اتراکھنڈ میں کورونا کیسز پر کنٹرول کے لیے ریاستی حکومت نے 14 ستمبر کی صبح 6 بجے سے 21 ستمبر کی صبح 6 بجے تک کورونا کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ثاقب سلیم، نئی دہلی
ہر برس 5 ستمبر کو ہندوستان کے اندر 'یوم اساتذہ' منایا جاتا ہے۔
یوم اساتذہ ہندوستان کے سابق صدر ڈاکٹر ایس رادھاکرشنن کی یوم پیدائش کے موقع پر منایا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ رادھا کرشنن کی یاد سے زیادہ اس دن کا مقصد اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرنا ہے، جو ملک و قوم کے لیے نوجوان ذہنوں کی درست رہنمائی کرتے ہیں۔
ایک باروومنس کالج علی گڑھ کے بانی شیخ عبداللہ سے جب ان کے استاد نے انسان اور جانور کے درمیان فرق پوچھا تو انھوں نے اپنے استاد کو جواب دیا کہ ایک انسان دوسرے انسان کو وہ تمام علم و شعور کی چیزیں سیکھا سکتا ہے جو کہ اس نےخود سیکھا ہے، جب کہ جانور ایسا کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں تعلیم ہی انسانوں کو جانوروں کے مقابلے میں ممتاز کرتی ہے۔
شاید یہی سبب ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں اساتذہ کا مقام سب سے بلند گردانا گیا ہے۔
حدیث کے مطابق پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو اس کا پہلا جملہ یہ تھا کہ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے۔
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پہلی وحی میں ہی علم پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔
قرآن کی ایک آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ نے انسان کو وہ کچھ سکھایا، جو وہ نہیں جانتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پہلے قدرتی چیزوں کے بارے میں علم عطا کیا اور پھر اس کی تفصیلات اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ ترسیل فرمائی۔
اس میں کوئی شک نہیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک معلم تھے۔
انھوں نے انسانوں کو اخلاقیات، تقویٰ اور صحیح طرز عمل کی تعلیم دی۔
رسول اللہ نے نہ صرف زبانی علم سکھایا بلکہ ان تمام باتوں کو اپنی زندگی میں عملی طور پر کرکے بھی دکھا دیا۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کے مطابق تعلیم صرف کتابوں تک رسائی کا نام نہیں بلکہ ایک استاد کو علم دینے کے ساتھ ساتھ رول ماڈل بھی ہونا چاہئے۔
مغربی طرز تعلیم اس کے برعکس ہے، جہاں ایک استاذ کی ذاتی زندگی اس سے قدرے مختلف ہوتی ہے، جس کی وہ کلاس میں بچوں کو تعلیم دیتا ہے۔
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ استاد کو وہ نہیں ہونا چاہئے جس کی تعلیم دینے سے وہ گریز کرتا ہے، یعنی ان کی زندگی اور ان کے علم میں تضاد نہیں ہونا چاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنی زندگی میں ثابت کرکے دکھا دیا ہے۔
انھوں نے زبانی تعلیم دینے کے ساتھ مثالوں کے ذریعہ بھی اپنی باتوں کو واضح کیا تھا۔
رسول اللہ نے تعلیم کو سب چیزوں سے زیادہ فوقیت دی ہے۔
ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں تھے، وہاں ایک صاحب نماز ادا کر رہے تھے، جب کہ دوسرے شخص لوگوں کو تعلیم دے رہے تھے۔ اس کو دیکھ کر پیغمبر نے کہا کہ وہ شخص اس سے بہتر ہے، جو لوگوں بالخصوں نہ جاننے والوں کو علم سکھا دے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں معلم یعنی استاد بناکر بھیجا گیا ہے۔
وہیں ایک اور روایت کے مطابق وہ لوگ بہتر ہیں جوعلم حاصل کرتے ہیں اور دوسروں کو سکھاتے ہیں۔
قرآن کہتا ہے کہ انسان خود علم حاصل کرے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے۔
