Powered By Blogger

منگل, مئی 24, 2022

قطب مینار میں کسی کو بھی عبادت کی اجازت نہیں دی جا سکتی : آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کا عدالت کو جواب

قطب مینار میں کسی کو بھی عبادت کی اجازت نہیں دی جا سکتی : آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کا عدالت کو جواب

نئی دہلی _ 24 مئی ( اردودنیا نیوز ۷۲) آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا ( اے ایس آئی) نے قطب مینار میں ہندووں کو عبادت کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ اور واضح کیا کہ قطب مینار عبادت کی جگہ نہیں ہے اور موجودہ ڈھانچے میں ردوبدل کی اجازت نہیں ہے اور یہاں کسی کو بھی عبادت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اے ایس آئی نے منگل کو دہلی کی ساکت عدالت میں ایک درخواست کی سماعت کے دوران بتایا کہ اس یادگار میں دیوتاؤں کی تصویریں ہیں جس کی بنیاد پر درخواست گزار نے دیوتاؤں کی پوجا کرنے کی اجازت مانگی گئی تھی لیکن اے ایس آئی کے قوانین کے مطابق اس میں عبادت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اے ایس آئی نے کہا کہ عبادت کے احیاء کی اجازت نہیں ہے۔ اس نے مزید کہا کہ قطب مینار یا اس کے کسی حصے میں کسی کمیونٹی نے عبادت نہیں کی ہے جب سے یہ ایک محفوظ یادگار رہا ہے کمپلیکس کے اندر متعدد ڈھانچے موجود ہیں۔

اے ایس آئی نے عدالت کو بتایا کہ قطب مینار کا تحفظ کیا گیا ہے حفظ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کسی یادگار کے طور پر اعلان شدہ اور مطلع شدہ یادگار میں کوئی نیا عمل شروع کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔

یہ درخواست جین دیوتا تیرتھنکر رشبھ دیو اور ہندو دیوتا وشنو کے بھکت ہری شنکر جین اور رنجنا اگنی ہوتری نے دائر کی تھی۔ درخواست میں اے ایس آئی کی جانب سے مبینہ طور پر دکھائی جانے والی ایک مختصر تاریخ کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کس طرح محمد غوری کی فوج کے ایک جنرل، قطب الدین ایبک نے 27 مندروں کو مسمار کیا تھا، اور اس کے ملبے کو دوبارہ استعمال کرکے قوۃ الاسلام مسجد کی تعمیر کی گئی تھی

شیریں ابو عاقلہ کا قتل ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

شیریں ابو عاقلہ کا قتل ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
الجزیرہ نشریاتی ادارہ کے عربی زبان کے چینل کے لیے کام کرنے والی شیریں ابو عاقلہ ہمارے درمیان نہیں رہیں، اسرائیلی فوج نے فلسطین پر ہو رہے ظلم وتشدد کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ۱۱؍ مئی ۲۰۲۲ء کو مقبوضہ مغربی کنارے پر اسے گولی مار دی ، یہ گولی ان کے سر میں لگی او ر وہ وہیں پر جاں بحق ہو گئیں،رملہ کے کنسلٹنٹ ہسپتال میں پوسٹ مارٹم اور تجہیز وتکفین کے بعد فلسطینی پرچم میں لپیٹ کر انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، اور پھر ان کا جسد خالی سرکردہ شخصیات کے قافلہ کے ساتھ بیت المقدس منتقل کیا گیا، جہاں فلسطینی ہلال احمر کے ذمہ داروں نے اسے وصول کیا، ان کی تدفین باب الخلیل کے رومن کیتھولک چرچ کے صہیونی قبرستان میں عمل میں آئی، اس واقعہ میںیروشلم میں مقیم القدس اخبار کے لیے کام کرنے والے ایک صحافی کے زخمی ہونے کی بھی خبر ہے ۔
 اسرائیل کے اس حرکت کی عالمی پیمانے پر مذمت ہو رہی ہے ، جنگی قانون میں جن چند طبقات پرحملہ نہ کرنے کا ذکر ہے ان میں ایک صحافی بھی ہیں، شیریں ابو عاقلہ کا شمار جرأت مند صحافیوں میں ہوتا تھا، انہوں نے حقائق سامنے لانے کے لیے کبھی اپنی جان کی پرواہ نہیں کی ، وہ مسلسل فلسطینیوں پر مظالم کے خلا ف آواز اٹھاتی رہی تھیں ، اس آواز کو خاموش کرنے کے لیے اسرائیلی افواج نے یہ مذموم حرکت کی، جس وقت ان کو گولی ماری گئی اس وقت انہوں نے پریس کا بیچ لگا رکھا تھا، اس کا مطلب ہے کہ اسرائیلیوں نے اسے جان بوجھ کر گولی ماری، اس حادثہ کے بعد پہلے تو اسرائیلی یہ کہتے رہے کہ اسے فلسطینیوں نے ہی گولی ماری، پھر جب حقائق سامنے آنے لگے تو اسرائیلی حکومت نے اس واقعہ کی مشترکہ جانچ کا حکم دے دیا ہے، جس میں فلسطین اور اسرائیل کے نمائندے شریک ہوں، لیکن فلسطین کے صدر محمود عباس نے اس تجویز کو رد کر دیا ہے اور کہا کہ یہ ایک سنگین نوعیت کا جرم ہے، ہم اس معاملہ کو عالمی فوجداری عدالت میں لے جائیں گے تاکہ اس واقعہ سے مجرموں کو سزا دلائی جا سکے،مشترکہ جانچ ہو یا عالمی فوجداری عدالت میں مقدمہ یہ لوگوں کی آوازکو خاموش کرنے کا ایک طریقہ ہے، ورنہ سبھی جانتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات میں جانچ کے ذریعہ مجرمین کو کلین چٹ دینا یا پھر لیپا پوتی کرکے بات کو ختم کرنا ہوتا ہے، اس لیے اسرائیل کے ذریعہ اس جانچ کے بعد بھی شیریں ابو عاقلہ کو انصاف ملتا نظر نہیں آتا کم از کم اتنا ہی ہوجائے کہ آئندہ صحافیوں پر حملے نہ ہوں تو بھی ہم کہہ سکیں گے کہ شیریں ابو عاقلہ کی موت نے دوسروں کو تحفظ فراہم کرنے کا کام کیا ہے۔
 اسرائیلیوں کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ ایک شیریں ابو عاقلہ کے قتل سے وہ حق کی آواز کو دبا نہیں سکتے، جس کا تجربہ وہ برسوں سے کرتے آ رہے ہیں، یہ قوم ابھی بانجھ نہیں ہوئی ہے، ایک مرتا ہے تو دوسرے کئی اس کی جگہ لے لیتے ہیں، شیریں ابو عاقلہ کے معاملہ میں بھی ایسا ہی ہوگا، شیریں کے کاز کے لیے بہت سے صحافی کھڑے ہوں گے اور اسرائیلی بربریت کی تصویر پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں ہو کر عالمی برادری کے سامنے آئے گی۔

اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گاکامران غنی صبا

اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
کامران غنی صبا
............. 
مایوسی اور ناامیدی قوتِ فکر و عمل کو ختم کر دیتی ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگوں کی ناکامیوں اور محرومیوں کی وجہ مایوسی اور ناامیدی ہے۔ ہم جب کوئی کام اندیشوں کے سائے میں شروع کرتے ہیں تو ہمارا جذبۂ عمل کمزور پڑنے لگتا ہے۔ نتیجہ، کامیابی ہم سے دور چلی جاتی ہے۔ مایوس اور ناامید افراد کے درمیان رہنے والے لوگ بھی کبھی پر اعتماد اور کامیاب زندگی نہیں گزار پاتے۔ مایوس اور ناامید افراد کی زبان پر گلے اور شکوے ہوتے ہیں، رنجشیں ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس پرامید افراد کی زبان پر شکر ہوتا ہے، محسنین کی تعریف ہوتی ہے۔ چیلنجز سے مقابلہ کرنے کا عزم ہوتا ہے۔
آج ہم میں سے بیشتر لوگ مایوس ہیں۔ مایوسی اور ناامیدی کی نوعیتیں مختلف ہیں۔ والدین بچوں سے مایوس اور ناامید ہیں۔ بچے مایوس ہیں کہ والدین ان کی خواہشات اور مطالبات کا تعاقب نہیں کرتے ہیں۔قوم قیادت سے مایوس ہے اور قیادت قوم سے۔ اساتذہ طلبہ سے مایوسی کا اظہار کرتے ہیں اور طلبہ اساتذہ کا گلہ کرتے ہیں۔ایک گھر کے افراد ایک دوسرے سے مطمئن نہیں ہیں ۔جس رشتے میں جنم جنم ساتھ رہنے کی قسم کھائی جاتی ہے، وہ رشتہ بھی مایوسی اور ناامیدی کی ڈور سے بندھا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ نہ جانے کب ٹوٹ جائے۔زیادہ تر زوجین ایک دوسرے سے مطمئن نہیں ہیں۔
  عدم اطمینان کی وجہ مایوسی اور ناامیدی ہی ہے۔ یعنی ہم افراد سے، حالات سےبلکہ اپنے آپ سے مایوس اور ناامیدہوتے جا رہے ہیں۔مایوسی اور ناامیدی یہی ہے کہ مسائل کے سامنے شکست تسلیم کر لی جائے۔ یہ مان لیا جائے کہ آپ جیسا چاہتے ہیں ویسا نہیں ہوگا یا آپ جیسا نتیجہ چاہتے تھے ویسا نتیجہ نظر آتا ہوا محسوس نہیں ہو رہا ہے، لہٰذا کوشش ترک کر دینی چاہیے۔یہی احساس شکست، شکستِ ذات اور شکستِ کائنات کا سبب بنتا ہے۔
بندئہ مومن اگر حالات سے مایوس نہ ہو تو اسے سربلندی کی بشارت سنائی گئی ہے۔ یہ بشارت بادشاہ کون و مکاں کی ہے، جس کے غلط ہونے کا تصور بھی کفر ہے۔ یعنی ایسا ہو کر رہے گا کہ ہم امید اور یقین کے ساتھ کوئی کام کریں تو ہمیں کامیابی ملنی ہی ہے۔ پھر وہ بادشاہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہم بندے کے گمان کے مطابق ہوتے ہیں، یعنی غلام جیسا گمان رکھے گا، بادشاہ اس کے لیے ویسا ہی ہو جائے گا۔ یعنی مسئلہ ہمارے گمان کا ہے۔ ہم نے پہلے سے فیصلہ کر رکھا ہے کہ بچے باغی ہو رہے ہیں، قوم مردہ ہو چکی ہے، قیادت مفلوج ہو چکی ہے، طلبہ کے اندر جذبۂ علم ختم ہو چکا ہے، اساتذہ اپنا فرض منصبی بھول چکے ہیں، رشتے اور ناطے صرف کہنے کے لیے رہ گئے ہیں۔ نتیجہ یہی ہے کہ ہمیں ہمارے گمان کے مطابق باغی اولادیں عطا کی جا رہی ہیں، مفلوج قیادت دی جا رہی ہے۔ اساتذہ کو اچھے طلبہ نہیں ملتے ہیں اور طلبہ گزرے ہوئے اساتذہ کا ذکر کرتے ہوئے نوحہ کناں ہیں کہ "اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر"۔ ہم رشتہ داروں کا گلہ کرتے رہتے ہیں اور رشتہ دار ہمارا۔ یہ سلسلہ ایک دوسرے سے اتنا مربوط ہے کہ ہماری زیادہ تر گفتگو کا مرکز و محورگلہ اور شکوہ ہوتا ہے، مایوسی اور ناامیدی ہوتی ہے۔حالات کا نوحہ ہوتا ہے۔
مایوسی اور ناامیدی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم دنیا میں جنت جیسا نظام چاہتے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ سب کچھ ہماری خواہشات کے مطابق ہو۔ والدین چاہتے ہیں کہ بچے فرماں بردار ہوں، اولاد چاہتی ہے کہ والدین ان کی ہر خواہش پوری کریں۔ اسی طرح سب کو سب سے توقعات ہیں اور جب توقعات ٹوٹتی ہیں تو انسان مایوس ہونے لگتا ہے۔ اگر توقعات اور خواہشات فرد سے ہے تو انسان فرد سے مایوس ہوتا ہے، جماعت سے ہے تو جماعت سے اس کا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ بڑا صبر آزما مرحلہ ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ خواہشات پر اختیار کل صرف ذاتِ واحد کوحاصل ہے۔ وہ مالکِ کُن ہے۔ جو چاہے ، جب چاہے کرے۔ ہمارا کام کوشش کرنا ہے۔ نتیجے کے مالک ہم نہیں ہیں۔ کوشش کے نتیجے میں کامیابی ملتی ہے یا ناکامی۔ کوئی تیسری صورت نہیں ہے۔ کامیابی ملنے کی صورت میں بندہ شکر ادا کرتا ہے۔ شکر ادا کرنے والوں کے لیے وعدہ ہے کہ بادشاہِ کون و مکاں شکر کرنے والوں کو مزید دیتا ہے۔ ناکامی ملنے کی صورت میں بندہ صبر کرتا ہے۔ صبر والوں کے لیے بھی وعدہ ہے کہ بادشاہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔ اب جسے بادشاہ کا ساتھ مل جائے اسے اور کون سی نعمت چاہیے۔ یعنی مومن بندے کے لیے ہر حال میں خوش خبری ہے۔ کامیابی میں بھی اسی کا فائدہ ہے اور بظاہر ناکام ہو کر بھی وہی سرخرو ہے۔ کربلا میں امام عالی مقامؑ کی بظاہر شکست ہو گئی لیکن صبر کے نتیجے میں تاقیامت سرخروئی ان کے حصے میں آئی۔ فاتح مردود اور ذلیل ہوا۔ مفتوح کے لیے تاقیامت شاہ است اور بادشاہ است کے نعرے گونجتے رہیں گے. 
کیا اتنی واضح مثالیں آپ کے سامنے ہوں، پھر بھی آپ مایوس ہوں گے؟ حالات خواہ جیسے بھی ہوں آپ اپنے حصہ کی شمع تو اٹھائیں اس میں روشنی دینے کی ذمہ داری جس نے لے رکھی ہے وہ آ پ کو مایوس کبھی نہیں کرے گا   ؎
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
(امیر قزلباش)

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...