Powered By Blogger

بدھ, جنوری 12, 2022

حج وعمرہ : ' آئندہ تین ماہ میں بیرون عمرہ زائرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا ' مملکت لسے

حج وعمرہ : ' آئندہ تین ماہ میں بیرون عمرہ زائرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا ' مملکت لسے لائن نیوزڈیسک
حج و عمرہ و زیارۃ امور کی قومی کمیٹی کے رکن سعید باحشوان نے توقع ظاہر کی ہے کہ آئندہ تین ماہ (رجب، شعبان اور رمضان المبارک) کے دوران بیرون مملکت سے آنے والے عمرہ زائرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا-
العربیہ نیٹ کے مطابق 201 عمرہ کمپنیاں و ادارے عمرہ زائرین کو مملکت آمد سے لے کر وطن کے لیے روانگی تک بہترین خدمات فراہم کریں گے-
یہ توقعات ایسے ماحول میں کی جا رہی ہیں جب پاکستان، انڈیا، ازبکستان، لیبیا، مصر، تیونس، الجزائر اور انڈونیشیا سے عمرہ زائرین کی آمد کے حوالے سے کارروائی شروع کردی گئی ہے-
باحشوان نے کہا کہ 201 عمرہ کمپنیاں و ادارے سعودی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سہولتوں اور عظیم الشان منصوبوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عمرہ زائرین کو مطلوبہ سہولتیں ہروقت فراہم کریں گے- عمرہ زائرین اطمینان و سکون اور امن وسلامتی کے ماحول میں طواف، سعی اور زیارت کی سعادت حاصل کرسکیں گے-
باحشوان نے کہا کہ عمرہ کمپنیاں و ادارے عمرہ زائرین کی منفرد میزبانی کے لیے ہوٹلوں میں رہائش، اندرون مملکت ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے کی سہولیات کی تیاریاں کرچکے ہیں-
عمرہ کمپنیوں اور اداروں نے مسجد الحرام میں عمرے و نماز اور مسجد نبوی نیز روضہ شریفہ میں نماز اور روضہ رسول پر حاضری کے حوالے سے اپائنمنٹ کی تیاریاں بھی کرلی ہیں- عمرہ زائرین کو وہ تمام آسانیاں اور سہولتیں مہیا کی جائیں گی جن کی انہیں ضرورت ہوگی- وزارت حج و عمرہ زائرین سے کورونا ایس او پیز کی پابندی کرانے میں غیرمعمولی دلچسپی لے رہی ہے- وزارت اس حوالے سے عمرہ کمپنیوں و اداروں کی سرگرمیوں پر نظر رکھے گی اور ان سے ربط و ضبط بھی پیدا کرے گی-
باحشوان نے توجہ دلائی کہ بیرون مملکت سے عمرہ زائرین کی آمد پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ شہروں میں ہوٹلوں، کاروباری اداروں، ٹرانسپورٹ کے وسائل، ریستورانوں، شاپنگ سینٹرز کا کاروبار بہتر ہوگا-
دریں اثنا وزارت حج و عمرہ نے تاکید کی ہے کہ زائرین مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں حاضری کے موقع پر سماجی فاصلے کی پابندی کریں- حفاظتی ماسک استعمال کریں- اس سے وہ خود بھی کورونا وائرس لگنے سے محفوظ رہیں گے اور دوسرے بھی وائرس کی گرفت میں نہیں آئیں گے-

اردو میں کیریر: چیلنجز اور امکاناتکامران غنی صبااسسٹنٹ پروفیسر نتیشور کالج مظفرپور

اردو میں کیریر: چیلنجز اور امکانات
کامران غنی صبا
اسسٹنٹ پروفیسر نتیشور کالج مظفرپور

