Powered By Blogger

جمعہ, فروری 11, 2022

خود کفیل ‌‌نظام مکاتب کو رائج کیجئے۔مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمیدینی و عصری ادارے کا قیام اور دارالقضاء کے افتتاح کے سلسلے میں جگت سنگھ کے علماء سے تبادلہ خیال

خود کفیل ‌‌نظام مکاتب کو رائج کیجئے۔مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
دینی و عصری ادارے کا قیام اور دارالقضاء کے افتتاح کے سلسلے میں جگت سنگھ کے علماء سے تبادلہ خیال

جگت سنگھ (اڈیشہ)۱۱/فروری (پریس ریلیز) بنیادی دینی تعلیم کے فروغ کی سب سے بہترین شکل یہ ہے کہ خود کفیل ‌‌نظام مکاتب کو رواج دیا جائے کیونکہ بنیادی دینی تعلیم کا حصول تمام مسلمانوں پر فرض ہے،اور کسی ادارے کے وسائل اس قدر نہیں ہیں کہ وہ ضرورت کے مطابق اپنے صرفہ سے ہر جگہ مکتب قائم کرسکے،اس لیے جس طرح مسلمان اپنی تمام ضرورتیں عام طور سے دوسروں کے مدد کے بغیر پوری کرتے ہیں اسی طرح بنیادی دینی تعلیم پر بھی اپنے خون پسینہ کی کمائی صرف کرنی چاہیے،اس کا تجربہ امارت شرعیہ نے بہار میں کیا ہے اور امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم پر محنت کی گئی تو ساٹھ خود کفیل مکاتب دو ماہ کے قلیل عرصہ میں قائم ہو گئے، ضرورت مشورہ اور ترغیب دلانے کی ہے، ان خیالات کا اظہار اڈیشہ کے پانچ روزہ دورہ کے دوسرے دن جگت سنگھ پور کے مدرسہ ریاض العلوم میں علماء کے درمیان تبادلہ خیال کرتے ہوئے امارت شرعیہ کے نائب ناظم مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ناظم وفاق المدارس الاسلامیہ اور نائب صدر اردو کارواں نے کیا، وہ یہاں ایک سہہ نفری وفد کے ساتھ جس میں مولانا صبغت اللہ قاسمی معاون قاضی دالقضاء امارت شرعیہ کٹک اور راشد نجمی پرنسپل قاضی نور الحسن میموریل اسکول شامل تھے، آج یہاں پہونچے مفتی صاحب نے اپنے رفقاء کے ساتھ دالقضاء کی زمین کا معائنہ کیا اور اس عمارت کا جائزہ لیا جس میں مستقبل قریب میں دالقضاء کا افتتاح ہونا طۓ ہوا ہے،مفتی صاحب نے ان موضوعات پر قاری شریف صاحب،مولانا غلام صمدانی اور مولانا سرفراز بانی و مہتمم جامعہ عبد اللہ ابن مسعود سے تبادلہ خیال کیا، مفتی صاحب نے ان علماء کو یقین دلایا کہ آپ حضرات کے مشورے کی روشنی میں کام کو ان شاءاللہ آگے بڑھایا جائے گا۔
مفتی صاحب نے جامع مسجد کیسیر پور کٹک میں جمعہ سے قبل اپنے خطاب میں حضرت امیر شریعت کی سمع و طاعت، اتحاد و اتفاق،ایک امت اور ایک جماعت بن کر زندگی گزارنے،بنیادی دینی و عصری تعلیمی اداروں کے قیام اور گناہوں کے کام سے خود کو بچنے ا ور دوسروں کو بچانے کی ضرورت پر زور دیا، انہوں نے لوگوں کو جماعت کا سبق بتایا اور امارت پبلک اسکول پنشن لین بخشی بازار کٹک کے قیام میں ہر قسم  کے تعاون کی مسلمانوں سے اپیل کی ،اس موقع سے مفتی صاحب نے فرمایا کہ حجاب کے سلسلے میں جس طرح سے سیاست ہورہی ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے انہوں نے فرمایا کہ سکھ طلبہ پگڑ یا ہندو طلبہ جینیووغیرہ کے ساتھ کلاس میں داخل ہوسکتے ہیں تو  مسلم لڑکیوں پر حجاب کے بغیر اسکول آنے کی پابندی کیوں لگائی جارہی ہے،مفتی صاحب نے اس موقع پر مولانا منظور احمد کو بھی یاد کیا جو امارت شرعیہ کٹک کے نگراں تھے،اور ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے تشریف لے گئے،یہ اطلاع دفتر امارت شرعیہ کٹک سے مولانا صبغت اللہ قاسمی نے دی ہے۔

