Powered By Blogger

بدھ, اپریل 12, 2023

پیغمبر اسلام تاریخ کے آئینے میں ایک مطالعہ محمد ضیاء العظیم قاسمی،ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پٹنہ واستاذ جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ پھلواری شریف

پیغمبر اسلام تاریخ کے آئینے میں ایک مطالعہ 
Urduduniyanews72
  محمد ضیاء العظیم قاسمی،ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پٹنہ واستاذ جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ پھلواری شریف 
موبائل نمبر :      7909098319

نام کتاب : پیغمبر اسلام تاریخ کے آئینے میں 
مصنف /مترجم :      شاہد احمد 
سال اشاعت :        2022 
صفحات :                448
تعداد اشاعت :          500 
کمپوزنگ :       محمد امتیاز عالم ندوی 
سر ورق :        دھیرج کمار 
طباعت :        ارم پرنٹرس ،دریا پور پٹنہ 
قیمت :          600/روپے 
ملنے کے پتے :  بک امپوریم، سبزی باغ پٹنہ 
پرویز بک ہاؤس، سبزی باغ پٹنہ  

تاریخ سیرت نبویﷺ کامو ضوع ہر دور کے مسلم علماء، مفکرین، دانشوروں اور مصنفین کے افکار وتوجہات کے مرکز رہے ہیں،اور ہمیشہ اسے ان لوگوں نے اپنے لئے باعث سعادت سمجھا ہے ۔ ہر ایک نے اپنی اپنی وسعت وگنجائش اور رب العالمین کی عطاء کردہ توفیق وتوثيق کے مطابق اس پر خامہ فرسائی کی ہیں ۔ نبی کریمﷺ کی تاریخ وسیرت کا مطالعہ کرنا ہمارے ایمان کے اہم جزئیات میں شامل ہے ۔ قرآن مجید میں نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ اور سیرت کو ہمارے لئے ایک کامل نمونہ قرار دیا جا چکا ہے، اور ساتھ ہی یہ فرمان جاری کردیا گیا ہے کہ تمہاری زندگی صرف انہیں طریقے کو اپنا کر اور اس پر عمل پیرا ہو کر کامیاب ہو سکتی ہے، یہاں تک کہ رب العالمين نے اپنی رضامندی صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور ان سے محبت پر منحصر رکھی ہے ۔اخلاق وآداب کا کون سا ایسا معیار ہے جو آپﷺ کی حیات مبارکہ سے نہ ملتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے ذریعہ دین اسلام کی تکمیل ہی نہیں ،بلکہ نبوت اور راہنمائی کے سلسلہ کو آپ کی ذات اقدس پر ختم کر کےنبوت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ سیرت انسانیت کی بھی تکمیل فرما دی کہ آج کے بعد اس سے بہتر ،ارفع واعلیٰ اور عمدہ نمونہ و کردار کا تصور بھی ناممکن اور محال ہے۔ آپﷺ کی تاریخ وسیرت طیبہ پر متعدد زبانوں میں بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں، اور لکھی جا رہی ہیں اور تا قیامت لکھی جاتی رہیں گی ۔ کئی غیرمسلم مفکرین اور سوانح نگاروں نے نبی کریم ﷺکی سیرت و اخلاق سے متاثر ہوکر سیرت نبوی ﷺپر بڑی شاندار کتابیں مرتب کی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ پیغمبر اسلام تاریخ کے آئینے میں ‘‘ محترم شاہد احمدسمن پورہ پٹنہ (سابق ڈی جی پی منی پور) کی ایک شاہکار تصنیف ہے جسے مصنف نے اپنی تصنیف کردہ انگریزی کتاب "The Prophet of Islam in History" کا اردو زبان میں بیحد خوبصورتی کے ساتھ ترجمہ کیا ہے ۔448/صفحات اور گیارہ ابواب پر مشتمل یہ کتاب ہے،
کتاب کا سر ورق دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مصنف نے بڑی محنت وکاوش اور عرق ریزی کے ساتھ اس تصنیفی مرحلے کو طے کیا ہے، کتاب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے اور تعلق سے جتنی بھی باتیں اور تاریخیں لائ گئ ہیں وہ سب مستند کتابوں کے حوالے کے ساتھ ہیں جو اس کتاب کے معیار کو بہت بلند کرتی ہے ۔
کتاب کی شروعات دیباچہ سے کی گئی ہے جس میں مصنف نے وجہ تالیف وتصنیف کے ساتھ ساتھ سیرت اور تاریخ سیرت کی اہمیت و افادیت پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے اظہارو خیال، احساسات وجذبات اور عشق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار کیا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے واسطے کیا اہمیت رکھتی ہے سیرت کا جاننا سمجھنا کیوں ہمارے لئے ضروری ہے ان سب پر اظہار کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے منسلک واقعات اور رجحانات پر تاریخی اعتبار سے ایک سرسری اور اجمالی خاکہ پیش کیا ہے ۔