قراآن میں ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے کہ عالم اور جاہل ہرگز دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔
اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ عالم کے درجات بلند کرے گا۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تعلیم کی قرآن و حدیث میں کتنی زیادہ اہمیت ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ علم کا حصول اور تبلیغ قرآن میں انتہائی تقدس کا سا درجہ رکھتا ہے۔
اتراکھنڈ میں کورونا کیسز پر کنٹرول کے لیے ریاستی حکومت نے 14 ستمبر کی صبح 6 بجے سے 21 ستمبر کی صبح 6 بجے تک کورونا کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بہار : صفائی کارکنوں کی ہڑتال ختم نہیں ہوئی ، گندگی نے وائرل بخار اور دیگر بیماریوں کا خطرہ بڑھا دیابہار : صفائی کارکنوں کی ہڑتال ختم نہیں ہوئی ، گندگی نے وائرل بخار اور دیگر بیماریوں کا خطرہ بڑھا دیاپٹنہ: ان دنوں بہار میں لوگ بیک وقت کئی بیماریوں کے خطرے سے پریشان ہیں۔ ایک طرف ، وہ پہلے ہی کورونا وائرس سے پریشان تھا ، اور دوسری طرف ، صفائی کارکنوں کی ہڑتال کی وجہ سے ، شہر میں کچرے کے ڈھیر نے بیماری کا خطرہ بڑھا دیا ہے۔ بچوں سے لے کر ہر عمر کے لوگ وائرل بخار کا شکار ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر کے مطابق ان دنوں بخار کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یہ ملیریا ، وائرل یا فلو بھی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں فوری طور پر طبی مشورہ لیا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر دیواکر تیجاشوی نے بتایا کہ ان دنوں فلو کا وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ گندگی کی وجہ سے ، یہ تیزی سے پھیلتا ہے۔ اس کے ساتھ ٹائیفائیڈ بھی بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گندگی کی وجہ سے یرقان ، یرقان اور وائرل بخار ہونے کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر دیواکر تیجسوی نے کہا کہ آج کے دور میں اگر کسی کو بخار اور سر درد جیسے مسائل کا سامنا ہے تو بخار کو کم کرنے کے لیے پیراسیٹامول لیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کو ایک یا دو دن میں راحت مل جائے تو ٹھیک ہے ورنہ طبی مشورہ فورا لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح فلو اس وقت بڑھ رہا ہے ، اگر اس کی ویکسین مل جائے تو یہ اور بھی بہتر ہے۔ ویکسین بھی ٹائیفائیڈ سے بچانے کے لیے آتی ہیں۔ اسے طبی مشورے کے بعد بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔
ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ بہار میں جھاڑو دینے والوں کی ہڑتال کی وجہ سے وہاں بہت زیادہ کوڑا کرکٹ ہے۔ گزشتہ اتوار کو بھی بارش ہوئی۔ ایسی صورتحال میں ، فضلے پر پانی گرنے کی وجہ سے کئی قسم کے انفیکشن ہونے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ اتوار کو ہی ، بہار کے ڈپٹی سی ایم نے کہا تھا کہ صفائی کارکنوں کی ہڑتال ایک سے دو دن میں ٹوٹ جائے گی۔ افسران اس سے بات کر رہے ہیں۔ ان کے مطالبات بھی مان لیے گئے ہیں ، لیکن کچھ ایسے مطالبات ہیں جنہیں قواعد و ضوابط کے تحت حل کیا جا رہا ہے
کورونا ویکسین کے فوائد سے متعلق اب تک آنے والی متعدد تحقیقات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ویکسینیشن سے لوگ وبا سے متاثر ہونے سے قدرے محفوظ بن جاتے ہیں۔
تاہم امریکا میں ہونے والی ایک حالیہ بڑی تحقیق سے ثابت ہوا کہ جو لوگ کورونا سے تحفظ کی ویکسین نہیں لگواتے ان میں کورونا میں مبتلا ہونے کے بعد زندگی کی بازی ہار جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
