Powered By Blogger

منگل, دسمبر 26, 2023

مولانا محمداویس عالم قاسمی

مولانا محمداویس عالم قاسمی
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

دین کے بڑے داعی اور استاذ درس وافتاء مدرسہ اصلاحیہ نام نگر نبٹولیہ دربھنگہ مولانا محمد ادیس عالم قاسمی (پی ایچ ڈی) بن ظاہر حسین بن محمد اکبر کا 16 شوال 1429 ھ مطابق 12 اکتوبر 2008 کو انتقال ہو گیا۔ اخبار میں دو ایک تعزیتی بیان آیا اور سطح آب خاموش ہو گیا، رسم دنیا بھی یہی ہے، اور کارگاہ حیات کا نظام ایسے ہی چلتا رہا ہے، جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ ایک شخص کا اٹھ جانا نہیں، بڑے عالم دین، عظیم داعی بہترین استاذ، اچھے مفتی اور صاحب قلم کا اٹھ جانا ہے، ماتم شخص کا نہیں، ایسی شخصیت کا ہے جس نے حیات مستعار کے پچپن سال میں علاقہ میں شرک و بدعات سے اجتناب کی زبردست تحریک چلائی، تبلیغ کے کام کو گھر گھر اور گاؤں گاؤں لے گیا، تعلیم کی ترویج و اشاعت کے لیے کوشاں رہا، وسعت مطالعہ کے لیے آنکھوں کو پھوڑتا رہا، اور راتوں کی تاریکی میں اتنے آنسو بہائے کہ آنکھیں بے نور ہو گئیں، اور ایسی جگر کاوی کی کہ گردہ نے کام کرنا بند کر دیا، پہلے آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں علاج چلا، پھر دربھنگہ لے آئے گئے، اور بی آرنرسنگ ہوم کے ایمرجنسی وارڈ میں جان جاں آفریں کے سپرد کیا، نماز جناز 13 شوال 1429ھ بعد نماز ظہر مولانا کے مخلص، وکیل اسد اللہ صاحب نے پڑھائی، اور سینکڑوں سوگوار لوگوں کی موجودگی میں اپنے آبائی گاؤں برہم پور میں سپرد خاک کئے گئے۔
نمونہئ سلف، پیکر صدق و صفاء سادہ لوح اور سادگی پسند مولا نا محمد اویس عالم قاسمی صاحب سے میری پہلی ملاقات پچیس سال قبل ہر پوربیشی، ضلع سیتامڑھی میں ہوئی تھی، نادر یہ لائبریری کا افتتاحی اجلاس تھا۔ مولانا محمد شعیب قاسمی کی دعوت اور مولانا عزیر قاسمی کے اصرار پر مدرسہ احمد یہ ابابکر پورویشالی سے میری حاضری ہوئی تھی، مولانا محمد شعیب صاحب جس انداز میں بحیثیت استادان کا تذکرہ کر رہے تھے، اس سے میں انہیں ایک معمر آدمی سمجھ رہا تھا، لیکن جب تشریف لائے تو جواں سال، چہرے پر سادگی کا نور، دل میں ایمان کا سرور، تقریر میں جلوہئ طور اور مزاج میں کبرور یا سے نفور کی عملی تصویر نظر آئے۔ پہلی ملاقات میں کم ہی لوگوں سے میرا گھلنا ملنا ہوتا ہے، اس لیے یہ ملاقات بھی رسمی سی رہی، ایک دوسرے کی مزاج پرسی، میدان کار سے واقفیت اور ٹوٹتے اقدار کے ماتم پر بات ختم ہوگئی اور صبح ہم دونوں نے اپنی راہ لی۔
 دوسری ملاقات امارت شرعیہ میں ہوئی، حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نور اللہ مرقدہ نے بانیئ امارت شرعیہ ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد کی حیات و خدمات پر سمینار کا فیصلہ کیا اس کام کے لیے انہیں دو ایسے آدمی کی تلاش تھی جس کے اندر تلاش و جستجو کا مادہ ہو اور لکھنے پڑھنے کا شوق بھی، حضرت قاضی صاحب کی نظر انتخاب مولانا محمد اویس عالم قاسمی اور راقم الحروف (محمدثناء الہدی قاسمی) پر پڑی۔ چنانچہ ہم دونوں کی طلبی ہوئی،  ہم لوگ دفتر امارت شرعیہ میں پندرہ روز سمینار کی تیاری، مواد کی فراہمی، اور مولانا سجاد کے آثار کی تلاش و جستجو میں لگے رہے، پندرہ روز سے زائد کی فرصت ہم لوگوں کو مدرسہ سے نہ مل سکی، اس لیے یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا، بعد میں ضمان اللہ ندیم مرحوم نے پوری توجہ اور لگن سے اس کام کو ”آثار سجاد“ کے نام سے مکمل کیا اور ایک قیمتی کام سمینار کے بہانے سے ہو گیا۔ اس کے بعد مختلف موقعوں سے اصلاح معاشرہ کے جلسوں میں مولانا نے یاد کیا اور مولانا کے خلوص کی وجہ سے میں وقت نکالتا رہا، ان کے مدرسہ کے جلسوں میں بھی شرکت رہی، اور قرب و جوار میں بھی ان کی دعوت پر جانا ہوا، ہر ملاقات میں ان کی محبت میں اضافہ ہوتا رہا۔
 مولانا مرحوم نے اپنا تعلیمی سفر پرائمری اسکول برہم پورہ سے شروع کیا تھا، ماسٹر مقصود صاحب بونسی اور مولانا ظفر صاحب کمہرولی نے شاگردی کے آداب سکھائے اور دو سال میں حصول علم کا جذبہ پیدا کیا، تحتانیہ سوم میں وہ مدرسہ مال ٹولہ کشن گنج میں داخل ہوئے، 1969 ء میں مدرسہ الحسنہ حسن آباد پدم پور ضلع کشن گنج (قدیم پورنیہ) سے فوقانیہ کا امتحان پاس کیا، یہاں انہوں نے مولانا محمد عرفان مولا نا تجمل حسین، مولانا محمد اسرائیل مظفر پوری، مفتی محمد یوسف اور ماسٹر محمد شفیع صاحب کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا، 1971ء میں مدرسہ فضل رحمانی بھلا ہی، سہرسہ سے مولوی، مدرسہ رحمانیہ افضلہ سوپول بیرول، دربھنگہ سے 1973ء میں عالم اور 1975ء میں فاضل کیا، کتا بیں نہیں پڑھیں، فن پڑھا، اور نامور اساتذہ سے پڑھا، حضرت مولانا محمد عثمانؒ، مولا نا شمس الہدیؒ، مولا نا محمد قاسمؒ مظفر پوری، مولا نا ہارون رشید،ؒ مولانا سعد اللہؒ، ماسٹر کمال صاحبؒ کی خصوصی توجہ سے ذرہ آفتاب بنا، پھر تاب و تب میں اضافہ کے لیے مولانا نے دارالعلوم دیو بند کا سفر کیا اور 1975 سے 1978 تک وہاں کے اکابر علماء ومحد ثین سے کسب فیض کیا دورہ حدیث اور تکمیل ادب وافتاء کی سند پائی۔ حضرت مولا نا شریف الحسنؒ، مفتی محمود حسن گنگوہیؒ، مفتی نظام الدینؒ، مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحیؒ، مفتی احمد علی سعیدؒ، مولانا محمد حسین بہاریؒ، مولانا فخر الحسنؒ، مولانا معراج الحقؒ، مولانا نعیم احمدؒ، مولانا وحید الزماں کیرانویؒ، مولانا محمد سالم قاسمیؒ، مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ، مولانا قمر الدینؒ، مولا نا ریاست علی بجنوریؒ، مولا نا عبدالخالق مدراسی، قاری عتیق الرحمن وغیرہ جیسے فاضل روزگار کی صحبت اور شاگردی نے ان کے اندر نکھار پیدا کیا، بہار یونیورسٹی سے اردو فارسی میں ایم اے اور پٹنہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد انہوں نے درس و تدریس کا کام شروع کیا، درس گاہ عالیہ شریف مراد آباد، مدرسہ تا را پور گجرات اور جامعہ رحمانی مونگیر میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد مدرسہ اصلاحیہ نام نگر نبٹولیہ آگئے۔ اور زندگی کے قیمتی پچیس سال یہیں درس و تدریس افتاء نویسی و دعوت و تبلیغ میں گزارا۔
درس و تدریس کے ساتھ مولانا کو اللہ تعالیٰ نے قلم کی دولت سے بھی نوازا تھا، تذکر ہ حضرت مولا نا محمد عثمانؒ سابق شیخ الحدیث مدرسہ رحمانیہ سوپول، طہارت و نماز کے تفصیلی مسائل، حج وعمرہ کا شرعی طریقہ عشرہ وزکوٰۃ کے مسائل وغیر و کتابیں ان کی طبع ہو کر مقبول عام ہو چکی ہیں۔ جبکہ شرح شمائل ترمذی، سوانح حضرت مولانا بشارت کریمؒ غیر مطبوعہ مسودے کی شکل میں موجود ہے، مضامین و مقالات اس کے علاوہ ہیں، عمر کم پائی اور کام بڑاہو گیا، اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے، پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ پانچ لڑکی اور تین لڑکے ہیں۔ اللہ ان سب کا حامی و ناصر ہے۔ مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی صاحب ؒ مفتی دارالعلوم دیو بند نے اپنی تعزیتی تقریر میں بجا فر مایا کہ مرحوم کے باقی ماندہ اور ادھورے کاموں کو انجام تک پہنچانا اور ان کے بال بچوں کے لیے خورد و نوش کا انتظام، ہم سب کا فریضہ ہے اور یہی مرحوم کے لیے بہترین خراج عقیدت بھی ہے۔

