Powered By Blogger

منگل, اگست 22, 2023

مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی ؒ __✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی ؒ __
Urduduniyanews72 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
مدرسہ مصباح العلوم مکیا، مدھوبنی کے بانی مہتمم، جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالا ساتھ سیتامڑھی کے سابق صدر المدرسین، الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنہواں کے نامور فیض یافتہ، مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور کے مشہور فاضل، مدرسہ اسلامیہ شہر فتح پور کوٹ کے سابق مدرس، بڑے عالم دین البیلے خطیب، متواضع اور منکسرا المزاج حضرت مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی بن محمد صادق (م 1991) بن امام علی بن شر ف الدین بن احمد بن عبد اللہ کا 15محرم الحرام 1445ھ مطابق 3اگست 2023بروز جمعرات کوئی تین بجے سہ پہر آئی جی ایم ایس پٹنہ میں انتقال ہو گیا، وہ پیٹ کے درد آنتوں کے الجھنے کے مرض میں مبتلا تھے، علاج آپریشن تھا، لیکن پیرانہ سالی اور ضعف کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوسکا اور مولانانے رخت سفر باندھ لیا۔ جنازہ 4اگست کو سوا تین بجے سہ پہر ان کے صاحب زادہ مولانا محمد عمران ندوی نے پڑھائی، جنازہ سے قبل مولانا محمد شبلی قاسمی قائم مقام ناظم امارت شرعیہ نے مختصر خطاب کیا، مولانا محمد اظہار الحق مظاہری ناظم الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنہواں، مولانا محمد انوار اللہ فلک قاسمی بانی ادارہ سبیل الشرعیہ آوا پور، شاہ پور سیتامڑھی، حضرت مولانا عبد المنان صاحب بانی مدرسہ امدادیہ اشرفیہ راجو پٹی جیسے اکابر علماء، عوام جم غفیر کے ساتھ جنازہ میں شریک تھے اس کے قبل پٹنہ سے بذریعہ امبولینس ان کا جنازہ مکیا منتقل کیا گیا، بعد نماز جمعہ عام دیدار کے لیے غسل وکفن کے بعد مدرسہ مصباح العلوم کے صحن مین جنازہ رکھا گیا، جس کی ترقی کے لیے وہ پوری زندگی کوشاں رہے، تدفین مدرسہ سے متصل جانب جنوب آبائی قبرستان میں ہوئی، پس ماندگان میں اہلیہ کے علاوہ پانچ لڑکے انور، حافظ انظر، مولانا سلمان، مولانا محمد عمران ندوی اور شاعر حافظ بلال حسامی اور تین لڑکیاں ہیں۔
مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی کی و لادت 5مارچ1950کو موضع مکیا، ڈاکخانہ بشن پور موجودہ ضلع مدھوبنی میں ہوئی، مولانا کی نانی ہال گاؤں میں ہی تھی اور ان کے نانا کا نام محمد علیم تھا، ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد 1964میں الجامعۃ العربیہ اشر ف العلوم کنہواں میں داخل ہوئے، ابتدائی درجات سے عربی چہارم تک کی تعلیم یہاں پائی،1970 تک کازمانہ یہیں گذرا، مولانا نے اس وقت کے نامور اساتذہ حضرت مولانا محمدطیب صاحب ناظم مدرسہ مولانا محمد طیب صاحب کماوری، مولانا زبیر احمد رحہم اللہ سے کسب فیض کیا اور اپنے ساتھیوں میں ممتاز رہے،1971میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کا رخ کیا، حضرت مولانا محمد زکریا ؒ شیخ الحدیث اور مولانا محمد یونس صاحب ؒ سے زیادہ تعلق رہا اور بقدر ظرف ان اکابر کے علوم، صلاح وتقویٰ سے حصہ پایا اور سند فراغ 1974میں وہیں سے حاصل کیا۔ فراغت کے بعد 1975میں محمد صدیق بن نوازش کریم کی دختر نیک اختر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے، جناب محمد صدیق صاحب حسن پور بر ہروا کے رہنے والے تھے،ا س لیے مولانا کی سسرال حسن پور برہر وا قرار پائی۔