دس ابواب میں اسلامی تاریخ اور تاریخ سیرت کا احاطہ کرنے کی مصنف و مؤلف نے خوبصورتی کے ساتھ بھر پور سعی کی ہے اور اپنی اس سعی میں وہ حتی الامکان کامیاب وکامران نظر آتے ہیں ۔

 کتاب کی وجہ تالیف بزبان مصنف :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ حیات کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد رسول کریم ﷺ کی تاریخی تصویر کو اپنی انگریزی تصنیف "The Prophet of Islam in History" میں نہایت ہی صداقت اور غیر جانبدارانہ طریقے کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔پیش نظر کتاب اسی کا اردو ترجمہ ہے جو اس خیال سے کیا گیا ہے کہ بیشمار اردو داں قارئین جنہیں انگریزی کا زیادہ علم نہیں ہے اس اردو کتاب سے مستفیض ہونے سے محروم نہ رہ جائیں ۔
یقیناً مصنف و مؤلف کی سوچ فہم وفراست بڑی ہے ۔
دس ابواب پر مشتمل یہ اس کتاب کی فہرست اس طرح ہے ۔
باب اول :( حضرت محمد ﷺ کے بارے میں تاریخ نویسی) اس باب میں آپ ﷺ کی سیرت کو تاریخی حیثیت کیا ہے؟ مؤرخین کی رائے سیرت اور تاریخ اسلام پر کیا ہے ان سب موضوعات پر جامع تبصرہ پیش کیا گیا ہے ۔
باب دوم: (رسول اللہ ﷺ کی آمد کے وقت عرب کے حالات) اس باب میں آپ ﷺ کی آمد سے قبل اور آمد کے وقت عرب کے کیا حالات تھے اور آپ کی دعوت تبلیغ نے کیا رنگ لایا اس کا جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔
باب سوم :  (محمد ﷺ کی ابتدائی زندگی) اس باب میں آپ ﷺ کی ابتدائی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ کے اوصاف واطوار آپ کے کردار کا خوبصورت نقشہ کھینچا گیا ہے ۔
باب چہارم : (نزول وحی اور خفیہ دعوت اسلام) اس باب میں وحی کے نزول کی ابتداء، خفیہ دعوت تبلیغ کس انداز میں کی گئی، اور دعوت تبلیغ نے کیا انقلاب برپا کیا اس پر بڑی اچھی گفتگو کی گئی ہے ۔
باب پنجم : (اعلانیہ دعوت اسلام اور اس کا رد عمل) اس باب میں اعلانیہ طور پر دین کی دعوت تبلیغ کے کیا نتائج برآمد ہوئے ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہیں ۔
باب ششم : (مسلمانوں پر کفار کے ظلم وستم) اس باب میں غریب کمزور اور لاچار ومجبور مسلمانوں پر ظلم زیادتی کس طرح کی گئی ہے اس پر تبصرہ ہے ۔
باب ہفتم : ہجرت :(ایک فیصلہ کن تبدیلی) اس باب میں مسلمانوں کے لئے مدینہ ہجرت کرنا، اور اللہ کا یہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں کیا رنگ لایا ۔
باب ہشتم :( اللہ کے لئے جہادی جنگ) اس باب میں جہاد کی حقیقت وضرورت، جہاد کے اسباب وجوہات ان باتوں کی وضاحت ۔
باب نہم : (شکست اور اسلامی اقتدار کی بحالی) اس باب میں اسلامی جنگ اور اسلامی اقتدار کس طرح بحال ہوا ان موضوعات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ہے ۔
باب دہم :( امن کی طرف) اس باب میں جنگ کے بعد اور جنگی نتائج کا نقشہ کھینچا گیا ہے ۔
باب یازدہم : (نصب العین کی تکمیل) اس باب میں مشترکہ طور پر اسلامی تاریخ ، نبی کریم ﷺ کے احوال، اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین کے واقعات وغیرہ بیان کئے گئے ہیں 

آخر میں ضمیمہ عنوان قائم کرکے محمد ﷺ کی بیویوں کی تاریخی پس منظر، فہرست، اور خاندانی تعارف کرایا گیا ہے ساتھ ساتھ نبی کریم ﷺ کے لئے تعدد الزوجات کی وجہیں، ضرورتیں ان سب کو بہترین پیرائے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
یقیناً یہ تصنیف محترم شاہد احمد ساکن سمن پورہ پٹنہ ( سابق ڈی جی پی) کی شخصیت اور آپ کے دینی مزاج اورنظریات کو اجاگر کرتی ہے،مختصر سیرت اور تاریخ اسلام کے لحاظ سے یہ ایک عمدہ تصنیف ہے، آپ اپنی ہزاروں مصروفیات کے باوجود صرف عشق نبی کی وجہ سے بڑی محنت اور لگن کے ساتھ اس تصنیفی سفر کو طے کیا ۔ہم اپنی جانب اور ادارہ کی جانب سے آپ کو اس تصنیف پر ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت اس کتاب کو آپ کے لئے اور ذریعۂ نجات بنائے ۔

