Powered By Blogger

اتوار, اکتوبر 10, 2021

حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کو امیر شریعت ثامن منتخب ہونے پر دلی مبار کہاد : الحاج اکرام الدین ارریہ

حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کو امیر شریعت ثامن منتخب ہونے پر دلی مبار کہاد : الحاج اکرام الدین ارریہ ۱۰ ؍ اکتوبر (پریس ریلیز) امارت شرعیہ بہار،اڑیسہ وجھارکھنڈکے نو منتخب آٹھویں امیرشریعت حضرت مولانااحمدولی فیصل رحمانی صاحب کو اس عظیم اور بابرکت عہدہ کیلئے منتخب ہونے پرمبارکباددیتے ہو ئے امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ وٹرسٹ کے فعال وسرگرم اورسماجی خدمت گار جناب الحاج اکرام الحق صاحب ارریہ نے کہاکہ اس وقت امارت شرعیہ جس بحرانی دورسے گزررہاتھااس پر بریک لگ گیا اورضرورت تھی کہ ایک صاحب علم وفضیلت اور صاحب بصیرت و بصارت نوجوان منتخب ہو،پروردگارنے ایسے سرگرم اورملت کادردرکھنے والے کو منتخب فرمایا جو ان شاء اللہ اپنے والد اورداداجان علیہ الرحمہ کے خوابوں کو پوراکرتے ہو ئے پورے مسلمانوں کی کامیاب قیادت فرمائیں گیاوراس ملت کی فلاح وبہبودکیلئے اہم کام انجام دیں گے۔

حاجی صاحب نے نائب امیرشریعت وقائم مقام ناظم،جملہ ارکان شوری وٹرسٹ اورجملہ ذمہ داران وکارکنان امارت شرعیہ کو اس مشکل وقت میں صبر وتحمل کیساتھ کامیاب نظم ونسق کے لئے دلی مبارکباد پیش کی،اورانہوں نے تمام مسلمانوں سے اپیل کی کہ ہم تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ امارت شرعیہ کی ترقی واستحکام کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اورامارت شرعیہ کے کاموں کو آگے بڑھانے میں دل کھول کر کر مدد کریں۔


نئے امیر شریعت کو دفتر امارت شرعیہ پٹنہ میں استقبالیہ ، عہدیداران وکارکنان نے مبارک باد پیش کی

نئے امیر شریعت کو دفتر امارت شرعیہ پٹنہ میں استقبالیہ ، عہدیداران وکارکنان نے مبارک باد پیش کینئے امیر شریعت کو دفتر امارت شرعیہ پٹنہ میں استقبالیہ ، عہدیداران وکارکنان نے مبارک باد پیش کی (نمائندہ خصوصی): بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کی معروف تنظیم امارت شرعیہ کے نئے امیر کے انتخاب کے سلسلے میں جاری طویل رسہ کشی مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کے منتخب ہونے کے بعد ختم ہوگئی۔ واضح رہے کہ سنیچر کوالمعہد العالی پھلواری شریف کے احاطے میں امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کے ارباب حل وعقد کا اجلاس نائب امیر شریعت مولانا شمشاد رحمانی کی صدارت میں منعقد ہوا ، اجلاس میں مولانا صغیر احمد رشادی امیر شریعت کرناٹک اور امیر شریعت آسام مولانا یوسف بھی بطور مشاہدین شریک تھے۔ اجلاس میں امیر شریعت کے لیے پانچ امیدواروں کےنام سامنے آئے ۔جس میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، نائب امیر شریعت مولانا شمشاد رحمانی، مولانا احمد ولی فیصل رحمانی، مولانا انیس الرحمن قاسمی، مفتی احمد نذر توحید تھے۔ ارباب حل و عقد نے فیصلہ کیا کہ ان پانچوں ناموں کے درمیان ووٹنگ ہواور جن کے حق میں زیادہ ووٹ ڈالے جائیں گے انہیں امیر شریعت قرار دیا جائے۔مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، مولانا شمشاد رحمانی اور مفتی نذر توحید نےاتفاق رائے کی کوشش کے درمیان اپنے نام واپس لے لیے جس کے بعد مولانا احمد ولی فیصل رحمانی اور اور مولانا انیس الرحمن قاسمی کے درمیان مقابلہ ہوا۔شام چھ بجے نتیجے کا اعلان کیا گیا جس میں مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کو ارباب حل وعقد کی کثیر تعداد میں ووٹ دی۔مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کو ۳۴۷ ووٹ جبکہ مولانا انیس الرحمان کو ۱۹۷ ووٹ پڑے۔ اس طرح انہوں نےتقریباً ۱۵۰ووٹوں کی اکثریت سے مولانا انیس الرحمان کو شکست دی، اس طرح وہ امارت شرعیہ کے آٹھویں امیر شریعت منتخب ہوگئے ۔انتخاب کی تکمیل کے بعد دفتر امارت شرعیہ میں نئے امیر کا استقبالیہ رکھا گیا جس میں مولانا شبلی قاسمی قائم مقام ناظم امارت شرعیہ نے انہیں امارت کے تمام عہدیداران و ملازمین وکارکنان کی طرف سے مبارک باد پیش کی اور کہا کہ آپ جس عظیم خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں آپ کے آباؤ اجداد نے جو تاریخ رقم کی ہے جو قربانیا ں انہوں نے دی ہیں اس تاریخ کا بڑا حصہ آپ بنیں گے اور اپنے آباواجداد کی تاریخ کو آگے کی طرف لے جائیں گے۔ اس موقع پر معروف صحافی مولانا شارب ضیاء رحمانی کی کتاب ''مولانا محمد علی مونگیری ؒکی تعلیمی اصلاحات '' کا بھی نئے امیر شریعت کے ہاتھوں اجرا ہوا۔

