Powered By Blogger

جمعہ, جون 23, 2023

مسلم لڑکیوں میں پھیلتا ارتداد -اسباب وعلاجمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مسلم لڑکیوں میں پھیلتا ارتداد -اسباب وعلاج
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اسلا م میں بیٹی اللہ کی رحمت ہے ، جنت میں لے جانے کا سبب ہے ، بیٹی بیوی بن جائے تو شریک حیات بن کر گھرکوپرسکون بنانے کا ذریعہ ہے ، اور جب وہ ماں بن جائے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے ، بہن ہے تو اپنے بھائیوں اور خاندان کے لئے مونس وغم خوار ہے اور یہ عورت ہی ہے جو بڑی مصیبت اٹھا کر ہمیں دنیا میں لانے کا ذریعہ بنی ۔اسلام میں شادی کے وقت لڑکی والے پر کوئی مالی بوجھ نہیں ہے ،نان ونفقہ ، رہائش کے  لئے مکان وغیرہ کی فراہمی لڑکے کے ہی ذمہ ہے ، خوشی میں بھوج دینا بھی جسے ولیمہ کہا جاتا ہے،اسی کی ذمہ داری ہے، ان سارے اخراجات کے ساتھ مہر کی ادائیگی بھی لڑکے کو ہی کرنی پڑتی ہے، جونکاح کے بنیادی لوازمات میںسے ہے ، اس لئے مسلمانوں کے یہاں دختر کشی کا عمل حمل کی حالت میںنسبتا ً کم ہے ،یہ اور بھی کم ہوسکتا ہے اگر ہم شریعت کے احکام کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے سلامی اور جہیز کے ذریعہ معیار زندگی بڑھانے کا خیال دل سے نکال دیں ، بدقسمتی سے یہ بیماری بہت سارے علاقوں میں مسلم سماج میںبھی داخل ہوگئی ہے ، جس کی وجہ سے بڑی عمر تک لڑکیوں کے ہاتھ پیلے نہیں ہو پارہے ہیں،مختلف شہروں اور علاقوں میں بڑی تعدادمیںلڑکیاں کنواری بیٹھی ہوئی ہیں ، اس صورت حال میں دخل ’’کفو‘‘ کے نام پر غیر ضروری میچنگ Maching دیکھنے کا بھی ہے ، دین داری اصل ہے ، اس میںبرابر ی کا تصور کم ہوتا جارہا ہے اور اس کی جگہ دوسری مختلف چیزوں کو’’ ناک‘‘ کا مسئلہ بنالیا گیا ہے ، شریعت کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ایسا رشتہ جس کے دین واخلاق سے اطمینان ہو ، اس کو قبول کرلینا چاہئے ، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو زمین میں بگاڑ پیدا ہونے کا خطرہ ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ ہماری بدعقلی ، بے شعوری اور شرعی احکام کی ان دیکھی کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوچکاہے ، اور مختلف مذاہب کے مابین غیر شرعی شادی کا مزاج بڑھتا جارہاہے اور ہماری لڑکیاں محفو ظ نہیں ہیں ۔
ان دنوں لڑکیاں ایمان وعقیدہ کے اعتبار سے بھی غیر محفوظ ہو رہی ہیں، آئے دن غیر مسلموں کے ساتھ ان کے رشتے کی خبریں آ رہی ہیں ، فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے اسے مہم کی شکل دی گئی ہے، اس مہم میں کامیاب نوجوانوں کو خطیر رقم دی جاتی ہے، پہلے وہ لوگ بھولی بھالی مسلم لڑکیوں کو پیار ومحبت کے جھانسے میں پھنساتے ہیں، ساتھ گھومانے پھرانے کے ساتھ مختلف قسم کے تحائف دے کر انہیں خود سے قریب کرتے ہیں، پھر انہیں شادی کی پیش کش کرتے ہیں، اور جب وہ شادی کے لیے تیار ہوجاتی ہیں تو ان کا مذہب تبدیل کراکر ہندو رسم ورواج کے مطابق ان سے سات پھیرے لگوائے جاتے ہیں، کچھ دنوں کے بعد جب جی بھر جاتا ہے تو ان لڑکیوں کا قتل کرادیا جاتا ہے لاش کسی ریل کی پٹری پر مل جاتی ہے اور حکومتی سطح پر اسے خود کشی قرار دے کر فائل بند کر دی جاتی ہے ۔ملک کے مختلف حصوں اور بہار کے بہت سارے اضلاع سے اس قسم کی تشویشناک، المناک اور پریشان کن خبریں ہر دن موصول ہو رہی ہیں، اس طرح ان لڑکیوں کو دین وایمان سے بے زار کرکے ہندو مذہب میں داخل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس لیے بیٹیوں کے ایما ن وعقیدہ، عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے انتہائی مستعدی کی ضرورت ہے اور ظاہر ہے جو اسباب وعوامل ہیں اس کو دور کیے بغیر ہم بیٹیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔
