Powered By Blogger

ہفتہ, مئی 07, 2022

اذان کی آواز____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اذان کی آواز____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اذان اللہ تعالیٰ کی بڑائی، عظمت وکبریائی، رسالت محمدی اور فلاح انسانی کی کامل اور مکمل دعوت کا اعلان ہے، یہ اعلان ہر کسی کے کان میں پہونچ جائے اس کے لئے ہر دور میں اذان بلند آواز سے دی جاتی رہی ہے، بعض کلمات پر دائیں بائیں گھوما جاتا رہا ہے، تاکہ یہ آواز ہر سمت میں گونجے، جو مسجد آنے والا ہے اسے نماز کے وقت کا احساس وادراک ہوجائے او روہ کاروبار زندگی اور مسائل حیات کو چھوڑ کر اللہ کے گھر کا رخ کر لے، لیکن جو مسجد نہیں آ رہا ہے، اس کے کانوں تک بھی یہ آواز پہونچ جائے اور اس کا دل ودماغ بھی اللہ کی کبریائی کے تصور سے معمور اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ذکر سے اس کے کان آشنا اور فلاح وکامیابی کے حقیقی خیالات سے اس کا ذہن شاد کام ہو، یہ اتنا بڑا فائدہ ہے کہ اس فائدے کے حصول کے لیے ہر آدمی کو کوشاں رہنا چاہیے۔
دنیانے ترقی کی اور تیز آواز کی مشین ایجاد ہوئی تو اب اونچی جگہ سے اذان دینے کے بجائے لاؤڈ اسپیکر سے اذان دیا جانے لگا، تاکہ دور تک اس کی آواز پہونچے، مسلمانوں نے اس کا استعمال شروع کیا اور دوسرے مذاہب والوں میں بھی بھجن کیرتن اور دوسرے کاموں کے لئے اس مشین کا چلن عام ہوا، سب کا مقصد یہی تھا کہ آواز دور تک پہونچائی جا سکے، اس کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے ہارن کا دوسرے مذاہب والوں نے اس کثرت سے استعمال کیا کہ جب تک ان کے پوجا کا زمانہ ہوتا ہے، کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی اور بہت سارے کاموں میں یہ آوازخلل ڈالتی ہے، اس کے لئے سرکاری طور پر پابندی لگائی گئی اور دس بجے رات کے بعد اس کا استعمال کرنا بعض مخصوص حالتوں میں دی جانے والی اجازت کو چھوڑ کر ممنوع ہے، تاکہ لوگوں کے معمولات میں خلل نہ پڑے۔
  اذان جن اوقات میں دی جاتی ہے، ان اوقات میں لوگوں کے معمولات میں خلل کا سوال نہیں پیدا ہوتا، پھر یہ اذان مختصر ہوتی ہے اور پانچ منٹ سے کم میں ہی مکمل ہوجاتی ہے۔ اس کی ادائیگی حسن صوت کے ساتھ دلوں میں ایک خاص کیفیت پیدا کرتی ہے، اذان کے کلمات میں صوتی ہم آہنگی اس قدر ہے کہ فضا میں گونج رہی یہ آواز دل کے اندر ارتعاش پیدا کرتی ہے اور انسان ان کلمات میں کھو کر رہ جاتا ہے، یہ حال ان لوگوں کا ہوتا ہے جو اس کے معنی نہیں سمجھتے، جو معنی سمجھتے ہیں، وہ ان کلمات سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں اور ان کے پاؤں خود بخود مسجد کی طرف رواں ہوجاتے ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ اذان کے بعد ایک ہی دروازہ کھلا ہوتا ہے اور وہ اللہ کے گھر کا دروازہ ہے۔
  سینکڑوں سال سے یہ سلسلہ جاری ہے، سماج اس کا عادی ہو چکا ہے، بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اس کی قدر کرتے ہیں، خصوصا فجر کی اذان اس لئے زیادہ مفید ہوتی ہے کہ لوگ بغیر گھڑی اور موبائل دیکھے ہوئے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ صبح ہو گئی، سونے کا وقت ختم ہوا اور اب اللہ ایشور کو یاد کرنے کا وقت ہے، اور اس کا م سے فراغت کے بعد حصول معاش کی تلاش میں لگ جانا ہے، جولوگ صبح سویرے اٹھنے کے عادی ہیں اور اس کو صحت کے لئے مفید سمجھتے ہیں، ان کے لیے اذان کی آواز بغیر خرچہ کے الارم کا کام کرتی ہے اور وہ اس کو سن کر بیدا ہوجاتے ہیں اور اپنی مشغولیات میں لگ جاتے ہیں، اس کی افادیت کو محسوس کرتے ہیں۔لیکن بُرا ہو اس ملک کی عدم رواداری کے اس ماحول کا جو گذشتہ چار سالوں سے اس ملک میں پروان چڑھا ہے، اس ماحول کے نتیجے میں اسلام اور مسلمانوں سے جڑی ساری چیزوں کو تنقید کا نشانہ بنا یاجا رہا ہے اور ہر کام میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، کوئی ایک آدمی اسلام کے خلاف کچھ کہہ دیتا ہے، میڈیا اس کا ٹرائل شروع کرتا ہے اور چن چن کر ایسے لوگوں کو پیش کرتا ہے جو اسلامی علوم وافکار سے واقفیت نہیں رکھتے، اس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ اسلام کی غلط تصویر لوگوں تک جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ دار العلوم دیو بند کے مہتمم حضرت مولانا بو القاسم صاحب مدظلہ نے ایسی بحثوں کے بائیکاٹ کا مشورہ دیا ہے، لیکن جو لوگ میڈیا میں اپنے کو بنے رکھنا چاہتے ہیں وہ اس مشورہ پر ہی سوالات کھڑے کر رہے ہیں۔