سال2021 رخصت ہو چکا ہے۔ عالمی وبا کورونا کی وجہ سے گزرا ہوا سال جہاں معاشی بحران کا سال بن کر تاریخ میں محفوظ ہو چکا ہے وہیں تعلیمی اعتبار سے بھی سال گزشتہ بہت خسارے میں رہا۔ تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کا سلسلہ متاثر رہا۔ خدا کرے کہ نیا سال طلبہ کے لیے بہتر ثابت ہو۔ ہر چند کہ نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی مختلف ریاستوں میں تعلیمی ادارے ایک بار پھر بند کرنے کے سرکاری احکامات جاری ہونا شروع ہو چکے ہیں. 
نئے سال میں داخل ہونے کے ساتھ ہی امتحانات کا سلسلہ بھی شروع ہو رہا ہے۔ فروری میں انٹرمیڈیٹ اور پھر میٹرک کے امتحانات ہونے ہیں۔ ابھی تک امتحانات ملتوی کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے. 
 بورڈ امتحانات کے بعد طلبہ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اپنے کیریر کا انتخاب ہے۔ میرے پاس طالب علموں کے اکثر فون آتے ہیں اور وہ اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھنے کے سلسلہ میں رہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے بہت سارے طلبہ اردو میں اپنا کیریر بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کے ذہن میں اس قدر خدشات بھرے ہوتے ہیں کہ وہ میدانِ عمل میں قدم رکھنے سے پہلے ہی شکست تسلیم کر لیتے ہیں۔
اردو کے تعلق سے ایک عام نظریہ یہ ہے کہ اردو پڑھنے والوں کو اچھی ملازمت نہیں مل پاتی ہے ۔میرا تجربہ و مشاہدہ اس کے بالکل برعکس ہے۔میں نے اردو سے تعلیم حاصل کرنے والے کسی باصلاحیت نوجوان کو کبھی بے روزگار نہیں دیکھا ہے۔ یہ بات قابلِ افسوس ضرور ہے لیکن مجھے کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ کالج اور یونیورسٹیوں میں اردو بطور لازمی مضمون پڑھنے والے طلبہ کی اکثریت بحالتِ مجبوری اردو کا انتخاب کرتی ہے۔ ان میں کچھ تو مدارس کے ویسے طلبہ ہوتے ہیں جن کے پاس اردو یا عربی پڑھنے کے سوا دوسرا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ طالبات میں اکثر کے والدین انہیں اس وجہ سے اردو دلواتے ہیں کہ ان کی بچیاں آسانی سے ڈگری حاصل کر لیں گی جس کے بعد رشتہ ڈھونڈنے میں آسانی ہوگی۔ ایسے طلبہ  میں کتنے تو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انہیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے نصاب میں کون کون سی کتابیں شامل ہیں یا اگر معلوم ہو بھی گیا تو نصابی کتابوں تک ان کی رسائی کورس کی تکمیل تک نہیں ہو پاتی۔ ایسے طلبہ بازار میں چھپے گیس پیپر پڑھ کر ڈگری تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن جب روزگار حاصل کرنے کے لیے انہیں مسابقاتی امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے تو وہ حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کو دیکھ کر یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ اردو پڑھنے والوں کو روزگار نہیں ملتا اور وہ یوں ہی بے کار بیٹھے رہ جاتے ہیں۔ میں نے کئی ایسے طالب علموں کو بھی دیکھا ہے جو امتحان سے ٹھیک ایک دن پہلے گیس پیپر لے کر آتے ہیں کہ اس میں کون کون سے سوالات اہم ہیں، بتا دیے جائیں۔ یعنی وہ گیس میں بھی گیس کروا کر اردو میں اپنا کیریر بنانا چاہتے ہیں۔
