرتے ہوئے منایا جائے۔ جس کی وجہ سے کورونا وبا نے سیکڑوں سالوں کی روایت کو بریک لگا دیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پہلے وکیل میاں نامی شخص گاؤں میں رہتا تھا۔ لیکن اپنے بیٹے کی موت سے غمزدہ ہو کر وہ گاؤں چھوڑ گیا۔ اس کے جانے سے پہلے ، اس نے چھیدی شاہ نامی شخص سے کہا تھا کہ وہ گاؤں میں محرم منائے کیونکہ حسن گنج ایک ہندو اکثریتی علاقہ ہے اور 1200 کی آبادی والے اس گاؤں میں کوئی مسلمان خاندان نہیں ہے۔

اس دوران ہندو لوگ وکیل میاں سے کیے گئے وعدے کی وجہ سے اس گاؤں میں آج بھی محرم کا تہوار بڑے دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ روایت 100 سالوں سے جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں بھی جاری رکھیں گے۔


ماہ محرم محرم الحرام ویوم عاشورا کی فضیلت و اہمیت

تحریر: حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی جمشیدپور

اسلامی سال کا پہلا مہینہ جسے محرم الحرام کہا جاتا ہے اپنے گوناگوں پیچ و خم، عشق و وفا، ایثار و قربانی اور بے شمار فضیلت ومرتبت کی دولتِ بے بہا سے معمور و سربلند ہے۔ ماہ محرم اور یوم عاشورا ۔

ماہ محرم اور یوم عاشورہ

محرم الحرام کے مہینے میں ایک دن ایسا بھی ہے جسکے مراتب و فضائل کلام الٰہی قرآن مجید و احادیث نبویہ اور سیرت و تاریخ کی کتابوں میں بھرے ہوئے ہیں۔ وہ دن یومِ عاشورا کہلاتا ہے۔
ارشادِ باری ہے:ترجمہ: بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں۔ اللہ کی کتاب میں جب سے آسمانوں اور زمین کو بنایا، ان میں سے چار مہینے حُرمت والے ہیں۔ یہ سیدھا دین ہے، تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کروــ، ‘۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے قمری سال کے مہینوں کی تعداد کا ذکر فرمایا اور حُرمت کا اعلان فرمایا ہے اور اس بات کی وضاحت کی ہے کہ بلا شبہہ اللہ نے مہینوں کی تعداد بارہ ہی مقرر فرمائی ہے۔ ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے ایسے ہیں جن کو اللہ نے خصوصی فضیلت اور حرمت (بڑائی) سے نوازا ہے ان چار مہینوں کو حرمت والے مہینوں کا نام دیا جاتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فتح مکّہ سے قبل جب مسلمان مدینہ منورہ پہنچنے لگے تو کہنے لگے کہ کہیں مکہ کے کافر حرمت والے مہینے میں ہمارے ساتھ جنگ نہ شروع کر دیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ
اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرً …
نازل فرمائی۔

خطبہ حجتہ الوداع

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ‘ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن 10 ذوالحجہ کو خطاب کیا اور فرمایا: زمانہ چکر کاٹ کر اسی ہیّت پر آگیا، جس ہیّت (حالت) پر آسمان و زمین کی پیدائش کے دن تھا۔

سال بارہ مہینے کا ہے، جن میں سے چار حُرمت (بڑائی) والے ہیں۔ تین پے در پے یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام اور ایک رجب المرجب (تفسیر مظہری جلد 5 صفحہ 272۔ تفسیر روح البیان جلد 3 صفحہ 421 ) ۔

یومِ عاشورہ کا لفظی معنیٰ دسواں دن یا دسویں تاریخ ہے۔ مگر اب عرف عام میں یومِ عاشورہ کا اطلاق محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو ہوتا ہے جس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ‘ نے اپنے 72 نفوس قدسیہ کے ساتھ مذہب اسلام کی خاطر حق کیلئے راہ خدا میں جامِ شہادت نوش فرمایا تھا۔