سنسکرت شعریات کے ماہر ، معروف شاعر عنبر بہرائچی

سنسکرت شعریات کے ماہر ، معروف شاعر عنبر بہرائچی

ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ ادیب، سنسکرت شعریات کے ماہر، معروف شاعر عنبرؔ بہرائچی صاحب" کا یومِ وفات.....

نام محمد_ادریس اور تخلص عنبرؔ تھا۔

05؍جولائی 1949ء کو ضلع بہرائچ کے ترقیاتی حلقہ مہسی کے سکندر پور علاقہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کےوالد کا نام جمیل احمد جمیلؔ بہرائچی تھا۔ عنبرؔ بہرائچی نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جعرافیہ میں ایم۔اے کیا اور صحافت کا ڈپلوما بھی حاصل کیا۔ بعد میں پو پی کے سول سروس کے مقابلہ جاتی امتحان میں بیٹھے اور کامیاب ہوئے مختلف عہدوں پر فائز رہے۔

عنبرؔ بہرائچی اپنی تصنیف ″روپ انوپ″ میں اپنے حالت لکھتے ہیں کہ"جب میں پانچ برس کا تھا، یہ میری زندگی سے متعلق جیٹھ مہنیے کی تپتی ہوئی دپریاں تھیں۔ میری خوش بختی اور ﷲ رب العزت کا احسان کہ میرے والد مرحوم جمیل احمد جمیلؔ صاحب اور میرے تیسرے چچا محمد افتخار صاحب نے گاؤں میں ہر جمعرات کو برپا ہونے والی میلاد کی محفلوں میں نعت خوانی کی تہذہب سکھائی۔ چونکہ خوش آواز تھا اس لیے قرب و جوار کی ان محفلوں میں نعت خوانی کرتا رہتا تھا۔ اکبرؔ وارثی میرٹھی مرحوم اور فاضلِ بریلوی مولانا احمد رضا خاں صاحب کی نعتیں اور سلام نے سرشار کر رکھا تھا۔ اس پاکیزہ مشغلے نے مجھے ثابت قدم رکھا اور عملی زندگی کے تاریک پہلوؤں کا سایہ نہیں پڑنے دیا ورنہ میرے جیسا بہت کمزور شخص خود کسی لائق نہیں تھا۔ مسیں بھیگنے لگیں تو اپنے گہوارے کی زبان اودھی میں نعتیہ گیت لکھنے لگا اور اپنے گاؤں کے اطراف برپا ہونے والی نعتیہ محفلوں میں پڑھتا رہا۔ لوگ خوش ہوکر دعائیں دیتے رہے۔"

