Powered By Blogger

بدھ, اگست 10, 2022

اولاد نہ ہونا بانجھ پن**بانچھ پن کا مطلب**بانجھ پن یا عقر کا مطلب : بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت میں کمی یا بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کا نہ ہونا*

*اولاد نہ ہونا بانجھ پن*

*بانچھ پن کا مطلب*
*بانجھ پن یا عقر کا مطلب : بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت میں کمی یا بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کا نہ ہونا*
(اُردو دنیانیوز۷۲)
*تعریف :*
*بانجھ پن کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ 1سال کے عرصے تک نارمل مباشرت ہوتے رہنے کے باوجود اور مانع حمل ادویات استعمال کئے بغیرحمل قرار نہ پانا ہے، بانجھ پن کا شکار مرد بھی ہو سکتا ہے اور عورت بھی اس مرض میں مبتلا ہو سکتی ہے۔*

*بانجھ پن کی اقسام :*
*بانجھ پن ابتدائی اور ثانوی دو طرح کا ہوتا ہے۔*

*عمرانیہ پن (PrimaryInfertility)*
*عمرانیہ پن سے مراد وہ مریض ہیں جن میں پہلے کبھی حمل نہیں ہوا*

*ثانوی بانجھ پن*
*(Secondary Infertility)*
 *ثانوی بانجھ پن سے مراد وہ مریض جن کے ہاں پہلے حمل واقع ہو چکا ہو جبکہ ایک اور اصطلاح سٹرلٹی (Sterility) سے مراد بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کا مرد یا عورت میں مکمل طور پر ختم ہو جانا ہے، ماضی میں بانجھ پن کے شکار جوڑوں میں بچہ پیدا ہونے کی صلاحیت کم ہوتی تھی ، مگر آج جدید دور میں مناسب تشخیص اور علاج سے 85 فیصد جوڑے بچہ پیدا ہونے کی اُمید کر سکتے ہیں۔*

*بانچھ پن میں مبتلا جوڑوں کو بہت زیادہ پریشانی اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔*
*عورت کے لیے تو بانچھ گالی بن جاتی ہے، ایسے جوڑے جن کے ہاں بچہ پیدا نہ ہوا ہو سارے کا سارا قصور عورت کا ہی بن جاتا ہے، بچہ نہ پیداکرنے پرطعنے ملتے رہتے ہیں اور لعنت ملامت ہوتی رہتی ہے،* *حالانکہ بانجھ پن کا شکار مرد بھی ہو سکتے ہیں، بانجھ پن کی 40 فیصد وجوہات مردوں میں پائی جاتی ہیں، آج کل تو بہت جلد اس کی تشخیص ہو سکتی ہے کہ بانجھ پن کی شکار کون ہے مرد یا عورت*

*حمل کے لیے شرائط*
*Pregnancy Conditions For* 
*مرد اور عورت دونوں کا تندرست ہونا بہت ضروری ہے۔*
*مرد کو سرعت انزال اور ضعف باہ کا مریض نہیں ہونا چاہئے ۔*

*مرد کی طرف سے اس کے مادہ منویہ نارمل اور مناسب جرثومہ منویہ (Spermatozoon) پیدا ہونے کی ضرورت ہوتی ہے*
 *سپرمز کی صورت حال  :*
 *سپرم کی صورت حال کچھ اس طرح سے ہونی چاہئے کہ کم ازکم 72 گھنٹے کے پرہیز کے بعد مرد میں (حاصل ہونے والے) مادہ منویہ کا تجزیہ کرنے پر مادہ منویہ کی مقدار 1.5ملی لیٹر سے 5 ملی لٹر تک ، ایک ملی لٹر مادہ منویہ میں 20 ملین یا اس سے زائد سپرم 50 سے 60 فیصد تک حرکت کرنے والے (Motile) اور 60 فیصد سے زائد نارمل شکل و صورت والے سپرم ہونے چاہئیں ۔*

*مرد کو سپرم کی تعداد میں کمی (Oligospermia) یعنی سپرم کی تعداد کا ایک ملی لیٹر میں 20ملین سے کم ہونا یا مادہ منویہ میں سپرم کا موجود نہ ہونا (Azoospermia) کا مریض نہیں ہونا چاہئیے۔*