 ہماری لڑکیاں ان کے جال میں جن وجوہات سے پھنستی ہیں، ان میں ایک بڑا سبب اختلاط مرد وزن ہے، یہ اختلاط تعلیمی سطح پر بھی ہے اور ملازمت کی سطح پر بھی، کوچنگ کلاسز میں بھی پایا جاتا ہے اور ہوسٹلز میں بھی، موبائل انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ اختلاط زمان ومکان کے حدود وقیود سے بھی آزاد ہو گیا ہے، پیغام بھیجنے اور موصول کرنے کی مفت سہولت نے اسے اس قدر بڑھا وا دے دیا ہے کہ لڑکے لڑکیوں کی خلوت گاہیں ہی نہیں، جلوت بھی بے حیائی اور عریانیت کا آئینہ خانہ بن گئی ہیں، یہ اختلاط اور ارتباط آگے بڑھتا ہے تو ہوسناکی تک نوبت پہونچتی ہے، جسے محبت کے حسین خول میں رکھ کر پیش کیا جاتا ہے، والدین اور گارجین یا تو اتنے سیدھے ہیں کہ انہیں لڑکے لڑکیوں کے بے راہ روی کا ادراک ہی نہیں، یا اتنے بزدل ہیں کہ وہ اس بے راہ روی پر اپنی زبانیں بند رکھنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، یا تلک جہیز کی بڑھتی ہوئی لعنت، شادی کے کثیر اخراجات کے خوف سے اسی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ لڑکیاں اپنا شوہر خود تلاش لیں، کورٹ میریج کرلیں؛ تاکہ یہ درد سر ان سے دور ہوجائے، ان خیالات کے پیچھے ان کی غربت اور دینی تعلیم وتربیت سے دوری کا بڑا دخل ہوتا ہے، اگر بنیادی دینی تعلیم وتربیت والدین اور لڑکے لڑکیوں کے پاس  ہو تو انہیں اس کا ہرپل احساس ہوگا کہ غربت اور شادی کے حوالے سے پریشانیاں وقتی ہیں اور ایمان چلے جانے کی صورت میں آخرت کا عذاب حتمی اور لازمی ہے تو شاید ان کے لیے ان وقتی پریشانیوں کو جھیل جانا آسان ہوجائے۔
 اس بُرائی سے گذرنے والی لڑکیوں کے اندر ایک طرف تو خوف خدا نہیں ہوتا دوسری طرف عدالت کے مختلف فیصلے کے ذریعہ جس میں عورتوں کی آزادی کے نام پربے لگام جنسی تعلقات کو جائز قرار دیا گیا اور طوائفوں کی طرح ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کو قانونی حیثیت حاصل ہو نے کی وجہ سے وہ جری ہو گئی ہیں، اب وہ ایک مرد کی بیوی رہتے ہوئے دوسرے کے بستر گرم کرنے کے لیے آزاد ہیں، شوہر اس بے راہ روی پر طلاق کی عرضی عدالت میں دے سکتا ہے؛ لیکن اس پر کوئی دارو گیر نہیں کر سکتا، اس قسم کے فیصلے نے ان کے دل سے سماجی خوف کو نکال دیا ہے اور وہ اپنی من مانی پر اتر آئی ہیں، انہیں نہ اللہ رسول کا خوف ہے اور نہ سماج کا، رہ گیا قانون تو وہ ان کی پیٹھ پر ہاتھ رکھے ہوئے کھڑا ہوا ہے، ایسے میں بے راہ روی عام ہوتی جا رہی ہے۔
 یہ بے راہ روی کنواری لڑکیوں میں تاخیر سے شادی کی وجہ سے بھی آتی ہے اور عورتوں میں شوہر کے بسلسلہء ملازمت ان سے دور رہنے کی وجہ سے بھی، یہ دوری ملکی ملازمت میں بھی ہوتی ہے؛ لیکن غیر ملکی ملازمت کے حدود وقیود کی وجہ سے دوسرے ملکوں میں کام کرنے والے شوہروں کے یہاں کچھ زیادہ ہی ہوجاتی ہے۔ مجبوریاں اپنی جگہ؛ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس دوری کی وجہ سے بڑے مفاسد پیدا ہوتے ہیں،ارتداد کی اس نئی لہر سے ہر ایمان والے کا بے کل اور بے چین ہونا فطری ہے، ضرورت ہے کہ ان اسباب کو دور کیا جائے، جس کی وجہ سے ہماری لڑکیاں مرتد ہو رہی ہیں اور غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرکے اپنی عاقبت خراب کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔
ظاہر ہے اس فتنہ کا تدارک کسی ایک شخص اور تنظیم کے بس میں نہیں ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ گاؤں اور محلہ کے مسلم اور غیر مسلم دانشورسر جوڑ کر بیٹھیں، اس لیے کہ اس مسئلہ سے سماج میں تناؤ پیدا ہوتا ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہونچتا ہے، اس کے علاوہ وقفے وقفے سے خواتین کے اجتماعات رکھے جائیں ان میں جوان لڑکیوں کو خصوصیت سے بلایا جائے، آر اس اس کی ترغیبی مہم سے آگاہ کرنے کے ساتھ انہیں اس راہ پر بڑھنے کے دنیوی اور اخروی نقصانات کو تفصیل سے بیان کیا جائے، اس کام کے لیے تمام ملی تحریکیں اور تنظیمیں آگے آئیں اور اپنے اپنے حلقہ اثر میں اس فتنہ کے تدارک کی کوشش ترجیحی بنیادوں پر کریں، مسلم گھرانوں کے اندرونی حالات پر بھی نگاہ رکھی جائے اور مقامی سطح سے اصلاح کا کام شروع کیا جائے، غیر مسلم لڑکوں کے مسلم محلہ میں ٹیوشن پڑھانے اور دوسرے مقاصد سے آنے پر بھی نگاہ رکھی جائے، مرد وزن کے اختلاط سے بچا جائے، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لڑکے لڑکیوں کے سکشن الگ الگ کرنے کے لیے اداروں کے ذمہ داروں سے باتیں کی جائیں، مدارس والے بھی لڑکیوں کے لیے الگ تعلیم کا نظم کریں، تلک وجہیز کی لعنت کو ختم کیا جائے، انڈرائڈ موبائل سے لڑکیوں کو بچایا جائے اور ان کی حرکات وسکنات پر خصوصی توجہ دی جائے، تاکہ پہلے مرحلہ میں ہی اس کا سد باب ہوسکے، لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دینے کی مہم چلائی جائے اور مورث کو ان کی حق تلفی سے روکا جائے۔