امریکا کے طبی ادارے ’سینٹر فار ڈیزیز اینڈ پروینٹ کنٹرول سینٹر‘ (سی ڈی سی) کی تحقیق کے مطابق ویکسین نہ لگوانے والے افراد میں کورونا میں مبتلا ہونے کے بعد ہسپتال جانے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
ماہرین نے امریکا کی 13 مختلف ریاستوں میں 6 لاکھ سے زائد کورونا مریضوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا، جس کے بعد نتائج سے معلوم ہوا کہ مجموعی طور پر ویکسین کے کئی فوائد ہیں۔
تحقیق کے نتائج سےمعلوم ہوا کہ جو لوگ ویکسین نہیں لگواتے، کورونا میں مبتلا ہونے کے بعد ایسے افراد کے ہسپتال میں داخل ہونے کے امکانات 10 فیصد بڑھ جاتے ہیں۔
نتائج کے مطابق ویکسین نہ لگوانے والے افراد کے وبا کا شکار ہونے کے بعد مرنے کے امکانات بھی 11 فیصد بڑھ جاتے ہیں۔
سی ڈی سی کی جانب سے کی گئی ایک اور تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مجموعی طور پر تمام ویکسینز کورونا کی تمام اقسام پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ان کا 60 سے 90 فیصد فائدہ ہوتا ہے۔
دوسری تحقیق کے مطابق کورونا کے تمام بشمول ڈیلٹا اقسام میں موڈرینا کی ویکسین سب سے زیادہ 95 فیصد تک فائدہ مند ہوتی ہے جب کہ فائزر اور آسٹررزینکا سمیت دیگر ویکسینز بھی 60 سے 80 فیصد تک فائدہ دیتی ہیں۔
تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا کہ 75 سال یا اس سے زائد کی عمر کے افراد کو عام طور پر کورونا ویکسینز ڈیلٹا یا دیگر خطرناک کورونا کی اقسام سے کم تحفظ فراہم کرتی ہیں
لیجیے جناب! اب ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ ابھی تک ہم لوگ لو جہاد ہی سنتے آئے تھے یا پھر ایک شرانگیز نام نہاد صحافی نے سول سروس جہاد کا شوشہ چھوڑا تھا، لیکن اب نشہ جہاد کا شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ شوشہ ایک ایسے شخص نے چھوڑا ہے کہ اس مذہب اور منصب کے لوگوں سے ایسی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس الزام کے بعد کہ مسلمان غیر مسلموں کے خلاف نشہ جہاد چھیڑے ہوئے ہیں، سیاسی حدت بڑھ گئی ہے اور بی جے پی کو یہ لگنے لگا ہے کہ اسے اس انتخابی موسم میں ایک اور ہتھیار مل گیا ہے۔ حالانکہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس الزام میں کتنی صداقت ہے یا اس کے پیچھے کسی سیاسی جماعت، تنظیم یا گروہ کا ہاتھ ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ بی جے پی اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
کیرالہ کے ایک کیتھولک پادری جوزف کلارنگٹ نے کوٹایم ضلع کے ایک گرجا گھر میں خطاب کرتے ہوئے الزام عاید کیا کہ اس وقت کیرالہ میں دو قسم کا جہاد چل رہا ہے۔ ایک لو جہاد اور دوسرا نشہ جہاد۔ ان کے مطابق اس نشہ جہاد کے ذریعے غیر مسلم نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنا کر ان کی زندگی تباہ کرنے کی سازش رچی گئی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سخت گیر جہادیوں کے آئس کریم پارلرس، ہوٹلوں اور جوس کارنروں میں کئی قسم کی منشیات کا استعمال ہو رہا ہے۔ وہ غیر مسلم نوجوانوں کی زندگی تباہ کرنے کے لیے منشیات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