*عورت :*
*عورت کو بھی صحت مند اور توانا ہونا چاہئیے عورت کو  ورم رحم، سیلان الرحم، ماہواری کی بے قاعدگی، ہارمونز کے توازن میں خرابی، ماہواری یا حیض کی بندش، حیض کی تنگی وغیرہ کا شکار نہ ہونا چاہئیے۔*
*عورت کی طرف سے اس کی میض یا اووری (Ovary) سے ایک مکمل نمو یافتہ اور صحت مند بیضہ (Oocyte) پیدا ہو کر اسے قاذف نالی (Uterine Tube) میں پہنچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عورت میں بیضہ خارج ہونے کے عمل کو عمل تبویض کہتے ہیں۔*

*ہر ماہ بیضہ ایک یا دوسری اووری سے خارج ہو کر قاذف نالیوں (Fallopian Tubes) میں پہنچتا ہے۔*
*بیضہ خارج ہونے پر عورت کچھ اس طرح کے احساسات کا تجربہ کرتی ہے۔*
*جسم کا درجہ حرارت 1 تک بڑھ جاتا ہے۔*
*اگر حمل قرار نہ پائے تو ماہواری آنے تک) 13 سے 14دن تک( بڑھتا رہتا ہے۔*
*چھاتیوں میں بھراؤ اور وزنی پن محسوس کرتی ہے۔*
*مہبلی (Vaginal) رطوبت کم ہو جاتی ہیں۔*
*معمولی سا محیطی اوذیما (Peripheral Odema) جسکے ساتھ وزن میں معمولی سا اضافہ محسوس ہوتا ہے۔*
*ایسی علامات ان عورتوں میں نہیں پائی جاتی جوبیضہ خارج نہیں کرتی ہیں۔*
*بیضہ خارج ہونے پر عورت کے رحم کے منہ میں لگے ہونے بلغم کا پلگ پروجیسٹرون (Progesteron) ہارمون کے اثر سے چمکدار اور نرم مخاط میں تبدیل ہوجاتا ہے، ایسا ہونا ضروری ہوتا ہے تاکہ سپرم آسانی سے رحم کے منہ میں داخل ہو سکے، حمل ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ صحبت اس وقت کی جائے جب بیضہ خارج ہو چکا ہو پھر سپرم اور بیضہ کا کامیابی سے ملاپ ہونا چاہئیے۔*
*سپرم کو اس قابل ہو نا چاہئے کہ وہ بیضہ کی بیرونی جھلی کو اپنے خامروں سے توڑ کر بیضہ میں داخل ہو سکے جب بیضہ بار آور (Fertilize) ہو چکا ہو تو اسی دوران نسوانی جنسی ہارمونز ایسٹروجن (Estrogen) اور پروجیسٹرون کے زیر اثر رحم کی اندرونی جھلی بطانہ رحم (Endometrium) کی لائنگ مکمل ہو چکی ہو، تاکہ بار آور بیضہ رحم میں پہنچ کر آسانی سے دھنس (Implant) ہو سکے اور یہاں تقریباف 9ماہ اور دس دن اپنی نشوونما جاری رکھے بیضہ کا رحم کے اندر صحیح طرح امپلانٹ نہ ہونے سے ضائع ہو جاتے ہیں۔* 


