Powered By Blogger

بدھ, جنوری 03, 2024

ہمیں کیاہواتھا۔؟

(طنزومزاح) 
Urduduniyanews72 
                          ہمیں کیاہواتھا۔؟
     
           ٭ انس مسرورؔانصاری

مولوی قدرت اللہ جمالی واعظ کہنے کے ساتھ ہی شعر گوئی میں بھی دخل نامعقول رکھتے تھے۔غزل کہتےتو وہ ہزل ہوجاتی۔بزلہ سنجی اُن کی فطرت میں تھی۔حلقہءاحباب خاصاوسیع تھا۔ایک شب کی بات ہے کہ یاردوستوں کی محفل کے وہ دولھابنے بیٹھے دنیابھرکی باتوں سےلطف اندوزہورہےتھےاوراپنی گفت گوسےمحفل  کولالہ زاربنائے ہوئے تھے۔وہ یوں بھی رات کودیرگئے گھرلوٹتے تھے۔بیگم نے ہزاربارانھیں روکاٹوکالیکن‘‘چل اپنی راہ بھٹکنےدےنکتہ چینوں کو’’کے مصداق اُن کے معمولات میں کوئی فرق نھیں آیا۔ 
         اُس رات جب محفل برخاست ہوئی توگھڑی نے گیارہ بجے کااعلان کیا۔مولوی قدرت اللہ جمالی کو ‘‘گیارہ’’نےبری طرح چونکادیا۔وہ پریشان ہوگئے۔فرمانے لگے‘‘آج بیگم کی ڈانٹ سنے بغیرچارہ نھیں،دیکھتے ہی فرمائیں گی ۔‘‘سبحان اللہ !اس بڑھاپےمیں آدھی رات کی آوارہ گردی۔؟آپ باکل سٹھیاگئے ہیں۔’’اورپھرچالیس سالہ قدیم تکیہ کلام‘‘آخرآپ کوکب عقل آئےگی۔؟میں توعاجز آچکی ہوں۔اتنی اتنی دیرتک آخرآپ باہرکیاکرتے ہیں۔؟’’اِدھریہ معاملہ کہ‘‘خاموشی ہزاربلائیں ٹالتی ہے۔ ’’یارلوگوں نے قہقہہ لگایا۔مولوی صاحب نے چھڑی سنبھالی۔ناک پرعینک کودرست کیاجوباربارنیچے سرک آتی تھی۔ڈاڑھی پرہاتھ پھیرا،پیروں کے حوالے جوتے کیے اوردوستوں سے رخصت لی۔محلّہ قریب تھا۔چند گلیاں عبورکرتےہی اپنےپڑوس میں پہنچ گئے۔معلوم ہوا کہ اس طرف کی بجلی غائب ہے۔رات کافی اندھیری  تھی اورچشمہ تین نمبروالاتھا۔صورتِ حال دیکھ کر پریشان ہوگئے۔حالانکہ چندچھوٹی موٹی گلیاں اورپھر
اُن کےمکان تک پہنچانےوالی ایک تنگ اورسُرنگ جیسی گلی کامسئلہ تھا۔ٹارچ بھی نہیں تھی اورموبائیل گھر چھوڑ آئےتھے۔کیامعلوم تھاکہ واپسی پراندھیرے استقبال کریں گے۔ناچار،مرتےکیانہ کرتے۔اعوذباللہ اور بسم اللہ کے بعد سورہ یٰسین شریف کی تلاوت کے ساتھ چھڑی کےسہارےآگےبڑھناشروع کیا۔ہاتھ کوہاتھ نہیں دکھائی دے رہاتھا۔رہ رہ کے وقفہ وقفہ سے باآوازبلند کھانستےاورگلابھی صاف کرتےجارہےتھےکہ مبادااس اندھرے میں سامنے سےآنےوالا کوئی شخص ٹکراگیا توغضب ہوجائےگا۔اس لیےچھڑی کوزمین پرٹھونک ٹھونک کرچل رہےتھے،کیونکہ ایسے موقعوں پرعام طور سےیوں ہوتاہےکہ دوشخص آپس میں ٹکرانے کےبعد بجائےالگ الگ ہونےکےگھتّم گھتّاہوجاتےہیں۔ایک دوسرے  سے لپٹ جاتےہیں اورمثل صادق آتی ہےکہ ‘‘من توشدم تومن شدی من تن شدم توجاں شدی’’مولوی صاحب مرغّن غذاؤں کے استعمال کے باوجود کچھ زیادہ فربہ نہ تھےجیساکہ عام حالات میں ہوتاہے۔زیادہ دراز قد بھی نہ تھے۔سنگل پسلی کےآدمی تھے۔اس اندھیرے میں اگرکسی سےٹکراؤہوجائےتوخداہی حافظ وناصر ہے۔اسی لیے وہ چند سکنڈبعد مستقل مزاجی سے کھانسنے لگتے کہ سامنے سےآنے والا شخص جان لے کہ اُدھرسے بھی کوئی خراماں خراماں رواں دواں ہے۔اُن کویہ بھی خیال آیاکہ سامنے سے آنے والااگربہرہ اور سماعت سے محروم ہواتوپھرکیاہوگا۔؟اُن کی ساری حِسیں جاگ پڑی تھیں۔وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کسی ناخوش گوارواقعہ سے محفوظ اپنے مکان کی خاص گلی تک آگئے تھے۔ٹھہرکرچاروں طرف دیکھاتواندھیرا اورخاموشی کے سِواکچھ بھی دکھائی نہ دیا۔سامنے سفرکی آخری گلی تھی ۔ہرچند کہ وہ کمزوراورعمردراز ہوچکے تھے لیکن ڈراورخوف کے نام کی کوئی چیز اُن کے دل میں نہ تھی۔