لکھیم پور کھیری تشدد: وزیر کا بیٹا آشیش مشرا اہم سوالوں کے جواب دینے سے قاصر، جیل بھیجا گیا

لکھیم پور کھیری: مرکزی وزیر اجے مشرا ٹینی کے بیٹے آشیش مشرا کو بالآخر جیل بھیج دیا گیا۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے 3 اکتوبر کو اپنی ایس یو وی گاڑی کے ذریعے کسانوں کے ایک گروپ پر حملہ کیا۔ اس دن کے واقعات کے تسلسل کے حوالہ سے سوالات کے جواب دینے سے قاصر رہا۔ مشرا کو ہفتہ کی رات 10.50 بجے گرفتار کیا گیا اور 12 گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد اتوار کی دوپہر ایک بجے کے قریب لکھیم پور جیل بھیج دیا گیا۔

تحقیقاتی ٹیم کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق آشیش مشرا یہ نہیں بتا سکا کہ 3 اکتوبر کو دوپہر 2.30 اور 3.30 کے درمیان جس وقت واقعہ پیش آیا وہ کہاں تھا۔ عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ وہ دوپہر 2 بجے سے شام 4 بجے کے درمیان جائے وقوعہ سے غائب تھا، جبکہ اس کے فون کی لوکیشن کے مطابق وہ جائے وقوعہ کے نزدیک ہی تھا۔

اگرچہ وزیر کے بیٹے نے اعتراف کیا ہے کہ کسانوں کو روندنے والی ایس یو وی اسی کی ہے، تاہم اس نے کہا کہ واقعہ پیش آنے کے وقت وہ گاڑی میں موجود نہیں تھا۔ حالانکہ اس روز کشتی کے مقابلہ کی کھینچی گئیں 150 تصاویر اس بات کی گواہ ہیں کہ آشیش مشرا واقعے کے دن وہیں موجود تھا۔ پولیس افسر نے کہا، "اس کے پاس ہر سوال کا ایک ہی جواب تھا، میں اس جگہ موجود نہیں تھا جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ اس کی ایس یو وی کون چلا رہا تھا، اس میں کتنے لوگ سوار تھےْْْْْْ، کتنی کاریں قافلے میں تھیں؟ تمام سوال کے جواب میں اس نے یہی کہا کہ وہ وہاں موجود نہیں تھا۔

یہ پوچھے جانے کے بعد کہ لوگوں کو ٹکر مارنے کے بعد گاڑی کیوں نہیں رکی اور سڑک پر ہجوم کیوں تھا، آشیش مشرا کا ایک ہی جواب تھا۔ "میں وہاں نہیں تھا۔” بعض اوقات وہ اپنا توازن بھی کھو دیتا تھا اور کہتا تھا، "اگر تم مجھ سے لاکھ بار بھی پوچھو گے تو بھی میرا جواب وہی ہوگا۔” اس نے اس حقیقت سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا کہ اس کے آدمی اسلحہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ کم از کم دو مہلوکین کے اہل خانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ لاشوں پر گولیوں کے نشانات ہیں، جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اس حقیقت کی تردید کی گئی ہے۔

تاہم 315 بور کے دو خالی کارتوس برآمد ہوئے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی نے گولی چلائی تھی۔ جب پولیس ٹیم نے آشیش مشرا سے ویڈیو فوٹیج کی صداقت کے بارے میں پوچھا تو اس نے ضلع میں پہلے کشتی میچ میں اپنی حاضری کو ثابت کرنے کے لئے ثبوت پیش کئے اور کہا، ’’آپ فارینسک ماہرین سے اس کی جانچ کرا سکتے ہیں۔‘‘ حالانکہ جس وقت واقعہ پیش آیا، اس وقت اپنے ٹھکانے کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں تھی، کیونکہ کشتی کا مقابلہ اس وقت تک ختم ہو چکا تھا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ وہ تحقیقات میں تعاون کیوں نہیں کر رہے ہیں، آشیش نے کہا کہ ’’جب بھی ضرورت ہوگی میں آؤں گا، میں مجرم نہیں ہوں۔ میں ایک سیاستدان اور تاجر کا بیٹا ہوں۔