*بانجھ پن کے اسباب*
*بانجھ پن کے مردوں اور عورتوں میں علیحدہ علیحدہ اسباب ہوتے ہیں۔*
*عورتوں میں بانجھ پن کے اسباب*
*عورتوں میں 60 فیصد اسباب بانجھ پن کا سبب بنتے ہیں۔جس میں سے 30 فیصد اسباب عمل تبویض نہ ہونا یعنی بیضہ خارج نہ ہونا (Anovulation) اور 30فیصد عورت کے تو لیدی اعضاء کی ساختی / تشریحی خرابیاں (Anatomic Defects) شامل ہیں۔*
*بیضہ کی خارج ہونے کی سب سے عام وجہ پیچوٹری گلینڈ (Pitutary Gland) کے اگلے حصے (Adenohypophsis) سے گونیڈوٹرافک (Gonadotrophic) ہارمونز کا کم خارج ہونا ہے*
*ایسی ماہواری جس میں بیضہ نہ ہو (Anovulatory Cycle) کی شناخت عورت میں پیشاب میں (Pregnanedoil) کی شناخت سے ہوسکتی ہے جو کہ پروجیسٹرون میٹا بولزم کی پیدا وارہوتی ہے۔*
*عام طور پر بیضہ خارج ہو نے کے وقت عورت کے خون میں پروجیسٹرون کے ارتکاز میں اضافہ ہو جاتا ہے۔*
*حیضی دور کے بعد کے حصے میں پیشاب میں پریگنے نی ڈول کا اضافہ نہ ہونا بیضہ خارج نہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے، اس کے بعد زنانہ بانچھ پن کی ایک اور عام وجہ ورم درون رحم (Endometriosis) ہے اور اس کے بعد پیدا ہونے والی تبدیلیاں عورت کے تولیدی اعضاء کی تشریحی ساخت میں خرابی پیدا کرتی ہیں،*
 *اینڈومیٹری اوسس میں رحم کے اندر کی طرح کی ساخت جہاں سے حیض خارج ہوتا ہے، رحم کے باہر پیٹرو میں بھی پیدا ہو جاتی ہے، حیض کے دوران رحم کی اندرونی اینڈومیٹریم کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے قاذف نالیوں سے گذر کر پیٹرومیں آسکتے ہیں، پیٹرو میں اس ساخت پر نسوانی جنسی ہارمونز کے وہی اثرا ت ہوتے ہیں۔ جو رحم کی اندر کی ساخت پر ہوتے، رحم میں تو حیض جاری ہونے کا ایک قدرتی راستہ ہوتا ہے۔ مگر پیٹرو میں چونکہ خون خارج ہونے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا اس لئے خون اندرہی جمع ہوتا رہتا ہے، پیٹرو میں جریان خون درد کا سبب بنتا ہے۔*
*اس سے پیٹرو کے اعضاء میں لیفی ساخت (Fibrosis) بننے کو تحریک ملتی ہے۔*
*یہ اوریزکا مکمل (encase) بندکرتا ہے اور بیضہ خارج نہیں ہونے دیتا اینڈو میٹری اوسس کے نتیجے میں پیٹرو کے اعضاء میں باہمی چپکاؤ (Adhesion) واقع ہو جاتا ہے اور قاذف نالیاں بند ہو جاتی ہیں، بعض عورتوں میں کسی پیلوک انفلے میٹری ڈزیز (PID) یا سوزاک وغیرہ کے نتیجے میں قاذف نالیاں بند ہو جاتی ہیں انفکشن رحم کے منہ میں لگے ہوئے لیسدار بلغم کی پیدائش کو بھی تحریک دیتا ہے جس کے نتیجے میں سپرم رحم کے منہ میں داخل نہیں ہو پاتے یہ بھی قابل غور بات ہے کہ بہت زیادہ کم عمر اور بہت زیادہ عمر والی خواتین میں بھی حمل قرار نہیں پاتا اگر ویجائنہ کی پی ایچ (PH) بہت کم ہو تو بھی سپرم ایسے ماحول میں زندہ نہیں رہ پاتے اور حمل قرار نہیں پاتا  اسکے علاوہ ایسی کریمیں، جیلی اور لبریکنٹس جو سپرم کو ہلاک کردیں، ورم رحم (Metritis) یا رحم کی لیفی رسولیاں (Fibroids) کی موجودگی مبیضی کیسے (Ovarian cyst) کی وجہ سے ایک یا دونوں اووریز متاثر ہو سکتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ ہارمونز کا توازن برقرار نہیں رکھ پاتی جو کہ ایک فولیکل کے میچور ہونے اور رحم کی اندرونی لائنگ کے لیے ضروری ہوتے ہیں اور ایک متاثرہ اووری ایک صحت مند بیضے کو قاذف نالی میں خارج کرنے میں ناکام رہتی ہے۔*
*اسکے علاوہ دباؤ (Stress)غذا کی کمی ،وزن کی کمی، وزن کی زیادتی کی وجہ سے ہارمونز کا توازن قائم نہیں رہتا جس سے رحم کی اندرونی لائنگ اور فم رحم کی بلغم متاثر ہوتی ہے۔ مانع حمل (Contracepives) بھی ہارمون کے قدرتی توازن کو غیر متوازن کردیتی ہیں۔ اور ماہواری کو بے قاعدہ کردیتی ہیں۔ ان ادویات کو چھوڑنے کے کافی عرصے بعد تک بھی ماہواری بے قاعدہ رہ سکتی ہے۔*
*انٹرایوٹرائن ڈیواسز (IUDs) رحم اور قاذف نالیوں میں سوزش اور سیلان الرحم کا سبب بنتی ہیں ۔*
*جسکے نتیجے میں ورم کے ٹھیک ہونے کے بعد سکارنگ (Scarring) کی وجہ سے نالیاں بند ہوسکتی ہیں۔*
*سگریٹ نوشی بھی تولیدی نظام کے نارمل فعل کو خراب کر سکتی ہے۔*
*اس سے تولیدی اعضاء میں خون کی سپلائی کی کمی اور قاذف نالیوں کے اندر لگے ہوئے بال نما ابھار (Cilia) کی حرکت متاثر ہوتی ہے ان بال نما ابھاروں کی حرکت سے بیضہ کو قاذف نالیوں میں حرکت کرنے اور آگے جانے میں مدد ملتی ہے۔ بواسیر الرحم (Polyps) یاکسی جراحی کے نتیجے میں رحم کی خرابی، رحم نہ ہونا، رحم کا میلان خلفی(Retoversion) بھی بانجھ کا سبب بنتے ہیں۔ کیفین کا لگا تار استعمال تھائرائیڈ گلینڈ کے فعل میں کمی غذائی اجزاء مثلاً وٹامن B12, E, A, B2, B6 زنک (Zinc) فولک ایسڈ ضروری امینوترشے میگنیشیم کی کمی جو فرٹیلٹی کے لیے ضروری ہیں۔ دباؤ نہ صرف ہارمونز کے توازن کو خراب کرتا ہے بلکہ قاذف نالیوں کے سکڑنے کا سبب بھی بنتا ہے جس سے بیضے کو ان نالیوں سے گذرنے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور پیٹرو میں خون کی سپلائی کی وجہ سے رحم کی اندرونی لائنگ بھی متاثر ہوتی ہے اور ویجائنہ کے سکڑنے سے سیکس کاعمل بھی متاثر ہوتا ہے۔*