یومِ عاشورا کے فضائل

یومِ عاشورہ کے فضائل کے تعلق سے صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ‘ فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس پر غالب گمان ہے کہ عاشورہ کا روزہ ایک سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے،

اسی فضیلت کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم ماہِ رمضان کے علاوہ روزہ رکھنا چاہتے ہو تو عاشورہ کا روزہ رکھو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔

اس ماہ کی فضیلت قرآن پاک میں آئی ہے اور اس مہینہ میں ایک دن ایسا بھی ہے جس میں اللہ سبحانہ‘ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور دوسری قوم کی توبہ کو قبول فرمائے گا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس بات کی طرف رغبت دلائی کہ وہ یومِ عاشورہ کو (توبتہ النصوح) کی تجدید کریں اور اللہ کی بارگاہ میں توبہ استغفار کی قبولیت کے لئے خوب گڑ گڑائیں روئیں اپنے پروردگار کو منائیں یعنی راضی کریں ۔

کیونکہ اس دن جس نے بھی اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ جس طرح اس سے پہلے والوں کی توبہ قبول فرمائی تھی۔

یومِ عاشورہ پر بزرگانِ دین کی بہت سی کتابیں موجود ہیں۔ یومِ عاشورہ اپنی بے شمارنعمتوں اور ان گنت فضیلتوں سے مالا مال ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دن کو متبرک اور بہت خیر و برکت والا بتایا ہے۔

اس کا اندازہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ کی کتاب ’’ ماثبت بالسنتہ ‘‘ جس میں آپ لکھتے ہیں کہ ’’ ابن جوزی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھماسے ذکر فرمایا کہ محرم کی دسویں تاریخ ایسی منفرد اور بے مثال تاریخ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔

اس دن ان کو جنت میں داخل کیا اور اسی دن ان کی توبہ قبول فرمائی۔ اسی دن عرش و کرسی، جنت و دوزخ، زمین و آسمان، چاند و سورج، لوح و قلم کو پیدا فرمایا۔ اور بعض علماء کرام یہ فرماتے ہیں کہ یوم عاشورہ کو یہ نام اس لیے دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن دس انبیاء کرام علیھم السلام کو دس عظمتوں سے نوازا ( غنیتہ الطالبین صفحہ 55)۔

یومِ عاشورا کا دوسرا نام

"یومِ عاشورہ کو ’’یومِ "زینت”
بھی کہا جاتا ہے اور اس دن کا یہ نام حدیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے۔

عَنْ اِبْنِ عُمَرِ (رضی اللہ تعالیٰ عنھما) قَا لَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّیٰ اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مَنْ صَامَ یَوْمَ الزِّیْنَتِ اَدْرَکَ مَا فَاتَہُ مِنْ صِیَامِ السَّنَۃِ ۔
یعنی یومِ عاشورا
ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے یومِ زینت یعنی یومِ عاشورہ کا روزہ رکھا اس نے اپنے باقی سال کے فوت شدہ کو بھی پا لیا، ( غنیتہ الطالبین جلد 2 صفحہ 54 ، ما ثبت من السُنَّتہ صفحہ 10)۔

امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا بچپن پڑھیں

یومِ عاشورا کے اہم واقعات

اللہ تعالیٰ نے اس دن آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی حضرت ادریس علیہ السلام کو اس روزمقامِ بلند کی طرف اُٹھا لیا حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اس روز جودی نامی پہاڑ پر ٹھہری تھی۔ اسی روز حضرت ابراھیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا خلیل بنایا اور انہیں اسی روز نارِ نمرود (آگ) سے محفوظ فرمایا۔

اسی روز حضرت دائود علیہ السلام کی توبہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ اسی روز حضرت سلیمان علیہ السلام کو حکومت واپس ملی۔ اسی یومِ عاشورہ کو ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب السلام کی تکلیف دور فرمایا عاشورہ کے دن ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سلامتی سے سمندر پار کرایا اور فرعون کو غرق کر دیا تھا۔ یہی دن تھا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات عطاء فرمائی تھی۔اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھایا تھا۔

