Powered By Blogger

ہفتہ, جنوری 07, 2023

مجھے موقع ملا تو اردو زبان ضرور سیکھوں گا: ڈاکٹر چندر شیکھر سنگھاردو زبان سیل ،پٹنہ کے زیر اہتمام فروغ اردو سمینار و مشاعرہ کا کامیاب انعقاد

مجھے موقع ملا تو اردو زبان ضرور سیکھوں گا: ڈاکٹر چندر شیکھر سنگھ
اردو زبان سیل ،پٹنہ کے زیر اہتمام فروغ اردو سمینار و مشاعرہ کا کامیاب انعقاد


اردو دنیا نیوز٧٢ 





پٹنہ (پریس ریلیز) آئی اے ایس بننے کےبعد ٹریننگ کے دوران میںنے اردو زبان منتخب کیا تھاجو دوران ٹریننگ ہر آئی اے ایس کے لئے کسی ایک اضافی زبان کا سیکھنا لازمی ہے۔میں نے اردو سیکھنے کے لئے بڑی محنت بھی کی تھی۔ لیکن سروس کے دوران ذمہ داریوں کے بوجھ کے سبب اردو سیکھنے کا سلسلہ جاری نہیں رہ سکا اور اچھی طرح اردو نہیں سیکھ سکا، جس کامجھے آج بھی افسوس ہے۔ اور یہ عزم ہے کہ آئندہ موقع ملے گا تو اردو ضرور سیکھوں گا۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر چندر شیکھر سنگھ ضلع مجسٹریٹ پٹنہ نے کیا۔ آج وہ کلکٹریٹ سمینار ہال میں ضلع سطحی فروغ اردو سمینار ، مشاعرہ و اردو عمل گاہ کے افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے فروغ اردو سمینار میں مقررین کے ذریعہ پیش کئےگئے خیالات اور پٹنہ ضلع میں اردو کے فروغ کے لئے کئے گئے مطالبات کو سنجیدگی سے لینے اور اسے اپنی سطح سے پورا کرنے کا عزم کیا۔ انہوں نے کہا کہ اردو خالص ہندستانی زبان ہے اور گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے جس کا تحفظ و فروغ انتہائی ضروری ہے۔ اس کے لئے پٹنہ ضلع انتظامیہ پوری طرح سنجیدہ اور سرگرم عمل ہے۔ایڈیشنل کلکٹر نوشاد احمد نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو بہار کی دوسری سرکاری زبان ہے، جسے پوری ریاست سمیت پٹنہ ضلع میںبھی پوری مستعدی سے فروغ دیا جا رہا ہے۔ لیکن اس میں کچھ مسائل درپیش ہیں،جنہیں ضلع انتظامیہ کے توسط سے حل کئے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ضلع مجسٹریٹ ڈاکٹر چندر شیکھر سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ نئی نسل کو اردو زبان سے جوڑے رکھنے کے لئے تمام سرکاری اسکولوں کے ساتھ ساتھ مشنری اسکولوں کے طلبا کو بھی اردو پڑھانے کے لئے سرکاری سطح پر حکم نامہ جاری کیا جائے اور خاص طور پر انہیں کم از کم ایک اردو ٹیچر رکھنے کی ہدایت جاری کی جائے اور اسے اسکولوں کے الحاق کی شرط بنائی جائے ۔ اسکولوں میں تعلیم سے ہی اردو آتی ہے۔ بعد میں اردو سیکھنا آسان نہیں ہوتا۔ اردو کی بقا کیلئے درجہ اول سے بارہویں تک سرکاری وپرائیوٹ تمام اسکولوں میں اردو کی تعلیم کو لازمی کیا جائے۔