نیوزی لینڈ کی ویب سائٹ پر چارپائی کی مہنگے داموں میں فروخت۔قیمت جان کر حیرانی ہوگی

نیوزی لینڈ کی اینابیل نامی ویب سائٹ کی جانب سے بر صغیر خصوصاً پاکستان اور بھارت میں استعمال کی جانے والی چارپائی کی فروخت کی جا رہی ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق نیوزی لینڈ کی گھریلو اشیاء آن لائن بیچنے والی ایک ویب سائٹ ’اینابیل‘ کی جانب سے اپنے مصنوعات میں ایک چارپائی کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔نیوزی لینڈ کی ویب کا چارپائی سے متعلق تفصیلات میں لکھنا ہے کہ یہ بر صغیر کی ایک ثقافتی چارپائی ہے جسے دن میں آرام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔

نوزی لینڈ کی ویب سائٹ پر لکڑی سے بنی اس چارپائی کی قیمت 800 -NZD رکھی گئی ہے جبکہ بھارت کی کرنسی میں یہ مالیت41ہزار سے زائد بنتی ہے۔

پنچایت انتخابات : سخت نگرانی کے درمیان ووٹوں کی گنتی شروع ، سپاہیوں نے دکھایا کھاکھی کا دبدبہ

پنچایت انتخابات : سخت نگرانی کے درمیان ووٹوں کی گنتی شروع ، سپاہیوں نے دکھایا کھاکھی کا دبدبہبیگوسرائے ، 10 اکتوبر۔ پنچایت انتخابات کے تیسرے مرحلے کے ووٹوں کی گنتی اتوار کو سخت سیکوریٹی کے درمیان شروع ہوئی۔بیگوسرائے کے دو بلاک ویر پور اور ڈنڈاری میں تیسرے مرحلے کی پولنگ ہوئی ہے۔ جن کی گنتی اتوار اور پیر کے روز ہوگی۔ یہ دونوں بلاک کے 16 پنچایتوں میں واقع 218 پولنگ مراکز میں ووٹنگ ہوئی تھی۔ ویر پور بلاک کے لیے بازار سمیتی احاطے اور ڈنڈاری بلاک کے لیے جی ڈی کالج احاطے میں ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ ووٹوں کی گنتی کے لیے صبح 6 بجے سے گنتی مرکز کے ارد گرد ہجوم جمع ہونا شروع ہو گیا تھا گنتی صبح 8 بجے سے شروع ہوا۔ تمام امیدوار مختلف مندروں اور مزاروں پرحاضری دیکر اپنی جیت کی دعا کرکے حامیوں کے ساتھ گنتی مراکز پر پہنچے۔ اس دوران بازار سمیتی کے ارد گرد بنائی گئی چیک پوسٹ کی حالت ٹھیک تھی ، لیکن جی ڈی کالج کے ارد گرد بنائی گئی چیک پوسٹ پر تعینات اہلکاروں نے اپنی من مانی کی۔ادھر گرمی سے بے چین لوگ کافی پریشان بھی نطر ا?ئے۔ جی ڈی کالج کے قریب بجرنگ چوک چیک پوسٹ پر ایک کانسٹیبل نے وردی کا خوف دکھا کر لوگوں کے ساتھ بدتمیزی بھی کی۔ اس دوران پولیس افسران اور مجسٹریٹ خاموش تماشائی بنے رہے۔ انتظامی سطح پر گاڑیوں کی پارکنگ کی عدم دستیابی کی وجہ سے افراتفری کا ماحول تھا۔ مہنا سے ڈاکٹر کو دکھانے بیگوسرائے ا?رہے ونود کمار نے بتایا کہ بجرنگ چوک کے قریب ان کی بائک پنکچر ہوگئی۔ بائک کو سائیڈ کرکے چیک کر رہے تھے اسی دوران اچیت کمار نام کا بیچ لگائے ایک سپاہی نے ان سے گالی گلوج کی۔گنتی مراکز کے ارد گرد لوگوں کا ہجوم تھا ، عارضی طور پر پھول مالا کی دکانیں کھل گئیں۔ ووٹنگ مراکز میں امیدوار اور ان کے گنتی ایجنٹوں کو کوئی پریشانی نہ ہو ، یہ اس کے لییخاص انتظامات کیے گئے۔

نابالغ کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے پر مندر کا پجاری گرفتار

پوری: اڈیشہ میں پوری کی سنگھ دوار پولیس نے ہفتہ کو مندر میں ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ چھیڑ خانی کے الزام میں بامن مندر کے پجاری سنگرام داس کو گرفتار کیا اور اسے عدالت میں پیش کیا۔ پجاری کو سب ڈویژنل جوڈیشیل مجسٹریٹ (ایس ڈی جے ایم) کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں مجسٹریٹ نے اس کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے عدالتی تحویل میں بھیج دیا۔

