Powered By Blogger

جمعرات, اکتوبر 05, 2023

مفتی ثنا الہدی قاسمی کی کتاب"آفتاب جو ۼروب ہو گیا " کا اجرا  8 اکتوبر کو
اردودنیانیوز۷۲ 
مولانا شمشاد رحمانی صدارت کریں گے, مولانا مظاہر عالم قمر  مہمان خصوصی ہوں گے
پٹنہ (پریس ریلیز) مفتی محمد ثنا الہدی قاسمی
( نائب ناظم امارت شرعیہ, صدر اردو میڈیا فورم بہار,کاروان ادب, حاجی پور,  نائب  صدر اردو کارواں, مدیر اعلی ہفت روزہ نقیب,پھلواری شریف,پٹنہ )کی کتاب" آفتاب جو ۼروب ہو گیا" کا اجرا 8اکتوبر2023،بروزاتواربوقت:.10بجے دن بہار اردو اکادمی  کے سمینار ہال میں نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی, بکساواں,ویشالی کے زیر اہتمام عمل میں آئےگا۔۔ یہ اطلاع دیتے ہوئے لائبریری کے سکریٹری مولانا نظرا لہدی قاسمی نے بتایا کہ تقریب رسم اجرا کی صدارت  مولانا شمشاد رحمانی, نائب امیر شریعت, امارت شرعیہ ,بہار اور جھارکھنڈ فرمائیں گے اور نظامت کا فریضہ ڈاکٹر ریحان ۼنی,سینئر صحافی اور قائم مقام صدر اردو ایکشن کمیٹی انجام دیں گے ۔ تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مولانا مظاہرعالم قمر,سابق صدر مدرس, مدرسہ احمدیہ,ابا بکر پور ویشالی شرکت کریں گے ۔ اس موقع پر شفیع مشہدی,سابق چییرمین ,اردو مشاورتی کمیٹی,بہار,امتیاز احمد کریمی, رکن بہار پبلک سروس کمیشن,پروفیسر  محمد توقیر عالم,سابق پرو وائس چانسلر,مولانا مظہرالحق عربی فارسی یونی ورسیٹی , ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی,صدر شعبہ اردو ,پٽنہ یونیورسیٹی اور ارشد فیروز,چئرمین گورنمنٹ اردو لائبریری  اور انوارالحسن وسطوی, جنرل سکریٹری, کاروان ادب حاجی پور مہمانان ذی وقار کی حیثیت سے موجود رہیں گے۔اس موقع پر۔ راشد احمد,سینئر صحافی, قومی تنظیم, ڈاکٹر اسلم جاوداں,ناظم اعلی اردو کانسل ہند, ڈاکٹر عارف حسن وسطوی اور قمر اعظم صدیقی کتاب پر تبصرہ پیش کریں گے۔ مولانا نظر الہدی قاسمی نے اہل ذوق حضرات سے تقریب میں شرکت کی گذارش کی ہے۔

ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی __
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 مشہور ماہر تعلیم، نامور ہومیو پیتھ معالج ،بانی جامعہ نور الاسلام نسواں مہپت مﺅ لکھنؤ ، دینی تعلیمی کونسل کے سابق جنرل سکریٹری ، ہفتہ وار ندائے ملت کے سابق مدیر ، مسلم مجلس اور مسلم مجلس مشاورت کے سابق رکن ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی نے 26 اگست 2003ءمطابق 27 جمادی الثانیہ 1424ھ کو تہجد کے وقت صبح صادق سے کوئی آدھ گھنٹہ قبل بہتر سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا، پس ماندگان میں اہلیہ چار صاحب زادے ، ڈاکٹر محمد شعیب قریشی، مولوی محمد صہیب قریشی، مولوی محمد جنید قریشی اور مولوی محمد عبید قریشی اور صاحب زادیوں کو چھوڑا۔ڈاکٹر صاحب تقریباً دس مہینے سے صاحب فراش تھے، گردہ کی تکلیف تھی، جس کے وہ خود بہترین معالج سمجھے جاتے تھے۔
 ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی بن ڈاکٹر کرامت حسین کا آبائی وطن پرتاب گڈھ اتر پردیش تھا،قریشی صاحب وہیں پلے بڑھے، ہائی اسکول، انٹر تک کی تعلیم وہیں پائی، پرتاب گڈھ میں وہ دوران تعلیم جس شخصیت سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ ان کے استاذ اور مربی مولوی عبید الرحمن صاحب جو گورمنٹ ہائی اسکول پرتاب گڈھ میں اردو وعربی کے استاذ تھے، انہیں کی تحریک پر ڈاکٹر صاحب نے نوجوانوں کی تنظیم اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنائی اور اپنے احباب کے ساتھ گھر گھر سروے