Powered By Blogger

جمعرات, جون 05, 2025

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                  
Urduduniyanews72
آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اضافہ ہوگیاہےجوآئندہ ۲۳/نمازوں تک جاری و ساری رہے گا۔ ۹/ذی الحج کی فجر سے ۱۳/ذی الحج کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد با اواز بلند امام مقتدی سبھی تکبیر تشریق پڑھیں گے، :اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد"یہ تکبیر کہنا ہر فرض نماز کے بعد واجب ہے۔ تشریق کے معنی عربی زبان میں گوشت کے پارچے بنا کر ان کو دھوپ میں سکھانا ہے، ابن منظور نے معروف عربی لغت :لسان العرب" میں کہا ہے "التشریق:کا معنی گوشت سکھانا ہے، اسی واسطے ان دنوں کو ایام تشریق کہا جاتا ہے۔
 ایک سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ تکبیر کا تشریق سے کیا ربط و تعلق ہے اور کیوں دونوں کو ملا کر ایک ساتھ بطور نام کےبولا جاتا ہے؟ اس گرہ کو کھولنے کے لیے پہلے تکبیر تشریق کا مطالعہ ضروری ہے، بظاہر یہ ایک تکبیر ہےجبکہ درحقیقت یہ ایک مکمل تقریر ہے۔یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یادگار ہے،  قربانی کرنے والے ہی کو نہیں بلکہ ہر ایمان والے کے لیے اس میں بڑی نصیحت وصیت کا سامان ہے۔ فقہ حنفی کی مستند کتاب "البحر الرائق" میں تفصیل سے اس عنوان پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب خواب میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم ہوا ہے تو حکم خداوندی پرآپ اپنا سرتسلیم خم کر دیتے ہیں، حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خدا کی راہ میں قربان کر دینے کے لیے زمین پر لٹا دیتے ہیں، چھری تیز کر لیتے ہیں، اور ذبح کا عمل شروع کر دیتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت جبرئیل علیہ السلام جو جنت سے مینڈھا لے کر حکم خداوندی سے یہاں تشریف لارہے تھے، دراصل اسی مینڈھے کو ان کی جگہ پہ ذبح ہونا ہے۔ دور سے دیکھ کر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ کہیں اسماعیل علیہ السلام ذبح نہ ہوجائیں، چنانچہ زور سے بآواز بلند حضرت ابراہیم علیہ السلام کو متنبہ کرنے کے لیے" اللہ اکبر اللہ اکبر" کے کلمات کہتے ہیں۔اور یہ باور کراتے ہیں کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟ حضرت اسماعیل کو خدا کی راہ میں ذبح کر رہے ہیں، اللہ توان چیزوں سے مستغنی ہے،وہ بہت بڑا ہے، حضرت اسماعیل کی قربانی نہیں بلکہ آپ کا امتحان لینا چاہتا ہے،  اپ کو اس امتحان میں کامیابی نصیب ہو چکی ہے، اب تورک جائیے، یہ دیکھیے میرے ساتھ جنت کا یہ مینڈھا ہے،  اسے ذبح ہونا ہے۔
 حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے جب دیکھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں، ان کے ساتھ جنتی مینڈھا بھی ہے،حکم خداوندی یہ ہے کہ اسے اسماعیل کی جگہ قربان کرنا ہے، تو فرمانے لگے کہ "لا الہ الا اللہ واللہ اکبر" خدا کی ذات کے علاوہ کوئی قابل اطاعت و عبادت نہیں ہے، وہ بہت بڑا ہے ،اور بڑی شان والا ہے، جب اس کا حکم ہوا کہ بیٹے کی قربانی کرنی ہے، میں نے سر تسلیم خم کیا، اور اب حکم ہے کہ نہیں کرنی ہے، میں نے اس کی اطاعت قبول کر لی ہے، اس کی بڑائی کا خیال کرتے ہوئے اپنے اپ کو اس عمل سے روک لیا ہے۔
 حضرت اسماعیل علیہ السلام زمین پر لیٹے یہ سب کچھ سن رہے تھے،جب انہیں اس بات کا علم ہو گیا کہ معاملہ کچھ اور ہونے جا رہا ہے، حضرت جبرئیل علیہ السلام اگئے ہیں، خدائی حکم اور فدیہ میں جنت کا مینڈھا لائے ہیں، تو شکرانے کے طور پر یہ کلمہ زبان سے جاری ہوگیا :اللہ اکبر وللہ الحمد "اللہ بہت بڑا ہے،وہ بندے کے اخلاص کو قبول کرتا ہے، نیز فوری مدد نازل فرما دیتا ہے، جیسا کہ یہاں پیش ایا ہے، میری قربانی ہونی تھی ، بحمداللہ مجھے محفوظ ومامون رکھا گیا ہے، تمام تعریف اس خدائے وحدہ لا شریک لہ کی ہے۔