صرف ‘‘سانپ’’ ایک ایسی مخلوق ہے جس سے اُن کی جان جاتی تھی۔اورآخری گلی تک پہنچنے کے بعد پتانہیں کہاں سےاورکیسےاُن کے ذہن میں‘‘سانپ’’رینگ آیا۔اُس گلی میں بھی اندھیراکم نہ تھالیکن روز کئی بارکی آمدورفت کی وجہ سے اُنھیں کافی اندازہ تھا ۔وہ چھڑی کودائیں بائیں لہراتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھےکہ اچانک احساس ہواکہ کوئی نرم نرم چیز بارباراُن کے پیروں کوچھورہی ہے۔وہ سنّاٹے میں آگئے۔بدن کےسارےرونگٹےکھڑےہوگئے‘‘خداجانے کیاہے۔؟کہیں.....!،،اُن کے ذہن میں ‘‘سانپ’’پھنکاریں مارنے لگا۔سرسے پاؤں تک بید کی طرح لرزاٹھے۔ماتھے پرپسینہ آگیا۔اُسی وقت ایک چھچھوندرچنچناتی ہوئی اُن کے قریب سے بھاگی تو مولوی قدرت اللہ جمالی اُچھل پڑے۔چہرے کارنگ بدل گیا۔خیرخداخداکرکےاپنےقدموں کوپھرآگےبڑھایا۔پھرایسالگاکہ کوئی نرم نرم سی چیز پیروں سے لپٹنے کی کوشش کررہی ہے۔جلدی سے پاؤں جھٹک کراضطراری کیفیت میں کئی قدم آگےبڑھ گئے۔بدحواسی میں چھڑی ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ہمّت کس کرپھرجوآگےبڑھےتواب کی دائیں پنڈلی میں کوئی چیز لپٹ گئی۔‘‘سانپ’’ذہن سےباہرآ گیااورمولوی قدرت اللہ ایک ہولناک چیخ مارکرگرےاوربے ہوش ہو گئے۔ 
         ْچیخ سن کرگلی کے سارے دروازے چندمنٹ میں کھل گئے۔لوگ باہر نکل پڑے۔‘‘کیا ہوا....کیاہوا......کون ہے۔؟......کیسی آوازتھی۔؟قریب قریب سب کے ہاتھوں میں ٹارچ،لاٹھی،ڈنڈے اورلوہے کی سریاں تھیں جوجس کے ہاتھ لگا،لے کرنکل پڑا۔گلی میں ٹارچ کی روشنی پھیلی تومعلوم ہواکہ یہ تواپنے مولوی قدرت اللہ ہیں۔لوگ ہاتھوں ہاتھ اُٹھاکراُن کوگھرلےگئے۔بسترپرلٹاکر پانی کےچھینٹے دیے گئے۔بارے چند منٹ بعدہی اُنھیں ہوش آگیا۔کچھ دیر تک لیمپ اورٹارچ کی روشنی میں لوگوں کےچہرے تکتے رہے۔پھراُنھیں ایک گلاس ٹھنڈا پانی پلایاگیاتب کہیں اُن کے حواس بجاہوئے۔حیرت سے پوچھا۔‘‘ 
            ‘‘ہمیں کیاہوگیاتھا۔؟’’
       پڑوسیوں کےجانے کےبعداُنھوں نے اپنے چھوٹے بیٹے سے پوچھاجوان کاسرسہلارہاتھا۔ اس نےکہا‘‘یہ توآپ ہی بتاسکیں گےکہ آپ کوکیاہواتھا۔آپ کی ہولناک چیخ اتنی تیزاورخطرناک تھی کہ ہم سب لوگ بلکہ سارامحلّہ سوتے میں اچھل پڑا۔پھرجب ہم صورتِ حال کاجائزہ لینے باہرنکلےتوگلی میں ایک طرف آپ کوبے ہوش پڑاپایا۔آپ کی چھڑی دورپڑی ہوئی تھی۔ایک پیر میں کمربندکا سِراجوپاجامہ کی موری کے اندرہی اندر سے باہرنکل آیاتھا،پیرمیں لپٹاہواتھا۔’’ 
       ‘‘خداکی پناہ۔!میں اندھیرے میں سمجھاکہ خدا نہ  خوستہ میرے پیرسےکوئی سانپ لپٹ گیاہے۰۰۰۰۰تووہ  میراریشمی کمربندتھا۔؟’’ 
       ‘‘جی ہاں’لیکن کیایہ ضروری ہے کہ ازاربنداتنا  لمباہوکہ کھلےبغیراندرہی اندرموری کے راستے باہرنکل کراُس کاسِراپنڈلی تک میں لپٹ جائے۔’’بیٹے نے کچھ خفگی اورکچھ طنزکے انداز میں کہا۔ 
        ‘‘نہیں ایسانہیں ہے،کمربندکی لمبائی اورچوڑائی وغیرہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔اب میں اپنے سارے کمربندچھوٹے کرالوں گا۔’’ 
                      ٭انس مسرورانصاری 
                  قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن
              سَکراول،اُردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر۔ 
                         (یو،پی) 224190
                        رابطہ/9453347784/   
  ٭٭٭

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...