حالیہ چند برسوں میں اردو میں روزگار کے مواقع بڑھے ہیں۔ نجی شعبہ میں اخبارات، الکٹرانک میڈیا، اشاعتی اداروں، تعلیمی اداروں میں اردو جاننے والوں کی ضرورت میں اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری سطح پر بھی پہلے کی بہ نسبت اب زیادہ آسامیاں آتی ہیں۔ انٹرنیٹ اور جدید ٹکنالوجی آنے کے بعد اردو ٹائپ رائٹر، اردو ڈیزائنر، ویب ڈیزائنر، کمپیوٹر آپریٹر وغیرہ جیسے نئے روزگار پیدا ہوئے ہیں۔ کمپیوٹر کے ساتھ اردو جاننے والے آپریٹرز ابھی بھی بہت کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے جانکار کمپیوٹر آپریٹر کے پاس دوردراز کے لوگ بھی اپنا کام لے کر آتے ہیں۔ اخبارات اور اشاعتی اداروں کے دفاتر میں بھی اردو کے جانکار اچھے کمپیوٹر آپریٹرز ہمیشہ تلاش کیے جاتے ہیں۔پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا میں اچھا کیریر بنانے کے لیے بہت سارے ادارے اردو میں صحافت کا کورس بھی کرواتے ہیں۔ صحافت کے شعبہ میں کیریر بنانے کے لیے انٹرمیڈیٹ کے بعد ڈپلوما ان جرنلزم یا گریجوئشن کے بعد ماس میڈیا کا کوئی کورس کیا جا سکتا ہے۔
درس و تدریس کے شعبہ میں بھی اردوکے اچھے اساتذہ کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔درس و تدریس کے شعبہ میں آنے کے لیے انٹرمیڈیٹ کے بعد ڈپلوما ان ایجوکیشن (ڈی ایل ایڈ) یا گریجوئیشن کے بعد بیچلر آف ایجوکیشن(بی ایڈ) کیا جا سکتا ہے۔ ڈی ایل ایڈ یا بی ایڈ کرنے کے بعد آپ کسی اچھے پرائیوٹ اسکول یا ویکنسی آنے پر سرکاری اسکول کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ ہندوستان سے باہر بھی بہت سارے ملکوں میں ’’انڈین اسکول‘‘ قائم ہیں۔ جہاں دوسرے مضامین کے ساتھ اردو کے اساتذہ بھی اچھی تنخواہ پر بحال کیے جاتے ہیں۔ باہر کے ملکوں میں قائم ہندوستانی اسکولوں میں اساتذہ کو قیام و طعام کے علاوہ اور بھی بہت ساری سہولتیں دی جاتی ہیں۔ان اسکولوں کے لیے انٹرویو ہندوستان میں ہی لیا جاتا ہے۔ کچھ اسکول آن لائن انٹرویو بھی لیتے ہیں۔
گریجوئیشن کے بعد اگر آپ نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کر لیا اور نیٹ امتحان میں کامیابی حاصل کرلی تو آپ کالج اور یونیورسٹی کے استاد بننے کے اہل ہو جاتے ہیں۔لیکن یہاں تک پہنچنے کے لیے بہت ہی صبر و ضبط اور جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے۔اس لیے میرا مشورہ عام طور سے یہی ہوتا ہے کہ گریجوئیشن کرنے کے بعد بی ایڈ کر کے اسکول کی ملازمت حاصل کر لینی چاہیے ۔ یہ راستہ محفوظ ہے اور آسان بھی۔ ورنہ بہت سارے لوگ گریجوئیشن کرنے کے بعد ماسٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے میں کئی سال لگا دیتے ہیں اور اتنے برسوں تک ملازمت نہیں ملنے کی وجہ سے احساس کمتری اور ذہنی کشمکش کا شکار ہوتے ہیں۔
اردو پڑھ کر اچھی ملازمت حاصل کرنا پہلے کی بہ نسبت آسان ہوا ہے۔ اردو میں روزگار کے مواقع پہلے سے کہیں زیادہ بڑھے ہیں ۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم کامیابی کا ’’شارٹ کٹ‘‘نسخہ ڈھونڈنے کی بجائے محنت اور مطالعہ کی عادت ڈالیں۔ ہمیشہ اپنے سامنے بڑا ہدف رکھیں لیکن ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے اہداف بھی حاصل کرتے جائیں۔ ان شاء اللہ کامیابی مقدر ہوگی۔