یہاں موصولہ رپورٹ کے مطابق حیدرآباد سے ایک خاندان کل شری جگناتھ مندر کے درشن کے لیے آیا تھا۔ کمپلیکس میں دیگر مندروں کا دورہ کرتے ہوئے ، وہ بامن مندر گئے جہاں 11 سالہ لڑکی سے مبینہ طور پر چھیڑ خانی کی۔

لڑکی کے والد نے شکایت درج کروانے اور پجاری کو پوچھ گچھ کے لیے تحویل میں لینے کے بعد سنگھ دوار پولیس نے جنسی جرائم سے بچاؤ کے قانون (پوکسو ایکٹ) کے تحت مقدمہ درج کیا۔

شری جگناتھ مندر کے علاوہ ، مہالکشمی ، ومالا ، مہاکالی ، سوریا ، سرسوتی ، شیتلا اور بہت سے دیوتاؤں کے چھوٹے مندر اس کمپلیکس میں موجود ہیں۔ دریں اثنا ، چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کے عہدیدار نے متاثرہ شخص کی کونسلنگ کی اور اس کے خاندان کے پوری سے روانگی سے قبل اس کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔

بریکنگ نیوزانتخابات سے قبل سروے پر پابندی لگانے کا مطالبہ : مایاوتی

بریکنگ نیوزانتخابات سے قبل سروے پر پابندی لگانے کا مطالبہ : مایاوتی

لکھنؤ: یو پی اسمبلی انتخابات میں چھوٹی پارٹیوں کے اتحاد سے عوام کو محتاط رہنے کی اپیل کرتے ہوئے بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے کہا کہ انتخاب سے قبل سروے پر روک لگانے کیلئے وہ جلد ہی الیکشن کمیشن کو خط لکھیں گی۔پارٹی کے بانی کانشی رام کی 15ویں برسی کے موقع پر ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مایاوتی نے کہا کہ کچھ لوگ بی ایس پی کے کمزور ہونے کا پروپیگنڈہ کررہے ہیں حالانکہ ان کی غلط فہمی آج کی ریلی کو دیکھ کر دور ہوگئی ہوگی۔اگلے سال اترپردیش میں حکومت بنانے کا دعوی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوام کو کانگریس، بی جے پی، سماج وادی پارٹی اور عام آدمی پارٹی کے ہوا ہوائی دعوؤں سے محتاط رہنا چاہئے جن میں ذرا بھی دم نہیں ہے ۔


جئے شری پاوڑے ناندیڑ کی نئی میئر

ناندیڑ:9 اکتوبر۔ (اردو دنیا نیوز۷۲)ناندیڑ میونسپل کارپوریشن کی آئندہ سوا سال کی معیاد کیلئے کانگریس کی کارپوریٹرشریمتی جئے شری پاوڑے کے نام پر مہر لگ گئی ہے۔آج صبح انھوں نے ناندیڑمیونسپل کارپوریشن دفتر پہنچ کر انتخابی پروگرام کے مطابق اپنا پرچہ نامزدگی شہر سیکریٹری اجیت پال سنگھ سندھو کے سپرد کیا ۔

اس موقع پرسابقہ وزیر ڈی پی ساونت ‘ڈپٹی میئر مسعوداحمدخاں‘چیرمین سنگیتا ڈک ‘سابقہ میئر عبدالستار ‘سابقہ میئر شیلجاکشور سوامی‘سابقہ ڈپٹی میئر ستیش دیشمکھ ‘تعلقہ صدر ایڈوکیٹ نلیش پاوڑے‘شیام درک ‘کشور سوامی ‘امیت تہرا‘گیتانجلی کاپورے ہٹکر‘سریتا دیشمکھ‘کوتیا مڑے‘ارپنانیرلکر‘ محمدناصر‘ عبدالغفا ر‘عبداللطیف ‘ چاند پاشاہ قریشی] منتجب الدین‘ کشن کلیانکر ودیگر کانگریسی عہدیداران تھے۔

واضح رہے کہ آج پرچہ نامزدگی داخل کی گئی اور انکا انتخاب یقینی ہے ۔کیونکہ کارپوریشن میںکانگریس پارٹی کو اکثریت حاصل ہے ۔ انتخابی پروگرام کے مطابق 13اکتوبر کو صبح گیارہ بجے میونسپل کارپوریشن کے اجلاس عام میں نئے میئرکاانتخاب عمل میں آئے گا۔اس اجلاس میں ریٹرئنگ آفیسر کی ذمہ داری ضلع کلکٹر ڈاکٹرویپن اٹنکرنبھائیں گے۔