عنبر بہرائچی اپنی تصنیف ″روپ انوپ″ میں لکھتے ہیں کہ ایم۔اے کرنے کے بعد تقریباً چھ ہفتے لکھنؤ میں گزارے ۔اسی دوران استاد بابا جمالؔ بہرائچی مرحوم نے میرا تخلص عنبرؔ تجویز فرمایا۔ ﷲ انھیں غریق رحمت کرے۔ یہاں کی نعتیہ محفلوں میں کشفیؔ لکھنوی، بشیرؔ فاروقی، ملک زادہ منظور احمدؔ، والی آسیؔ ،تسنیمؔ ؔفاروقی، حیاتؔ وارثی، ہمسرؔ قادری، فہمیؔ انصاری، رئیسؔ انصاری، صائمؔ سیدین پوری، ثرور نواز اور اپنے ہم وطن اثرؔ بہرائچی کا ساتھ رہا۔ اسی برس یعنی 1973ء میں الہ آباد پہنچا۔دائرہ شاہ محمدی، کہولن ٹولہ اور دائرہ شاہ اجمل کی محفلوں نے اس مشغلے کو مہمیز کیا۔1972ء میں ہی عربی یونیورسٹی مبارک پور کے افتتاحی جلسے میں ہزاروں علماء کی موجودگی میں حافظ ملت حضرت مولانا عبد العزیزؒ صاحب کی دعائیں حاصل ہوئی اسی جلسے میں حضرت مولانا ارشد القادری اور دوسرے اہم علماءِ کرام نے بھی میری حوصلہ افزائی کی۔ مولانا قمرالزماں صاحب، مولانا بدر القادری صاحب اور مولانا شمیم گوہر صاحب سے بھی نیاز حاصل ہوا۔اس زمانے میں نعتیہ مشاعروں اور دینی محفلوں میں پدم شری بیکلؔ اتساہی اور اجمل سلطانپوری کی طوطی بولتی تھی۔

عنبرؔ بہرائچی 07؍مئی2021ء کو لکھنؤ میں اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے۔

پیشکش : شمیم ریاض

معروف شاعر عنبرؔ بہرائچی صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت.....یہ سچ ہے رنگ بدلتا تھا وہ ہر اک لمحہ