خون عطیہ کرنے کے لئے لوگوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹرس

سوسائٹی فرسٹ، دربھنگہ کی جانب سے ٹاؤن ہال دربھنگہ میں " خون عطیہ اعزازی تقریب  2023" منعقد ہوا 
اردودنیانیوز۷۲ 
 خون عطیہ کرنے سے جسم کو نقصان نہیں بلکہ فائیدہ ہوتا ہے: دانشوران 

خون عطیہ کرنے کے لئے لوگوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹرس 

دربھنگہ ( عرفان احمد پیدل ) خون کا عطیہ انسانیت کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ اس کے لیے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے مزکورہ باتیں دربھنگہ میونسپل کارپوریشن کی میئر انجم آرا نے ٹاؤن ہال دربھنگہ میں سوسائٹی فرسٹ، دربھنگہ کے زیر اہتمام منعقد " خون عطیہ اعزازی تقریب میں اعزاز  2023‘‘ سے نوازا گیا اس تقریب کا افتتاح کرتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور تمام خون عطیہ کرنے والوں کو مبارکباد دی اور کہا اپنے ملنے جلنے والوں سے کہیں کی آپ بھی اس میں حصہ لیں خون عطیہ کرنے سے نقصان نہیں بلکہ اس سے فائدہ ہی ہوتا ہے وہیں ڈپٹی میئر نازیہ حسن نے بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب میں کہا کہ آج کا دن شاندار اور یادگار دن ہے۔اج جو بھی لوگ اس خون عطیہ کیمپ میں حصہ لیئے ہیں وہ سب کے سب ذات ب، مذاہب سے اوپر اٹھ کر مرد و خواتین اور نوجوان آپنا خون عطیہ کر رہے ہیں جو کہ ایک اچھے انسانیت کی عظیم علامت ہے۔ یہ بہت ہی نیک عمل ہے۔ خون کا عطیہ دینے سے بے پناہ راحت ملتی ہے۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ خون کے عطیات کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگ آگے آئیں مہمان خصوصی کے طور پر ماہر امراض اطفال ڈاکٹر اتسو راج نے کہا کہ خون کی کمی کی وجہ سے بڑی تعداد میں ماؤں اور بچوں کی اموات میں اضافہ ہوا ہے اگر ہم جیسے لوگ اس کو لیکر بیدار ہو گئے تو یقیناً اس میں دیکھنے کو مل سکتا ہے بلڈ بینک میں ہمیشہ زیادہ خون ہونا چاہیئے تاکہ لاوارث، دور دراز کے لوگوں اور غریب مریضوں کو بھی بلاتعطل خون مل سکے۔
ریڈ کراس سوسائٹی کے سکریٹری منموہن سراوگی نے آرگنائزنگ تنظیم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ خون عطیہ کرنے والے عظیم ہیں۔ لوگوں کو خون کا عطیہ دینے کے لیے بیدار کرنے کی ضرورت ہےاور ساتھ ساتھ انہیں ترغیب دینے کی ضرورت ہے انہوں نے بتایا کہ دربھنگہ میں آئی بینک کام کر رہا ہے اس لیے مرنے والوں کے اہل خانہ کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنی آنکھیں عطیہ کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لئے لوگوں کو بیدار کریں عمار یاسر نے کہا کہ خون کا عطیہ دینے سے ہمیں عطیہ کرنے کا احساس ملتا ہے۔ اس سے ہماری انا بھی دور ہو جاتی ہے۔ ہمارے لیے معاشرے کو پہلے آنا چاہئیے ٹارگٹ انسٹی ٹیوٹ کے سونو نے کہا کہ خون دینے والوں کے چہروں پر خوشی ہے۔ وہ کسی ذات، مذہب، رنگ یا علاقے کے پابند نہیں ہیں۔
