Powered By Blogger

ہفتہ, اپریل 09, 2022

*ذرا ٹھہرئیے امام صاحب!*تراویح کی نماز میں ایک نمازی نے اپنے امام صاحب سے یہ گذارش کی ہے

*ذرا ٹھہرئیے امام صاحب!*
تراویح کی نماز میں ایک نمازی نے اپنے امام صاحب سے یہ گذارش کی ہے کہ؛ اللہ کے لیے مجھ پر رحم کیجیے،میں ثناء نہیں پڑھ پاتا ہوں اور نہ رکوع وسجود کی تسبیح مکمل ہوپاتی ہے۔لہذا تکبیر تحریمہ کے بعد تھوڑا رکیےتاکہ ثنا پڑھ لوں، اور رکوع وسجدے میں کچھ دیر ٹھہر جائیے تاکہ تسبیح تین مرتبہ مکمل کرسکوں۔
یہ ایک نمازی کی طرف سے کی گئی گذارش ہے مگریہ ہر نمازی کے دل کی آوازہے۔
اس تعلق سے واقعی بڑی بے اعتدالی دیکھنے میں آتی ہے۔
ایک امام کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم فرمایا ہے کہ نماز میں نمازی کے لیےامام تخفیف کرے، اور نماز کو ہلکی پڑھائے،بیماروں ،کمزوروں اور بوڑھوں کا خیال کرے،یہ بخاری شریف کی حدیث ہے۔
تراویح کی نماز میں افسوس کی بات تو یہ ہےکہ جہاں تخفیف ہونی چاہئے وہاں معاملہ لمبا اور طویل کردیا جاتا ہے، اور جہاں گنجائش نہیں ہے وہیں تخفیف کردی جاتی ہے۔
تخفیف زیادہ قرأت اور لمبی رکعت میں ہونی چاہئے مگر وہاں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جارہا ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھاجاتا ہے تاکہ جلد قرآن مکمل ہوجائے اور نماز کے مکمل ہونے کا بالکل خیال نہیں کیا جاتا ہے۔جماعت کے ساتھ اس نماز کو پڑھتے ہیں مگر جماعت کا مقصدبھی فوت ہورہا ہے۔فقہ کی مشہور کتاب شامی میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے کہ جماعت والی نماز میں تعداد کی کثرت زیادہ قرأت اور لمبی رکعت سے افضل ہے۔پھر یہ مذکورہ حدیث کی کھلی ہوئی خلاف ورزی بھی ہے کہ نمازی کے لیے اس تراویح کی نماز کو مشکل اور سخت بناکر پیش کیا جارہا ہے، بلکہ دیکھنے میں تو یہ آتا ہے کہ کچھ لوگ مسجد کے طہارت خانے کی طرف ہوا خوری کررہے ہوتے ہیں، جب امام صاحب رکوع میں جاتے ہیں توایسے لوگ نماز میں شامل ہوتے ہیں،یہ عمل کسی بھی نمازی کے لیے مناسب نہیں ہے،یہ منافقوں والا عمل ہے،یہ سب کچھ اپنی جگہ پر مگر کہیں نہ کہیں ایک امام کی جوابدہی بھی قائم ہوتی ہے کہ اس کی نوبت کیوں آرہی ہے کہ لوگ نماز کو مشکل سمجھ رہے ہیں، صحیح جگہ نماز میں تخفیف کی یہی ہے کہ قرآن نمازیوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے پڑھا جائے، جتنی رغبت ہو مقتدیوں کی اتنی ہی تلاوت کی جائے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہ لیا جائے کہ اتنی رعایت بھی نہ کی جائے کہ پورے رمضان میں ایک ختم بھی نہ ہوسکے۔
بلکہ تراویح میں ختم قرآن ستائیسویں رمضان کی شب میں افضل ہے۔آج کی تاریخ میں اس کا مزاج ومذاق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔یہ افضل وقت کو پانے کا ذریعہ بھی ہوگا اور جماعت کی نماز کا مقصد بھی اس سےمکمل حاصل ہوسکےگا اور آقائے مدنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل بھی ہوگی۔ یہ کرنے کی چیز ہے اسے نہ کرکے نماز میں جہاں کمی نہیں کرسکتے ہیں، وہاں تخفیف کا عمل نماز تراویح میں ہورہی ہےجویہ سنت شریعت سے ہٹی ہوئی یے، ایک امام قرآن مکمل کرنے کی فکر میں نماز ادھوری پڑھتےہیں اور پڑھاتے ہیں، یہ واقعی افسوسناک امر ہے۔
نماز میں ثناء پڑھنا مسنون ہے۔رکوع اور سجود کی تسبیح تین بار پڑھنا یہ بھی مسنون ہے۔تراویح کی نماز بھی سنت ہے،ایک سنت کے لیے دوسری سنت کو چھوڑنا کبھی جائز نہیں ہے۔
یہاں پر حیرت وتعجب کی بات تو یہ بھی ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد مقتدی کو ثنا پڑھنے کا موقع نصیب نہیں ہورہا ہے وہاں امام صاحب کو پھر تعوذ اور بسم اللہ کا وقت کیسے دستیاب ہورہا ہے؟
جبکہ قرینہ اور قیاس تو صاف یہ کہتا ہے کہ بغیر تعوذ اور بسم اللہ کے قرأت ہورہی ہے، اس کی بھی حیثیت نماز میں سنت کی ہے،فقہ وفتاوی کی کتابوں میں جان بوجھ کر ایسا کرنے والے کو گنہ گار کہا گیا ہے اور اس کی نماز کو کراہت والی نماز سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ستم بالائے ستم تو یہ ہےکہ کچھ حفاظ سے جلدی پڑھنے کے چکر میں قرآن کے حروف کٹتے ہیں، یہ عمل اگر جان بوجھ کر ہورہا ہے تو نماز فاسد ہورہی ہے۔فقہ کی کتابوں میں لکنت کی وجہ سے اگر حروف کٹتے ہوں تو گنجائش لکھی گئی ہے بصورت دیگر کوئی گنجائش نہیں ہے۔اس طرف بھی توجہ کی شدید ضرورت ہے۔
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ، 9973722710