*نسخہ الشفاء :*
*مغز فندق 10 گرام،*
 *بہمن سرخ 20 گرام،*
 *سعد کوفی 10 گرام،*
 *تخم پیازسفید 30 گرام،*
*زنجبیل 10 گرام،* 
*دارچینی 30 گرام،*
*عاقرقرحا 10 گرام،*
*جائفل 10 گرام،*
*لونگ 30 گرام،*
*مصطگی رومی 3گرام،*
*بسبابہ 10 گرام،*
*خصیتہ الثعلب 20 گرام،*
 *مغزبادام 10 گرام،*
 *مغزپستہ 10 گرام،*
 *جڑاس گندھ کا چھلکا 20 گرام،*
*زعفران 2 گرام*
*ابریشم مقرض 30 گرام،* 
*مروارید ناسفتہ 3 گرام،*
 *ورق نقرہ 10عدد،*
 *ورق طلا 10 عدد،*
 *مغز چڑا 10 گرام،*
 *مشک خالص 4رتی،*
*عنبر اشہب 4 رتی،*
*سفوف جواہر 3 گرام،* 
*مایہ شتر اعرابی 10 گرام ،*
*شہد تین گنا تمام ادویہ* 


*ترکیب تیاری :*
*تمام ادویہ کو باریک کریں چھان کر شہد خالص مذکورہ بالا ملا کرقوام کر کے بطریق معجون تیار کر لیں۔*


*مقدار خوراک :*
*ایک چھوٹا چمچ چائے والا صبح و شام ہمراہ نیم گرم دودھ کے ساتھ چار ماہ استعمال کریں۔*

*پوسٹ اگرپسندآئےتو شیئر ضرور کریں*

*زنانہ و مردانہ کمزوری اور دیگر بیماریوں کے علاج کے لئے ہم سے رابطہ کریں اور ہمارے گروپ کو جوئن کریں شکریہ*