انھوں نے کافی ہفوات بکی ہیں اور مسلمانوں کے خلاف ایک ماحول بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے اس الزام پر جہاں ریاستی وزیر اعلیٰپنارائی وجین نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ منشیات اگر کہیں استعمال ہو رہی ہے تو اس کو مذہب سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔ ان کے بقول پہلی بار نشہ جہاد کی بات سننے میں آئی ہے۔ اگر یہ مسئلہ ہے بھی تو اس سے کسی ایک خاص مذہب کے لوگ ہی متاثر نہیں ہوں گے بلکہ تمام مذاہب کے لوگ متاثر ہوں گے۔ اگر واقعی ایسا کچھ ہے تو یہ غیر سماجی سرگرمی ہے مذہبی نہیں۔ جبکہ کانگریس نے بھی پادری کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اسی طرح مسلم تنظیموں کی جانب سے بھی اس بیان کی مذمت کی جا رہی ہے۔ ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ ان کے اس بیان سے ریاست کیرالہ میں اسلاموفوبیا کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے تاکہ کیرالہ جیسی ریاست میں بھی مذہبی تفرقہ پیدا کرکے عوام کو جذباتی بنیاد پر تقسیم کیا جا سکے۔
اگر ہم غور کریں تو پادری کا الزام واضح طور پر بے بنیاد نظر آتا ہے۔ اگر واقعی مسلمانوں کی جانب سے چلائے جانے والے آئس کریم پارلرس، ہوٹلس اور جوس کارنرس میں منشیات کا استعمال ہو رہا ہے تو اس سے تو سبھی متاثر ہوں گے۔ پادری نے یہ نہیں بتایا کہ کیا ان جگہوں پر یہ لکھا ہو ا ہے کہ یہاں صرف غیر مسلموں کے داخلے کی اجازت ہے مسلمانوں کے داخلے کی نہیں۔ یا یہ لکھا ہوا ہے کہ مسلمان ان جگہوں سے کوئی چیز نہ خریدیں۔ ظاہر ہے آئس کریم صرف غیر مسلم ہی نہیں کھاتے مسلمان بھی کھاتے ہیں۔ جوس صرف ہندو ہی نہیں پیتے مسلمان بھی پیتے ہیں۔ اور جہاں تک ہوٹلوں میں منشیات کے استعمال کی بات ہے تو ہندو تو مسلم ہوٹلوں میں جاتے ہی نہیں یا جاتے ہیں تو بہت کم۔ مسلم ہوٹلوں کے گاہک تو مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر ایسا کوئی جہاد چل رہا ہے تو اس سے تو سب سے زیادہ مسلمان ہی متاثر ہوں گے۔
لیکن بی جے پی کو بیٹھے بٹھائے ایک بہترین ہتھیار مل گیا۔ یہ بات رکھنی چاہیے کہ حالیہ دنوں میں اختتام پذیر ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کیرالہ کی ریاست بھی شامل تھی اور بی جے پی نے وہاں بائیں بازو کی حکومت کے خاتمے اور اپنی حکومت کے قیام کے لیے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ لیکن اس کی تمام چالیں ناکام ہو گئی تھیں۔ بائیں بازو یعنی ایل ڈی ایف نے دوبارہ اقتدار میں واپسی کی تھی۔ بی جے پی اس شکست کو ابھی تک ہضم نہیں کر پائی ہے۔ اسی لیے جوں ہی پادری کا یہ بیان سامنے آیا بی جے پی کی طرف سے اسے لپک لیا گیا۔
مرکزی وزیر اور سینئر بی جے پی رہنما مرلی دھرن نے بائیں بازو اور کانگریس دونوں پر حملے کیے ہیں اور ان سے سوال پوچھا ہے کہ وہ بتائیں کہ کیا وہ آئی ایس آئی ایس کے ترجمان ہیں۔ اس سے پہلے انھیں یہ بتانا چاہیے کہ کیا مذکورہ پادری بی جے پی کے ترجمان ہیں جو انھوں نے ایسا بیان دیا۔ انھیں اس الزام کے ثبوت میں حقائق پیش کرنے چاہئیں۔ لیکن ابھی تک انھوں نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔ اگر کہیں پر منشیات کا استعمال ہو رہا ہے تو انھیں چاہیے تھا کہ وہ حکومت کو باخبر کرتے۔ لیکن انھوں نے اسے جہاد کا نام دے کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔
جہاں تک لو جہاد کا معاملہ ہے تو آج تک اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا۔ جب بھی اس سلسلے میں پارلیمنٹ میں سوال کیا گیا تو حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ لو جہاد نامی کوئی اصطلاح ہے ہی نہیں اور یہ کہ ا س کے پاس اس سلسلے میں کوئی ڈیٹا ہی نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود جب بھی انتخابات کا موقع آتا ہے لو جہاد کا شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے اور اب تو پادری صاحب نے ایک نئی اصطلاح گھڑ دی ہے۔ انھوں نے اس الزام کی بنیاد پر بی جے پی کے ہاتھوں کو مضبوط کیا ہے اور مذہب کے نام پر سماج میں خلیج پیدا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
