Powered By Blogger

منگل, دسمبر 07, 2021

امارتِ شرعیہ کی جانب سے اٹھا یا گیا اہم قدم!


امارتِ شرعیہ کی جانب سے اٹھا یا گیا اہم قدم!

ارریہ6دسمبر: امیرشریعت لگاتارامارت کومستحکم اوروسیع کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔چمپارن کے بعدارریہ میں دارالقضاء کاقیام عمل میں آچکاہے۔اس موقعہ پرامیرشریعت نے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ دار القضاء کا وجود اس سر زمین پر اللہ کی رحمت اور اسلامی نظام عدل کی بین علامت ہے ، ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم سب کا فریضہ ہے کہ اگر ہمار ے درمیان کوئی نزاع ہو جائے تو اس کو اللہ اور رسول کے احکام کے ذریعہ حل کرائیں اور دار القضاء ایسی جگہ ہے ، جہاں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے مطابق معاملات کا حل کیا جاتا ہے ۔ اس لیے ہم سب کو چاہئے کہ اپنے عائلی معاملات دار القضاء کے ذریعہ حل کرائیں ۔

 

ارریہ کے بیر نگر بسہریا میں دار القضاء کے قیام کے موقع پر منعقد اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایاہے کہ دار القضاء ایسی جگہ ہے ، جہاں ہر ایک کو انصاف ملتا ہے ، یہاں نہ کوئی ہارتا ہے نہ کوئی جیتتا ہے بلکہ دونوں فریق انصاف پاتے ہیں اور دونوں جیت کر اٹھتے ہیں ، جس کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے وہ شریعت کے مطابق اپنا حق پانے کے اعتبار سے جیتتا ہے اور جس کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے ، وہ بھی حقدار کا حق مارنے کے گناہ سے محفوظ رہتا ہے ۔اوراس طرح دونوں خیر کو حاصل کرتے ہیں۔دارا لقضاء کا قاضی انصاف کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق فریقین کے بیانات سنتا ہے اور ان کے مسائل کا حل نکالتا ہے ، دار القضاء میں صرف فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ مسائل اور مشکلات کاحل نکالا جاتا ہے۔آپ نے کہا کہ امارت شرعیہ وہ واحد ادارہ ہے ، جس نے امت کے سبھی مسائل کو بڑے سلیقے سے حل کیا ہے ، اور وقت کے تقاضوں کے پیش نظر ہر ممکن اقدام کیا ہے ۔

آپ نے امارت شرعیہ کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ امارت شرعیہ صرف چاند دیکھنے اور قومی محصول لینے کا ادارہ نہیں ہے ۔ بلکہ امارت شرعیہ وہ ادارہ ہے ، جس پر لوگوں کا اعتماد اور بھروسہ ہے اور جو ہر میدان میں مسلمانوں کی رہنمائی کرتی ہے ۔امارت شرعیہ وہ ادارہ ہے ، جس نے امت کی اجتماعیت اور اتحاد کو برقرار رکھا ہے اور اپنے دائرہ کار میں لوگوں کے لیے ایک امیر شریعت کی ماتحتی میں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی شریعت کے دائرے میں گزارنے کو امارت شرعیہ نے ممکن بنایا ہے۔یہ امارت شرعیہ کے قیام کا بنیادی مقصد ہے ۔آپ نے مزید کہا کہ امت کی رہنمائی اور اس کی خدمت کے لیے امارت شرعیہ کے خدام ہمیشہ تیار رہتے ہیں ، جہاں بھی جیسی بھی ضرورت درپیش ہوئی امارت شرعیہ کے ارکان لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوئے ۔انہوں نے آپسی انتشار و افتراق ختم کر کے امت کے وسیع تر مفاد میں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ امارت شرعیہ کا اہم مشن اتحاد بین المسلمین ہے ۔

 
انہوں نے تعلیم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر دور میں تعلیم و تربیت کی ضرورت رہی ہے ، جس قوم نے تعلیم و تربیت پر توجہ دی وہ کامیاب ہوئی ، بغیر تعلیم کے ہمارا گزارا نہیں ہو سکتا ۔ آپ نے نہ صرف لڑکوں بلکہ لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کی بھی اپیل کی۔خیال رہے کہ بیر نگر بسہریا میں دار القضاء کے قیام کے ساتھ ساتھ یہاں تعلیمی مکتب اور سلائی سنٹر کا قیام بھی حضرت امیر شریعت مد ظلہ العالی کے ہاتھوں ہوا۔ امارت شرعیہ سے تربیت یافتہ عالم دین مولانا عبد التواب صاحب کو دارا لقضاء بیر نگر بسہریا کا قاضی شریعت مقرر کیا گیااور حضرت امیر شریعت نے اپنے ہاتھوں سے انہیں پورے مجمع کے سامنے سند قضا دیتے ہوئے ان کے قاضی ہونے کا اعلان کیا۔ اجلاس میں حضرت امیر شریعت کے علاوہ قاضی شریعت مرکزی دار القضاء مولانا محمد انظار عالم قاسمی صاحب ، مولانا مفتی محمد سہراب ندوی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ، مولانا مفتی شمیم اکرم رحمانی معاون قاضی شریعت امارت شرعیہ کے علاوہ مولانا عتیق اللہ رحمانی قاضی شریعت ارریہ ،قاضی ارشد قاسمی قاضی شریعت پورنیہ،مولانا فیاض عالم قاسمی قاضی شریعت مدھے پورہ ،مولانا اسعد عثمانی قاضی شریعت قاضی شریعت جوگبنی نے بھی قضاء کے مختلف پہلوؤں پر خطاب کیا۔اور دار القضاء کی اہمیت و ضرورت کو لوگوں کے سامنے تفصیل سے رکھا ۔پروگرام کے انتظام و انصرام میں مولانا سعوداللہ رحمانی،مولانا ابوذر مفتاحی نے اہم رول اداکیا۔یہاں دارا لقضاء کے قیام سے علاقہ کے لوگ بہت خوش ہیں،