آسام میں مسلمانوں کا قتل: او آئی سی کی مذمت ‘ انڈیا کی کڑی تنقید

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں مسلمان شہری کی لاش کی بے حرمتی کے واقعے کے حوالے سے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی مذمت کے بعد انڈیا کی وزارتِ خارجہ نے ردِ عمل دیتے ہوئے او آئی سی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔جمعے کی رات انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے یہ بیان ایک سوال کے جواب میں جاری کیا تھا۔وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ انڈیا انتہائی افسوس کے ساتھ یہ بتانا چاہتا ہے کہ او آئی سی نے ایک بار پھر انڈیا کے اندرونی معاملے پر تبصرہ کیا ہے جس میں اس نے انڈین ریاست میں ایک بدقسمت واقعے کے بارے میں حقیقت پسندانہ طور پر غلط تبصرہ کیا ہے۔ اور ایک گمراہ کن بیان جاری کیا ہے۔

اس کے علاوہ بیان میں کہا گیا ہے کہ انڈیا اس سلسلے میں مناسب قانونی کارروائی کر رہا ہے۔بیان میں یہ بات دہرا دی گئی ہے کہ ‘او آئی سی کو انڈیا کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے اور اسے اپنے پلیٹ فارم کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہیں ہونے دینا چاہیے۔’اس کے بعد بیان کے اختتام پر انڈیا نے او آئی سی کو خبردار کیا ہے کہ ’انڈیا کی حکومت ان تمام بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتی ہے اور امید کرتی ہے کہ مستقبل میں ایسے بیانات نہیں دیے جائیں گے۔‘خیال رہے کہ اس واقعے کی دنیا کے اکثر ممالک کی جانب سے مذمت کی گئی تھی، تاہم عرب ممالک میں یہ تنقید سوشل میڈیا پر کی جا رہی ہے اور گذشتہ دنوں میں وہاں انڈین مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے سے متعلق ٹرینڈ چلائے گئے ہیں۔

او آئی سی نے کیا کہا؟
مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے گذشتہ ماہ انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام کے ضلع درنگ میں مبینہ طور پر سینکڑوں مسلم خاندانوں کو سرکاری زمین سے ‘تجاوزات ہٹانے کی مہم’ کے تحت بے دخل کرنے کے دوران ہونے والی پولیس کارروائی کو ‘منظم تشدد اور ہراساں کرنا’ کہا ہے۔جمعرات کی شام ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں او آئی سی نے اس معاملے کی میڈیا کوریج کو شرمناک قرار دیا اور انڈیا سے ذمہ داری سے برتاؤ کرنے کی اپیل کی تھی۔اس کارروائی کے دوران دو مقامی مسلمان شہری ہلاک ہوئے تھے۔ اس کی ایک خوفناک ویڈیو بھی منظر عام پر آئی تھی۔او آئی سی نے اپنے بیان میں انڈیا سے اپیل کی ہے کہ وہ مسلم اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرے اور ان کے تمام مذہبی اور سماجی بنیادی حقوق کا احترام کرے۔بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قومی خودمختاری کے اندر کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کا بہترین طریقہ باہمی بات چیت ہے۔نہ صرف او آئی سی بلکہ غیر ملکی میڈیا نے بھی آسام کے واقعہ کی شدید مذمت کی ہے۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے اس واقعے کا موازنہ امریکہ میں جارج فلوئیڈ قتل کیس سے کیا۔
اخبار لکھتا ہے کہ اس طرح کا وحشیانہ واقعہ پولیس کی ناقص تربیت اور اس شخص کے غیر اخلاقی رویے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

اخبار نے لکھا: ‘جس طرح منیاپولیس میں ایک پولیس افسر کے ہاتھوں جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کا واقعہ امریکہ میں نسلی عدم مساوات اور پولیس تشدد کی جڑیں دکھاتا ہے وہیں آسام میں ہونے والی بربریت انڈیا میں نفرت، تشدد اور سزا سے معافی کو دکھاتی ہے۔’
اخبار نے لکھا: ‘سنہ 1947 کی تقسیم کے بعد انڈیا کبھی بھی مذہبی بنیاد سے اوپر نہیں اٹھ سکا اور یہاں فرقہ وارانہ تعصبات بہت گہرے ہیں۔ ماضی میں سیاسی رہنماؤں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور تنوع کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن دائیں بازو کی ہندو قوم پرست تنظیم اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے پرانی نفرت کو ہوا دی ہے۔ مسلم اقلیتوں کو ہندو اکثریت کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا ہے اور اس کے علاج کے لیے پرتشدد اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔’