 اہل عرب ان دنوں کو قربانی کے گوشت سکھانے کے دن کہتے تھے، مذہب اسلام نے ایام تشریق کو گوشت سکھانے نہیں بلکہ حضرت ابراہیم اسماعیل علیہ السلام کی قربانیوں کو تازہ کرنے اور یاد دلانے کا ذریعہ بنادیا ہے، دراصل تکبیر تشریق کایہی مقصد ہے۔ شریعت اسلامیہ نے جہاں بھی مادیت کا شائبہ محسوس کیا ہے وہاں ایمان والوں کی سمت روحانیت کی طرف مبذول کر دی ہے، حج میں بھی تلبیہ و دعا کے ذریعے یہ چاہا گیا ہے اور قربانی کے ایام میں بھی یہی منشاخداوندی ہےکہ بندہ اپنے اندر اس حقیقی قربانی کی یاد تازہ کرے، اور اپنی زندگی میں اسے جاری و ساری رکھے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ان نکات کو ہم کھول کھول کر عوام الناس کے سامنے رکھ دیں،دین کا صحیح فہم نہیں ہونے کی وجہ کر آج پھر مقصد قربانی نہیں بلکہ گوشت بن گیا ہے،اللہ ہمیں قربانی کی روح کو قربانی کے عمل کے ذریعہ اور تکبیر تشریق کے ذریعہ تازہ کرنے کی سعادت نصیب کرے، آمین 
مفتی ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
۸/ذی الحج ۱۴۴۶ھ بروز جمعرات

عید الاضحٰی کا پیغام

عید الاضحٰی کا پیغام 
مضمون نگار: محمد ضیاء العظیم 
معلم چک غلام الدین ہائی اسکول ،ویشالی بہار ۔
موبائل نمبر :7909098319 
Urduduniyanew72
قربانی تقرب الی اللہ کا اہم ذریعہ اور وسیلہ ہے، قربانی در اصل راہ خدا میں جانور کو قربان کرنے کا نام ہے، اور یہ وہ عمل ذبیحی ہے جس سے اللہ  تعالیٰ کاقرب اور اس کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے۔ انسان کی تخلیق پر جب ہم غور وخوض کرتے ہیں تو اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ قربانی کا وجود اور ثبوت انسانوں کی تخلیقات کے ساتھ ساتھ ہے، قرآن   مجید میں  حضرت آدم  کے  دو بیٹوں کی قربانی  کا  واقعہ موجود ہے۔اور قربانی جد الانبیاء سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام  کی عظیم ترین سنت ہے  یہ عمل اللہ تعالیٰ  کواتنا پسند آیا  کہ اس   عمل کوقیامت تک کے مسلمانوں کے لئے  عظیم سنت قرار  دیا ۔ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالی کے جلیل القدر پیغمبر ہیں ۔قرآن مجید میں صراحتاً سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اور ان کے واقعات کا تذکرہ موجود ہے ۔قرآن مجید کی ایک سورہ ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نام سے موسوم ہے ۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ایک ایسے ماحول میں اپنی آنکھیں کھولی جو شرک، بت پرستی اور خرافات میں غرق، اور جس گھر میں جنم لیا وہ بھی کفر و شرک، بت پرستی اور خرافات کا مسکن وملجا تھا ۔
ابراہیم علیہ السلام کے احساسات وجذبات میں رب العزت کی محبت پیوست تھی، وہ رب کی تلاش و جستجو میں کوشاں رہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے ایک واقعہ کو قرآن مجید نے بڑے خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام چاند ستارے سورج میں رب کو تلاش کر رہے تھے، لیکن ان تمام چیزوں کو نکلتے اور ڈوبتے دیکھا تو سمجھ گئے کہ رب کی ذات اقدس وہ ہے جو کبھی ڈوب نہیں سکتی، کوئی طاقت اسے عاجز نہیں کرسکتی، وہ رب تنہا، یکتا، اور طاقتور ہے۔ جسے نہ نیند آسکتی ہے، نہ اونگھ، 
سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر جب بت اور پرستی کی حقیقت کا انکشاف ہوا،  اس کا باطل ہونا طے ہوا، اور اللہ کی وحدانیت کا آشکار ہوا تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے والد آزر کو دعوت اسلام دی،  اس کے بعد عوام کے سامنے اس دعوت کو عام کیا اور پھر بادشاہ وقت نمرود سےمناظرہ کر کے اسے لاجواب کردیا ۔ اس کے باجود قوم قبولِ حق سے منحرف رہی حتیٰ کہ بادشاہ نے انہیں آگ میں جلانے کا حکم صادر کیا مگر اللہ نے آگ کو ابراہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی کا سامان بنا دیا اور دشمن اپنے ناپاک اردادوں کے ساتھ ذلیل ورسوار ہوئے، اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کامیاب کیا، اور سرخروئی عطا کی ۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا دل اللہ رب العزت کی محبت سے لبریز تھا، اور اللہ رب العزت کی ذات بھی آپ سے بے پناہ محبت کرتی ہے،  یہی وجہ ہے کہ آپ کے کردار عمل کو اللہ رب العزت نے قرآن عظیم میں نقل کرکے انسانوں کے لئے ایک نمونہ بنا دیا، عید الاضحٰی رب العزت کی محبت و اطاعت اور اس کے محبوب بندے کی محبت کی داستان ہے ۔
عید الاضحٰی سنت ابراہیمی ہے، یہ ہمیں محبت، اخوت، بھائی چارگی، ایثار وقربانی، وجذبہء ایمانی کا درس دیتا ہے، اس کی تاریخ در اصل ایک عظیم تاریخ ہے، اور وہ یہ کہ ایک عظیم اور بوڑھا باپ حکم خداوندی پر اپنے پیارے، لاڈلے، چہیتے،جگر کا پارہ، ہر دل عزیز، فرزند کے حلق پر چھری چلا رہا ہے، قربانی اس قوت ایمانی کا نام ہے جس میں بندہ اپنے رب کے سامنے اپنی اطاعت وبندگی کا اظہار اس طرح کرتا ہے کہ،، 
 اِنَّ صَلَاتِىۡ وَنُسُكِىۡ وَ مَحۡيَاىَ وَمَمَاتِىۡ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ ۞
 میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
(سورہ انعام آیت 162) 
یقیناً  ہماری عبادت وریاضت، ہماری بندگی، ہماری زندگی وموت، یہ سب محض آپ کی رضاو خوشنودی کے لئے ہے، ہم خالص آپ کے بندے ہیں، اور آپ کی ہی بندگی کرتے ہیں، ہمارا غم، ہماری خوشی، ہماری زندگی یہ سب محض آپ کی رضا کے لئے ہے، قربانی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ہم خالص اللہ کے بندے بن کر رہیں، اور وقت پڑنے پر اپنی جان ومال کی قربانی پیش کرنے میں ذرہ برابر  بھی کوئی ہچکچاہٹ ہمیں محسوس نہ ہونے پائے ،یاد کریں اس وقت کو جبکہ ایک عظیم باپ نے اپنے عظیم بیٹے سے دریافت کی کہ  
يٰبُنَىَّ اِنِّىۡۤ اَرٰى فِى الۡمَنَامِ اَنِّىۡۤ اَذۡبَحُكَ فَانْظُرۡ مَاذَا تَرٰى‌ؕ قَالَ يٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ‌ سَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيۡنَ ۞
اے میرے بیٹے ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کررہا ہوں ‘ اب تم سوچ کر بتائو تمہاری کیا رائے ہے ؟ اس (بیٹے) نے کہا اے ابان جان ! آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے ‘ آپ انشاء اللہ ! مجھے عنقریب صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے
(سورہ الصافات آیت 102)

  یقیناً رب العالمین تم سے تمہاری قربانی کا تقاضہ کر رہے ہیں ، تمہاری اس سلسلے میں کیا رائے ہے، باپ کے عظیم بیٹے نے بہترین جواب دیا کہ آپ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ کریں، ان شاء اللہ آپ ہمیں صابر وشاکر میں پائیں گے، اس جواب نے پوری کائنات کو حیران و ششدر کرکے سکتے میں ڈال دیا۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام  ضعیفی میں تھے، اپنی اس اولاد سے بے پناہ محبت تھی، لیکن اس محبت کو اللہ کی اطاعت وبندگی پر ترجیح نہیں دی، 