*دوا خود بنالیں یا ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں پورے انڈیا میں مکمل رازداری کے ساتھ  بذریعہ کوریئر اور ڈاک سے پارسل بھیجا جاتا ہے*

*کسی بھی قسم کی طبی رہنمائی و مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں*

Helpline & Whatsapp Number5*

رابطہ نمبر 8298377755
*حکیم خوش محمد صاحب مچھڑگاواں بتیا مغربی چمپارن

جنگ آزادی میں اردوصحافیوں کی لازوال قربانیاں

جنگ آزادی میں اردوصحافیوں کی لازوال قربانیاں


(اردودنیانیو۷۲)

معصوم مرادآبادی

آج جب ہم اپنی آزادی کی طلائی سالگرہ منارہے ہیں تو ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ان سورماؤں کو بھی یاد کریں جنھوں نے بے مثال قربانیاں دے کر اس ملک کو انگریزوں کے پنجوں سے آزاد کرایا۔ یوں تو ہر برس یوم آزادی کے موقع پر ہم ان مجاہدین آزادی کو یاد کرتے ہیں، لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں اردو صحافیوں کی لازوال قربانیوں کو بھی یاد کیا جائے۔اس برس ہم چونکہ آزادی کی 75/ویں سالگرہ کا جشن منانے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں اردو صحافت کے دوسوسال مکمل ہونے کا جشن بھی منارہے ہیں، اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم اردو کے ان جیالے صحافیوں قربانیوں کو بھی یاد کریں جنھوں نے اپنے قلم سے تلوار کاکام لیا۔انگریزوں نے ان میں سے کئی صحافیوں کو حق گوئی اور جرات مندی کی پاداش میں سزائے موت بھی دی، لیکن انھوں نے سرنگوں نہیں کیا۔

آزادی کی پہلی لڑائی 1857سے لے کر آزادی کے حصول تک اردو اخبارات ہی اس کام میں پیش پیش رہے۔بزرگ صحافی رئیس الدین فریدی کے لفظوں میں 1857 سے لے کر 35۔1930 تک ملک گیر پیمانے پر آزادی اور قومی اتحاد کے لیے جنگ کرنے کا سہرا زیادہ تراردو اخبارات کے سررہا، کیونکہ ہندی کے اخباراس زمانے میں برائے نام ہی تھے۔ انگریزی کے اکثر اخبار انگریزوں کے ہم نوا تھے اور علاقائی زبانوں کے اخباروں کا حلقہ اثر محدود تھا۔"(بحوالہ ماہنامہ 'آجکل'نومبر، دسمبر 1983)

اس اقتباس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اردو اخبارات نے آزادی کی جنگ میں ہراول دستے کا کام کیا، لیکن بدقسمتی سے ہمارے مورخین نے ان صحافیوں اور اخبارات کو وہ اہمیت نہیں دی، جو دیگر مجاہدین آزادی کو دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر لوگ ان کی لازوال قربانیوں سے ناواقف ہیں۔

ہم یہاں آپ کو کچھ ایسے جیالے صحافیوں سے روبرو کریں گے جنھوں نے وطن کی آزادی کے لیے قید وبند کی صعوبتیں ہی برداشت نہیں کیں بلکہ خوشی سے تختہ دار کو بوسہ بھی دیا۔ان میں سب سے اہم نام 'دہلی اردو اخبار'کے ایڈیٹر مولوی محمدباقر کا ہے جنھیں 74 سال کی عمر میں انگریزوں نے توپ کے دہانے پر رکھ کر اڑادیا تھا۔

قصور یہ تھا کہ انھوں نے اپنے اخبار میں 1857کی جنگ آزادی کے دوران باغی سپاہیوں کا ساتھ دیا تھا۔وہ آخری مغل شہنشاہ اور پہلی جنگ آزادی کے قائد بہادرشاہ ظفر کے قریب تھے اور انھیں ان کا اعتماد حاصل تھا۔