صدارتی خطاب میں متھلا یونیورسٹی کے سنسکرت کے پروفیسر ڈاکٹر آر این چورسیا نے کہا کہ خون کا عطیہ زندگی کا عطیہ اور ایک عظیم عطیہ ہے، جس سے حتمی سکون اور اندرونی خوشی ملتی ہے۔ یہ دکھی انسانیت کے تحفظ اور سماجی خدمت کا بہترین ذریعہ ہے۔ خون کا عطیہ کرنے سے کسی قسم کی کمزوری یا نقصان نہیں ہوتا بلکہ خون بننے کا عمل تیز ہوتا ہے اور کئی طرح کی بیماریوں کے مفت ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ 18 سے 65 سال کی عمر کا کوئی بھی صحت مند شخص ہر تین سے چار ماہ بعد خون کا عطیہ دے سکتا ہے۔ خون کا ایک یونٹ عطیہ کرنے سے 3 سے 4 لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ خاص طور پر حادثے کا شکار ہونے والے، آپریشن کے مریض، ڈیلیوری کرنے والی خواتین، بلڈ کینسر کے مریض، تھیلیسیمیا کے مریض یا ہیموگلوبن کی کمی کے شکار افراد کو خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیبارٹریوں میں مصنوعی طریقے سے خون نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی جانوروں اور پرندوں کے خون سے انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
پروقار تقریب میں 150 سے زائد خون عطیہ کرنے والوں کو سرٹیفکیٹس اور میمینٹو جیس اعزاز سے نوازا گیا جبکہ مہمانوں کا استقبال متھلا کی روایت کے مطابق پاگ ، چادر ، گلدستہ اور میمینٹو دیکر کیا گیا پروگرام میں گریس ہسپتال مدھوبنی کے ڈاکٹر اقبال حسن، ٹارگٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر عامر حسن، ایڈوکیٹ محمد اشفاق، بلڈ ڈونیشن فار ہیومینٹی ممبر عبدالمالک، سوسائٹی فرسٹ ممبر ایم کے نذیر، محمد ریحان انصاری، عبدالمالک و  ماحولیات کے سنجئے کمار 21 بار بلڈ ڈونر دیویانگ بیدیا ناتھ کمار، 25 بار بلڈ ڈونر پرکاش جھا، محمد جاوید، بلڈ ڈونر آنند انکت، جئے پرکاش کمار ساہو، منوج کمار، مکیش کمار جھا اور پرناو کمار وغیرہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ .
مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے سوسائٹی فرسٹ کے صدر اور پروگرام کوآرڈینیٹر نذیر الہدا نے تنظیم کے اغراض و مقاصد پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تعلیمی اور سماجی تنظیم ہے جو خون کے عطیہ کیمپوں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ خون کے عطیہ سے متعلق بیداری پروگراموں کا انعقاد کر خون کے عطیات دینے والوں کو بیدار کرتی ہے۔ 


فوٹو ۔۔۔ خون عطیہ کیمپ

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...