کرکے دار المطالعہ اور اسکول قائم کیا، اور اپنی صلاحیت دینی، تعلیمی اور تعمیری کاموں میں لگانے کی تربیت یہیں پائی، والد ہومیو پیتھ کے کامیاب معالج تھے، انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو علی گڈھ سے بی ایس سی کرنے کے بعدباقاعدہ ہومیو پیتھک کی تعلیم دلائی ، پہلے ڈھاکہ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا ، وہاں کے حالات نا ساز گار نظر آئے تو واپس آکر لکھنو ہومیو پیتھک میڈیکل کالج میں داخلہ لے کر فراغت حاصل کی، اور انہوں نے اس سلسلے میں لندن تک کا سفر کیا اور وہاں سے بھی پوسٹ گریجویٹ کی سند حاصل کیا، فراغت کے بعد لکھنؤ  کے ہومیو پیتھک کالج سے بحیثیت استاذ منسلک ہوئے اور سترہ سال کے بعد وہاں سے مستعفی ہوئے، ڈاکٹر عبد العلی صاحب حسنی کے انتقال کے بعد وہ حسنی فارمیسی امین آباد میں مطب کرنے لگے، اللہ رب ا لعزت نے دست شفا عطا فرمائی تھی، اس لے بڑی تعداد میں مریض ان کے یہاں جانے لگے اور ان کا کلینک لکھنؤ کے نامور کلینک میں شمار ہونے لگا ، غربائ، طلبہ اور علماءکی تشخیص وہ مفت کرتے اور دوائیاں بھی دیا کرتے ۔
 مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ کی صدارت میں لکھنو ¿ میں دینی تعلیمی کونسل کا قیام عمل میں آیا تو وہ حضرت مولانا کے دست وبازو بن کر کام کرنے لگے اور حضرت مولانا کے وصال کے بعد بڑی مشکل سے انہوں نے حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ؒ کو اس کونسل کی صدارت کے لیے تیار کیا اور جب قاضی عدیل عباسی کا ۰۸۹۱ءمیں انتقال ہو گیا تو وہ اس تنظیم کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے او راخیر عمر تک اس عہدہ پر فائز رہے اور کہنا چاہیے کہ اس کونسل کی ساری تگ ودو ڈاکٹر صاحب کے دم قدم سے قائم تھی۔ ہفتہ وار ندائے ملت کے بھی وہ ایک زمانہ تک مدیر رہے، ان کے اداریے ملی مسائل سے متعلق قومی اخبارات سے مضامین کا انتخاب بھی انتہائی پسندیدہ تھا، وہ دیگر اخبارات کے لیے بھی مضامین اور مراسلے لکھا کرتے تھے، جن کی پذیرائی عوام وخواص میں خوب تھی ۔
 ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے گوناں گوں خوبیوں سے نوازا تھا، ان کی نظر نصاب ونظام تعلیم پر گہری تھی، وہ لڑکیوں کی مخلوط تعلیم کو پسند نہیں کرتے تھے، اس لیے انہوں نے جامعہ نور الاسلام نسواں کے نام سے مہپت مﺅ میں لڑکیوں کا تعلیمی ادارہ کھولا اور اسے پروان چڑھایا، ان کی لڑکی جو مدرسة البنات مالیگاو ¿ں کی نامور فاضلہ ہیں، اس کو پروان چڑھانے میں معاون بنی اورمیری لڑکی رضیہ عشرت نے اس ادارہ سے فیض پایا اور حفظ قرآن کے ساتھ عربی کی تعلیم بھی پائی، وہ ہر اس آدمی کی حوصلہ افزائی کرتے جو لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلے میں ذرا بھی فکر مند رہتا، اسی مزاج کی وجہ سے انہوں نے جناب عارف علی انصاری صاحب کے گھر میں ۳۲ جون ۱۰۰۲ءسے قائم لڑکیوں کے مدرسہ کی سرپرستی قبول کی اور انصاری صاحب کو اس مدرسہ کا سکریٹری بنایا، کئی بار اس کے پروگرام میں شریک ہوئے،جیب خاص سے اس کی ترقی کے لیے کئی بار تعاون بھی کیا، ایک زمانہ میں یہ مدرسہ خیر آباد سیتا پور میں لڑکیوں کی دینی وعصری تعلیم کا تنہا مرکز تھا۔