اعتکاف شب قدر کی تلاش ہے !مفتی ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ ۱۹/رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ رابطہ، 9973722710

اعتکاف شب قدر کی تلاش ہے !
Urduduniyanews72
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں،چند منٹ کے لیے بھی اعتکاف کیا جاسکتا ہے، علماء کرام یہ کہتے ہیں کہ جب کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کرلے،اس کا بڑا فائدہ ہے،جتنی دیر وہ شخص مسجد میں رہے گا معتکف سمجھا جائے گا، اور اس کے اجر کا حامل ہوگا، مسجد سے جب وہ باہر چلا جائےگا، جبھی اس کا اعتکاف ختم ہوگا، اور اس پر ملنے والا اجر موقوف ہوگا،
شرعی اصطلاح میں اسے نفلی اعتکاف کہتے ہیں،یہ لمحہ بھر کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے، اس کے لیے روزہ بھی ضروری نہیں ہے،
مگر جب ایک آدمی اپنی زبان سے یہ کہ دیتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے مجھے کامیابی دی تو میں اتنے دنوں تک اعتکاف میں بیٹھا رہوں گا، یا رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف کروں گا، کامیابی ملی تو اب اس اعتکاف کاپورا کرنااس کے حق میں ضروری ہے،شریعت میں اس اعتکاف کی حیثیت واجب کی ہے،اس کے لیے روزہ ضروری ہے،اور یہ نذر والا اعتکاف ایک دن سے کم کا نہیں ہوسکتا ہے، 
اعتکاف کی تیسری قسم، یہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف ہے،اس کی شرعی حیثیت سنت مؤکدہ علی الکفایہ کی ہے،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی زندگی میں اس کا بڑا اہتمام کیا ہے،اور حین حیات  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مواظبت فرمائی ہے،جس عمل میں آپ صلی علیہ وسلم کی پابندی ہو شریعت میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے، اور یہ سنت سے اوپر مقام کا حامل ہے، اسی لیے اسے صرف سنت نہیں بلکہ سنت مؤکدہ سے تعبیر کرتے ہیں،
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت کرتی ہیں کہ؛نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے یہاں بلالیا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نےاعتکاف فرمایا، (بخاری)
اس اعتکاف کی اہمیت اس بات سے بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ایک مرتبہ کسی وجہ سے اعتکاف چھوٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال کے مہینے میں اس کی قضاء فرمائی تھی، اس سے مقصود اس آخری عشرہ کے اعتکاف کی اہمیت وافادیت سے لوگوں کو روشناس کرانا ہے، اور یہ سمجھانا ہے کہ یہ کس قدر مقبول وپسندیدہ اور ساتھ ہی ضروری عمل ہے کہ اس کی قضاء کی جارہی ہے، جبکہ سنن ونوافل میں قضا نہیں ہے، 
مگر آخری عشرہ کے اعتکاف کو یہ خاص مقام حاصل ہے،
اس کی ایک بڑی وجہ لیلۃ القدر کی تلاش ہے، چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا، پھر دوسرے عشرہ کا اعتکاف چھوٹے خیمہ میں کیا، اس اعتکاف کے دوران سر مبارک خیمہ سے نکال کر فرمایا؛میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا اور لیلۃ القدر کی تلاش کرتا رہا، پھر میں نے دوسرے عشرہ کا اعتکاف کیا تو مجھ سے ایک فرشتہ نے آکر کہا کہ لیلۃ القدر تو رمضان کے آخری عشرہ میں ہے،اب جو میری سنت کی اتباع میں اعتکاف کا ارادہ رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ آخری عشرہ میں اعتکاف کرے،(مسلم )
ایک متفق علیہ حدیث میں اماں جان حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت کرتی ہیں کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں معتکف اور گوشہ نشین ہوجاتے تھے، اور فرماتے تھے کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، (متفق علیہ )
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ہی سے ایک حدیث میں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو، (بخاری)
رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر کے ہونے پر بکثرت احادیث وارد ہوئی ہیں، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بعض کو آخری سات دنوں میں خواب میں شب قدر دکھائی گئی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہارا خواب زیادہ تر آخری سات دنوں کے متعلق ہے، پس جو اس کی تلاش کرنا چاہتا ہے وہ آخری سات دنوں میں تلاش کرے،(متفق علیہ )
گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخیر عشرہ کا یہ اعتکاف اس رات کی تلاش میں اور اس کے اجر وثواب کے حصول کی امید میں بھی ہے،جس رات کی عبادت کو قرآن کریم میں ہزار مہینوں سے زیادہ اجر کا حامل قرار دیا گیا ہے،مذکورہ بالا احادیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرہ کا اور دوسرے عشرہ کا بھی اعتکاف فرمایا ہے مگر یہاں وہ اہتمام نہیں ہے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مواظبت فرمائی ہے،اسی لیے پہلے عشرہ اور دوسرے عشرہ کے اعتکاف کو ہم مستحب کہ سکتے ہیں، اس سے زیادہ اس کا مقام نہیں ہے، اس کے برعکس اخیر عشرہ کا اعتکاف زیادہ مقام کا حامل ہے اور اس کی حیثیت سنت مؤکدہ کی ہے یہ دراصل اخیر عشرہ میں شب قدر کی تلاش یے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر کےاجر میں اپنے اہل وعیال کو بھی شریک کرنا چاہتے تھے، اسی لیے انہیں راتوں میں جگادیا کرتے اور عبادت کی تحریک فرماتے، اور خود مسجد میں معتکف ہوجاتے اور اعتکاف کے اعمال میں مشغول ہوجاتے، 
اپنی امت کو بھی آپ صلی علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعہ یہ تلقین فرمائی کہ شب قدر کے حصول کا سب سے آسان طریقہ اخیر عشرہ کا اعتکاف ہے۔
مگر آج اس ضروری عمل سے بڑی غفلت برتی جارہی ہے، عام تو عام بلکہ خاص لوگوں میں بھی اس کا اہتمام نہیں ہے، اب تو پیسے دیکر کچھ لوگوں کو مسجد میں بٹھا دیا جاتا ہے تاکہ محلہ والے گنہ گار ہونے سے بچ جائیں، اس بندہ کو نہ اعتکاف کا مطلب معلوم ہوتا ہے نہ اس کے شرائط وارکان کا پتہ ہوتا ہے،اور نہ ایک معتکف کے اشغال کا علم ہوتا ہے، ایک معتکف کو تلاوت قرآن، ذکر واذکار، تسبیحات، فقہی مسائل،ودینی معلومات میں مشغول ہونا چاہیے، اس کے برعکس ایک کونے میں میاں معتکف خاموش بیٹھے ہیں،آج خاموش رہنے کو اعتکاف سمجھا جاتا ہے، فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر عبادت سمجھ کر خاموش رہتا ہے تو یہ عمل مکروہ تحریمی ہے،ورنہ نہیں، اس لیے کہ حدیث میں آیا ہے جو خاموش رہا وہ نجات یافتہ ہوا (درمختارمع الرد)
مسجد کے حدود میں رہنا ایک معتکف کے لیے ضروری عمل ہے،اس کی شرعی حیثیت شرط کی ہے،وہ کرایہ کا بندہ وضوخانے میں بلا ضرورت بیٹھا ہے، اعتکاف کو خراب کررہا ہے،وہ خود گنہ گار ہورہا ہے اور بقیہ لوگوں کو بھی گنہ گار بنارہا ہے،ویسے بھی اجرت دیکر اعتکاف میں بیٹھانا درست نہیں ہے، اور اعتکاف میں بیٹھنے والے کے لیے اجرت لینا بھی درست نہیں ہے، شرعی اصول ہے کہ طاعت وعبادت پر اجرت لینا اور دینا جائز نہیں ہے،(درمختارمع الرد)
اس وقت اس اہم عبادت کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے،شہر کی تمام مساجد میں اعتکاف کرنے کو بہتر کہا گیا ہے، اس کا التزام کیا جانا چاہیے، جو اعتکاف میں بیٹھنے جارہے ہیں وہ اس متعلق ضروری باتیں بھی معلوم کرلیں، جبھی اس اخیر عشرہ کے اعتکاف کا مکمل فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے، اور شب قدر کی فضلیت حاصل کی جاسکتی ہے۔خواتین حضرات کو بھی اس اہم عمل کی طرف متوجہ کرنے کی موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے، امت کی ماؤں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس مسنون اعتکاف کی پابندی فرمائی ہیں، خواتین اسلام کی ذمہ داری اچھی افطاری اور لذیذ سحری ہی نہیں ہے بلکہ بہترین نسل کی تیاری کے لیے ان مواقع پر مستورات کی نمائندگی کی آج بہت ضروری ہے۔

مفتی ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۱۹/رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ 
رابطہ، 9973722710

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...