اس سے پہلے بھی کیرالہ میں لو جہاد کے معاملات اٹھائے گئے تھے اور مسلم نوجوانوں پر ہندو لڑکیوں کو محبت کے دام میں پھانس کر شادی کرنے اور پھر ان کا مذہب تبدیل کرانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ جب ایک 24 سالہ طالبہ اکھیلا نے اسلام کا مطالعہ کیا اور پھر قبول اسلام کرنے کے بعد اپنا نام ہادیہ رکھا اور ایک مسلم نوجوان شافعین جہاں سے شادی کی تو لو جہاد کے پروپیگنڈے کی دھار تیز ہو گئی تھی۔ چونکہ اس قسم کے واقعات کیرالہ میں زیادہ ہوئے تھے اس لیے سپریم کورٹ کے حکم پر این آئی نے 89 بین مذاہب شادیوں کی ایک فہرست بنائی اور ان میں سے گیارہ کی تحقیقات کی تو اسے لو جہاد کا کوئی ثبوت ہی نہیں ملا۔
اس کا کہنا ہے کہ اس کے نزدیک اب یہ معاملہ ختم ہو چکا ہے اور وہ اس بارے میں عدالت میں مزید کوئی رپورٹ داخل نہیں کرے گی۔ این آئی اے کے مطابق تمام شادیوں میں ایک مشترکہ پہلو یہ نکلا کہ ایک سماجی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کے اہلکار ایسے معاملات میں شامل رہے ہیں۔ لیکن ان کے خلاف بھی ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ قانونی کارروائی کی جا سکے۔ این آئی اے کے اہلکاروں کے مطابق کیرالہ میں تبدیلی مذہب جرم نہیں ہے اور جن مردوں یا عورتوں نے تبدیلی مذہب کی وہ آئین کے دائرے میں کی۔ اس طرح لو جہاد کے الزام کے غبارے کی ہوا نکل گئی تھی۔
لیکن اب ایک بار پھر اس غبارے میں ہوا بھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس بار نمک مرچ لگا کر نشہ جہاد کا بھی شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ بات صرف اتنی سی نہیں ہے بلکہ اس میں ایک پادری صاحب کود پڑے ہیں۔ حالانکہ سنگھ پریوار یا ہندوتوا نواز تنظیموں کی جانب سے عیسائیوں پر ہندووں کا مذہب تبدیل کرانے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پادری صاحب نے ایسے کسی الزام سے بچنے کے لیے مسلمانوں پر ہی الزام لگا دیا اور لو جہاد کے ساتھ ساتھ نشہ جہاد کی بات کرکے انھوں نے تبدیلی مذہب کے معاملے کو مسلمانوں کی جانب موڑنے کی کوشش کی ہے۔ بہر حال جو بھی ہو یہ الزام بہت خطرناک ہے، اس سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ماحول بنے گا اور اس کا فائدہ بی جے پی اٹھائے گی۔
یہ عینکیں مشہور زمانہ برانڈ رے بین کیساتھ مل کر تیار کی گئی ہیں . یہ بات ذہن میں رہے کہ فیس بک کے سائنسدان اس پر کافی عرصے سے کافی کر رہے تھے . اس کا مقصد ٹیکنالوجی کی مدد سے نت نئی چیزیں ایجاد کرنا ہے تاکہ لوگوں کا سمارٹ فونز پر انحصار کم ہو جائے . فیس بک اس کے علاوہ دیگر منصوبوں پر بھی کام کر ر ہی ہے . فیس بک کی اس پراڈکٹ کو ”رے بین سٹوریز سمارٹ گلاسز” کا نام دیا گیا ہے جو دیکھنے میں تو عام عینکیں ہیں لیکن اس میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسی ڈیوائسز منسلک کی گئی ہیں جس نے انھیں سمارٹ فونز کی تمام خوبیوں کا مالک بنا دیا ہے .
فیس بک کی ان سمارٹ عینکوں میں کیمرے موجود ہیں جن سے فوٹوز اتاری جا سکتی ہیں بلکہ ان میں ویڈیوز بنانے کی بھی صلاحیت موجود ہے . اس کے علاوہ اس میں صارفین کی سہولت کیلئے پلے سٹور بھی دیا گیا ہے جس سے گانے سنے جا سکتے ہیں، اسی عینک کیساتھ سپیکر بھی منسلک ہیں جو کالز سننے کیلئے بھی استعمال ہونگے . تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ پہلے ان سمارٹ عینکوں کو کسی اینڈرائیڈ یا آئی او ایس ڈیوائس سے جوڑا جائے . . .