 ڈاکٹر صاحب کی تربیت میں حضرت مولانا علی میاں ؒ اور مولانا منظور نعمانی ؒکا بڑا ہاتھ تھا، وہ ہر ایسی تحریک سے جڑ جاتے،جس سے حضرت مولانا کی کسی درجہ میں وابستگی ہوتی، چنانچہ انہوں نے مجلس تحقیقات ونشریات اسلام، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، اصلاح معاشرہ، پیام انسانیت اور ندوة العلماءکے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ۲۶۹۱ء میں جب حضرت مولانا ڈاکٹر سعید رمضان کی دعوت پر جینوا کا سفر کیا اور اس کے بعد انہوں نے لندن اور اسپین کے لیے رخت سفر باندھا تو ڈاکٹر صاحب ان کے رفیق سفر کے طور پر ساتھ تھے اور اس سفر کو کامیاب بنانے کے لیے ان کے دست وبازو بن کر کام کیا، ۲۶۹۱ءمیں حضرت مولانا کے ساتھ حج کا سفر کیا، ان کے تین لڑکے ندوہ سے فارغ ہوئے ڈاکٹر صاحب اور مسلم مجلس مشاورت کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے، انتخاب کے وقت سیاسی حضرات ان کی رائے اور مشورے کا بڑا اہتمام کیا کرتے تھے، سیاسی مسائل ومعاملات میں وہ ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی کے پیرو کار تھے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔
 ڈاکٹر صاحب وضع قطع کے اعتبار سے عالم دین دکھتے تھے، چہرے پر ڈاڑھی اور بدن پر شیروانی میں ان کا چہرہ اور ہیئت انتہائی مرعوب کن تھی، وہ اقبال کے لفظوں میں نرم دم گفتگو اور گر دم جستجو کے صحیح مصداق تھے، مزاج سنجیدہ تھا، لیکن اس میں شگفتگی اور شائستگی کے عناصر بدرجہ اتم موجود تھے، انہوں نے عصری تعلیم کے فروغ کے لیے شہر میں نو رالاسلام ہی کے نام سے ایک اسکول بھی قائم کیا ، مقصد بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم اسلامی ماحول میں فراہم کرنا تھا۔
 ڈاکٹر صاحب لکھنو ¿ میں ملی ، تعلیمی ، سماجی خدمات کے روح رواں تھے اور ان کے ساتھ روح کے رواں ہونے کے لیے جس جسم کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی موجود تھی، اس لیے وہ جس کام کو کرتے اس میں برکت، حرکیت، نصرت الٰہی، نشاط اور روز افزوں ترقی کے مراحل طے ہوتے رہتے تھے۔
 ابن خلدون نے لکھا ہے کہ ا نسانوں کی طرح تنظیموں، اداروں کی بھی عمر طبعی ہوتی ہے، عمر طبعی تک پہونچنے کے بعد انسان فنا ہوجاتا ہے اور ادارے یا تو اضمحلال کا شکار ہوجاتے ہیں یا وجود سے عدم ان کا مقدر ہوجاتا ہے، ڈاکٹر صاحب اپنی عمر طبعی اور مقررہ حیات کے لمحات گذار کر دنیا سے چل بسے اور جن اداروں کو ان سے تقویت تھی ان میں سے کئی پر نزاع کا عالم طاری ہے اور کہنا چاہیے کہ اس کی سرگرمی اور فعالیت بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ رخصت ہو کر ہوگئی ، البتہ انہوں نے جو تعلیمی ادارے قائم کیے تھے ان میں اب بھی زندگی دو ڑرہی ہے۔اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کے حسن عمل کو قبول فرمائے اور ان کی سیئات سے در گذر فرما کر جنت الفردوس مین جگہ دے آمین۔

آخری نبی کے اخلاق وکردار

آخری نبی کے اخلاق وکردار 
Urduduniyanews72 
 عنوان کے مطابق گفتگو کرنے سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ اخلاق کسے کہتے ہیں؟  یہ خالص عربی لفظ ہے،اس کی واحد "خلق" ہے،اس کے معانی عادات واطوار، ملنساری،کشادہ پیشانی، اور آو بھگت کرنے کے ہیں۔علم الاخلاق باضابطہ ایک فن کی حیثیت رکھتا ہے،اسمیں اخلاقیات  سے متعلق بحث ہوتی ہےاورایک انسان کی اخلاقی تربیت کی جاتی ہے، ہرمذہب میں کچھ نہ کچھ حد تک یہ تعلیم موجود ہے،مگر اخلاقیات کی تکمیل کا سہرا پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سربندھتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد  اخلاقی تعلیم کا مکمل احاطہ اور اس کی تکمیل بھی ہے،حدیث شریف میں واضح طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا کہ؛میں تواسی لئےبھیجاگیاکہ اخلاق حسنہ کی تکمیل کروں(مسند احمد )