غیرقانونی وصولی معاملہ : ممبئی کے سابق پولس کمشنرپرمبیرسنگھ کوسپریم کورٹ نے دی راحت

غیرقانونی وصولی معاملہ : ممبئی کے سابق پولس کمشنرپرمبیرسنگھ کوسپریم کورٹ نے دی راحتنئی دہلی(ایجنسی) سپریم کورٹ نے منگل کے روز ممبئی کے سابق پولیس کمشنر پرمبیر سنگھ پر مہاراشٹر میں درج فوجداری مقدمات کے معاملے میں ان کی گرفتاری پر روک مزید تین ہفتوں کے لئے بڑھا دی ہے۔ جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ایم ایم سندریش کی بنچ نے ملزم پولیس افسر کو ہدایت دی کہ وہ گرفتاری سے تحفظ فراہم کرتے ہوئے تمام معاملات سے متعلق جانچ میں تعاون کرے۔ بنچ نے سماعت کے دوران سابق پولیس کمشنر اور مہاراشٹر حکومت اور دیگر کے دلائل سننے کے بعد کہا ''یہ ایک پریشان کن صورتحال ہے، جہاں پولیس کے سربراہ رہے شخص کو اپنی ہی پولیس پر بھروسہ نہیں ہے اور نہ ہی ریاستی حکومت کو سی بی آئی پر اعتماد''۔ سپریم کورٹ نے مہاراشٹر حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ تین ہفتوں کے اندر ایک حلف نامہ کے ذریعے مرکزی جانچ ایجنسی (سی بی آئی) کی جانچ کرانے کے معاملے میں مرکزی جانچ ایجنسی کے حلف نامہ پر اپنا جواب داخل کرے۔ تاہم ریاستی حکومت نے سی بی آئی جانچ کی پھر سے مخالفت کی اور کہا کہ یہ منصفانہ نہیں ہوگا۔ اس سے قبل بھی مہاراشٹر حکومت نے مخالفت کی تھی۔ عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر سی بی آئی نے اپنا حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سابق پولیس کمشنر سے متعلق معاملات کی جانچ کے لیے تیار ہے۔ بنچ کی جانب سے کسی مرکزی جانچ ایجنسی سے جانچ کرانے کے اشارے کے بعد سی بی آئی نے پچھلی سماعت کے دوران جانچ کے لئے اتفاق ظاہر کیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اس سے قبل 6 دسمبر کو اپنے عبوری حکم میں پرمبیر سنگھ کو گرفتاری سے راحت دی تھی اور مہاراشٹر حکومت سے کہا تھا کہ وہ سابق پولیس کمشنر کے خلاف درج فوجداری مقدمات کی تحقیقات جاری رکھے لیکن ان مقدمات میں چارج شیٹ داخل نہ کرے۔ پرمبیر سنگھ نے عدالت عظمیٰ سے ان کے خلاف فوجداری مقدمات کی جانچ سی بی آئی سے کروانے کی فریاد کی ہے۔ اسی معاملے کی سماعت جاری ہے۔ سابق پولیس کمشنر نے مہاراشٹر کے اس وقت کے وزیر داخلہ انل دیشمکھ پر الزام لگایا تھا کہ انل دیشمکھ نے ان سے ہر ماہ 100 کروڑ روپے غیر قانونی طور پر دینے کی مانگ کی تھی۔ پرمبیر سنگھ کے خلاف ممبئی کے پولیس کمشنر رہتے ہوئے ہوٹل کاروباری سے لاکھوں روپے کی غیر قانونی وصولی سمیت کئی مجرمانہ معاملے ممبئی کے مختلف تھانوں میں درج ہیں۔ اس کے علاوہ ممبئی پولیس کے ایک اور افسر سمیت کئی دیگر بھی ملزم ہیں

انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرنے کی تاریخ میں 15 مارچ تک توسیع

انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرنے کی تاریخ میں 15 مارچ تک توسیع

نئی دہلی: محکمہ انکم ٹیکس نے سال 2021-22 کے ریٹرن داخل کرنے کے ساتھ ہی مختلف قسم کی آڈٹ رپورٹس داخل کرنے کی آخری تاریخ میں توسیع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے تحت سال 2021-22 کے لیے ریٹرن داخل کرنے کی آخری تاریخ 31 دسمبر 2021 تھی، جس میں توسیع کرتے ہو ئے 15 مارچ 2022 کر دی گئی ہے۔

آج یہاں جاری ایک بیان میں یہ جانکاری دیتے ہوئے سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکس (سی بی ڈی ٹی) نے کہا کہ یہ فیصلے ٹیکس دہندگان اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو کورونا کی وجہ سے درپیش مشکلات کے پیش نظر لیے گئے ہیں۔

سی بی ڈی ٹی نے کہا کہ مالی سال 2020-21 کے لیے مختلف آڈٹ رپورٹس داخل کرنے کی آخری تاریخ جو 15 جنوری کو ختم ہوتی ہے اب اسے بڑھا کر 15 فروری 2022 کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ایک سرکلر جاری کر دیا گیا ہے۔