حضرت امیر شریعت اور امارت شرعیہ کے اکابر علماء کرام کا مقامی لوگوں نے پر جوش طریقہ سے استقبال کیا اور حضرت امیر شریعت مد ظلہ کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کر کے اپنی عقیدت و محبت اور خلوص کا ثبوت پیش کیا۔ نیز اجلاس عام میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شریک ہوکر امارت شرعیہ سے اپنی قلبی وابستگی اور حضرت امیر شریعت مد ظلہ العالی کی سمع طاعت کا عہد کیا ۔اور امارت شرعیہ کے مقاصد کی تکمیل میں اپنا ہر طرح کے تعاون دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ واضح ہو کہ بیر نگر بسہریا کے پروگرام سے قبل حضرت امیر شریعت نے مہدی پوربازار سوپول اور امان اللہ پٹی میں منعقد نشستوں سے بھی خطاب کیا ۔

گروگرام : اب نماز پر کوئی ہنگامہ نہیں ہوگا ، میٹنگ ان 18 مقامات پر ہندو مسلم متفق میں

گروگرام : اب نماز پر کوئی ہنگامہ نہیں ہوگا ، میٹنگ ان 18 مقامات پر ہندو مسلم متفق میں

گروگرام میں عوامی مقامات پر نماز کو لے کر تنازع ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ اس مسئلہ پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آنے والے ہندو اور مسلم گروپوں نے نماز کے لیے 18 جگہوں پر اتفاق کیا ہے۔ ان میں سے 12 مقامات مساجد اور 6 عوامی میدان ہیں۔ وقف بورڈ کی اراضی ملتے ہی 6 عوامی مقامات پر نماز بھی روک دی جائے گی۔ ہندو سنگھرش سمیتی نے بھی کہا ہے کہ اس معاہدے کے ساتھ ہی تنازعہ ختم ہو گیا۔

گروگرام انتظامیہ کے ساتھ مشترکہ میٹنگ میں دونوں برادریوں کے نمائندوں نے نماز پڑھنے کے لیے نئی جگہوں پر اتفاق کیا، جس میں 12 مساجد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، چھ عوامی مقامات مختص کیے گئے ہیں جہاں کمیونٹی کی جانب سے حکام کو ان مقامات کے استعمال کے لیے قانونی کرایہ ادا کرنے کے بعد نماز ادا کی جائے گی۔

معاہدے کے بعد، 20 عوامی مقامات پر نماز نہیں پڑھی جائے گی جہاں اکثر مظاہرے ہوتے تھے، خاص طور پر سیکٹر 37 کے مقام پر، جہاں گزشتہ جمعہ کو صورتحال غیر مستحکم ہوگئی تھی۔ مساجد کے علاوہ، میٹنگ میں منظور شدہ یہ 6 جگہیں ہیں - اٹلس چوک گراؤنڈ، پیپل چوک ہڈا لینڈ صنعت وہار فیز 2، اسپائس جیٹ آفس ہڈا زمین صنعت وہار کے سامنے، لیزر ویلی گراؤنڈ، ہڈا زمین گالف کورس روڈ، سیکٹر 42 اور سیکٹر 69 ہڈا لینڈ۔
ہندو سنگھرش سمیتی کے صدر مہاویر بھردواج نے کہا کہ 12 مساجد کے علاوہ، ہم نے چھ عوامی میدانوں پر اتفاق کیا ہے، جنہیں ہمارے مسلمان بھائی یا امام تنظیم ہر جمعہ کو کرایہ پر دینے پر راضی ہیں۔ وہ ان جگہوں کو اس وقت تک استعمال کریں گے جب تک کہ ان کی وقف بورڈ کی جائیدادیں خالی نہیں کر دی جاتیں یا انہیں دی جاتی ہیں۔ ان 18 منظور شدہ جگہوں میں سے کسی پر کوئی اعتراض یا مداخلت یا احتجاج نہیں ہوگا۔ ہمارے لیے اس تصفیے سے مسئلہ ختم ہو گیا ہے۔