اس کے علاوہ برطانوی اخبار نے انڈیا میں ‘لو جہاد’، ‘کورونا جہاد’، دہلی فسادات، چھتیس گڑھ میں ہندو مذہبی تنظیموں کی جانب سے گذشتہ ہفتے کیے جانے والے تشدد، کسانوں کی تحریک، آرٹیکل 370 وغیرہ کا بھی ذکر کیا ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ نفرت، خونریزی اور ماتم کے اس خوفناک سلسلے کے ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ آسام میں ہونے والے واقعے کا ذکر خلیجی ملک کی میڈیا ‘الجزیرہ’ نے بھی اپنی خصوصی رپورٹ میں کیا ہے۔درنگ سے اپنی گراؤنڈ رپورٹ میں الجزیرہ نے اس واقعے کے کئی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔اس واقعے میں ہلاک ہونے والے معین الحق کے چھوٹے بھائی عین الدین کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی کو پولیس نے سینے میں گولی ماری تھی اور فوٹوگرافر ان کے سینے پر چھلانگ لگا رہا تھا جبکہ وہ مر چکے تھے۔الجزیرہ لکھتا ہے کہ آسام حکومت کی باگ ڈور ہندو قوم پرست تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کا اعلان کیا ہے اور اس واقعے نے سول سوسائٹی کو بڑا دھچکہ پہنچایا ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے دعویٰ کیا ہے کہ گاؤں کے لوگوں نے پہلے پولیس پر لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے حملہ کیا تھا اور تشدد ایک سازش کا نتیجہ تھا۔ اس کے ساتھ وزیر اعلیٰ نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ گاؤں کے لوگوں کو باہر سے آنے والے لوگوں نے اکسایا تھا۔الجزیرہ نے لکھا کہ وزیراعلیٰ سرما نے اس واقعہ کے دعووں کے لیے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ تاہم پولیس نے دو مقامی لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔

23 ستمبر کو ‘غیر قانونی تجاوزات’ کو ہٹانے کی پولیس کارروائی کے دوران آسام کے درنگ ضلع کے دھول پور گاؤں نمبر تین میں پرتشدد تصادم ہوا جس میں دو افراد ہلاک ہوئے۔ان میں سے ایک شخص مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوا۔ انتظامیہ کے دعوے کے مطابق اس واقعے میں آٹھ پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔اس واقعے کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں ایک فوٹو گرافر معین الحق کے گرنے کے بعد اس کے سینے پر کود رہا ہے۔ بیجوئے بانیا نامی فوٹوگرافر مقامی انتظامیہ کے ساتھ واقعے کی ویڈیو گرافی کر رہا تھا جسے بعد میں حراست میں لے لیا گیا۔ریاستی حکومت نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ آسام حکومت کے محکمہ داخلہ نے کہا ہے کہ گوہاٹی ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی قیادت میں انکوائری کی جائے گی۔ تفتیش میں اس واقعے کے رونما ہونے والے حالات کا پتا چلایا جائے گا۔

بریکنگ نیوزایئر انڈیا: کراچی سے شروع ہونے والی ایئرلائن جو دنیا میں انڈیا کی پہچان بنی

ایئر انڈیا کی کہانی غیر منقسم انڈیا میں کراچی کے ایک چھوٹے سے ایئر فیلڈ پر اکتوبر 1932 کی ایک خوشگوار صبح کو شروع ہوئی تھی جب ایک معروف کاروباری خاندان کا 28 سالہ بیٹا جہانگیر رتن جی دادابھائی ٹاٹا ایک انجن والے جہاز میں بمبئی کے لیے روانہ ہوا۔ٹاٹا نے انگلینڈ سے دو پس موتھ طیارے خریدے تھے جن میں ایک کے ذریعے وہ ہفتہ وار ڈاک سروس شروع کر رہے تھے۔ہوائی جہاز نے 100 میل فی گھنٹہ (160 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے سفر کیا اور اس ’گرم اور جھٹکوں سے بھرپور پرواز میں‘ سامنے سے آنے والی تیز ہواؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ایک پرندہ بھی کیبن میں اندر پہنچ گیا تھا اور اسے مارنا پڑا۔

یہ پرواز کافی جھٹکے سہتی ہوئی گجرات کے شہر احمد آباد میں ایندھن حاصل کرنے کے لیے اتری جہاں بیل گاڑی پر لاد کر لایا گیا تیل جہاز میں ڈالا گیا۔طیارہ دیر دوپہر بمبئی (اب ممبئی) میں مٹی کی ہموار سطح پر اترا۔ کچھ ڈاک اتارنے کے بعد دوسرا منتظر طیارہ اپنے باقی سامان کے ساتھ جنوبی انڈیا کے دو شہروں کے لیے روانہ ہوا۔ان طیاروں کو ان کے آگے لگے پنکھوں کو ہاتھ سے گھما کر سٹارٹ کیا جاتا تھا۔ سمت کی نشاندہی کرنے یا لینڈنگ کروانے کی لیے کوئی آلات نہیں تھے اور نہ ہی ریڈیو کمیونیکیشن تھا۔