انگریزوں کے مظالم کی کہانی


یہی حال انگریزوں نے اخبار'پیام آزادی' کے مدیر مرزابیدار بخت کا بھی کیا، جو بہادر شاہ ظفر کے پوتے تھے اور ان ہی کے حکم پر انھوں نے یہ اخبار جاری کیا تھا۔ انگریزوں نے پہلی جنگ آزادی کے بعد جب دوبارہ دہلی پر قبضہ کیا تو جن اولین لوگوں کو سزائے موت دی گئی، ان میں مولوی محمدباقر کے علاوہ مرزا بیدار بخت بھی شامل تھے۔اس دور کا ایک اور اخبار 'صادق الاخبار' بھی تھا جو بہادرشاہ ظفر کے مقدمہ میں زیربحث آیا۔اردواخبارات کے جرات مندانہ کردار کی وجہ سے ہی وکیل استغاثہ نے اردو صحافت پر قلعہ معلی سے سازش کا الزام عائد کیا۔

پہلی جنگ آزادی میں اردو اخبارات نے نہایت بے باکی کے ساتھ مجاہدین کا ساتھ دیا اور قلم کو انگریز سامراج کے خاتمہ کے لیے ایک دھاردار ہتھیار کے طورپر استعمال کیا۔ایک طرف جہاں 'دہلی اردو اخبار'،'صادق الاخبار'اور 'فتح الاخبار' وغیرہ نے مجاہدانہ کردار ادا کیا تو وہیں 'کوہ نور' اور 'نورالابصار' وغیرہ سرکار پرست اخبار تھے، لیکن مجموعی طورپر اردو صحافت کا کردار قوم پرستانہ تھا۔پہلی جنگ آزادی کی ناکامی نے اردو صحافت کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگادیا۔

اردو صحافت کے اہم مراکزدہلی،لکھنؤ، میرٹھ اور کانپور جیسے شہر جو انقلاب کے بھی مراکز تھے، ان شہروں سے اردو صحافت کا صفایا ہوگیا۔اس طرح پہلی جنگ آزادی سے اردو صحافت کو زبردست صدمہ پہنچا۔1857کی جنگ چھڑتے ہی شمالی مغربی صوبہ جات کے بیشتر اردو اخبارات بند ہوگئے۔

اردو اخبارات کی اشاعت اور توسیع کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا کہ1853میں اردواخبارات کی تعداد 35تھی جو گھٹ کر صرف12رہ گئی۔1857 کی بغاوت کے بعد غیرملکی حکومت نے دیسی اخبارات پر نت نئی پابندیاں لگائیں۔ قانون زباں بندی (گیگنگ ایکٹ)کے تحت زیادہ تر کارروائی فارسی اور اردو اخبارات کے خلاف ہوئی۔ دیگر دیسی زبانوں میں کوئی اخبار زیرعتاب نہیں آیا کیونکہ انقلاب کو کامیاب بنانے میں قلعہ معلی اور اردو صحافت کے درمیان غیرمعمولی ہم آہنگی قایم تھی۔

دراصل سنہ 1857کی ناکامی کے بعد انیسویں صدی میں کسی اہم اخبار کا کوئی سراغ نہیں ملتا تاہم بیسویں صدی کے آغازمیں شائع ہونے والے شانتی نارائن بھٹناگر کے اخبار 'سوراجیہ' کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے، جو1907 میں الہ آباد سے نکلا تھا۔ یہ ایک ہفتہ واری اخبار تھا اور اس نے قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔اس اخبار نے انگریز سامراج کے خلاف پوری جرات کے ساتھ آواز بلند کی اور یکے بعد دیگرے اس کے مدیروں کو پابند سلاسل کیا گیا۔

ڈھائی سال کے عرصہ میں اس کے آٹھ مدیر مقرر کئے گئے اور سبھی کو قیدوبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔اس اخبار کے مدیران نے اپنے اداریوں سے ہندوستانی عوام کے دلوں میں آزادی کے جذبہ کو بیدار کیا۔جس کی وجہ سے 'سوراجیہ' اخبار کے مدیران کو حکومت نے کالاپانی کی سزا سنائی۔انگریز حکومت اس اخبار سے اس حد تک خائف تھی کہ 'سوراجیہ' اخبار کے سات مدیران کومجموعی طور پر 94 سال سے زیادہ کی سزا سنائی گئی اور انھیں کالا پانی بھیجا گیا لیکن اخبار نے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی۔