واضح رہے کہ نماز کو لے کر گزشتہ ایک ماہ سے تنازع چل رہا تھا۔ تاہم تصفیہ کے بعد اب امن کی امید کی جا سکتی ہے۔ لیکن پولیس کسی بھی قیمت پر سست نہیں ہوگی۔ گروگرام پولیس نے کہا کہ وہ اب بھی تمام مقامات پر سیکورٹی کو یقینی بنائے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ شہر میں کوئی خلل یا کشیدگی نہ ہو۔

بابری مسجد کا یوم شہادت تلنگانہ میں کسی احتجاج کے بغیر گزرگیاتعلیمی اور تجارتی ادارے کھلے رہے ،چارمینار کے اطراف پولیس کی چوکسی ، مکہ مسجد کے مصلیوں کی تلاشی جان

بابری مسجد کا یوم شہادت تلنگانہ میں کسی احتجاج کے بغیر گزرگیاتعلیمی اور تجارتی ادارے کھلے رہے ،چارمینار کے اطراف پولیس کی چوکسی ، مکہ مسجد کے مصلیوں کی تلاشی جان

حیدرآباد۔6 ۔ ڈسمبر (سیاست نیوز) بابری مسجد کی شہادت کو آج 29 سال مکمل ہوگئے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم جماعتوں ، تنظیموں اور قیادت کے دعویداروں نے اس غم کو بھلادیا ہے۔ 6 ڈسمبر کو ہر سال قومی سطح پر مسلم جماعتوںکی جانب سے یوم سیاہ کی اپیل کی جاتی رہی ہے لیکن اس مرتبہ حیرت انگیز طور پر ملک بھر میں کسی اہم تنظیم نے یوم سیاہ کی اپیل نہیں کی ۔ یوم سیاہ کے سلسلہ میں مسلمانوں سے اپیل کی جاتی رہی کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنے کاروبار بند رکھتے ہوئے مسجد کی شہادت کے غم کو تازہ رکھیں۔ تلنگانہ میں 6 ڈسمبر کا دن عام دنوں کی طرح گزر گیا اور کسی بھی علاقہ میں مسلمانوں نے اپنے کاروبار بند نہیں کئے۔ مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے زیادہ تر اسکولس اور کالجس معمول کے مطابق کام کرتے رہے ۔ حیرت تو اس بات پر رہی کہ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے جس سیاسی قائد نے بابری مسجد کی شہادت کے خلاف بطور احتجاج ریاستی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا تھا، ان کے قائم کردہ تعلیمی ادارے بھی آج معمول کے مطابق کھلے رہے ۔ ہندوستان بھر میں مسجد کی شہادت کے خلاف وزارت سے وہ پہلا استعفیٰ تھا ۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں کسی بھی مقام پر سیاہ پرچم تک نہیں لہرائے گئے اور دکانات و تجارتی ادارے کھلے رہے۔ کسی بھی جماعت یا تنظیم کی جانب سے یوم سیاہ کی اپیل نہیں کی گئی جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بھی بابری مسجد کا غم منانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ۔ بابری مسجد کے مسئلہ پر ہر سال گورنر کو یادداشت پیش کرنے والے قائدین بھی اس مرتبہ خاموش رہے ۔ 6 ڈسمبر کے پیش نظر پولیس کی جانب سے کل رات سے ہی پرانے شہر کے حساس علاقوں میں چوکسی اختیار کرلی گئی تھی۔ تاریخی چارمینار اور مکہ مسجد کے اطراف بھاری تعداد میں پولیس کو تعینات کیا گیا تھا لیکن چارمینار کے اطراف صبح سے ہی معمول کے مطابق کاروبار شروع ہوگیا اور دوپہر تک چھوٹے کاروباری ہی خود اس بات پر حیرت میں تھے کہ پولیس کی زائد فورس کیوں تعینات کی گئی ہے۔ نماز ظہر کے وقت مکہ مسجد کے دونوں باب الداخلوںکو بند کرتے ہوئے پولیس مصلیوں سے پوچھ تاچھ کے بعد جانے کی اجازت دے رہی تھی ۔ گنجان مسلم آبادی والے علاقوں میں بعض ملی حمیت رکھنے والے تاجروں نے اپنے طور پر کاروبار کو بند رکھا تھا اور بعض تعلیمی اداروں نے تعطیل کا اعلان کیا تھا۔ شہر میں سعید آباد کے علاقہ میں آج کل جماعتی احتجاجی جلسہ عام منعقد کیا گیا جبکہ خواتین کی جانب سے قنوت نازلہ ادا کی گئی۔ پولیس نے 6 ڈسمبر کے عام حالات کی طرح گزرجانے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ عام مسلمانوں کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو صرف انتخابات سے عین قبل بابری مسجد کی یاد آتی ہے۔ ر

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...