اسی دن حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹائی گئی اور بنی اسرائیل کےلیے دریا میں راستہ اسی دن بنایا گیا تھا۔ آسمان سے زمین پر سب سے پہلی بارش یومِ عاشورہ کو ہی نازل ہوئی تھی۔

اسی دن حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹائی گئی اور بنی اسرائیل کیلئے دریا میں راستہ اسی دن بنایا گیا تھا۔ آسمان سے زمین پر سب سے پہلی بارش یومِ عاشورہ کو ہی نازل ہوئی تھی۔
حتیٰ کہ حدیث پاک کے مطابق قیامت بھی اسی دن آئے گی، اسی دن کا روزہ بھی پہلے فرض تھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے اسی دن کا روزہ رکھا۔

عاشورہ کے نفل روزوں کا بہت ثواب ہے 9 محروم اور دسویں محرم کو روزہ رکھیں، صرف دسویں محرم الحرام کو ایک روزہ بھی رکھ سکتے ہیں۔ نبی رحمت صللاہ علیہ و سلم کی تعلیمات کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی ان روزوں کا اہتمام فر تے تھے۔

اسی یوم عاشورہ کے دن قریش خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے اور اسی یوم عاشورہ کے دن کوفی فریب کاروں نے نواسہ رسول ﷺ و جگر گوشہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کربلا میں شہید کیا۔

اپنے وقت کے نابغہ روزگار و مایہ ناز فقیہ حضرت ابراہیم ابن محمد کوفی نے فرمایا کہ جس نے یوم عاشورہ کو اپنے عزیز و اقارب و اہل و عیال کو خوش رکھا اور ان پر خوش دلی اور دریا دلی کے ساتھ خرچ کیا تو اللہ پاک پورے سال کو اسکے لئے خیر و برکت و فراخی رزق مقرر فرما دیتا ہے۔

مفسرین فقہا و علماء فرماتے ہیں کہ عاشورہ کے دن اگر کسی شخص نے یتیم و مسکین کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے بالوں کی مقدار کے مطابق ثواب عطاء فرمائے گا۔

یومِ عاشورا کے فضائل و اعمال

یومِ عاشورہ کا روزہ بہت فضیلت رکھتا ہے۔ یوم عاشورہ کا روزہ اسلام سے قبل اہل مکہ اور یہودی لوگ بھی رکھا کرتے تھے۔ حضرت عروہ رضی اللہ عنہ‘ سے مروی ہے کہ اُمُ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’ قریش زمانہ جاہلیت میں یوم عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے آپ ﷺ بھی زمانہ جاہلیت میں اس دن روزہ رکھا کرتے تھے۔

پھر جب حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے، تب یومِ عاشورہ کا روزہ چھوڑ دیا گیا، جس کا جی چاہے وہ یوم عاشورہ کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے چھوڑ دے۔

چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ عاشورہ کے دن انبیاء کرام روزہ رکھا کرتے تھے۔ حضور محسن کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اور فرمایا نو، دس کا رکھو یادس، گیارہ کا رکھو۔

صُوْ ْمُو یَوْمَ عَا شُوْرَآئَ یَوْمَ کَا نَتِ الْاَ نْبِیْآ ئُ تَصُوْ مُہ‘ (ترجمہ) : عاشورہ کے دن کا روزہ رکھو، کیوں کہ یہ وہ دن ہے کہ اس کا روزہ انبیاء کرام رکھتے تھے۔ (الجامع الصغیر جلد 4 صفحہ 215)۔

یومِ عاشورا کا روزہ رکھنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عام معمول میں شامل تھا اور آپ اس دن کا روزہ خاص اہتمام کے ساتھ رکھتے تھے۔

ایک حدیث پاک میں حضورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چار معمولات کا ذکر ہے کہ آپ ﷺ انہیں کبھی ترک نہ فرماتے تھے۔ ان چار معمولات میں ایک یوم عاشورہ کا روزہ رکھنا بھی ہے۔