یہ جہاز روزانہ ممبئی کے ایک ساحل کے قریب مٹی کی ہموار سطح والے میدان سے اڑا کرتے تھے اور ٹاٹا نے بعد میں اس زمانے کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جہاں سمندر اس سے نیچے تھا جسے ہم ائر فیلڈ کہا کرتے تھے اور مون سون میں سمندر کی اونچی لہر کے دوران ٹیک آف اور لینڈنگ کی جگہ زیرِ آب ہوا کرتی تھی۔‘جب وہ جگہ مکمل طور پر زیرِ آب آ گئی تو ایئر لائن کے دو جہازوں، تین پائلٹس اور تین مکینِکس کو وہاں سے 150 کلومیٹر جنوب میں پونے شہر کی ایک چھوٹی سی ایئر فیلڈ میں منتقل کر دیا گیا۔

اس زمانے میں خطے کے چیف سول ایوی ایشن سر فریڈرک ٹِمز نے 1934 میں ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’دنیا میں شاید ہی کہیں حکومت کی مدد کے بغیر کوئی فضائی سروس چل رہی ہو۔ یہ صرف آپریٹر کو مالی خسارے کے خطرے میں ڈال کر کیا جا سکتا تھا اور ٹاٹا اینڈ سنز یہ خطرہ مول لینے کے لیے تیار تھے۔‘آنے والے سالوں میں یہ ڈاک سروس دوسرے شہروں تک پھیل گئی اور ان میں ایک مسافر کو بھی جگہ دی جانے لگی۔ سنہ 1937 میں ٹاٹا کے دو طیاروں نے دلی اور بمبئی کے درمیان ایک سروس شروع کی۔

ہر طیارے میں 3500 خط اور ایک مسافر ہوا کرتا تھا۔ ائیر لائن شروع کرنے کے چھ سال کے اندر ہی ایئرلائن کے پاس 15 طیارے، 15 پائلٹ، اور تین درجن انجینیئر تھے۔ ایئرلائن نے 99.4 فیصد سے زیادہ وقت کی پابندی کا دعویٰ بھی کیا۔

ٹاٹا کے سوانح نگار روسی ایم لالہ نے لکھا ’ٹاٹا کے پائلٹوں کو ان کے پیچھے والی سیٹ پر انسانی سواری کے عادی ہونے میں کچھ وقت لگا۔ ایک دن ایک پائلٹ نے مرغی کی ایک ٹانگ کھائی اور ہڈی کو کاک پٹ سے باہر پھینک دیا جو ہوا سے واپس مسافر کی گود میں آ گری۔‘ٹاٹا خود ہوابازی کے نہایت شوقین تھے اور اُنھوں نے 25 سال کی عمر میں اکیلے ہی ایک طیارہ اڑایا تھا۔

وہ ہمیشہ ایک عالمی سطح کی ایئر لائن بنانا چاہتے تھے۔ سنہ 1940 کی دہائی کے اوائل میں اُنھوں نے آنے والے وقت میں ‘ہوائی دور’ کے بارے میں واضح طور پر بات کی کہ کس طرح ’ہوائی سفر ریلوے اور سٹیمر کی سہولیات کی طرح وسیع پیمانے پر عام اور دستیاب ہو جائے گا۔‘

سنہ 1946 تک انڈیا میں ہر تین مسافروں میں سے ایک ٹاٹا کی نئی نویلی ایئر لائن میں سفر کر رہا تھا اور یہ کمپنی ملک میں کام کرنے والے تقریباً 50 طیاروں میں سے نصف کی مالک تھی۔

دو سال بعد ایئر انڈیا انٹرنیشنل ہو گئی اور ایک بالکل نیا لاک ہیڈ کنسٹلیشن طیارہ جس کا نام مالابار پرنسز رکھا گیا تھا، بمبئی سے لندن کے لیے روانہ ہوا۔ٹاٹا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘یہ ایشیائی ایئرلائن کی پہلی پرواز تھی جو مشرق اور مغرب کو باقاعدہ سروس کے ذریعے جوڑتی تھی۔‘اس سال کے آخر تک ایئر انڈیا منافع کمانے لگی تھی۔

ایئر انڈیا نے تیزی سے دنیا بھر میں شہرت اور برانڈ کا درجہ حاصل کیا۔ سنہ 1968 تک اس کے 75 فیصد مسافر بیرونی ممالک سے آتے تھے۔برطانوی گلوکار جارج ہیریسن اور امریکی راک بینڈ دی ڈورز نے بھی اس ایئرلائن میں سفر کیا تھا جبکہ ہسپانوی آرٹسٹ سیلواڈور ڈیلی نے بھی ایک خصوصی ایش ٹرے ڈیزائن کر کے ایئرلائن کو تحفے میں دیا تھا۔اپنے کاروبار پر کڑا کنٹرول رکھنے والے بزنس مین کے طور پر ٹاٹا کو پروازوں کے دوران ملنے والی سروس کا بہت خیال رہتا تھا۔ایک بار انھوں نے فلائٹ میں ملنے والی چائے کے رنگ پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ رنگ کافی کے رنگ جیسا ہے۔وہ کیبن اٹینڈنٹس کو ڈیوٹی کے دوران گیلی میں سگریٹ نوشی سے روکا کرتے تھے۔

