Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
دین کے بڑے داعی اور استاذ درس وافتاء مدرسہ اصلاحیہ نام نگر نبٹولیہ دربھنگہ مولانا محمد ادیس عالم قاسمی (پی ایچ ڈی) بن ظاہر حسین بن محمد اکبر کا 16 شوال 1429 ھ مطابق 12 اکتوبر 2008 کو انتقال ہو گیا۔ اخبار میں دو ایک تعزیتی بیان آیا اور سطح آب خاموش ہو گیا، رسم دنیا بھی یہی ہے، اور کارگاہ حیات کا نظام ایسے ہی چلتا رہا ہے، جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ ایک شخص کا اٹھ جانا نہیں، بڑے عالم دین، عظیم داعی بہترین استاذ، اچھے مفتی اور صاحب قلم کا اٹھ جانا ہے، ماتم شخص کا نہیں، ایسی شخصیت کا ہے جس نے حیات مستعار کے پچپن سال میں علاقہ میں شرک و بدعات سے اجتناب کی زبردست تحریک چلائی، تبلیغ کے کام کو گھر گھر اور گاؤں گاؤں لے گیا، تعلیم کی ترویج و اشاعت کے لیے کوشاں رہا، وسعت مطالعہ کے لیے آنکھوں کو پھوڑتا رہا، اور راتوں کی تاریکی میں اتنے آنسو بہائے کہ آنکھیں بے نور ہو گئیں، اور ایسی جگر کاوی کی کہ گردہ نے کام کرنا بند کر دیا، پہلے آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں علاج چلا، پھر دربھنگہ لے آئے گئے، اور بی آرنرسنگ ہوم کے ایمرجنسی وارڈ میں جان جاں آفریں کے سپرد کیا، نماز جناز 13 شوال 1429ھ بعد نماز ظہر مولانا کے مخلص، وکیل اسد اللہ صاحب نے پڑھائی، اور سینکڑوں سوگوار لوگوں کی موجودگی میں اپنے آبائی گاؤں برہم پور میں سپرد خاک کئے گئے۔
نمونہئ سلف، پیکر صدق و صفاء سادہ لوح اور سادگی پسند مولا نا محمد اویس عالم قاسمی صاحب سے میری پہلی ملاقات پچیس سال قبل ہر پوربیشی، ضلع سیتامڑھی میں ہوئی تھی، نادر یہ لائبریری کا افتتاحی اجلاس تھا۔ مولانا محمد شعیب قاسمی کی دعوت اور مولانا عزیر قاسمی کے اصرار پر مدرسہ احمد یہ ابابکر پورویشالی سے میری حاضری ہوئی تھی، مولانا محمد شعیب صاحب جس انداز میں بحیثیت استادان کا تذکرہ کر رہے تھے، اس سے میں انہیں ایک معمر آدمی سمجھ رہا تھا، لیکن جب تشریف لائے تو جواں سال، چہرے پر سادگی کا نور، دل میں ایمان کا سرور، تقریر میں جلوہئ طور اور مزاج میں کبرور یا سے نفور کی عملی تصویر نظر آئے۔ پہلی ملاقات میں کم ہی لوگوں سے میرا گھلنا ملنا ہوتا ہے، اس لیے یہ ملاقات بھی رسمی سی رہی، ایک دوسرے کی مزاج پرسی، میدان کار سے واقفیت اور ٹوٹتے اقدار کے ماتم پر بات ختم ہوگئی اور صبح ہم دونوں نے اپنی راہ لی۔
دوسری ملاقات امارت شرعیہ میں ہوئی، حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نور اللہ مرقدہ نے بانیئ امارت شرعیہ ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد کی حیات و خدمات پر سمینار کا فیصلہ کیا اس کام کے لیے انہیں دو ایسے آدمی کی تلاش تھی جس کے اندر تلاش و جستجو کا مادہ ہو اور لکھنے پڑھنے کا شوق بھی، حضرت قاضی صاحب کی نظر انتخاب مولانا محمد اویس عالم قاسمی اور راقم الحروف (محمدثناء الہدی قاسمی) پر پڑی۔ چنانچہ ہم دونوں کی طلبی ہوئی، ہم لوگ دفتر امارت شرعیہ میں پندرہ روز سمینار کی تیاری، مواد کی فراہمی، اور مولانا سجاد کے آثار کی تلاش و جستجو میں لگے رہے، پندرہ روز سے زائد کی فرصت ہم لوگوں کو مدرسہ سے نہ مل سکی، اس لیے یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا، بعد میں ضمان اللہ ندیم مرحوم نے پوری توجہ اور لگن سے اس کام کو ”آثار سجاد“ کے نام سے مکمل کیا اور ایک قیمتی کام سمینار کے بہانے سے ہو گیا۔ اس کے بعد مختلف موقعوں سے اصلاح معاشرہ کے جلسوں میں مولانا نے یاد کیا اور مولانا کے خلوص کی وجہ سے میں وقت نکالتا رہا، ان کے مدرسہ کے جلسوں میں بھی شرکت رہی، اور قرب و جوار میں بھی ان کی دعوت پر جانا ہوا، ہر ملاقات میں ان کی محبت میں اضافہ ہوتا رہا۔