جن علاقوں میں ارتداد کی یہ نئی قسم سامنے آئی ہو، اس کا مقامی سطح پر سروے کرایا جائے، گارجین کی جانب سے گم شدگی کا اف آئی آر درج کرایا جائے، وکلاء سے قانونی مدد لی جائے، تاکہ ایسی لڑکیوں کی گھر واپسی کا کام آسان ہوجائے، حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم اس سلسلے میں کافی فکر مند ہیں، اور ممکن ہے کہ جلد ہی بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ میں اصلاح معاشرہ کے عنوان سے کوئی تحریک شروع کی جائے، تحریک اسی وقت کامیابی سے ہم کنار ہوگی جب سماج کے ہر طبقہ کا تعاون اسے ملے گا۔

عورت دنیا کی خوبصورت نعمت ہے ۔بقول اقبال: وجود زن سے ہے

عورت دنیا کی خوبصورت نعمت ہے ۔بقول اقبال: وجود زن سے ہے
Urduduniyanews72 
 تصویر کائنات میں رنگ ،اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں ،اللہ عزوجل نے اس کو مرد کا رفیق سفر اور دمساز  و ہم راز بنایا ہے ۔دنیا کی  حسن و رعنائی میں اس کا اہم کردار ہے ۔اسی کے نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو سے رزم و بزم کی رونق قائم ودائم ہے ۔اس کے ناز و ادا اور عشوہ و غمزہ پر انسان ہزار جان سے فداہوتا ہے ۔وہ نہ ہو تو دنیا کی ساری رنگینی ورعنائی اورزیبایش ماندپڑجاے ۔اسی لیے قرآن نے اس کی تخلیق کوخاص نشانی قرار دیا ہے ۔اور اسے باعث سکون گردانا ہے ۔تخلیق انسانی کا ذریعہ اور نسل انسانی کے فروغ کا واحد وسیلہ بتایا ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: دنیا سامان ہے اور دنیا کا سب سے بہترین سامان نیک بیوی ہے ۔(صحیح مسلم:3716) اور ایک روایت میں نیک بیوی کی علامت یہ بتایا ہے کہ:جب تم اسے دیکھو تو وہ خوش کردے،تمہارے غایبانہ میں اپنی عصمت کی حفاظت کرے،تمہارے بستر پر اسے نہ بیٹھنے دے جسے تم ناپسند کرتے ہو،تمہاری دی گئی امانت کی وہ حفاظت کرے۔(مستدرک حاکم,2682/سنن ابی داؤد ،1664/صحیح مسلم ،1218)ان صفات کی حامل عورتوں کی وجہ سے  ہی گھر جنت نظیر ہوجاتا ہے ۔نصف ایمان کی تکمیل کا سبب بنتا ہے ۔پاک دامنی اور عفت مآبی کی ضمانت ہے جس کی وجہ سے مرد شرعی اصطلاح میں محصن باور کیا جاتا ہے ۔ایسی ہی فرماں بردار  عورت خاتون جنت کے طغرہ امتیاز سے نوازی جاتی ہے ۔پردہ اس کی زینت حیا اس کا زیور اور پاک دامنی اس کی پہچان ہے ۔عریانیت اور بے پردگی اس کے لیے باعث فتنہ اور موت کا پیغام ہے۔
درحقیقت عورت سراپا عورت ہوتی ہے جسے شیطان خوش نما بناکر پیش کرنا چاہتا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت پوری کی پوری پردے میں رہنے کی چیز ہے، جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے دوسروں کی نظروں میں اچھا وخوبصورت کرکے دکھاتا ہے".(صحیح سنن الترمذی للالبانی ج 1/936) اسی لیے قرآن نے اسے خاتون خانہ بن کر رہنے کی تلقین کی ہے اور شمع انجمن بننے سے روکااور منع کیا ہے،ارشادباری تعالیٰ ہے "اور اپنے گھروں میں سکون سے ٹکی رہو اور پہلے کی جاہلیت کی طرح سج دھج کر نہ دکھاتی پھرو".(الاحزاب:23)آیت مذکورہ سے واضح ہوتا ہے کہ انھیں گھر میں رہنے کا حکم دیا ہے اور سر جھاڑ منہ پھاڑ کرمٹر گشثی سے منع کیا ہے ۔چونکہ مقصود ان کی عزت وعصمت کی حفاظت ہے ۔اسی لیے بغیر ضرورت کے محض شوقیہ بازار گردی سے ممانعت کی ہے۔البتہ ضروریات اصلیہ اس حکم سے باجماع امت مستثنی ہے۔جیسا کہ اگلی ہی آیت میں بدرجہ مجبوری برقع وجلباب میں جانے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ارشادربانی ہے:اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کی گھونگھٹ ڈال لیا کریں ۔(الاحزاب:33) ترجمان قرآن حضرت عبداللہ بن عباس اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے ہے کہ جب وہ کسی ضرورت سے نکلیں تو سر کے اوپر اپنی چادروں کے دامن لٹکا کر اپنے چہروں کو ڈھانک لیا کریں ".(تفسیر ابن جریر ج 22,ص:29) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ضروریات کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے ۔ایک موقع پر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم عورتوں کو اجازت دی ہے کہ اپنی ضروریات کے لیے گھر سے باہر جا سکتی ہو".(صحیح بخاری ،237/صحیح مسلم ،217) حدیث مذکور کے لفظ حوایج میں عمومیت پایی جاتی ہے ۔اس میں دنیوی ضروریات بھی شامل ہیں اور دینی ضروریات بھی ۔چنانچہ اس کے تحت ڈاکٹر،عدالت،ملازمت اور تعلیم گاہ کے لیے جانے کی بشرط ضرورت اجازت ہوگی۔