اسی لئے شریعت اسلامیہ میں اخلاق کا دائرہ بہت وسیع ہے،ہر انسان جو اس دنیا میں آیا ہے اس کی ولادت سے وفات تک جو بھی روابط وتعلقات ہیں انہیں بہتر ڈھنگ سے نبھانے کا نام اخلاق ہے،اسلام میں جہاں والدین، اہل وعیال، عزیز ورشتہ دار، دوست واحباب، کے حقوق کو اداکرنے کا حکم ہے، وہیں انسانی بنیادوں پرجو بی رشتے ہوسکتے ہیں،ان کے پاس ولحاظ کی بھی بڑی تاکید آئی ہے،ایک انسان کا ضرورت کی بنیاد پر جانوروں سے بھی رابطہ ہوتا ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیوانات کے بھی حقوق بیان فرمائے ہیں۔
آج لوگوں نے اخلاق کو ایک دائرہ میں محدود کررکھا ہے،صرف اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے ہنسی خوشی ملنے اور تعلقات نبھانے کو اخلاق سمجھتے ہیں،یہ شریعت کے مزاج کے خلاف اور قرآن وحدیث سے دوری اور لاعلمی کا نتیجہ ہے۔اللہ رب العزت نے اپنی کتاب قرآن شریف میں جن جن باتوں کا حکم فرمایاہے، آپ صلی اللہ علیہ نےان تمام چیزوں کواپنی عملی زندگی کا حصہ بناکر پیش فرمادیاہے، کچھ لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس آئے اور سوال کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بیان کیجئے؛انہوں نے پوچھا کہ تم قرآن نہیں پڑھتے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق ہمہ تن قرآن تھا، (ابوداؤد )
قرانی تمام اخلاقی تعلیم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عملی زندگی میں نچوڑ کر اخلاقیات کو پائہ تکمیل تک پہونچادیا ہے،اس بات کی گواہی خود کتاب الہی نے دی ہے، ارشاد خداوندی ہے؛اے محمد! تمہارےاخلاق اعلی معیار پرہیں(سورہ قلم )
اخلاق کا اعلی معیار کیا ہے؟
قرآن وحدیث کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک انسان انتقام کے جذبے سے پاک ہوکر برائی کی جگہ بھلائی کرے، اور عفو ودر گزر سے کام لے،یہ اخلاق کا اونچا درجہ اور اعلی معیار ہے۔دراصل یہی سنت نبوی ہے،اور اسی نقش پر چلنے کی ضرورت ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کسی کو برا بھلا کہنے کی نہ تھی، برائی کے معاملے میں برائی نہیں کرتے تھےبلکہ درگزر کرتے اور معاف فرما دیتے تھے، (ترمذی )
دشمن سے انتقام لینا یہ کوئی بری بات نہیں ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اپنے جانی دشمنوں پر کنٹرول حاصل ہواہے،تاریخ یہ کہتی ہے کہ انہیں معافی ہی ملی ہے۔فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانی دشمنوں کو یہ کہ معاف فرما دیا کہ آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ہے، جاؤ تم سب آزاد ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےپیارےچچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل،نیز مرحوم چچا کے جگر کو چبانے والی کو بھی اس دن معافی ملی ہے، صفوان بن امیہ کو بھی اس دن  امان نصیب ہواجنہوں نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی خطرناک سازش رچی تھی، زہر میں بجھی ہوئی تلوار لیکر اس شرط پر عمیر بن وہب کو مدینہ روانہ کیا کہ تمہیں محمد کا کام تمام کردینا یے۔اس اخلاق کریمانہ سے متاثر ہوکر وہ بھی مسلمان ہوگئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ سے متاثر ہوکر پورا عرب مذہب اسلام کا علمبردار اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا وفادار بنا ہے۔
یہ ماہ مبارک جسمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی ہے ان اخلاق کریمانہ کو برادران وطن کے سامنے پیش کرنے کی ہمیں دعوت دیتاہے۔