اردو زبان سیل کے انچارج افسر اشوک کمار داس نے کہا کہ مقررین نے حکومت سے جو مطالبات کئے ہیں اسے اب حکومت تک پہنچانا ہماری ذمہ داری بن گئی ہے اور ضلع اردو زبان سیل پٹنہ کلکٹریٹ کے ذریعہ حکومت تک ان مطالبات کوضرور پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ آج کی محفل انتہائی شاندار اور بے حد کامیاب ثابت ہوئی جس میں کثیر تعداد میں ارد و داںطبقہ کے سبھی عمر کے لوگوں نے کثرت سے شرکت کی ہے۔ لیکن یہ سب ایک ماہ کی مسلسل کاوشوں کا نتیجہ ہے جن میں اسٹیج کے پیچھے کام کرنے والے اردو زبان سیل ،پٹنہ کلکٹریٹ کے عملے کی بھر پور کاوش رہی ہے۔سمینار میں مشہور و معروف ناقد اور ادیب پروفیسر توقیر عالم ، سابق پرو وائس چانسلر مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی، پٹنہ نے اردو زبان کی اہمیت پر اپنا گرانقدر مقالہ پیش کیا جسے سامعین نے بے حد پسند کیا۔ اس موقع پر انہوں نےمطالبہ کیا کہ پٹنہ ضلع کے تمام اسکولوں میں اردو ٹیچر وںکی بحالی کو یقینی بنایا جائے۔ مشن اسکولوں کو بھی حکم نامہ جاری کیا جائے کہ وہ اپنے اسکولوں میں کم از کم ایک ارد و ٹیچر بحال کرے۔ سنہا لائبریری میںاردو عملے بحال کئے جائیں۔معروف سنیئر صحافی عمران صغیر نے کہا کہ اردو زبان کے تعلق سے ریاست بہار کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ حکومت کی جانب سے نہ صرف اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے بلکہ اس کے فروغ اور عملی نفاذ کے لئے بھی حکومت کے محکمہ کابینہ سکریٹریٹ کے تحت باضابطہ اردو ڈائرکٹوریٹ قائم ہے، جس کے تحت سرکاری دفاتر میں ہم اردو کا استعمال کر سکتے ہیں۔ معروف صحافی عتیق الرحمن شعبان اردو کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی حکومت کے ذریعہ بہار میں اردو کو فروغ دئے جانے کے لئے بہت ایماندارانہ و مخلصانہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ جس کے مثبت و بہتر نتائج بھی برآمد ہو رہے ہیں۔ لیکن اس کےباوجود چند اہم مسائل بھی درپیش ہیں جن کی نشاندہی سے یقینی طور پر حکومت و انتظامیہ کو فائدہ ہوگا۔اردو کا ایک بڑا مسئلہ اردو کی بنیادی تعلیم کا فقدان ہے۔ بیشتر سرکاری و پرائمری اسکولوں میں اردو اساتذہ نہیں رہنے کے سبب اردو کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ اس لئے اردو اساتذہ کی بحالی کے لئے ماضی کی طرح ایک بار پھر خصوصی انتظام کیا جانا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے حکم نامہ کی روشنی میں بہار کے مختلف جگہوں پر نیم پلیٹ ، سائن بورڈ و دیگرسرکاری دفاتر و عمارتوں پر محکمہ کا نام اردو میں لکھے جا رہے ہیں لیکن ابھی بھی بہت سی جگہوں پر اس پر عمل نہیں ہو سکا ہے جس پر جلد عمل درآمد کی ضرورت ہے۔اس موقع پر ڈاکٹر شبانہ پروین صدر شعبہ اردو ویشالی مہیلا کالج، حاجی پور ، محترمہ ثریا جبیں سنیئر صحافی دودرشن و آکاشوانی، پٹنہ اور محترمہ سمیہ فاطمی ادیب و ٹیچر نے بھی اردو کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔نئی نسل میں اردو کے تئیں محبت اور جوش و جذبہ پیدا کرنے کے مقصد سے اسکول کے طلبا و طالبات کی تقریر کا بھی ایک حصہ مختص تھا جس کے تحت اردو زبان کی اہمیت پر مختلف اسکولوں کے گیارہ طلبہ و طالبات نے تقریر یںپیش کیں۔ بہترین پیش کش کے لئے مہ جبیں ( نجم ہائی اسکول)معاذ اقبال اور ماریہ فہیم( الحرا پبلک اسکول، شریف کالونی، پٹنہ) ،محمد شہباز( مسلم ہائی اسکول)، ثانیہ صبا ( ایوب گرلس ہائی اسکول، پٹنہ) کو نقد انعامات کے ساتھ توصیفی سند سے نواز ا گیا جب کہ دیگر طلبہ و طالبات کو بھی ڈی ایم پٹنہ کے ہاتھوں سرٹیفیکٹ دیا گیا۔محفل سخن کے تحت شاندار شعری نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں شعراء حضرات نے اپنے خوبصورت کلام کے ذریعہ سامعین کو محظوظ کیا۔ محفل سخن میں خالد عبادی، ممتاز رعنا، نصر بلخی، ارون کمار آریہ، معین گریڈیہوی،رشمی گپتا، ڈاکٹر نعیم صبا، وارث اسلام پوری، میر سجاد، نصرت پروین شریک تھیں۔اس موقع پر معروف بزرگ شاعر ناشاد اورنگ آبادی کو شال پیش کرکے عزت افزائی کی گئی۔ضلع سطحی فروغ اردو سمینار و مشاعرہ کی نظامت ڈاکٹر نور السلام ندوی نے بحسن و خوبی انجام دی۔شکریہ کی تجویز اشوک کمار داس ،انچارج افسر اردو زبان سیل نے پیش کی۔پروگرام کو کامیاب اور با مقصد بنانے میں محمد نیاز،یحییٰ فہیم، شکیل احمد،فیاض، وسیم کرام، مصباح الجہاں کامنی، نغمہ،وسیم احمد،غلام سرور،شفیع احمد، شکیب ایاز،ڈاکٹر شاذیہ کمال، ڈاکٹر نعمت شمع، ڈاکٹر یاسمین خاتون، رحیمہ ناز، محمدذو الفقارعلی،محمد آصف، نشاط پروین وغیرہ نے نمایاں کردار ادا کیا۔مولانا حامد حسین ندوی، ڈاکٹر رحمت یونس ،حسیب الرحمن انصاری ،ڈاکٹر فہیم احمد، ڈاکٹر جاویداختر،عارف اقبال عبد الباقی، عدیل احمد ،امام الحسن قاسمی،ضیاء الحسن ،ڈاکٹر انوار الہدیٰ، ڈاکٹر افشاں بانو،معصومہ خاتون، سعید احمدوغیرہ سمیت متعدد اہم شخصیات تقریب کی کامیابی کا حصہ بنے۔

تفہیم وتنقید ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ محمد فرحت حسین

تفہیم وتنقید ____
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
محمد فرحت حسین (ولادت 5 جنوری 1958ء) بن سید علی مرحوم اپنے اصلی نام سے کم اور قلمی نام ڈاکٹر فرحت حسین خوش دل کے نام سے زیادہ متعارف ہیں، ڈبل ایم اے بی ایڈ کیا ہے، جائے پیدائش برہ بھاگلپور ہے، لیکن بسلسلہ ملازمت ضلع اسکول ہزاری باغ سے منسلک ہوئے تو یہیں کے ہو کر رہ گیے اور اب سبکدوشی کے بعد پورا وقت ادب وتنقید اور شاعری کو دے رہے ہیں، محبت وتعلق میری غائبانہ ہی تھی، لیکن اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر 13اکتوبر 2022ءمطابق 16ربیع الاول 1444ھ بروز جمعرات امارت شرعیہ تشریف لائے اور مولانا سید محمد عثمان غنی پر اپنا کلام پڑھا تو لوگ متاثر ہوئے، غالبا دو شب قیام رہا اور اس قیام کے دوران قسطوں میں میری کئی ملاقاتیں ہوئیں اور وہ امارت شرعیہ کے کاموں سے متاثر ہو کر واپس ہوئے، جاتے وقت میں نے اپنی کچھ تصنیفات حوالہ کی تھی اور آتے وقت وہ اپنی تصنیفات مقالات خوش دل ، تنقیدات خوش دل، نقوش خوش دل اور تفہیم وتنقید میرے لیے لیتے آئے تھے، اب تک ان کی دس کتابیں ایوان نعت (مختلف نعت گو شعراءپر مضامین )الحمد للہ( مجموعۂ حمد ومناجات، سمعنا واطعنا (مجموعۂ نعت پاک)، وجد ان کے پھول (مجموعۂ غزل) تنقیدات خوش دل (تنقیدی مضامین) پشپانجلی (بزبان ہندی)، انتخاب کلام بی ایس چیت جوہر اور نقوش خوش دل طباعت کے مرحلہ سے گذر کر مقبول ہو چکے ہیں، 2009ءمیں پہلی کتاب آئی تھی، اور 2022ءمیں ان کی آخری کتاب نے قارئین کے دلوں پر دستک دینے کا کام کیا ہے، وہ جو تخلیق انسانی کا دورانیہ شریعت نے چھ ماہ سے دو سال تک مقرر کر رکھا ہے ، ان کی کتابوں کے مجموعے بھی اسی انداز میں آئے ہیں، بعضے اس دورانیے سے کم میں وجود پذیر ہو گیے، مثلا 2019ءمیں تین کتابیں منظر عام پر آئیں، یہ تو مقررہ میعاد سے کم میں آگئیں، ہو سکتا ہے الگ الگ نہ آکر جڑواں آگئی ہوں، تو کسی کو اعتراض کا کیا حق ہو سکتا ہے، 2010ءمیں دو کتابیں آئیں، چھ چھ ماہ کا دورانیہ چلے گا، اس کے بعد 2014ء، 2016۶، 2017اور 2022ءمیں جو کتابیں منصہ
شہود پر جلوہ گر ہوئیں، ان کا وقفہ مناسب ہے۔ اب 2022ءختم ہوا  اور قارئین کو انتظار ابھی سے ”ایک لٹھ مار ناقد علامہ ناوک حمزہ پوری“ اور تفہیمات خوش دل کا انتظارہے، دیکھیے یہ کتابیں ہماری آنکھوں کوکب روشن اور دل کو شاد کرتی ہے، خوش دل شاعری میں ناوک حمزہ پوری کے شاگرد ہیں اور 1975ءسے اب تک جو کچھ ان کا شعری سرمایہ ہے، ان میں استاذ کی اصلاح اور توجہ کا بہت ہاتھ رہا ہے ، اس لیے کتاب کا نام” لٹھ مارنا قد“ تو مجھے بالکل پسند نہیں آیا، یہ استاذ کے حوالہ سے سوئے ادب بھی ہے اور لٹھ کی ٹھ تنافر حروف میں سے ہے، اس لیے سماعتوں پر گراں بار بھی معلوم ہوتا ہے ۔
مختلف اداروں کی طرف سے وہ بہتر استاذاور تاجدار سخن کا اعزاز پا چکے ہیں، حمد ونعت اکیڈمی نئی دہلی کی مجلس منتظمہ اور ہزاری باغ کی حمد ونعت اکیڈمی کے جنرل سکریٹری ہیں، اس حوالہ سے ان کی خدمات ابھی جاری ہیں، ناوک حمزہ پوری نے اردو شعر وادب کا برق رفتار فنکار ڈاکٹر فرحت حسین خوش دل نامی کتاب بھی ان پر تصنیف فرمائی ہے ، یہ استاذ کا اپنے شاگرد کے تئیں بے پناہ محبت کا صدقہ ہے ، ورنہ ان دنوں اساتذہ اپنے شاگردوں پر لکھنا کسر شان سمجھتے ہیں، حالاں کہ شاگرد جس قدر بھی بڑا ہوجائے اس کی بڑائی بڑی حد تک استاذ کے کاندھوں کی ہی رہین منت ہوتی ہے ،ا س کے علاوہ ماہنامہ قرطاس ناگپور نے خوش دل نمبر نکال کر ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے ۔
تفہیم وتنقید خوش دل صاحب کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، اس مجموعہ میں کل بیس (20)مضامین ومقالات ہیں، ایک مضمون اردو مرثیہ گوئی کو ایک تنقیدی نظر فن مرثیہ گوئی کی تاریخ ، تحقیق اور تنقید پر مشتمل ہے، اس مضمون میں مصنف نے بعض ایسے نکات بھی اٹھائے ہیں، جن کی طرف نقادوں کی توجہ گئی نہیں ہے ، یاگئی ہے تو اس کا احاطہ نہیں کیا جا سکا ہے، اس مقالہ کو پڑھ کر خوش دل کے مطالعہ کی گہرائی ، گیرائی اور تنقیدی کاوش کا پتہ چلتا ہے، اس کے علاوہ جو مقالات ہیں، وہ مختلف شعراءادباءحضرات کی شخصیت ان کی شاعری اور