اس اخبار کے بانی شانتی نرائن بھٹناگر نے اپنی تمام زمین و جائدادفروخت کرکے 'سوراجیہ' کی اشاعت شروع کی تھی۔اجراء کے کچھ عرصہ بعدہی انھیں بغاوت کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا اور دوسال کی سزا اور پانچ سو روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔جرمانہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے شانتی نرائن بھٹناگر کی قید مزید 9 ماہ بڑھا دی گئی۔

اس کے بعد موتی لال ورما اس اخبار کے مدیر بنائے گئے، جنھیں دس سال کی سزا ہوئی۔ بعدازاں بابو ہری رام 'سوراجیہ' اخبار کے مدیر مقرر ہوئے۔ انھوں نے اس کے گیارہ شمارے نکالے۔ انگریزی حکومت نے انھیں 21 سال کی سزا سنائی۔بعدازاں رام سیوک اس اخبار کے مدیر مقرر کئے گئے، لیکن جوں ہی وہ کلکٹر کو اپنا تقرری نامہ دینے گئے تو انھیں وہیں قید کر لیا گیا۔ اس کے بعد نند گوپال چوپڑا اس انقلابی اخبار کے مدیر بنائے گئے اور انھوں نے 12 شمارے بحسن و خوبی شائع کئے لیکن انگریزوں نے انھیں بھی قید کر لیا اور تیس سال کی سزا سنائی۔

اس کے بعد لدھا رام کپور نے مدیرکی ذمہ داریاں سنبھالیں اور 'سوراجیہ' کے تین شماروں میں تین اداریے تحریر کیے۔ ہر اداریئے کے عوض انھیں دس سال کی سزا ہوئی یعنی مجموعی طور پر لالہ لدھا رام کو 30سال کی سزا سنائی گئی۔ اس اخبار کی ایک اہم بات یہ تھی کہ مدیر کے جیل جانے کے بعد ایک'مدیر کی ضرورت' کا اشتہار اخبار میں مسلسل شائع ہوتا تھاجس کی شرطیں یہ تھیں:

"ایک جو کی روٹی اور ایک پیالہ پانی۔ یہ شرح تنخواہ ہے جس پر سوراجیہ الہ آباد کے واسطے ایک ایڈیٹرمطلوب ہے۔ یہ وہ اخبار ہے جس کے دو اڈیٹر بغاوت آمیز مضامین کی جھپٹ میں گرفتار ہو چکے ہیں۔اب.. ایسا ایڈیٹر درکار ہے جو اپنے عیش و آرام پر جیل میں رہ کر جو کی روٹی اور ایک پیالہ پانی کو ترجیح دے۔"

(بحوالہ 'ذوالقرنین'، بدایوں،فروری 1909)

بیسویں صدی کے دوسرے دہے میں چار بڑے اخبارات شائع ہوئے، جنھوں نے آزادی کی تحریک پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ کلکتہ سے 'الہلال'(مولانا ابوالکلام آزاد)، 'لاہور سے 'زمیندار'(مولانا ظفرعلی خاں)، دہلی سے 'ہمدرد'(مولانا محمدعلی جوہر)اور بجنور سے 'مدینہ'(مولوی مجید حسن)۔ان چاروں ہی اخباروں نے جنگ آزادی میں ہراول دستہ کا کام کیا۔ 

مولانا ابوالکلام آزادنے 'الہلال' جولائی 1912میں جاری کیا تھا، جس نے قومی جذبات اور انقلابی سوچ کو پروان چڑھایا۔یہ اخبار مولانا آزاد کی گہری سوچ وفکر کا نتیجہ تھا۔کچھ ہی عرصے میں اس کی اشاعت پچیس ہزار تک پہنچ گئی، جو اس زمانے میں غیرمعمولی سرکولیشن تھا۔اس کی مقبولیت سے انگریزحکومت پریشان تھی،لہٰذا16/نومبر 1914کو حکومت نے 'الہلال پریس کی دوہزارروپے کی پہلی ضمانت ضبط کرلی اور 14و21/اکتوبر کا مشترکہ شمارہ بھی ضبط کرلیا۔