تدریسی زندگی کا آغاز مدرسہ اسلامیہ شہر فتح پور کورٹ یوپی سے کیا، چودہ سال تک یہاں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے، جب حضرت مولانا عبد الحنان صاحب ؒ نے جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالا ساتھ قائم کیا تو آپ کو فتح پور سے تدریس کے لیے بالاساتھ بلا لیا، چنانچہ تین سال تک آپ یہاں خدمت انجام دینے کے بعد کویت میں ملازمت اختیار کرلی، پڑھنے لکھنے کا ذوق رکھنے ولا آدمی زیادہ دن دوسرے کاموں میں چل نہیں پاتا، چنانچہ دو سال کے بعد آپ فرصت پر آئے تو دوبارہ ادھر کا رخ نہیں کیا، حضرت مولانا عبد الحنان صاحب کا تقاضہ ہوا تو اب وہاں کے صدر مدرس بن کر آئے اور کئی سال یہاں گذارے، اس زمانہ میں مولاناکی ٹوپی مولانا عبد الحنان صاحب ؒ کی طرح ہی کھڑی ہوا کرتی تھی، اور جب دونوں پہلی صف میں جماعت کے لیے آزو بازو بیٹھے ہوتے تو لگتا کہ دو خوبصورت میناران عالی قدر لوگوں کے سروں پر رکھا ہوا ہے، کچھ دن بعد مولانا نے محسوس کیا کہ ان کے پرواز میں کمی آرہی ہے تو انہوں نے جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ کو پھر سے خیر باد کہہ دیا،  آبائی وطن مکیا میں پہلے سے جاری مکتب کو مدرسہ کی شکل دیدی اور اس کو پروان چڑھانے میں پوری زندگی لگا دی، مولانا محمد عمران ندوی کی اس لائن سے تربیت کرتے رہے، توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے والد کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکیں گے۔
مدرسہ کے ساتھ آپ کا دوسرا بڑا میدان عمل اصلاح معاشرہ کی غرض سے میدان تقریر وخطابت تھا، اس کام میں وہ محبوب، مقبول اور”مطلوب“ تھے، عوامی زبان، عوامی اصطلاحات، عوامی الفاظ، عوامی لب ولہجہ، عوامی محاورے، عوامی ضرب الامثال، لطائف اور لوگ گیتوں پر انہیں عبور تھا،انہیں کمالات کے وجہ سے میں انہیں البیلا خطیب کہا کرتا تھا، درمیان میں نعتیہ اشعار اور حمد وغیرہ بھی اپنے مخصوص لب ولہجہ میں پڑھ کر سناتے، ہر دو چار جملے کو دھیرے اور پھر زور سے بیان کرتے تو مجمع پھر سے ہوشیار اور بیدار ہوجاتا، وہ کسی بھی جلسے میں اپنی تقریر پہلے کروانے کی تجویز نہیں رکھتے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ہمارا نمبر نواں وکٹ گرنے کے بعد ہی آئے گا اورمجھے فجر تک ناٹ آؤٹ ہی رہنا ہے، ظاہر ہے آخر رات میں مجمع کم ہوجاتا تھا لیکن ان کے لب ولہجے اور تقریر پر اس کا اثر نہیں پڑتا تھا۔جو سامعین بچ جاتے وہی ان کے لیے حتمی ہوتے اور آخر وقت تک بچے کُھچے سامعین ان کا ساتھ دیتے رہتے،بعض لوگ ان کی تقریر شروع ہوگئی اسی وقت جلسہ میں حاضرہوتے۔ خطابت کی مشغولیت نے ان کے علمی رسوخ کو لوگوں کی نگاہ سے اوجھل کر دیا۔
 ان کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ایک بار ایک جلسہ میں ہم دونوں مدعو تھے، مولانا اتفاق سے تشریف نہیں لا سکے، اب بھی میرے پاس آکر بیٹھتاکہتا کہ مولانا مطلوب صاحب نہیں آئے، میں نے کہا کہ جو آگیا اس کی قدر کرنا سیکھو، کہنے لگے کہ مولانا کی بات ہی کچھ اور ہے، جب ان کی پریشانی بڑھی تو میں نے کہا کہ چلو میں آج ”مطلوب الرحمن“ بننے کی کوشش کرتا ہوں، پھر میں نے ان کے لب ولہجہ میں تین گھنٹے تقریر کی تو مجمع کو کچھ اطمینان ہوا، میں نے اپنی تقریر مولانا احمد رضا خان صاحب کی مشہور نعت کے آخری شعرختم کیا۔
 بس خانہ خام نوائے رضا نہ یہ طرز  مِری نہ یہ رنگ مِرا
ارشاد احباء ناطق تھا نا چار اس راہ پر پڑا جانا