دُوہرا رویہ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

دُوہرا رویہ
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
کرنا ٹک کے کولار میں ایک سرکاری اسکول ہے، جہاں مسلم بچے بھی پڑھتے ہیں،  اوما دیوی وہاں کی ہیڈ مسٹریس ہیں، ایک جمعہ کو انہوں نے چند مسلم بچوں کو اسکول کے ایک کمرے میں جمعہ کی نماز پڑھنے کی اجازت دے دی، بچوں نے ان کی اجازت کے بعد نماز ادا کی ، بس کیا تھا، فرقہ پرستوں کو ایک موقع مل گیا، نماز کی ویڈیو وائرل کی گئی ، میڈیا میں اس پر بحثیں شروع ہوئیں، اوما دیوی کو نہ صرف جانچ کاسامنا کرنا پڑا؛ بلکہ انہیں معطل کر دیا گیا، کرناٹک کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش نے ان کے خلاف سخت قدم اٹھانے کا اشارہ بھی دیا ہے، یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے۔
 اس کے بالمقابل دوسرا رویہ یہ ہے کہ ہندوستان کے بیش تر سرکاری اسکول میں سرسوتی دیوی کی پوجا ہوتی ہے، مورتیاں لگائی جاتی ہیں،بچوں سے روپے وصولے جاتے ہیں،اور اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں کی جاتی، اگر اسکول سارے مذاہب کے لیے ہیں اور سیکولرزم کی وجہ سے نماز پڑھنے کی اس میں اجازت نہیں ہے تو مورتی پوجا کو بھی روکنا چاہیے؛ کیوں کہ وہ بھی سیکولر اقدار کے خلاف ہے۔ 
 واقعہ کوئی بھی ہو، مسلم میڈیا کو ساری کمزوری مسلم اداروں میں نظر آنے لگتی ہے کہ وہ آگے کیوں نہیں آتے ، خاموش کیوں رہ جاتے ہیں، عدالت سے کیوں رجوع نہیں کرتے،مسلم قیادت کو مطعون کرکے مسلم میڈیا اور صحافی حضرات دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں، یقینا مسلم ادارے اور تنظیموں کو آگے آنا چاہیے،لیکن آپ کے پاس خبر رسانی کاجو نظام ہے اس کو کام میں کیوں نہیں لاتے ہیں، اس قسم کے مسائل میں آپ کی بیداری ملک وقوم کو بیدار کر سکتی ہے؛ اس لئے اردو میڈیا اور صحافت کو بھی سود وزیاں سے اوپر اٹھ کر اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے ، تبھی اس پر قابو پانا ممکن ہوسکے گا۔