ایک بار انھوں نے شکایت کی کہ فرسٹ کلاس کے ناشتے میں ملنے والا بیکن اور ٹماٹر ‘بہت ٹھنڈے’ ہوتے ہیں۔اُنھوں نے اپنے عملے کو نامناسب طریقے سے تیار ہونے کی وجہ سے بھی ٹوکا۔ سنہ 1951 میں اُنھوں نے اپنے ایک مینیجر کو نوٹ میں لکھا کہ ’ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ عجیب، مضحکہ خیز اور پرکشش ہونے کے درمیان لکیر کہاں کھینچنی ہے۔ کسی کی قلمیں شرٹ کے کالر تک پہنچ رہی ہیں تو کسی کی مونچھیں بے تحاشا نیچے تک لٹک رہی ہیں، تو کسی ائیر ہوسٹس کا جُوڑا اس کے سر سے بھی بڑا ہے۔ برائے مہربانی میک اپ اور ظاہری حلیے پر خصوصی توجہ دیں۔‘جون 1953 میں ایئر انڈیا کو حکومت نے اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ انڈیا کی ہوا بازی کی صنعت مشکل میں تھی۔ منافع کم ہو رہا تھا، بہت سارے ہوائی جہاز خرید لیے گئے تھے اور کم از کم دو ایئر لائنز بند ہو چکی تھیں۔

حکومت نے تقریباً ایک درجن ایئرلائنز کو ضم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ صرف ایئر انڈیا واحد مضبوط ائیر لائن تھی جو اپنا تشخص برقرار رکھ سکی۔ ٹاٹا کے اس بارے میں ملے جلے جذبات تھے۔اگلی تین دہائیوں تک ایئر انڈیا کامیاب ہوتی رہی۔ ایئرلائن کی نشانی چھوٹے قد کا مہاراجہ انڈیا کی سب سے زیادہ مانوس علامتوں میں سے ایک بن گیا۔ اشتہاری پوسٹرز میں کبھی یہ برطانوی تو کبھی فرانسیسی انداز میں ڈھلتا دکھائی دیا۔طیاروں کے نام شاہی شخصیات اور ہمالیہ کی چوٹیوں کے نام پر رکھے گئے۔ ایئر انڈیا کے سابق ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور کتاب دی ڈیسینٹ آف ایئر انڈیا کے مصنف جتیندر بھارگئو کا کہنا ہے کہ 1970 کی دہائی تک ایئر انڈیا کے 54 ممالک میں 10 ہزار ملازم تھے۔یہاں تک کہ 1980 کی دہائی میں بھی یہ ایک برانڈ تھی جس کا شمار دنیا کی بڑی ایئر لائنز میں کیا جاتا تھا۔ یہ اس وقت چند انڈین کمپنیوں میں سے ایک تھی جو عالمی سطح پر اپنی پہچان رکھتی تھیں۔ اس میں گلیمر اور جوش و خروش تھا۔‘

بریکنگ نیوزاکتوبر 21 کو حج 2022 سیزن کا ہوگا اعلان

بریکنگ نیوزاکتوبر 21 کو حج 2022 سیزن کا ہوگا اعلان

ممبئی _مرکزی وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے حج ہاؤس ممبئی میں حج 2022 کی تیاریوں کے سلسلے میں حج کمیٹی آف انڈیا کے سینئر عہدیداروں سے تبادلہ خیال کیا۔ 21 اکتوبر کو نئی دہلی میں منعقد ہونے والی آئندہ حج جائزہ میٹنگ میں حج 2022 سے متعلق مختلف امور پر تفصیلی بحث کی جائے گی۔وزارت اقلیتی امور ، وزارت خارجہ ، صحت ، شہری ہوا بازی ، سعودی عرب میں ہندوستان کے سفیر ، جدہ میں ہندوستان کے قونصل جنرل اور دیگر سینئر حکام آئندہ حج جائزہ اجلاس میں موجود ہوں گے۔مختار عباس نقوی نے کہا کہ کورونا وبا کے پیش نظر سعودی عرب کے فیصلے کی بنیاد پر 2020 اور 2021 میں حج نہیں ہو سکا۔ حج 2022 کا اعلان نئی دہلی میں 21 اکتوبر کو ہونے والی جائزہ میٹنگ میں مختلف محکموں کے ساتھ بات چیت کے بعد کیا جائے گا۔کورونا پروٹوکول اور صحت اور حفظان صحت کے حوالے سے ہندوستان اور سعودی عرب میں حج 2022 کے لیے جانے والے عازمین حج کے لیے خصوصی تربیت کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔انڈیا کا مکمل حج 2022 عمل ، جو انڈونیشیا کے بعد حج کرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد بھیجتا ہے ، 100 فیصد ڈیجیٹل ہوگا۔ آج حج ہاؤس ، ممبئی میں آن لائن حج ہاؤس بکنگ کی سہولت کا بھی افتتاح کیا۔


اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...