عورت کو بازار سے ضروری سودا سلف لانے والا نہ ملے تو یہ بھی ایک طرح کی حاجت وضرورت میں شامل ہے اور وہ اس کے لیے بازار جاسکتی ہے مگر شرعی پردہ کے حدود و قیود میں رہ کر۔چنانچہ مفتی شفیع صاحب احکام القرآن میں آیت"وقرن فی بیوتکن" کے تحت لکھتے ہیں کہ: معلوم ہوا کہ عورتیں گھر میں رہیں سواے دینی ضرورتوں کے جیسے حج وعمرہ کے لیےنص کی وجہ سے یادنیوی ضرورت کے لیے جیسے اپنے قرابت داروں کی زیارت اور عیادت کے لیے یا نفقہ کے واسطے نکل سکتی ہیں؛لیکن ضرورت کے وقت بھی دورجاہلیت کے دستور کے مطابق زیب وزینت کی نمائش کرتے ہوئے نہیں نکلے گی،بلکہ معمولی سادہ کپڑے میں نقاب وجلباب میں پردہ کیے ہوئے نکلے گی،بشرطیکہ اس میں خوشبو وغیرہ نہ ہو".(احکام القرآن ج3,ص:317و319) علامہ ابن عابدین شامی بھی اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اور جب ہم اس کے لیے نکلنا مباح کرتے ہیں تو بغیر زینت کی شرط کے ساتھ ہی ہرجگہ کہتے ہیں،اورحالت و ہییت کو اس طرح بدل کر کہ وہ لوگوں کی نظر کومایل کرنے والی اور دعوت دینے والی نہ ہو".(ردالمحتار علی الدرالمختار ج3ص:146) حضرت عبداللہ بن عمر کی مرفوعاً روایت ہے کہ: عورت کے لیے نکلنے کی کوئی گنجائش نہیں سوائے مجبوری کے".(کنزالعمال ج 16,ص:391) افسوس اب تو عورتیں حج و عمرہ کا سفر بھی بغیر محرم کے کرنے لگیں ہیں ۔جب کہ حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرگز کویی عورت محرم کے بغیر حج نہ کرے".(سنن دارقطنی ،244)ابن عباس ہی کی ایک دوسری روایت ہے کہ:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے،توایک شخص نے دریافت کیا یا رسول اللہ! میں فلاں لشکر کے ساتھ جہاد میں جانا چاہتا ہوں جب کہ میری بیوی کا حج کا ارادہ ہے ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آپ اپنی بیوی کے ساتھ حج کو جاؤ".(صحیح بخاری ،1862)
خیرمرد کی موجودگی میں عورتوں کا بازار کرنے کا شوق وچسکا بھی ناپسندیدہ ہے ۔جیسا کہ آج کے زمانہ میں یہ فعل بدمسلم معاشرہ میں ایک ابتلا عام کی طرح پھیلتا جا رہا ہے،مرد تو گھر میں سکون سے آرام فرما ہوتا ہے اورعورت دکان در دکان خاک چھانتی پھرتی ہے اور بد چلن ،آوارہ نوجوانوں کے نظر بد کا نشانہ بنتی ہے ۔اوراس میں وہ اتناطاق ہے کہ اللہ کی پناہ ۔وہ بازار کی اس قدر رسیا اور دلدادہ ہے کہ اس کے بغیر اس کو کسی دن چین و قرار نہیں ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ اکثر عورتوں کو مردوں کی خریدی ہویی چیزیں پسند نہیں آتیں ،لہذاوہ مردوں سے بار بار کہہ کر چیزیں بدلواتی رہتی ہیں ،یامرد کی خریدی ہوئی چیزوں میں نقص نکالتی ہیں ۔مثلامہنگی خرید لاے،رنگ صحیح نہیں آیا ،ڈیزایین پرانا ہے ،یہ نقش و نگار تو بوڑھی عورتوں والے ہیں۔غرض ایک دھاگے کی نلکی بھی خریدنا ہو تو بعض اوقات مرد بے چارہ دکان پر بارہا جا جا کر تنگ آجاتا ہے اور بالآخر قوت ضبط جواب دے جاتی ہے اور وہ بادل ناخواستہ کہہ دیتا ہے کہ جاؤ حسب پسند خود خرید لاؤ۔اورعورتیں اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتی ہیں کہ وہ مردوں کی نسبت زیادہ اچھی اور سستی خریداری کرتی ہیں ۔حالانکہ یہ ان کا اپنا دعویٰ ہے،لیکن کوئی دوسرا ان کے دعوے کی تکذیب کی جرات نہیں کرسکتا۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ قیمتیں ادا کرتی ہیں اور گھاٹے کا سودا کرتی ہیں۔ایک سروے کے مطابق :دنیا کی تراسی کروڑ خواتین کا شاپنگ شیڈول ناشتے کی طرح ہے۔صرف دس فیصد خواتین شاپنگ نہیں کرتیں۔سروے کے مطابق خواتین اپنے شوہروں کے ہاتھوں اتنا بے وقوف نہیں بنتیں جتنا دکان دار کے ہاتھوں۔دکان دارانھیں بہن،بیٹی،میڈم،بےبی کہہ کر اپنا مال مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔مغرب میں اگر چہ فکس پرایز سسٹم موجود ہے لیکن یہاں بھی دکان دار عورتوں کے ساتھ دغا وفریب کرجاتے ہیں۔جب کہ تمام ممالک جہاں بارگیننگ کے ذریعے خرید وفروخت ہوتی ہے وہاں دکان دار کے لیے شرح منافع بہت زیادہ ہے۔پٹرول پمپ پر بھی عورتوں کے ساتھ ہیرا پھیری کی جاتی ہےملبوسات،جیولری،کاسمیٹکس اور تحائف کی خریداری میں دکان دار سب سے زیادہ نفع حاصل کرتے ہیں".(عورتیں اور بازار ص:16/بحوالہ روزنامہ نواے وقت 15/مءی،1997) روزنامہ اخبار جنگ کی رپورٹ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہےملاحظہ فرمائیں کہ: نیویارک میں ایک محتاط اندازے کے مطابق خواتین ا/ملین سے 4/ملین ڈالر ڈرائی کلیننگ کے اضافی چارجز دیتی ہیں ۔