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی : علم و ادب کے خورشید تاباں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از قلم : فخرالدین عارفی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی : علم و ادب کے خورشید تاباں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم : فخرالدین عارفی 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی   صاحب نے از راہ عنایت مجھے اپنی چار کتابوں سے نوازا ہے ۔   ۔ یہ چاروں کتابیں فی الحال میرے زیر مطالعہ ہیں ۔ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی حیات و خدمات اور ادب میں ان کے  کارناموں  پر اظہار خیال کرنا بہت دشوار اور مشکل کام ہے ۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب ، علم کا ایک سمندر ہیں ۔ علم کے اس سمندر کی غوّاصی اور پھر علم کے اس عمیق  سمندر سے موتی اور  جواہرات نکالنا کوئی معمولی کام نہیں ہے ۔ پھر بھی میری یہ کوشش ضرور ہوگی کہ جو قیمتی نگارشات اور تحریریں  انہوں نے ہمارے سامنے رکھی  ہیں ۔ ان سے اپنے ذہن کے اندھیروں کو دور کرسکوں ۔ میں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب سے ملا ہوں اور بار بار ملا ہوں ۔ متعدد مواقع پر ہم دونوں نے  ایک ہی اسٹیج سے تقریریں بھی کی ہیں ۔ لیکن ان کی تقریر میں  زور بیان اور شوکت الفاظ سے  جو بلند پیکر بنتے ہیں وہ سب کو کہاں میسر آتے ہیں ۔ وہ کم بولتے ہیں لیکن جب بولتے ہیں تو خوب بولتے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہاڑ سے ایک خوب صورت آبشار نکل رہا ہو۔۔۔۔ان کے الفاظ پہاڑ کی چوٹیوں سے ٹکراتے ہیں ، بل کھاتے ہیں ۔ کہیں کسی دوشیزہ کی زلف میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور کہیں کسی سمندر کی لامکاں وسعتوں میں گم ہوجاتے ہیں ۔ وہ ایک انتہائی نیک ، شریف اور مہذب انسان ہیں ۔ ان کی حیثیت ایک مذہبی پیشوا کی ہے ۔ وہ شریعت اور اصول شریعت سے بخوبی واقف ہیں ۔ لیکن ادب میں بھی جو دسترس اور کمال انہیں حاصل ہے وہ بہت کم لوگوں کے حصّے میں آتا ہے ۔ ان کی جو عام گفتگو ہوتی ہے وہ آواز کی ایک مخملی چادر ہوتی ہے ۔ لیکن جب وہ کسی موضوع  پر ، کسی اسٹیج سے تقریر کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں آسمان پر بادل گرج رہا ہو  ۔ اس وقت ان کی آنکھوں میں بھی ان کی لیاقت ، اہلیت اور قابلیت کی برق صاف نظر آتی ہے ۔ ان کے جیسا مقرر اس وقت بہار کی سرزمین پر بہت کم ہے ۔ ان کی شخصیت میں جو عاجزی اور انکساری ہے وہ بھی بہت نادر اور موجودہ عہد میں عنقا کی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ یہ بیدل ، راسخ اور شاد کی سرزمین "عظیم آباد " ہے ۔ جسے شہزادہ عظیم الشان نے سجایا اور سنوارا تھا ۔ لہذا یہاں نہ تو جوہر کی کمی ہے اور نہ جوہر شناسوں کی ۔۔۔۔
یہ بستی اب بھی بازار ختن ہے باکمالوں سے 
غزال آنکھیں چراتے ہیں عظیم آباد والوں سے 
( حافظ فضل حق آزاد عظیم آبادی ) 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور ان کی کتابوں کے تعلق سے باقی باتیں ، ان شاء الله جلد ہی پھر کروں گا ۔ ان کی کتابیں جو دستیاب ہیں ان سے استفادہ کررہا ہوں ۔ جب کسی روز ان کے علم کے روشن چاند سے میرے ذہن و دل کی سرزمین پھر منوّر ہوگی تو اس چاندنی پر آپ کا بھی حق ہوگا ۔ یہ میرا وعدہ ہے ۔ تب تک کے لیےء اجازت دیں ۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ  قاسمی صاحب سے وقفے کے لیےء معذرت خواہ ہوں ۔ ہاں یہ وعدہ ضرور ہے کہ جلد ہی آپ کی کتابوں پر اظہار خیال ضرور کروں گا ، لیکن جو کچھ بھی لکھوں گا پڑھ کر ، سمجھ کر اور سنبھل کر لکھوں گا ۔ ان شاء الله ۔۔۔۔۔۔۔فخرالدین عارفی 
10 جنوری 2022 ء

حجاب پر پابندی کے کرناٹک ہائی کورٹ کے عبوری فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل

حجاب پر پابندی کے کرناٹک ہائی کورٹ کے عبوری فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل

نئی دہلی: کرناٹک کا حجاب تنازعہ ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ میں پہنچ گیا ہے۔ کرناٹک کی کچھ طالبات نے حجاب معاملہ پر ہائی کورٹ کے عبوری حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق، اس معاملے پر دائر تازہ عرضیوں کا سپریم کورٹ کے سامنے فوری سماعت کے لیے ذکر (مینشن) کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے جمعرات کو کالجوں میں حجاب پہننے پر ریاستی حکومت کی پابندی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کی تھی۔ ایک عبوری حکم جاری کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ ریاستوں میں کالج دوبارہ کھل سکتے ہیں لیکن جب تک معاملہ زیر التوا ہے طلبا کو مذہبی لباس پہننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

دریں اثنا، حکومت نے مظاہروں کی وجہ سے بند اسکولوں اور کالجوں کو پیر کے روز سے مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سب سے پہلے جماعت اول تا دس کے طلبا کو کلاسوں میں جانے کی اجازت دی جائے گی اور ان کالجوں کے بارے میں فیصلہ بعد میں کسی وقت لیا جائے گا جہاں حجاب کا مسئلہ شدید ہو گیا ہے۔

کرناٹک میں حجاب پر تنازع اس وقت شروع ہوا تھا جب کرناٹک کے ساحلی شہر اڈوپی میں ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج کی انتظامیہ نے 6 مسلم طالبات کو حجاب پہننے کی وجہ سے کلاس میں جانے سے روک دیا۔ اس کے بعد کالج کے ہندو طالب علم زعفرانی اسکارف اور جھنڈے لہرانے لگے تو تنازعہ نے شدت اختیار کر لی۔ اس کے بعد ریاستی حکومتوں کو اسکول کالجوں کو بند رکھنے کا حکم جاری کرنا پڑا

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...