میں شروع سے رت جگے جلسوں کا مخالف رہا ہوں، ایک جلسہ میں میں نے اُس کے خلاف تقریر کر دی، میرے بعد مولانا کا نمبر تھا، میری تقریر کے اثر کو باقی رکھنے کے لیے انہوں نے اس جلسہ میں تقریر نہیں فرمائی، دعا کرکے جلسہ ختم کر دیا، وہ چاہتے تو مختلف دلائل سے میری تقریر کا رد کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، مولانا سے آخری ملاقات میری 15مارچ 2023کو مدرسہ عزیزیہ برار سیتامڑھی کے جلسہ میں ہوئی تھی، حسب سابق شفقت ومحبت سے پیش آئے،  مجھے عجلت تھی، بارہ بجے سے پہلے ہی تقریر کرکے میں چلتا بنا، اس سفر میں میرے ساتھ عزیزم محمد ظفر الہدیٰ قاسمی اور ماسٹر عبد الرحیم صاحب بھی تھے۔ اب ایسی شفقت ومحبت اور خورد نوازی کرنے والے کم رہ گیے ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مولانا کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور خطابت کے میدان میں ان کا نعم البدل دے۔ آمین۔

نھواں نعتیہ مشاعرہ واصلاح معاشرہ زوم ایپ پر تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کے بینر تلے

نھواں نعتیہ مشاعرہ واصلاح معاشرہ زوم ایپ پر تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کے بینر تلے
اردودنیانیوز۷۲ 
تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے گزشتہ (21/08/2023) شب ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا, جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں
حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری(سکریٹری تحفظ شریعت) 
زیر سرپرستی حضرت مولانا فیاضاحمدراہی/
زیر قیادت محبوب عالم  وقاری مطیع اللہ رحمانی 
زیر حمایت  قاری منظور صاحب نعمانی و عظمت اللہ نور فیضی 
نظامت کی اہم ترین ذمہ داری حضرت مولانا اسلم پروانہ صاحب  جناب عبدالحق صاحب بحسن وخوبی انجام دیا, مجلس کا آغاز حافظ وقاری کلیم شاہد صاحب  دھنبادی 
نے تلاوت کلام اللہ شریف سے ہوا, جبکہ ابتدائ
نعت پاک شاعر اسلام ح
خطیب حیدرصاحب  ارریہ صاحب کے مسحور کن آواز نے سامعین کے دل میں جگہ بنالی--
خطیب عصر حضرت مولانا عبد السلام عادل صاحب ندوی ارریہ
حضرت مولانا ومفتی مجاھد الاسلام صاحب قاسمی قاضی شریعت  تحفظ شریعت 
جناب حضرت مولانا مفتی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی بھاگل پوری
شعراء کرام 
شاعر سیمانچل شمس الزماں صاحب کیشن گنجوی' جناب فہیم دھنبادی صاحب'راشیدالقرصاحب ساجد رحمانی جناب  عبدالحق الرحمٰن صاحب قاسمی شاھد سنگاپوری خورشید قمر صاحب صدام احمد معروفی صاحب شاہنواز دل صاحب 
 شہاب صاحب دربھنگہوی مولانا اظہر راہی صاحب پورنوی'شاعر جھارکھنڈ دانش خوشحال صاحب گڈاوی 
جناب افروز انجم صاحب اڑیسہ'حافظ سرور صاحب لکھنوی' مولانا اخلاق صاحب ندوی'حافظ عابد حسین صاحب دہلوی'حافظ ریحان صاحب کٹیہاروی' قاری اعجاز ضیاء صاحب سیتا مڑھی' قاری انوار الحق صاحب مقیم حال بنگلور 
حیات اللہ صاحب کے نام قابل ذکر ہے-- ہم جملہ شرکائے پروگرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت دے کر اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر کی ہمت افزائ فرمائ اور آئندہ بھی کسی طرح کے پروگرام میں شرکت کرکے حوصلہ افزائ فرمائیں گے یہی امید ہے -- ساتھ ہی ہماری آواز جہاں تک پہنچے لبیک کہیں گے-- 
واضح ہو کہ 9 بجکر ۱۵منٹ شب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دیر رات 11 :۴۵بجے صدر مجلس کی دعاء پر اور شکریہ کے ساتھ اختتام ہوا
اس پروگرام کے انتظام قاری محبوب عالم رحمانی تھے

گیان واپی مسجد معاملہ __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

گیان واپی مسجد معاملہ __
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