مگر وہی تو بہت کامیاب چہرا تھا


----------


میرا کرب مری تنہائی کی زینت


میں چہروں کے جنگل کا سناٹا ہوں


----------


جانے کیا سوچ کے پھر ان کو رہائی دے دی


ہم نے اب کے بھی پرندوں کو تہہ دام کیا


----------


باہر سارے میداں جیت چکا تھا وہ


گھر لوٹا تو پل بھر میں ہی ٹوٹا تھا


----------


ہر اک ندی سے کڑی پیاس لے کے وہ گزرا


یہ اور بات کہ وہ خود بھی ایک دریا تھا


----------


اک شفاف طبیعت والا صحرائی


شہر میں رہ کر کس درجہ چالاک ہوا


----------


چہروں پہ زر پوش اندھیرے پھیلے ہیں


اب جینے کے ڈھنگ بڑے ہی مہنگے ہیں


----------


جان دینے کا ہنر ہر شخص کو آتا نہیں


سوہنی کے ہاتھ میں کچا گھڑا تھا دیکھتے


----------


آم کے پیڑوں کے سارے پھل سنہرے ہو گئے


اس برس بھی راستہ کیوں رو رہا تھا دیکھتے


----------


ہر پھول پہ اس شخص کو پتھر تھے چلانے


اشکوں سے ہر اک برگ کو بھرنا تھا ہمیں بھی


----------


ہم پی بھی گئے اور سلامت بھی ہیں عنبرؔ


پانی کی ہر اک بوند میں ہیرے کی کنی تھی


----------


جانے کیا برسا تھا رات چراغوں سے


بھور سمے سورج بھی پانی پانی ہے


----------


ایک سناٹا بچھا ہے اس جہاں میں ہر طرف


آسماں در آسماں در آسماں کیوں رت جگے ہیں


----------


ایک ساحر کبھی گزرا تھا ادھر سے عنبرؔ


جائے حیرت کہ سبھی اس کے اثر میں ہیں ابھی


----------


گئے تھے ہم بھی بحر کی تہوں میں جھومتے ہوئے


ہر ایک سیپ کے لبوں میں صرف ریگزار تھا


----------


سوپ کے دانے کبوتر چک رہا تھا اور وہ


صحن کو مہکا رہی تھی سنتیں پڑھتے ہوئے


----------


روز ہم جلتی ہوئی ریت پہ چلتے ہی نہ تھے


ہم نے سائے میں کجھوروں کے بھی آرام کیا


----------


اس نے ہرذرے کو طلسم آباد کیا


ہاتھ ہمارے لگی فقط حیرانی ہے


عنبرؔ بہرائچی


✍️ انتخاب : شمیم ریاض


نام محمد_ادریس اور تخلص عنبرؔ تھا۔


مگر وہی تو بہت کامیاب چہرا تھا


----------


میرا کرب مری تنہائی کی زینت


میں چہروں کے جنگل کا سناٹا ہوں


----------


----------


باہر سارے میداں جیت چکا تھا وہ


گھر لوٹا تو پل بھر میں ہی ٹوٹا تھا


----------


----------


اک شفاف طبیعت والا صحرائی


شہر میں رہ کر کس درجہ چالاک ہوا


----------


چہروں پہ زر پوش اندھیرے پھیلے ہیں


اب جینے کے ڈھنگ بڑے ہی مہنگے ہیں


----------


جان دینے کا ہنر ہر شخص کو آتا نہیں


سوہنی کے ہاتھ میں کچا گھڑا تھا دیکھتے


----------


آم کے پیڑوں کے سارے پھل سنہرے ہو گئے


اس برس بھی راستہ کیوں رو رہا تھا دیکھتے


----------


ہر پھول پہ اس شخص کو پتھر تھے چلانے


----------


ہم پی بھی گئے اور سلامت بھی ہیں عنبرؔ


----------


جانے کیا برسا تھا رات چراغوں سے


بھور سمے سورج بھی پانی پانی ہے


----------


ایک سناٹا بچھا ہے اس جہاں میں ہر طرف


آسماں در آسماں در آسماں کیوں رت جگے ہیں


----------


ایک ساحر کبھی گزرا تھا ادھر سے عنبرؔ


----------


ہر ایک سیپ کے لبوں میں صرف ریگزار تھا


----------


سوپ کے دانے کبوتر چک رہا تھا اور وہ


صحن کو مہکا رہی تھی سنتیں پڑھتے ہوئے


----------


ہم نے سائے میں کجھوروں کے بھی آرام کیا


----------


اس نے ہرذرے کو طلسم آباد کیا


ہاتھ ہمارے لگی فقط حیرانی ہے

مدھیہ پردیش : اسلام میں مردوخواتین کو یکساں حقوق ، مساجد میں خواتین کی امامت کو یقینی بنایا جائے