آٹوکار کے ڈیلروں سے کیے گئے سروے کے مطابق 21%ڈیلروں نے مردوں کے مقابلے میں عورتوں سے زیادہ قیمتیں مانگیں ۔80/ہیر ڈریسرز سے سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ دوتہائی ہیرڈریسرز عورتوں سے 25%چارجز زیادہ لیتے ہیں۔عورتیں اوسطاً 20/امریکی ڈالر زیادہ دیتی ہیں جب کہ مرد16/امریکی ڈالرز ۔ڈرایی کلیننگ کی دکان پر ایک شرٹ کا عورتوں سے 309/ڈالر اور مردوں سے 291/ڈالر لیے جاتے ہیں ".(جنگ 30/اپریل 1993بحوالہ عورت اور بازار ،ص:17) ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے ۔یہ رپورٹ ان مہذب اور ترقی یافتہ نام نہاد مغربی ممالک کے ہیں جو عورتوں کے حقوق اور اس کی مساوات کے بزعم خود سب سے بڑے علمبردار ہیں ۔تو بھلاترقی پذیر ممالک اس صف میں کہاں کھڑے ہونگے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔گویا مرد وعورت کے مابین مساوات اور آزادی نسواں کی یہ تحریک ایک خوش نما پرفریب نعرہ ہے ،جومحض چھلاوا یا دل کے بہلانے کے لیے غالب یہ خیال اچھا ہے کے مترادف ہے ۔ع/جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ۔

بازار جانا حرام نہیں بلکہ ضروریات زندگی کی خرید وفروخت کے لیے ناگزیر ہے ۔حتی کہ اللہ کے افضل ترین خاصان خدا انبیاے کرام علیہم الصلاۃ والسلام  بھی دعوت وتبلیغ اور امربالمعروف و نہی عن المنکراوردیگر مقاصد کے لیے جاتے تھے ۔ارشاد باری ہے:ہم نے آپ سے قبل بھی رسول بھیجے ہیں جو کھانا کھاتے اور بازار میں چلتے تھے ".(الفرقان:20) لیکن یہ ضرورت کے طور پر تھا نہ کہ افضلیت کے واسطے ۔کیونکہ بازار شور و شغب،جھوٹ و فریب اور دھوکہ دھری کی جگہ ہے۔اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب جگہیں مسجد یں ہیں اور سب سے زیادہ ناپسند یدہ جگہیں بازار ہیں".(صحیح مسلم:1528) اور اس کی مزید قباحت کی وضاحت  صحابی رسول حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ہوتی ہے،ارشاد نبوی ہے: تو بازار میں سب سے پہلے داخل ہونے والا نہ ہو اور نہ ہی اس سے سب سے آخر میں نکلنے والا،اس لیے کہ اس میں شیطان انڈے بچے دیتا ہے ".(صحیح مسلم ،2451) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بازار سے فراغت اور خریداری کے بعد وہاں ٹھہرانہ جائے؛ بلکہ منزل پر لوٹ آیا جائے۔ خاص طور پر عورتوں کو بھی یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے  کہ گھر سے باہر محرم کے ساتھ پردہ شرعی میں نکلیں، اس طرح کہ زیب وزینت ،حسن وجمال اور جسم وبدن کی نمائش کا اظہار نہ ہو۔کیونکہ مسجد میں عورتوں کو زیب وزینت اور خوشبو میں معطرہوکر آنے کی ممانعت احادیث میں وارد ہوئی ہیں تو بازار میں تو یہ بدرجہ اولیٰ سخت ممنوع ہوں گی ۔امام ابو زکریا یحیی شرف نووی رقم طراز ہیں کہ: مختلف احادیث کی بنا پر علما نے کہا ہے کہ عورت کو مسجد جانے کی اجازت اس وقت دی جائے گی جب کہ وہ خوشبو لگاے ہوئے نہ ہو،زیب وزینت سے آراستہ نہ ہو ،ایسی پازیب نہ پہنی ہو جس کی آواز سنائی دے ،بھڑکیلے لباس میں ملبوس نہ ہو ،نہ وہ فتنہ کا باعث بنے اور نہ راستہ میں کسی فساد کا خدشہ ہو".(شرح النواوی ،کتاب المساجد) ان شرائط کی اگرپابندی ہو تو وہ بازار جاسکتی ہے ورنہ نہیں ۔کیونکہ
مردوزن کا اختلاط عموماً فتنہ کا باعث ہوتا ہے ۔اسی لیے شریعت نے اس کو ممنوع قرار دیا ہے ۔جوعام طور پر بازاروں ،بھیڑبھاڑ والی جگہوں اور نمایشگاہوں میں ابتلاے عام کے طور پر نظر آتا ہے ۔ہندو، مسلم ،سکھ اور عیسائی کی اس میں کوئی تفریق نہیں ہوتی ۔یہیں سے مسلم لڑکیاں ہندوؤں کے رابطے میں آتی ہیں ،دونوں کے درمیان محبت پروان چڑھتی ہے ،پھر یہ بھگوا لوو ٹرپ پر آکر ختم ہوتی ہے ۔ارتداد کا یہ سب سے سہل راستہ ہے جو ملک گیر سطح پر روانہ مشاہدہ میں آرہا ہے ۔اگرجلدہی اس کاتدارک نہ کیا گیا تویہ ہماری نسلوں کو تباہ وبرباد کردیگا۔اسی لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں اس اختلاط پر مردوں کی سرزنش و فہمائش کی تھی اور ان کی غیرت کو للکارتے ہوئے فرمایا تھا: کیا تمہیں شرم نہیں آتی ؟مجھے اطلاع ملی ہے کہ تمہاری عورتیں بازاروں میں آتی جاتی ہیں اور وہاں ان کی کافروں سے مڈبھیڑ ہوتی ہے،یہ حقیقت ہے کہ جس میں غیرت نہیں اس میں حیانہیں ".