سیدنا ابراہیم واسمٰعیل علیھما السلام نے اللہ کے اس حکم کے بعد فوراً اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا، کسی طرح کی تاویلات نہیں پیش کی کہ اللہ کا کوئی دوسرا منشا ہے، آپ کے اس کردار عمل نے پوری انسانیت کو جھنجھوڑتے ہوئے شعور بندگی سکھایا، اور یہ درس دیا کہ جب حکم خداوندی آجائے تو پھر کیوں، کس لئے، کب، کس طرح، ان باتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اور عشق کا بھی یہی تقاضا ہے کہ حکم ملے سر تسلیم خم ہوجاؤ، مسلمان بھی اسی کا نام ہے کہ رب کائنات کے سامنے سر تسلیم خم ہوجائے،قربانی صرف جانور کی گردن پر چھری چلانے کا نام نہیں ہے، بلکہ قربانی کے ذریعہ انسان کے اندر زہدوتقوی اور خشئت الہی پیدا ہوتا ہے، کیوں کہ صرف جانور کے گردن پر چھری نہیں چلتی بلکہ قربانی میں اپنی انا، گھمنڈ، تکبر ،فخر، ریا کاری، سب کو قربان کرکے خالص اللہ کا بندہ بن کر زندگی گزارنے کا بندہ عزم کرتا ہے،سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کا یہ پورا واقعہ جو درحقیقت قربانی کے عمل کی بنیاد ہے روز اول سے امت کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ تمہارے دلوں میں یہ احساس یہ علم یہ  معرفت اور یہ فکر پیدا ہوجائے کہ احکامات خداوندی ہر چیز پر مقدم ہے۔تمہاری تمام تر کامیابیوں کے راز اسی میں پنہاں ہیں کہ تم اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردو چاہے تمہاری عقل قبول کرے نہ کرے، تمہارے سماج کے خلاف معلوم ہو رہا ہو، تمہاری طبیعت اس کو پورا کرنے میں بوجھ محسوس کر رہی ہو۔
قربانی کا سارا فلسفہ یہی ہے اس لئے کہ قربانی کے معنی ہیں"اللہ کا تقرب حاصل کرنا ہے" لفظ" قربانی" قربان سے نکلا ہے اور لفظ "قربان" قرب سے بنا ہے یہ قربانی جہاں فی نفسہ ایک عظیم عبادت وبندگی اور شعاراسلام ہے وہیں یہ قربانی امت مسلمہ کو عظیم الشان سبق بھی دیتا ہے کہ یہ امت اپنے آپ کو کامل مسلمان بنائے سراسر اتباع اور اطاعت کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرے اور زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کی صحیح اور حقیقی روح "جذبہ اتباع" کے ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھ لے۔قربانی کی حقیقت اور اس کے پیچھے اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ دل میں جس چیز کی محبت اور طلب ہو وہی اللہ کی خاطر قربان کر دی جائے لیکن انسان تو صرف اپنی نفسانی خواہشات کی طلب اور اپنے خوابوں کی تکمیل میں دن رات کمربستہ رہتا ہے۔ وہ یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کیا ہے، وہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ انسان سوچتا ہے تو محض یہ کہ وہ اپنے خواب کیسے پورے کرے، اپنی خواہشات کیسے حاصل کرے، مال و دولت کیسے کمائے، معاشرے میں مقام و مرتبہ کیسے بنائے۔ نہیں سوچتا تو بس یہ کہ اللہ کا قرب کیسے حاصل کیا جائے، گناہوں سے کیسے بچا جائے، اپنے نفس کی اصلاح کیسے کی جائے۔ وہ اپنی آرزوؤں کو پورا کرنے کے لیے ہر شے قربان کر دیتا ہے اگر قربانی نہیں دیتا تو محض اپنے نفس کی کیونکہ وہ اپنے نفس کی تسکین کی خاطر تو یہ سب کچھ کر رہا ہوتا ہے۔لیکن انسان تب تک خیر نہیں پا سکتا جب تک اپنے نفس کی قربانی نہیں دیتا، قربانی کا اصل تقاضا اور اس کا اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ جس چیز سے تمہیں سب سے زیادہ محبت وانسیت اور لگاؤ ہے تمہارے دل میں اس چیز کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حوصلہ اور جذبہ ہمہ وقت رہے، کیوں کہ اس وقت تک  بندے کی بندگی مقبول نہیں جب تک وہ اپنی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب اللہ اور اس کی نازل کردہ احکامات کو سمجھے، اور اس پر چلتا رہے، قربانی بھی اسی بندگی کی ایک کڑی ہے، اللہ ہم سب عید قرباں کے صحیح معانی ومفاہم سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...