سوریہ نمسکار مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

سوریہ نمسکار 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ملک کی پچہترویں یوم آزادی کے موقع پر حکومت ہند کے ذریعہ تمام اسکولوں میں سوریہ نمسکار کو متعارف کرانے کامتعصبانہ فرمان ملک کے مسلمانوں اور سیکولر عوام کے لیے تشویش کا باعث بن گیا ہے ۔ خاص کر مسلمانوں کے عقائد سے ٹکرانے کی وجہ کرمسلم طلبہ اور ان کے گارجینوں میں شدید اضطراب پایا جا رہا ہے ، مسلم قائدین اس زعفرانی فرمان کے خلاف حرف احتجاج بلند کر رہے ہیں ۔
 ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، جس کا آئین سیکولر بنیادوں پر بنایا گیا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ کسی بھی ایک مذہب کو اس ملک میں آئینی و دستوری طور پر فوقیت نہیں دی جائے گی اور اس کے رسم و رواج اور احکامات کو ملک کے شہریوں کے لیے لازم نہیں کیا جائے گا؛ بلکہ ہر شخص کو اپنے لیے اپنا پسندیدہ مذہب و عقیدہ اختیار کرنے اور اس کے رسم و رواج پر چلنے کی آزادی ہو گی ۔ 
یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد سے ملک میں بننے والے قوانین و ضوابط ، منصوبوں اور پالیسیوں میں آئین کے اس بنیادی اقدار کا ہمیشہ خیال رکھا گیا ۔ آزادی کے بعد سے جتنی تعلیمی پالیسیاں بنیں یا نصاب تیار کیے گئے، ان سب میںیہ بنیادی عنصرکے طور پر ملحوظ رہا ۔ مگر ملک کی ایک جماعت جس کو یہ سیکولر اقدار کبھی ہضم نہیں ہوئے اور وہ اس ملک کو ایک خاص مذہب و عقیدے کا پابند بنانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہی ۔ ۲۰۱۴ء میں جب بی جے پی کی قیادت میں اس جماعت نے پوری اکثریت کے ساتھ زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا، تو وہ اس ایجنڈے کی تکمیل میں لگ گئی اورپورے ملک کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کی قواعد شروع کردی ۔ تعلیمی پالیسی کا بھگوا کرن اور تعلیمی نظام کو ہندتو کے عقیدے اور آستھا کی بنیاد پر چلا نا اس کے اولین ایجنڈے میں شامل ہے ۔ اسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اس نے پورے ملک میں نئی قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء لاگو کرنے کا فیصلہ کیا ، جو مکمل طور پر ہندوتو کی ترجمان ہے اور قدیم سناتنی روایات کو مد نظر رکھ کر بنائی گئی ہے ۔نئی قومی تعلیمی پالیسی میں جو سفارشات کی گئی ہیں اسکو عملی جامہ پہنائے جانے کا کام شروع ہو چکا ہے ۔ یکم جنوری ۲۰۲۲ء سے تیس ریاستوں کے تقریباً تیس ہزار اسکولوں میں سوریہ نمسکار کو متعارف کرانے اور یوم جمہوریہ ۲۶؍ جنوری ۲۰۲۲ء کے موقعہ پر طلبہ و طالبات کے ذریعہ سوریہ نمسکار پر مشتمل تقریب کے انعقاد کا فیصلہ اسی کی ایک کڑی ہے۔ حکومت کا یہ اقدام آئین کے بنیاد ی اقدار کی سراسر خلاف ورزی  اور مسلمان طلبہ و طالبات کے لیے ناقابل قبول ہے۔ مسلمان اللہ کے علاوہ کسی بھی جاندار یا بے جان شئی کی عبادت و پوجا نہیں کر سکتا ۔ سوریہ نمسکار کا جو طریقہ ہے وہ گویا سورج کی عبادت کرنے ہی کے مترادف ہے ۔ جو ہمیں کسی بھی صورت میں منظور نہیں ہے، اس لئے حکومت ہند سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ اس حکم نامہ کو فوراً واپس لے اور اس کو اسکولوں میں نافذ کرنے سے باز آئے ۔ تمام مسلم طلبہ و طالبات سے ہم امید رکھتے ہیں کہ اگر ان کے اسکولوں میں سوریہ نمسکار کا پروگرام ہوتا ہے تو وہ ہرگز اس میں شریک نہیںہوںاور نہ اس طرح کی کسی بھی تقریب میں حصہ لیںگے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ملک کی عوام کو اس طرح کے فضول مسائل میں الجھانے کے بجائے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دے ، مہنگائی اور بے روزگاری کی روک تھام ، سرحدوں کی حفاظت ، ملکی اثاثوں کے تحفظ جیسے مسائل پر اپنی توجہ صرف کرے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...