(مسند احمد ،1118)اس کی وجہ سے  معاشرہ میں مختلف طرح کی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔جس پر قدغن لگانے کے لیے علامہ ابن قیم الجوزیہ نے اپنے زمانے کے امیروں اور اور خلفا کویہ صلاح ومشورہ دیا تھا۔جو آج بھی ہمارے لیے اس دور پرفتن میں چراغ راہ کا کام کرسکتا ہیے،جہاں ہر چہار سوارتدادکا طوفان آیا ہوا ہے؛ بشرطیکہ ہم اس پر عمل پیرا ہوں۔وہ فرماتے ہیں کہ: حاکم کا فرض ہے کہ وہ بازاروں،کھلے مقاموں اور مردوں کے مجمعوں میں مردوں کے ساتھ عورتوں کو اختلاط سے باز رکھے۔اس لیے کہ امام اس سلسلے میں اللہ کے یہاں جواب دہ ہے،کیونکہ یہ ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔امام کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عورتوں کو آراستہ پیراستہ ہوکر نکلنے سے بھی منع کرے،اورایسے کپڑوں میں ملبوس ہوکر نکلنے کی اجازت نہ دے جس کے پہننے کے بعد بھی وہ عریاں معلوم ہوتی ہیں۔مثلا ضرورت سے زیادہ چوڑے یا تنگ اور باریک کپڑے پربھی پابندی لگانے۔بعض فقہا کی یہ رائے بھی درست ہے کہ جب عورت بن سنور کر نکلے تو امام کو یہ حق حاصل ہے کہ روشنائی وغیرہ سے اس کے کپڑے خراب کردے۔یہ بہت ہلکی سزا ہے۔اگر عورت بار بار بلا ضرورت گھر سے باہر گھومنے نکلے خصوصاً بھڑکیلے لباس میں تو امیر کواسے  قید کرنے کا بھی حق حاصل ہے۔کیونکہ عورتوں کو اس حالت میں چھوڑ دینا ان کے ساتھ معصیت میں تعاون کرنے کے مترادف ہے".(عورت اسلامی معاشرے میں،ص:383) یہ تعاون تو صرف بر و تقویٰ کے کاموں میں ہے اور برایی وغلط کاموں میں تو یہ  نصرت تعاون ہرگز نہیں۔ارشاد ربانی ہے:تم لوگ ایک دوسرے کا تعاون نیکی اور تقویٰ میں کرو اور گناہ اور برے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون مت کرو".(المایدہ؛2) اس طرح کی اور خرابیوں کو روکنے کے لیے مزید آگے ارشاد فرمایا:وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھا ہے اس کا علم لوگوں کو ہوجائے".(النور:31) امام ابو بکر جصاص رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: لفظ کے معنی سے جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ زینت کو ظاہر کرنے سے روکا گیا ہے کیونکہ زینت کی آواز سنانے کی نہی کے سلسلے میں نص وارد ہوا ہے۔بقول ابوالاحوص اور مجاہد اس سے مراد پازیب کی جھنکار کی آواز ہے".(احکام القرآن،ج6,ص:169) ساتھ ہی عورت کو اتنی اونچی آواز میں گفتگو کرنے کی بھی ممانعت ہے جس سے اس کی آواز غیر مردوں کے کانوں تک پہنچ جائے ۔کیونکہ عورت کی آواز اس کی پازیب کی جھنکار کی بہ نسبت زیادہ فتنہ انگیز اور فتنہ پرور ہے ۔مفتی شفیع صاحب اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: امام جصاص نے فرمایا کہ جب زیور کی آواز تک کو قرآن نے اظہار زینت میں داخل قرار دے کر ممنوع کیا ہے تو مزین رنگوں کے کام دار برقعے پہن کر نکلنا بدرجہ اولیٰ ممنوع ہوگا".(معارف القرآن ج6 ص:406)آج کل کے مروج برقعوں کے پہننے کے بعد اگر چہ عام گھریلو لباس کی زینت تو کچھ حد تک چھپ جاتی ہے لیکن خود اس برقعے کی زینت اور اس کی بناوٹ غارت گر ایمان اور فتنہ سماں ہوتی ہے ۔اورخواہ مخواہ نگاہ کو مایل اور دعوت نظارہ دینے والی ہوتی ہے ۔اسی لیے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اس کو تبرج جاہلیت میں شامل کیا ہے ،وہ رقمطراز ہیں:ہر وہ زینت اور ہر وہ آرایش جس کا مقصد شوہر کے سوا دوسروں کے لیے لذت نظر بننا ہو،تبرج جاہلیت کی تعریف میں آجاتی ہے ۔اگر برقع بھی اس غرض کے لیے خوب صورت اور خوش رنگ انتخاب کیا جائے کہ نگاہیں اس سے لذت یاب ہوں تو یہ بھی تبرج جاہلیت ہے".(پردہ ،ص:213) خلاصہ کلام یہ کہ عورت کا دائرہ کار گھر ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے اور باہر جانے سے حتی الامکان پرہیز کرے ۔الا یہ کہ ضرورت اس کا متقاضی ہو تو پردہ شرعی میں جاے تاکہ فتنہ وفساد سے محفوظ رہ سکے۔
.mdsalman3544@gmail.com۔8709898974

" تاریخ مٹا دیتی ہے اس قوم کی پہچان جواپنی زباں کی بھی حفاظت نہیں کرتی" ( سیدارشاد آرزو) دار التحریر/قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن سکرا ول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر(یو،پی)

  * سیدارشادآرزو (کولکتہ) 
اردودنیانیوز۷۲ 

   ، بچپن سےسنتا آ رہا ہوں کہ اردو صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نام ہے.اور یہ قول صد فی صد درست بھی ہے. 