مولانا مرحوم نے اپنا تعلیمی سفر پرائمری اسکول برہم پورہ سے شروع کیا تھا، ماسٹر مقصود صاحب بونسی اور مولانا ظفر صاحب کمہرولی نے شاگردی کے آداب سکھائے اور دو سال میں حصول علم کا جذبہ پیدا کیا، تحتانیہ سوم میں وہ مدرسہ مال ٹولہ کشن گنج میں داخل ہوئے، 1969 ء میں مدرسہ الحسنہ حسن آباد پدم پور ضلع کشن گنج (قدیم پورنیہ) سے فوقانیہ کا امتحان پاس کیا، یہاں انہوں نے مولانا محمد عرفان مولا نا تجمل حسین، مولانا محمد اسرائیل مظفر پوری، مفتی محمد یوسف اور ماسٹر محمد شفیع صاحب کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا، 1971ء میں مدرسہ فضل رحمانی بھلا ہی، سہرسہ سے مولوی، مدرسہ رحمانیہ افضلہ سوپول بیرول، دربھنگہ سے 1973ء میں عالم اور 1975ء میں فاضل کیا، کتا بیں نہیں پڑھیں، فن پڑھا، اور نامور اساتذہ سے پڑھا، حضرت مولانا محمد عثمانؒ، مولا نا شمس الہدیؒ، مولا نا محمد قاسمؒ مظفر پوری، مولا نا ہارون رشید،ؒ مولانا سعد اللہؒ، ماسٹر کمال صاحبؒ کی خصوصی توجہ سے ذرہ آفتاب بنا، پھر تاب و تب میں اضافہ کے لیے مولانا نے دارالعلوم دیو بند کا سفر کیا اور 1975 سے 1978 تک وہاں کے اکابر علماء ومحد ثین سے کسب فیض کیا دورہ حدیث اور تکمیل ادب وافتاء کی سند پائی۔ حضرت مولا نا شریف الحسنؒ، مفتی محمود حسن گنگوہیؒ، مفتی نظام الدینؒ، مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحیؒ، مفتی احمد علی سعیدؒ، مولانا محمد حسین بہاریؒ، مولانا فخر الحسنؒ، مولانا معراج الحقؒ، مولانا نعیم احمدؒ، مولانا وحید الزماں کیرانویؒ، مولانا محمد سالم قاسمیؒ، مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ، مولانا قمر الدینؒ، مولا نا ریاست علی بجنوریؒ، مولا نا عبدالخالق مدراسی، قاری عتیق الرحمن وغیرہ جیسے فاضل روزگار کی صحبت اور شاگردی نے ان کے اندر نکھار پیدا کیا، بہار یونیورسٹی سے اردو فارسی میں ایم اے اور پٹنہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد انہوں نے درس و تدریس کا کام شروع کیا، درس گاہ عالیہ شریف مراد آباد، مدرسہ تا را پور گجرات اور جامعہ رحمانی مونگیر میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد مدرسہ اصلاحیہ نام نگر نبٹولیہ آگئے۔ اور زندگی کے قیمتی پچیس سال یہیں درس و تدریس افتاء نویسی و دعوت و تبلیغ میں گزارا۔
درس و تدریس کے ساتھ مولانا کو اللہ تعالیٰ نے قلم کی دولت سے بھی نوازا تھا، تذکر ہ حضرت مولا نا محمد عثمانؒ سابق شیخ الحدیث مدرسہ رحمانیہ سوپول، طہارت و نماز کے تفصیلی مسائل، حج وعمرہ کا شرعی طریقہ عشرہ وزکوٰۃ کے مسائل وغیر و کتابیں ان کی طبع ہو کر مقبول عام ہو چکی ہیں۔ جبکہ شرح شمائل ترمذی، سوانح حضرت مولانا بشارت کریمؒ غیر مطبوعہ مسودے کی شکل میں موجود ہے، مضامین و مقالات اس کے علاوہ ہیں، عمر کم پائی اور کام بڑاہو گیا، اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے، پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ پانچ لڑکی اور تین لڑکے ہیں۔ اللہ ان سب کا حامی و ناصر ہے۔ مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی صاحب ؒ مفتی دارالعلوم دیو بند نے اپنی تعزیتی تقریر میں بجا فر مایا کہ مرحوم کے باقی ماندہ اور ادھورے کاموں کو انجام تک پہنچانا اور ان کے بال بچوں کے لیے خورد و نوش کا انتظام، ہم سب کا فریضہ ہے اور یہی مرحوم کے لیے بہترین خراج عقیدت بھی ہے۔