قلم سے جدوجہد


مجموعی طورپر 17/بار 'الہلال'کی ضمانت ضبط ہوئی۔ بعدازاں 8/نومبر کو 'الہلال' کا آخری شمارہ شائع ہوا۔ اس سے دس ہزار کی ضمانت طلب کئی گئی اور جمع نہ کرانے کی صورت میں اخبار بند ہوگیا۔اخبار 1927میں دوبارہ شائع ہوا لیکن مولانا آزاد کی سیاسی مصروفیات اس میں مانع آئیں اور یہ چھ ماہ بعد اس کی اشاعت بند ہوگئی۔اردو کی سرفروشانہ صحافت میں 'الہلال' کا جو کردار ہے، وہ آج تک کسی اور کو حاصل نہیں ہوسکا۔ یہ اپنے معیار کے اعتبار سے بھی ایک منفرد اخبار تھا۔

'الہلال' کے اجراء کے سات ماہ بعد فروری 1913میں مولانا محمدعلی جوہر نے دہلی سے 'نقیب ہمدرد'کے نام سے ایک روزنامہ جاری کیا۔ 13/جون کو اس کا نام 'ہمدرد' کردیا گیا۔ ان دنوں جنگ بلقان شباب پر تھی۔ مولانا محمدعلی نے اس موقع پر 'ہمدرد' میں مغربی سامراجی طاقتوں کی سازشوں کو بے نقاب کیا اور ہندوستان پر فرنگی استبداد کی زوردار مخالفت کی۔

اخبار کے معیار اور جرات مندی کے سبب اس کی شاعت دس ہزار تک جاپہنچی۔ حکومت کو یہ بے باکی گوارا نہیں ہوئی۔ اس کے بعد 16/مئی 1915کو مولانا محمدعلی اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی نظربند کردیا گیا اور اس کے ایک ماہ بعد 'ہمدرد' پر سنسر شپ نافذکردی گئی۔9/نومبر1924کو اس کی اشاعت دوبارہ شروع ہوئی لیکن مولانا محمدعلی کی بڑھتی ہوئی سیاسی مصروفیات، صحت کی خرابی اور سرمائے کی قلت کے سبب اخبار جاری نہیں رہ سکا۔ اس اخبار نے آزادی کے حصول کے لیے زبردست مجاہدانہ کردار ادا کیا۔

'زمیندار' کے بانی ایڈیٹر میاں سراج الدین احمد تھے۔ 1909میں ان کے انتقال کے بعد اس کی کمان ان کے نوجوان بیٹے مولانا ظفرعلی خاں نے سنبھالی۔ مولانا زبردست جوش وخروش کے آدمی تھے۔ تحریروتقریر دونوں کے دھنی تھے اور شاعری میں بھی طاق تھے۔انھوں نے سیاسی نظموں اور معرکہ خیزخبروں سے دھوم مچادی۔اخبار کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا۔

جنگ طرابلس شروع ہونے کے قریب 'زمیندار'ہفتہ وار سے روزنامہ ہوگیا۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ اخبار شعلہ جوالہ بن گیا۔حکومت اس کی تاب نہ لاسکی اور پہ درپہ اس سے ضمانتیں طلب کی گئیں۔شروع میں 'زمیندار' کو 22/ہزار روپے بطور ضمانت جمع کرانے پڑے۔پہلی جنگ عظیم کے دوران مولانا ظفرعلی خاں کو نظربند کردیا گیا اور اس طرح اس کی اشاعت بند ہوگئی۔

بجنور کا قوم پرست اخبار'مدینہ' بھی اپنی بے باکی اور جرات مندی کے لیے مشہور تھا۔ اس کے مدیروں میں اپنے عہد کے بڑے نامی گرامی لوگ شامل تھے۔ یہ اخبار برطانوی حکومت کی پھوٹ ڈالو او ر راج کرو کی پالیسی کا سخت مخالف تھا۔ اس نے دیسی ریاستوں کے مصنوعی نظام کے بارے میں جو پیشین گوئیاں کی تھیں، وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوئیں۔

ان تفصیلات سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ اردو صحافت نے آزادی کی پوری تحریک کے دوران ہراول دستہ کا کام کیا اور وطن کی خاطر جو قربانیاں پیش کیں، انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...