روایت اس طرح سے ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ چار چیزیں ایسی تھیں جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ترک نہیں کیا۔ یومِ عاشورہ کا روزہ اور ذو الحجہ کا عشرہ یعنی پہلے نو دن کا روزہ اور ہر ماہ کے تین روزے (یعنی ایام بیض) کے روزے اور فرض نماز فجر سے پہلے دو رکعت (یعنی سنّتیں) (رواہ النسائی و مشکواۃ شریف صفحہ 180)۔

جس نے عاشورہ کا روزہ رکھا اسے ایک ہزار شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔ اور ایک روایت کے مطابق ساتوں آسمانوں میں بسنے والے فرشتوں کا ثواب ملتا ہے۔ جس نے عاشورہ کا روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں 60 (ساٹھ) سال کی صوم و صلواۃ کی صورت میں عبادت کا ثواب لکھ دیتا ہے۔

یوم ِ عاشورا میں دسترخوان وسیع کرنا

عاشورا کے دن سخاوت کرنا یعنی غریب پروری کرنا، اپنے گھر کے دسترخوان کو وسیع کرنا، گھر والوں پر خرچ کرنا رزق کے اندر وسعت و فراخی کا باعث بنتا ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے سیدنا حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ‘ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے عاشورہ کے دن اپنے اہل و اعیال پر نفقے (خرچ) کو وسیع کیا اللہ پاک سارا سال اس پر رزق کی وسعت فراخی (زیادتی) فرماتا ہے۔

حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو اسے بالکل ایسے ہی پایا۔ (مشکواۃ شریف صفحہ 170 غنیتہ الطالبین جلد 2 صفحہ 54) ۔

کشادگی رزق والی حدیثیں مختلف روایتوں کے ساتھ ملتی ہیں۔ روایات کی کثرت اس حدیث کو صحیح ثابت کر تی ہے آج کل سوشل میڈیا پر نئے ہجری سال کے لیے ایک دعا شيئر کی جارہی ہے، یہ حدیث صحیح ہے، البتہ یہ دعا صرف نئے سال کے لیے مختص نہیں ہے بلکہ ہر نئے مہینہ کے شروع ہونے پر یہ دعا پڑھی جاسکتی ہے۔

احادیث میں مذکور ہے کہ جب نیا سال یا مہینہ شروع ہوتا تو صحابۂ کرام اس دعا کو سیکھا کرتے تھے اور بتایا کرتے تھے۔ غرضیکہ اس دعا کو ہر ماہ کے شروع میں پڑھنا چاہئے، اگرچہ نئے سال کے موقع پر بھی پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالأَمْنِ وَالإِيمَانِ وَالسَّلامَةِ وَالإِسْلامِ وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ وَجوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ (المعجم الاوسط للطبرانی۔ حدیث نمبر، 6410)۔

نئے ہجری سال کے موقع پر ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرنا شریعت اسلامیہ میں حرام نہیں ہے، لیکن جس طرح شدت کے ساتھ لوگ یہ کرتے ہیں لگتا ہے یہ بڑے ثواب کا کام ہے ۔

یومِ عاشورا اور واقعہ کربلا

یومِ عاشورہ ماہِ محرم الحرام کا دسواں دن
مندرجہ بالا فضیلتوں و باتوں کے برعکس اپنے اندر ایک بالکل مختلف پہلو بھی رکھتا ہے۔ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ اسی دن سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوٹے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ‘ کو میدان کربلا میں شہید کر دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ نہایت شفقت آمیز لہجہ میں ارشاد فرمایا کہ ’’ حسن اور حسین میرے لیے دو مہک (خوشبو) دار پھول کی مانند ہیں‘‘۔

اسی حدیث پاک کی ترجمانی مجدد دین وملت عظیم البرکت اعلیٰ حضرت امام مولانا احمد رضا خان محدث بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں۔