نشست میں مرکز سے آئے مہمانان اور مقامی علماء اکرام کے درمیان ملک کے بدلتے حالات اور امت مسلمہ کے سامنے ملکی مسائل کو لیکر کافی اہم گفتگوں رہی۔ دوران گفتگوں مفتی ایوب قاسمی صاحب نے بتلایا کہ ناندیڑ میں جب بھی جماعت اسلامی ہند ناندیڑ کی جانب سے علماء اکرام کو کسی بھی مسائل پر دعوت دی جاتی ہیں تو تمام ہی علمائ اکرام اس میں ضرور شریک ہوتے ہیں اس سے یہ بات سابت ہوتی ہیں کہ تمام ہی مکاتب فکر کے علماو کے درمیان آج اتحاد پایا جاتا ہے۔اور یہ نشست بھی اس بات کی مثال ہے۔
نشست میں اس بات پر بھی غور و خوص کیا گیا کہ آج کے تعلیمی نظام جو کہ دین سے پوری طرح خالی پایے جاتے ہیں جس کی وجہ سے نوجوان لڑکے و لڑکیوں میں دنیاوی ترجیحات بڑھ گی ہے اور وہ اسی کی محبت میں گرفتار ہوتے جارہے ہےں۔ اس کے علاوہ دیگر بہت سے مسائل اور حل پر سیر حاصل گفتگو رہی۔ نشست کا اختتام محترم ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب کی دعا پر ہوا۔
وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ بغیراجازت نامے نماز کے لیے مسجد الحرام میں داخلے پر ایک ہزار ریال جرمانہ ہوگا۔سعودی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ کورونا ایس او پیز کی پابندی کو یقینی بنانے کے لیے سزا مقرر کی گئی ہے۔وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ تمام لوگ کورونا ایس او پیز کی پابندی جاری رکھیں
ٹی سی کےلئے چھ لاکھ اور کلرک کےلئے تین لاکھ روپے کاریٹ مقرر کیاگیاتھا۔دیگلور اور مکھیڑ تعلقہ کے آٹھ تعلیم یافتہ نوجوانوں سے ان دونوں میاں بیوی نے تیس لاکھ روپیے حاصل کئیے تھے اس کے بعدسکندر ریلوے بورڈ کااپاٹمنٹ لیٹراوردیگر دستاویزات تیار کرکے ان نوجوانوں کے سپردکردئےے گئے ۔ دیگلور کے رامپورروڈ کے یشونت کالی داس سے 5لاکھ 80ہزار‘سنگرام پربھاکر جادھوسے5لاکھ 30ہزار‘کاماجی دیوی داس سے تین لاکھ ‘کرن مکاجی سے چار لاکھ ‘پروین ہنمنت راو تیلنگے سے تین لاکھ اس طرح تقریبا تیس لاکھ10ہزار روپے ان تمام سے مدھوکر پاٹل اور مہادیو پاٹل نے لئے تھے۔
دیگلور پولس نے ناندیڑ کے ایس پی پرمودکمار شیوالے ‘ ڈی واے ایس پی سچین سانگڑے ‘پی آئی بھگوان راو ‘اے پی آیی منڈے کی رہنمائی میں کاروائی انجام دی گئی اور مذکورہ دونوں میاںبیوی اوراسکے بیٹے پرتاپ کوبھی گرفتار کرلیاگیا ہے ۔اس ریاکٹ میںاورکتنے افرادشامل ہے اس بات کا بھی پولس پتہ لگارہی ہے۔
عہدیدار نے بتایا کہ ناگپور پولیس کے کل 33 اہلکار چند ہفتے پہلے ٹریننگ کے لیے پونے گئے تھے اور وہاں سے واپس آنے کے بعد دو پولیس اہلکاروں میں کورونا کی ہلکی علامات ظاہر ہوئیں جس کے بعد احتیاط کے طور پر ہفتے کی رات ان کے نمونوں کی جانچ کی گئی جو مثبت آئے۔ جس کے بعد تمام 33 پولیس اہلکاروں کے نمونوں کے جانچ کا فیصلہ کیاگیا ہے۔
عہدیدار نے بتایا کہ اس کے علاوہ مزید 10 پولیس اہلکاروں کی رپورٹ مثبت آئی ہے اور ان تمام لوگوں کو ملاکر مجموعی طور سے ایسے 12 پولس اہلکاروں کی رپورٹ مثبت آئی ہے
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے! Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...