لیکن موجودہ زمانےمیں وہ تہذیب کہاں گم ہوگئی ہے؟اس تہذیب کا گلا کون گھونٹ رہا ہے.؟
   میرا جواب ہے:
    میں ، 
     آپ ، 
     ہم سب !
  معاف کیجیے گا:
ہم آج بھی کسی اردو محافظ تحریک کے منتظر ہیں،سرکاری مراعات کی آس لگائے بیٹھے ہیں، لیکن...... 
خود اپنےگھروں سے اس زبان اور تہذیب کو کب کے رخصت کر چکے ہیں. 
    آج ہمارے یہاں شادیوں کے کارڈ انگریزی میں چھپتے ہیں.مسجدوں، خانقاہوں. مدرسوں، قبرستانوں کے بورڈز ہندی میں ہوتے ہیں( الا ماشاءاللہ کہیں کہیں اردو میں لکھے بورڈ آج بھی اپنی آخری سانس لیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.) اب تو سر پیٹنے کے دن آ گئے ہیں کہ اردو مشاعروں، سیمیناروں اور دیگر تقریبات کے بینرز ہندی اور انگریزی رسم الخط میں بنائے اور لگائے جا رہے ہیں. 
میہی نہیں، آج ہم ایسے نازک دور سے گزر رہے ہیں کہ مشاعروں میں  وہ شعرا و شاعرات بلائے جا رہے ہیں جو اردو سے قطعی نا بلد ہیں. وہ ہندی اور رومن انگریزی میں لکھ کر( در حقیقت نقل کر کے) لاتے ہیں.اب ایسے ناظم مشاعرہ اور نقیب محفل بنائے جا رہے ہیں جو غیر ضروری گفتگو، لطیفے اور غیر معیاری جملے سناسناکر سامعین کو گونگا بنارہے ہیں اور تالیاں بجانے کی غلط روایت کو فروغ دے رہے ہیں. جس کی وجہ سے زبان و ادب کا معیار و تہذیب رو بہ زوال ہے. حد تو یہ ہے کہ اب اردو کی تنظیمیں ان کے ہاتھوں میں ہیں جو ایسے ہی شعراءکو بلا رہے ہیں جن کااردوزبان وادب سے کوئی واسطہ نہیں۔ حتی کہ اکثر اردو اکاڈمیاں اور سرکاری ونیم  سرکاری اردوادارے بھی اسی ڈگر پہ چل پڑے ہیں. اب ذرا سوچیں کہ یہ اردو کی خدمت کر رہے ہیں یا گلا گھونٹ رہے ہیں؟ 
    میں نے ایک مشاعرے میں تالیاں بجائے پر اعتراض کیا تو ناظم نے کہا کہ اب قدریں بدل رہی ہیں.سوال یہ ہے کہ  زبان و ادب کی قدیم روایات واقدارکو تبدیل کرنے کی اجازت کس نے دی؟اساتذہ فن نے؟  زبان و ادب کے ماہرین نے؟یا خود ساختہ شعرا و ادباء نے؟ ستم بالائے ستم یہ کہ ہم ایسے خودساختہ شاعروں اورادیبوں کو اردوکا محافظ سمجھ بیٹھےہیں.
      ظاہر ہے جو اردو زبان سے ناواقف ہوگا وہ اس کی تہذیب سےکیوں کر آشنا ہوگا.؟ 
  آج ہم اپنےبچوں کوانگریزی اوردیگرعلاقائی زبانوں کےحوالے سےتعلیم دلوارہے ہیں.اردو میں نہیں. 
     ہاں،جب انگریزی میڈیم کےڈونیشن اور دیگرفیس ادا کرنےکی استطاعت نہیں ہوتی یا ان کی اوقات سے باہر ہو جاتی ہے تب ان کو اردو میڈیم اسکول نظر آتے ہیں۔ 
نتیجہ یہ کہ بچہ نہ انگریزی کاہوپاتا ہے نہ اردوکا. 