کیا بات رضا اس چمنستان کرم کی * زہرا ہیں کلی اور حسن و حسین پھول

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے زیادہ محبوب ان دونوں نواسوں میں حضرت حسین رضی اللہ کو حضور ﷺ کے وفات کے کم و بیش 50 سال کے عرصہ کے بعد 60 ھجری میں 10محرم الحرام کو شہید کر دیا گیادسویں محرم یعنی عاشورہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی مٹی شیشی (بوتل) کے اندر خون ہوگئی

ترمذی شریف جلد دوم میں ہے کہ دس تاریخ (یوم عاشورا) کو ایک عورت حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہاکی خدمت میں مدینہ شریف کے اندر حاضر ہوئی اسنے دیکھا حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہااشک بار ہیں عورت نے رونے کی وجہ پوچھی تو حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ میںنے ابھی ابھی خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور ریش مبارک (داڑھی) مبارک گرد و غبار سے الجھے ہوئے ہیں۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا بات ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی ابھی میں کربلا سے آ رہا ہوں آج میر ے حسین کو شہید کر دیا گیا۔

حضرت اُم المو منین رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ مجھے وہ مٹی یاد آ گئی جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ‘کی پیدائش کے وقت حضرت جبرائیل امین نے میدان کربلا سے لا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی مجھے دے کر فرمایا تھا کہ ’’ اے اُم سلمہ اسے اپنے پاس سنبھال کر رکھو، کیوں کہ جس دن میرا حسین شہید ہوگا یہ مٹی بھی خون ہو جائے گی۔ ‘‘۔

آج جب میں نے دیکھا تو وہ مٹی خون ہو چکی ہے جسے میں نے ایک شیشی کے اندر سنبھال کر رکھا تھا۔
آخیر کیسا تھا وہ بر گزیدہ اللہ کا بندہ جس نے باطل حکمرانوں کے آگے سر نہ جھکایا بے یار و مددگار ہو جانے کے باوجود اللہ کے شیدائی نے محض اپنے رب سے لو لگائے ہوئے شہید ہو جانے کو نہایت جوانمردی کے ساتھ قبول کر لیا اور اپنے بعد آنے والی اُمت کے سامنے یہ مثال پیش کر دی کہ باطل قوتیں اور طاغوتی طاقتیں اسلئے نہیں ہوا کرتیں کہ امت مسلمہ کا کوئی فرد ان سے خوف کھا کر ان کے سامنے جھکنے کو تیار ہو جائے یا گوارا کر لے۔
امت مسلمہ کے ہر فرد کا تو یہی عمل ہونا چاہیے کہ وہ ہر باطل سے لڑ کر صرف حق کی سر بلندی کی تگ و دو میں لگا رہے اور خالقِ کائنات کے آگے سربہ سجود ہو جائے۔

واقعہ کربلا کے اس واضح پیغام سے ہمیں اپنے آپ کو مالامال کرناچاہئے اور اس تاریخ ساز مبارک دن کو کھیل تماشہ میں نہیں گذارنا چاہیے۔ کیونکہ اس دن کو ایسی ذات سے نسبت ہے جس کی قربانی ملتِ اسلامیہ کو ماتم و نوحہ خوانی کی طرف دعوت دیتی ہے بلکہ وہ درسِ عبرت دیتی ہے کہ اپنے نظام حیات کے اصولوں پر قائم و ثابت قدم رہیں اور اللہ کی بارگاہ میں یقین و ایمان، جذبہ ایثار، اور امید و رجاء کے عظیم سرمایہ حیات کو پیش کرتے رہیں کیونکہ اس میں کامیابی و کامرانی کے ر از مضمر ہیں۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو یومِ عاشورہ وو اقعہ کربلا شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ‘کے سلسلہ میں صحیح سوچ اور صحیح فکر عطاء فرمائے آمین! اور ہم گناہ گاروں کو راہِ راست و راہِ اعتدال پر قائم و دائم فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ طہ ویٰسین صلی اللہ علیہ وسلم !۔
الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ
اسلام نگر کپا لی وایا مانگو جمشیدپور جھاڑکھنڈ پن کوڈ 831020 ۔ رابطہ:

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...