ان کی خدمات پر تنقیدی نظر ہے، اس درجہ بندی سے چاہیں تو ایک اور مقالہ علامہ شبلی نعمانی کے کارنامے کو الگ کر سکتے ہیں، جن شعراءپر گفتگو کی گئی ہے ان میں رفیق شاکر ،ا بو البیان حماد عمری، سید احمد ایثار ناطق گلاوٹھی، ناوک حمزہ پوری، طرفہ قریشی، سید احمد شمیم، اوج اکبر پوری، رند ساگری، اسد ثنائی، محمد ارشد، معین زبیری، اسحاق ساجد ، ایس ایچ ایم حسینی، طہور منصوری، ناز قادری، شرافت حسین، منیر رشیدی، گلشن خطاتی کشمیری کے فکر وفن ، ترجمے، تنقیدی شعور وغیرہ کا بھر پور جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس فہرست کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فرحت حسین خوش دل نے نئے اور پرانے قلم کاروں اور ان کی کتابوں کو موضوع تفہیم وتنقید بنایا ہے، ایک درجہ بندی معروف اور غیر معروف کے حوالے سے بھی کی جا سکتی ہے ، چند ایک کو چھوڑ کر بیش تر غیر معروف ہیں، نئے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی خوش دل کے دل کو راس آتی ہے، اور وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بعد جو نسل شعروادب کی مشاطگی کے لیے آ رہی ہے، ان کے حوصلے بلند کیے جائیں اور ان میں خود اعتمادی پیدا کی جا ئے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خوش دل نے بے جا تعریف وتوصیف اور مدح وستائش سے کام لیا ہے، ایسا وہ عموما نہیں کرتے، بلکہ یک گونہ اسے وہ نا پسند کرتے ہیں، خوش دل نے جو کچھ لکھا ہے، پڑھ کر لکھا ہے، ممکن ہے ان کے مقالات کے بعض جزو سے آپ اختلاف کریں اور بعض کی تعریف وتوصیف پسند نہ آئے، لیکن ان کے خلوص پر شبہ کی گنجائش نہیں، تشکیلات سے متاثر ہو کر پر انہوں نے نعت کی جمع نعوت استعمال کی ہے، یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ نعت کی جمع مکسر مستعمل نہیں ہے، جمع سالم ہی استعمال ہوتا رہا ہے ۔
 ایک سو نوے صفحات کی قیمت پانچ سو روپے اردو کے قارئین کے لیے گراں بار ہے، خوش دل جیسے لوگ تو خرید سکتے ہیں، لیکن جن کی تنخواہ بھی ان کی پنشن سے کم ہے وہ اس کتاب کو اٹھا کر للچا کر چھوڑ دیں گے ، کیوں کہ ان کی قوت خرید ان کا ساتھ نہیں دے پائے گی۔ کتاب ملنے کے چار پتے درج ہیں، ہزاری باغ میں ہیں تو فرحت حسین خوش دل سے بلا واسطہ لے لیجئے، پٹنہ میں رہتے ہوں تو بک امپوریم سبزی باغ جائیے، بھاگلپور میں نیو کتاب منزل تاتار پور جا کر آپ کی مراد پوری ہو سکتی ہے ۔ طباعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کی ہے ، معیاری ہے، کورتجریدی آرٹ کا نمونہ ہے،لیکن ایسا معمہ نہیں کہ رنگوں کی پُتائی کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہ آئے، مرغی کا پر جو قلم کے طور پر دوات میں ڈالا ہوا ہے، اور کتاب کا ورق کھلا ہوا بھی دکھنے میں آجاتا ہے۔ آپ بھی پڑھ کر لطف اٹھائیے، اور ان شاعروں اور ادیبوں کی شخصیت اور فکر وفن سے قلب ودماغ کو مجلیّٰ کیجئے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...