پُر امن زندگی___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ

پُر امن زندگی___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ 
اسلام اخوت ومحبت، رافت وحمت،شفقت ومروت ،امن وآشتی، مدارات ومواسات کا مذہب ہے، وہ یکجہتی کی ان تمام کوششوں کوسراہتا ہے، جوا سلامی عقائد ونظریات سے متصادم نہ ہوں، اورجن سے دوسرے ادیان کی مشابہت لازم نہ آتی ہو، اس کے برعکس وہ فتنہ وفساد کی ہر کوشش اور اس کے برپا کرنے کو مذموم قرار دیتا ہے، اس سلسلہ میں اس کا بہت صاف اور واضح اعلان ہے:فتنہ قتل سے بڑی چیز ہے ۔اللہ فساد کو پسندنہیں کرتا۔زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ کرو۔ایک دوسری آیت میں ان قوموں کاتذکرہ کرتے ہوئے جنھوں نے فتنہ وفساد کو اپنا شعار بنالیا، ارشاد فرمایا:جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکاناچاہتے ہیں،اللہ تعالیٰ اس کو فرو کردیتے ہیں، اوروہ ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتے۔ایک اورآیت میں حضرت آدمؑ کے دوبیٹو کا قصہ بیان کرکے جن میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیاتھا۔ ارشاد فرمایا:جوکوئی کسی کی جان لے بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو، یا زمین میں فساد کیاہو، تو گویا اس نے تمام انسانوں کاخون کیا، اورجس نے کسی کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کوبچایا۔
اس آیت میں اگر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ انسانی جان کی حرمت وعظمت کا معیار قلت وکثرت پر اسلام نے نہیں رکھا، بلکہ ایک ایک فرد کوپوری سوسائٹی کے قائم مقام بنادیا، اس لیے کہ ایک ایک جان انسانیت کی متاع عزیز ہے اور اس کا ضیاع انسانیت کی ضیاع کے مترادف ہے۔
فساد پھیلانے والے چوں کہ انسانی جان کے ساتھ املاک کوبھی تباہ کردیاکرتے ہیں، پھر ان کے ساتھ حکومت کی مشنری بھی شامل ہوجائے تو یہ فساد اپنے ساتھ اوربھی تباہی لاتا ہے، اس لیے اللہ رب العزت نے ایسی حاکمانہ قوت وطاقت کی بھی مذمت کی، جو اچھے مقاصد میں استعمال ہونے کے بجائے ظلم وستم اورغارت گری کے لیے استعمال کیاجارہا۔ ارشاد فرمایا:اور جب وہ حاکم بنتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتاہے،اور کھیتوں اور نسلوں کو تباہ کرتاہے اوراللہ فساد کو ہرگز پسندنہیں کرتا۔
احادیث میں بھی تاجدار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے ارشادات کثرت سے پائے جاتے ہیں، جن میں بے گناہوں کے خون بہانے کو بدترین گناہ کہا گیاہے، حضرت انسؓ بن مالک کی ایک روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنااور قتل نفس ہے۔
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مؤمن اپنے دین کے دائرے میں اس وقت تک  رہتا ہے جب تک وہ حرام خون نہیں بہاتا۔قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے جس چیزکا حساب لیاجائے گا وہ نمازہے اور پہلی چیز جس کافیصلہ لوگوں کے درمیان کیاجائے گاوہ خون کے دعوے ہیں۔اسلام نے قتل سے اپنی ناپسند یدگی کا اظہار کرنے کے بعد ان اخلاقی قدروں پرزورد یا جن پر عمل پیرا ہونے سے فساد کا اندیشہ ہی باقی نہیں رہتا، اس سلسلے میں فساد کے تین اہم ذرائع زر، زن، زمین کی محبت واہمیت انسانی قلوب سے نکالنے کی کوشش کی، چنانچہ اللہ رب العزت ارشادفرماتا ہے:مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی ایک رونق ہیں۔ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:تمہارے اموال اوراولاد تمہارے لیے ایک آزمائش کی چیزہیں۔
ایک اور آیت میں انسان کوامراء اورسرمایہ داروں کی طرف حریصانہ نگاہ ڈالنے سے منع کیا اوراسے عارضی بہار قراردیا اور فرمایا:اور اپنی نگاہیں ہرگز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑانا، جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کوآرائش دنیا کی دے رکھی ہیں تاکہ انھیں اس سے آزمالیں، تیرے رب کا دیا ہوا ہی(بہت) بہتر اوربہت باقی رہنے والاہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...