بابری مسجد کے بعد فرقہ پرست طاقتوں کی ساری توجہ ان دنون گیان واپی مسجد کی طرف ہے، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی نے ایک بیان میں گیان واپی مسجد معاملہ کو مسجد کہنے سے بات بگڑنے کی بات کیا کہہ دی کہ میڈیا نے اسے صرف گیان واپی بولنا اور لکھنا شروع کر دیا، حد یہ ہے کہ ہمارے کئی اردو اخبار والوں نے بھی مسجد کا لفظ حذف کر دیا، سوشل میڈیا پر صرف گیان واپی گشت کر رہا ہے، حالاں کہ وہ مسجد ہے اور قیامت تک مسجد رہے گی۔
 اس مسئلہ کو گرمانے کی پوری کوشش فرقہ پرست طاقتیں کر رہی ہیں، پہلے مسجد کے فوارے کے لیے استعمال لوہے کے ایک نلکے کو شیو لنگ کہہ کر بات بڑھائی گئی، مسجد کے وضو کے لیے حوض پر اس بہانے پابندی لگائی گئی، 21جولائی کو وارانسی کی ضلعی عدالت نے گیان واپی مسجد کمپلکس کو اے ایس آئی سروے کا حکم دیدیا، مسلم فریق الٰہ آباد ہائی کورٹ پہونچا، عدالت نے اس موضوع پر سماعت مکمل کرکے 27جولائی کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا، بعد میں ورانسی ضلع جج کے فیصلے کواس نے باقی رکھا اور مسلمانوں کی عرضی کو خارج کر دیا، اے ایس آئی کو بھی عجلت تھی، اس لیے اس نے 4اگست سے ہی سروے کا کام شروع کر دیا، مسلم فریق نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، چیف جسٹس ڈی وائی چندر چور نے اس پر غور کرنے اور سماعت کی تاریخ مقرر کی اورالٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو اس شرط کے ساتھ بر قرار رکھا کہ موجودہ عمارت کو سروے سے کسی قسم کا نقصان نہیں پہونچنا چاہیے۔ اے ایس آئی نے سروے کا کام سپریم کورٹ سے عرضی خارج ہونے سے پہلے ہی شروع کر دیا تھا، جو مسلسل جاری ہے، اے ایس آئی نے ابھی کوئی رپورٹ جاری نہیں کی ہے، لیکن فریق مخالف روز نئی نئی افواہیں گڑھ رہا ہے کہ ستونوں پریہ ملا،تہہ خانے میں یہ ملا، مسلم فریق نے وارانسی ضلع کوٹ میں ایک عرضی یہ بھی لگادی تھی کہ سروے کے کام سے میڈیا کو دور کھا جائے، اور افواہوں پر روک لگائی جائے،وارانسی ضلعی عدالت نے اس پر اپنا فیصلہ صادر کر دیا ہے اور اے ایس آئی افسران کو ہدایت دی ہے کہ سروے کی بات کسی کو نہیں بتائیں، البتہ سروے پر روک کی دوسری عرضی پر ابھی فیصلہ آنا باقی ہے۔
 یہ در اصل عدالت اور رائے عامہ کو متاثر کرنے کی گھٹیا کوشش ہے، جو لوگ فوارے کو شو لنگ کہہ سکتے ہیں، ان کے لیے کچھ بھی نکالنے کا دعویٰ کرنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے، بلکہ کیا بعید کہ خود ڈال کر رپورٹ میں لکھوادیں کہ یہ یہ چیز ملی اور عدالت اسے ثبوت کے طورپر مان لے، اس درمیان الٰہ آباد ہائی کورٹ نے گیان واپی مسجد میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کی عرضی کو خارج کر دیا ہے، یہ عرضی راکھی سنگھ نے دائر کی تھی، عرضی کی سماعت چیف جسٹس پرتینیکر دیواکر اور جسٹس آشوتوش سریواستو نے کی اور اسے نا قابل سماعت قرار دیا، فرقہ پرست طاقتیں اس مسئلہ کو اس قدر گرما نا چاہتی ہیں کہ ہندوؤں کے جذبات بھڑکیں اور ہندووٹوں کو متحد کرنے کے لیے اسے حربہ کے طور پرآئندہ انتخاب میں استعمال کیا جا سکے۔
لیکن جس طرح اسے موضوع بحث بنایا جا رہا ہے اور وزیر اعلیٰ اتر پردیش گیان واپی کے لیے مسجد لفظ کے استعمال سے گریز کرنے کا مشورہ دے رہے ہں،اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حجت تمام ہوجائے گی اور ملک کو یہ باور کرایا جائے گا کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد ہی گیان واپی مسجد کے بارے میں فیصلہ سنایا گیا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...