ابھی کچھ دنوں پہلے ملک کی نئی پارلیمنٹ میں ایک غیر مسلم ایم پی رمیش بدھوڑی نے ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ دانش علی کو بھدی بھدی گالیاں دی ہےاوردہشت گرد بھی کہا ہے، صاف لفظوں میں انہوں نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام دہشت گردی سکھاتا ہے اور یہ تلوار کی زور پر پھیلا ہے،ایسے ناواقف لوگوں تک آخری نبی محمد عربی کے اخلاق وکردار کو پیش کرنےکی آج  شدید ضرورت ہے، اور یہ واضح کرنے کا موقع ہےکہ اسلام آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے پھیلا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں سے بھی انتقام نہیں لیا ہے،انہیں معاف فرمایا ہے،جنہوں نے آپ کو گالیاں دیں اس کے جواب میں یہی ارشاد فرمایا ہے کہ لوگ مجھے گالیاں دے رہے ہیں جبکہ میں" محمد" ہوں۔اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے ان مواقع پر جہاں ہمیں مسلمان ہونے کی وجہ سے گالیاں دی جارہی ہیں، وہاں اسلام اور پیغمبر اسلام کے اخلاقی تعلیم کو پیش کرنا ہی مناسب حل اور صحیح جواب ہے۔   لعن وطعن اس مسئلہ کا حل ہےاور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ  سنت رہی ہے، ایک موقع پر کفار ومشرکین کے ناروا سلوک سے تنگ آکر حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نےیہ عرض کیا کہ؛ یارسول دشمنوں کے حق میں بدعا فرما دیجئے ،آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا، فرمایا میں لعنت نہیں رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے حق میں دعائے خیر فرمائی ہے، اس سے متاثر ہوکر لوگوں نے اسلام کو اپنایا ہے، یہ ایک ایسا مذہب ہے جسمیں زور زبردستی کی گنجائش نہیں ہے۔ایمان دراصل دل سے قبول کرنےکا نام ہے،دشمنوں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نیک سلوک سے متاثر زبان سے اسلام کا کلمہ پڑھا ہےاور دل سے اسلام کو اپنایا ہے، اسلامی تاریخ کا مشہور واقعہ ہے؛
ثمامہ بن آثال یمامہ کا ایک رئیس آدمی تھا، جو اسلام کا مجرم تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھوں گرفتار ہو کر مدینہ آیا اور مسجد نبوی کے ایک ستون میں باندھ دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے آنے تو اس پر نظر پڑی، آپ نے دریافت کیا، ثمامہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، اس نے کہا،اگر قتل کرنا چاہیں تو ایک خونی مجرم کو قتل کریں گے، اور معاف کردیں تو احسان مند رہوں گا، اگر مال کی خواہش ہے تو حکم کیجئے، مال حاضر کردیا جائے گا، یہ گفتگو ہوئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے۔ دوسرے اور تیسرے روز بھی یہی باتیں ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رہا فرما دیا۔ وہ اس برتاؤ سے اسقدر متاثر ہوا کہ رہائی پاکر ایک نخلستان  میں گیا،غسل کیا اور واپس آکراسلام قبول کرلیا۔ سیرت کی کتابوں میں ثمامہ بن آثال کا یہ تاریخی جملہ بھی محفوظ ہے؛
"اے محمد! زمین پر آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چیز مجھ کو مبغوض نہ تھی لیکن آج وہ محبوب ہے،مجھ کو آپ کےدین سے زیادہ کسی دین سے عداوت نہ تھی لیکن وہ آج تمام مذاہب سے عزیز تر ہے،مجھے آپ کے شہر سے زیادہ کسی شہر سے دشمنی نہ تھی لیکن وہ آج مجھے تمام شہروں سے خوشنما نظر آتا ہے، (سیرت النبی جلد دوم )
       وہ قوم ہی قائد اور فاتح ہے جہاں میں 
      جس قوم کے اخلاق کی چلتی رہے تلوار 
    اس قوم کی دنیا میں نہیں کچھ بھی حقیقت 
    جس قوم کے اخلاق کا گھٹ جاتا ہے معیار 

 ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
و جنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...