آرٹیکل 341 میں مذہبی امتیاز کیوں؟ مستقیم صدیقی
نواده محمد سلطان اختر
آئین آرٹیکل نمبر 341 میں صدر کو اختیار دیتا ہے کہ مختلف ذاتوں اور قبائل کے نام ایک فہرست میں شامل کرے۔ 1950 میں صدر نے ایک آرڈیننس کے ذریعے ایک شیڈول جاری کیا صرف اس شیڈول میں درج ذاتوں اور قبائل کو شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائب کہا گیا ہے۔
صدر کے آرڈیننس کے پیرا (3) میں لکھا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جو ہندو مذہب سے تعلق نہیں رکھتا وہ درج فہرست ذات اور فہرست قبائل کا مقام حاصل نہیں کر سکتا۔ 1956 میں اس آرڈیننس میں ترمیم کرکے سکھوں کو شامل کیا گیا اور 1990 میں بودھ مذہب والوں کو پیرا (3) میں شامل کر دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی شخص ہندو سکھ یا بدھ مذہب سے تعلق نہیں رکھتا اسے درج فہرست ذات کے زمرے میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح عیسائی ، مسلمان ، جین اور پارسی اس زمرے سے باہر ہیں۔ اس سے یہ بات صاف طور پر واضح ہے کہ اس حکم کے تحت درج فہرست ذاتوں کے لئے ریزرویشن صرف ہندو ، سکھ یا بودھ، دلتوں کے لئے ہی دستیاب ہے ، عیسائی یا مسلم دلت یا کسی دوسرے مذہب کے پسماندہ کے لئے نہیں ہے،
آرٹیکل 341 آئین کے آرٹیکل نمبر 15 پر ایک بد نما داغ ہے کہ ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آئین مذہب کے نام پر تعصب رکھتا ، آئیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کیسے ہوا ہے؟
نہرو حکومت کی طرف سے 10 اگست 1950 کو ایک آرڈیننس لا کر آئین میں کی گئی تبدیلیوں کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی برادری جو اپنے آپ کو پاسمانده کہتی ہے مکمل طور پر ریزرویشن سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ پاسمانده ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ سماجی ، معاشی اور سیاسی طور پر پسماندہ نہیں ہیں۔ حکومتیں آتی ہیں ، حکومتیں چلی جاتی ہیں ، سیاست پسماندہ کے نام پر کی جاتی ہے ، اقتدار والے پسماندہ کے نام پر یا اپوزیشن کے ڈر سے ایک یا دو سیٹیں دےدیتی ہیں، مالائی دار و لچھے دار باتوں کے ساتھ زندہ آباد کا نعرہ ہوتا رہتا ہے لیکن پسمانده کے مسائل کا کوئی حل نہیں نکالا جاتا، یہ سچ ہے کہ بہت سے مسائل ہیں اور صرف سیاسی جماعتیں ہی ہر مسئلے کو حل نہیں کر سکتیں ، لیکن میری نگاہ میں سب سے بڑا مسئلہ پسمانده کی شراکت کا ہے۔حصّہ داری کا ہے، جب ہم انصاف کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات بھی کرنی ہوگی کہ سیاست میں تعلیم کے میدان میں ، روزگار کے شعبے میں پسمانده سیکشن کی کتنی شراکت ہے؟ ہم پسمانده کے تمام مسائل کو دور نہیں کر سکتے لیکن ہم ایسے مسئلے کو دور کرنے کے لیے پہل کر سکتے ہیں جو سیاسی ہے ، جو غیر دستوری ہے ، جو آئین پر بد نُما داغ ہے ، لیکن ہم ایسا نہیں کرتے ، کیونکہ ہمیں اُس اِس،مندر مسجدِ کے نام پر گمراہ کر دیاجاتاہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر کوئی کھل کر بحث نہیں کرتا ، حالانکہ اس پر صرف بحث کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس مدے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی ضرورت ہے ، آرٹیکل 341 میں پابندی کو ہٹانے کی ضرورت ہے۔ آئین میں مذہب کے نام پر امتیازی سلوک کیوں ہے؟
10 اگست 1950 کو اس وقت کی نہرو حکومت نے ایک غیر آئینی آرڈیننس کے ذریعے مذہبی پابندیاں عائد کیں اور ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب کے پسماندہ طبقات کو درج فہرست ذاتوں سے خارج کردیا تھا۔ لیکن سکھوں 1956 میں اور بودھ مذہب والوں 1990 اس زمرے میں دوبارہ شامل کر لیا گیا، دلت، مسلمان اور عیسائی آج بھی درج فہرست ذات کے ریزرویشن سے باہر ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب 1956 میں سکھوں کو دوبارہ اس زمرے میں شامل کیا گیا اور 1990 میں بودھ مذہب والوں کو دوبارہ اس زمرے میں شامل کیا گیا ، دونوں وقتوں میں مرکز میں حکومت برسر اقتدار تھیں وہ حکومت مسلم اکثریتی ووٹوں سے اقتدار میں آئی تھی،اُن پر پوری طرح سے انصاف پسند لوگوں نے دوبارہ دباؤ کیوں نہیں بنایا؟ اگر پسمانده سماج سے اُبھرے ہوئے کچھ لیڈروں نے اس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی تو پھر عام انصاف عوام اس پر خاموش کیوں رہے؟ بہت سے سوالات اٹھیں گے لیکن ہمیں اس مسئلے کو سوال سے زیادہ بحث کرنے کی ضرورت ہے ، ہمیں اسے ایک عوامی بحث کا مسئلہ بنانا ہوگا ، ہمیں اس بحث میں معاشرے کے ہر طبقے کا تعاون لینا ہوگا ، اس مسئلے کو ذات اور مذہب سے اوپر اٹھ کر کرناہوگا اِس پر حقوق و اختیار کا مدا بنانا پڑے گا۔ اس پر کھیت، کھلیان ، گلی سے لے کر علاقے تک ہر جگہ بحث کرنا ہوگا، اگر ہم اس بحث کو نظر انداز کر دیں تو یہ بہت بڑی نا انصافی ہوگی ، جو بحث کو سنجیدگی سے نہیں لیتا ، اسے آئین میں امتیازی سلوک کا علم نہیں ہے۔
درج فہرست ذاتوں کے لئے ریزرویشن 1936 میں اس وقت کی برطانوی حکومت میں دیا تھا۔ کسی کا مذہبی پابندی نہیں تھی۔ اس طرح تمام مذاہب کے دلتوں کو درج فہرست ذاتوں کا ریزرویشن مل رہا تھا ، لیکن نہرو حکومت نے 10 اگست 1950 کو مذہبی پابندیاں عائد کیں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اس پر مسلط کر دیا۔ ابھی تک عیسائی، مسلمان ، جین اور پارسی اس زمرے سے باہر ہیں۔
10 اگست 2021 سے اس پر مسلسل پروگرام منعقد کیئے جائیں گے ، بہار ، جھارکھنڈ اور بنگال میں اس پر بحث جاری کی جائے۔ ریزرویشن صرف نوکریوں میں نہیں ہوتا ، ریزرویشن عوامی نمائندوں کے انتخاب میں بھی ہے۔ یہ ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر بحث شروع کرے اور اسے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ اور اسمیں ہر کسی کا جیسا بھی ہو تعاون کرے