مدھیہ پردیش : اسلام میں مردوخواتین کو یکساں حقوق ، مساجد میں خواتین کی امامت کو یقینی بنایا جائےبھوپال: اپنے متنازعہ بیانوں سے سرخیوں میں رہنے والی قومی اقلیتی کمیشن کی رکن سیدہ شہزادی نے مساجد میں خواتین کی امامت کے ساتھ مندروں میں بھی خواتین کے ذریعہ پوجا کرائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ سیدہ شہزادی کا کہنا ہے کہ اسلام میں مرد و خواتین کو یکساں حقوق دیئے گئے ہیں، پھر امامت کے معاملے میں مرد کی ہی اجارہ داری کیوں؟ سیدہ شہزادی کا کہنا ہے کہ ہمیں ہماری سوچ کو بدلنا ہے اور سو سائٹی کو اسے قبول کرنا ہے۔ وہیں مسلم سماجی کارکنان نے سید شہزادی کو اسلام کی تاریخی اور شریعت کو پڑھنے کا مشورہ دیا ہے۔ مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ شہزادی بے تکے بیان دے کر سرخیوں میں رہنا چاہتی ہیں۔ واضح رہے کہ قومی اقلیتی کمیشن کی رکن سیدہ شہزادی دو روزہ دورے پر مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال آئی ہوئی ہیں۔ انہوں نے اقلیتی طبقے کی خواتین کے مسائل کو لے کر بھوپال کلکٹریٹ میں میٹنگ کا انعقاد بھی کیا اور جب ان سے خواتین کی قیادت کی بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ خواتین میں صلاحیت کی کمی نہیں ہے۔ خواتین بہت سے مقامات پر امامت بھی کر رہی ہیں اور قاضی بھی ہیں، لیکن بیشتر مقامات پر ابھی ان کی قیادت کو قبول نہیں کیا جا رہا ہے۔ ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہے اور سوسائٹی کو قبول کرنا ہے۔ جب اسلام میں مرد و عورت کو یکساں حقوق دیئے گئے ہیں تو امامت صرف مرد ہی کیوں کرے عورت کیوں نہیں۔
 

قومی اقلیتی کمیشن کی رکن سیدہ شہزادی دو روزہ دورے پر مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال آئی ہوئی ہیں۔

وہیں سماجی کارکن نور جہاں نوری کا کہنا ہے کہ سیدہ شہزادی بے تکے بیان سے مسلم سماج میں بدلاؤ نہیں لانا چاہتی ہیں بلکہ اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنا چاہتی ہیں ۔ انہیں یہ نہیں معلوم ہے کہ جس شہر میں وہ بیان دے رہے ہیں اس شہر پر صدی سے زیادہ عرصہ تک خواتین نے حکومت کی ہے ۔یہ خواتین ریاست کو سنبھالنے کے ساتھ مذہبی امور میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔

بھوپال کی جتنی تاریخی مساجد ہیں اس کی تعمیر مرد نوابوں کے ذریعہ نہیں بلکہ بیگمات کے ذریعہ کی گئی ہے۔ آج بھی بھوپال میں ایسے بہت سے مقامات ہیں جہاں عالمہ خواتین کی امامت کے فرائض انجام دیتی ہیں۔ شہزادی کو اگر مسلم قوم کی اتنی فکر ہے تو وہ کھرگون میں جن ماؤں کے سر سے ڈوپٹہ چھینا گیا ہے ،وہ مائیں جن کے گھروں کو منہدم کردیا گیا ہے ،وہ مائیں جن کے اولادوں کے بغیر کسی جرم کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے انہیں جیل سے باہر لانے کی کام کریں۔ شہزادی میں اتنی ہمت تو ہے نہیں کہ وہ کھرگون کا دورہ کر سکیں اور وہاں کے تشدد متاثرین کی حقیقی رپورٹ مرکزی اور صوبائی حکومت کو پیش کر سکیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...