     شروع سے کوئی اردو میڈیم میں بچے کو ڈالتا ہے تو ہمارا معاشرہ اسے احساس کمتری میں مبتلاکرنےمیں کوئی کسرنہیں اٹھارکھتا۔ . 
نتیجہ یہ کہ معتدبہ تعداد میں اسکولوں اور کالجوں سے اردو کا شعبہ اس لئےختم کردیا جاتاہے کہ بچے موجود نہیں. اب ذرا سوچئیے  کہ شعبہ بند ہونے سے کتنا اور کس کا نقصان ہوا؟ہم ایک طرف اردوکوروزگار سےجوڑنے کی باتیں  کرتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنے ہاتھوں سےاردو گلا بھی گھونٹ رہے ہیں.غور طلب یہ ہےکہ شعبہ کے بند ہونےسےاردو اساتذہ کی بحالی اورتقرری پر روک لگادی جاتی ہے.جب اردوپڑھنےوالےبچےہی نہیں ہیں تواردوشعبہ کی ضرورت ہی کیاہے۔اس کی صدہا مثالیں موجود ہیں کہ کالجوں میں پہلے اردوشعبےتھےلیکن طلباء کی عدم موجودگی کےسبب انھیں بندکرناپڑا۔اردوکے تعلق سے بار بار کہاجاتا ہےکہ روزگارسےجوڑےبغیراس کی بقاء اور تحفظ ممکن نہیں۔اردو والوں کا حال یہ ہےکہ جہاں وہ روزگار سےجڑی ہوئی ہے وہاں بھی وہ اس رشتہ کوتوڑرہےہیں۔ 
    ہمیں یہ بھی تسلیم کہ اس زبان کوسرکاری  سطح پر جوحق ملناچاہئےوہ نہیں مل پارہا ہے.وجہ یہ کہ ہے صوبوں کی سرکاروں نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ خود اردو والے اپنی زبان کے وفادار نہیں۔ایسے میں آسانی سے اردو کاکام تمام کیاجا سکتا ہے.
     صورت حال یہ ہے کہ اب ہمارے اندر قوت احتجاج باقی ہے نہ قوت مدافعت۔ خودغرضی اور ذاتی منفعت بخشی کی اس سےبدتر مثال کیاہوگی۔انھیں الزام دیتےتھےقصوراپنانکل آیا۔ 
   اردو کے سلسلے میں کتنا کچھ ہوا اور ہو رہا ہےلیکن آپ اور ہم ذرا غور کریں کہ کس حد تک ہم احتجاج کر پا رہے ہیں. ایک بار پھر معذرت کے ساتھ عرض کرتےچلیں کہ احتجاج وہی کرے گا جو اپنی زبان سے عشق کرے گا. کیوں کہ عشق میں ہی کھونے کا خدشہ اور ملال رہتا ہے. جب عشق ہی نہیں تو نہ کھونے کا ڈراورنہ آبائی وراثت کی پامالی کا دکھ۔! 
        "عشق جس نے کبھی کیا ہی نہیں
         ہجر کا  درد  کیسے  سمجھے  گا" 

      ہم نے اردو سے عشق کرنا کب کا ترک کر دیا ہے. 
یہ تو خیرِ منائیے اردو کے جینوین شاعروں اورادیبوں کا کہ آج بھی اردو کے کاز میں، ترقی و ترویج میں ہمہ تن مصروف ہیں. جن کے دم سے اردو کے کچھ رسالے اور اخبارات زندہ ہیں.اور کہیں نہ کہیں ان کے گھروں میں زبان و تہذیب سانس لے رہی ہے.لیکن ہمارا وہ معاشرہ جواردوسےنابلد ہے،ہم شاعروں اور ادیبوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ لوگ تو صرف مشاعرہ اور سیمینارہی جانتے ہیں اور کچھ بھی نہیں.(یہ گانے بجانےوالے لوگ ہیں) 
     ایسا کیوں؟؟؟ 
    ایسا اس لئے ہے کہ جو اردو سے ناواقف ہوں گے بھلا وہ اس کی تہذیب سے کیسے جڑیں گے.؟ 
   سوالات اور بھی ہیں، لیکن مختصر طور یہ سمجھ لیجیے کہ تمام سوالوں کا حل صرف ایک ہی ہے:اور وہ یہ کہ ہم اپنے اپنے گھروں میں اردو کو زندگی بخشیں. بچوں کو کسی بھی میڈیم سے پڑھائیں، ہمیں کوئی شکایت نہیں، لیکن اردو کو ایک اختیاری سبجکٹ کے طورپرضرورپڑھائیں،اسے فراموش نہ کریں۔ یادرکھئیےکہ اردو زبان ہماری قومی وراثت ہے۔ اس کا تحفظ اوربقا ہماری ذمہ داری ہے۔جہاں اسکولوں میں اردوتعلیم کی گنجائش نہیں ہے وہاں گھروں میں اردو پڑھائیں. 
   یقین جانیے جب ہمارے بچے اردو پڑھیں گے تو اردو سے عشق بھی کریی گے.جب عشق کریں تواس کےحقوق کے لیے احتجاج بھی کریں گے.بازیافت بھی کریں گے۔احتجاج انقلاب کی خشت اول ہے.انقلاب آئے گا تو حل بھی نکلیں گے۔۔۔ذرانم ہوتویہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔۔۔یاد رکھیں:
      " تاریخ مٹا دیتی ہے اس قوم کی پہچان
    جواپنی زباں کی بھی حفاظت نہیں کرتی"
                     ( سیدارشاد آرزو) 
  دار التحریر/قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن
 سکرا ول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر(یو،پی)

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...