Powered By Blogger

اتوار, جنوری 26, 2025

مولاناوحکیم امین نہیں رہے

مولاناوحکیم امین نہیں رہے           
Urduduniyanews72 
گذشتہ کل جمعہ کی نماز کے بعداستاد گرامی قدر جناب حضرت مولانا امین آزاد صاحب قاسمی وندوی کا انتقال ہوا، آج بروز شنبہ بعد نماز ظہر تدفین ہوگئی ہے، باری تعالٰی حضرت والا کے درجات بلند فرمائے، آمین 
حضرت کےانتقال کی خبر سب سے پہلے میرے ابو جناب مولانا منصور عالم صاحب نے مجھے دی اور یہ بتلایاکہ: مولانا مرحوم سے میرے دیرینہ تعلقات رہے ہیں، تقریبا چالیس سالہ رفاقت رہی ہے،وہ بڑے ذہین اور بہترین استاد تھے، عربی زبان وادب سےبڑا گہرا لگاؤ تھا،مولانا مرحوم نےدارالعلوم ندوةالعلما سے عالمیت کے بعد ازہر ہند دارالعلوم دیوبند سے بھی دورہ حدیث کی تکمیل کی، پھر طب میں وہیں سے فضیلت کی سند حاصل کی،مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ ارریہ میں تدریسی زندگی کی شروعات ۱۹۷۵ءمیں ہوئی،زندگی بڑی سادہ تھی، وقت کے بڑے پابند تھے، پیدل اپنے گھر بیرگاچھی سے مدرسہ تقریبا پانچ کلومیٹر کی مسافت طے کر کے روزانہ مدرسہ وقت پر پہونچ جایا کرتے تھے۔مولانا مرحوم کوفن طب میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ درس وتدریس کے ساتھ خارجی اوقات میں بیماروں کاعلاج ومعاجلہ بھی کیاکرتے۔ ۲۰۱۴ء میں جب مدرسہ سے سبکدوشی ہوگئےتو یکسوئی کے ساتھ اپنے مطب ارریہ اور گھر میں بیمار و پریشان حال خلق خدا کی خدمت میں مصروف رہنےلگے،عوام وخواص کو مولانا سے بڑا نفع پہونچ رہا تھا، ابھی کچھ دنوں سے بستر علالت پر تھے،افسوس کہ اب ہمارے درمیان موصوف نہیں رہے۔
والد صاحب ہی نہیں بلکہ آج جنازہ کی نماز میں بھی مجمع عام نے حضرت کی ان خدمات کا برملااعتراف کیا ہے۔واقعی حضرت کی وفات بیرگاچھی گاؤں ہی نہیں بلکہ خطہ سیمانچل کے لئےایک بہت بڑاخلا اور عظیم خسارہ ہے۔ جمعیت علماء ارریہ کے جنرل سکریٹری جناب مفتی اطہر القاسمی صاحب نے نماز جنازہ سے پہلے اپنی تقریر میں یہ بات کہی ہے کہ انتقال سے کچھ دیر پہلے بھی حضرت نے سکٹی سے آئے ہوئے بیماروں کے نبض پر ہاتھ رکھ کردوا تشخیص کی تھی،پھر چند لمحہ میں ہی جان جان آفریں کے حوالہ کردی۔ لواحقین سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صادق صاحب پورنیہ سے حضرت کاعلاج چل رہا تھا، مولانا وہاں جانے کے تیار نہیں تھے، گھر والوں کی ضد پر چلے تو گئے مگر انہیں اپنی تشخیص کی ہوئی دواؤں پر اصرار تھا،گویا زبان حال سے حضرت یہ کہ رہے ہوں کہ;
 مسیحا کر نہ اب اچھا ہمیں بیمار رہنے دے 
مرض ہےعشق کااسکےعوارض خوبصورت ہیں۔ 
مولانا کے ہاتھ پر اللہ نے بڑی شفا رکھی تھی، دور دراز سے بلکہ مختلف اضلاع سے لوگ مولانا کے پاس آیا کرتے اور شفایاب ہوکر جاتے، ایک بار والد صاحب بہت زیادہ علیل ہوگئے، نقاہت اتنی بڑھ گئی تھی کہ مدرسہ کے کیمپس میں غش کھا کر گرگئے، مولانا مرحوم نے پوچھا کہ آپ کو کیاشکایت ہے؟معلوم ہوا کہ ٹائیفائیڈ بخارکاعارضہ لاحق ہے،پورنیہ سے علاج چل رہا ہے مگر افاقہ ندارد ہے۔اس بات پر بہت ناراض ہوئے کہ مولانا! آپ کوپہلے بتانا تھا، معمولی خرچ پر آپ کا علاج بروقت ہوجاتا تو یہ نوبت نہیں آتی۔ ایک پرچی میں کچھ دوائیں لکھ کر حضرت نےمجھے تھمادی،شربت خاکسی وکاسنی وغیرہ نام کی تمام ادویات ڈھائی سو روپے میں دستیاب ہوگئی۔بحمداللہ والد صاحب مکمل صحت یاب ہوگئے۔بعد میں مجھے یہ بھی علم ہوا کہ شہر ارریہ کے بہت سے اطباء حضرات بھی اس بیماری کی دوا مولانا ہی سے لیا کرتے ہیں۔یہ اپنے آپ میں ایک بڑی بات تھی مگر مولانا نےاپنی زبان سے اس کوکہنا پسند نہیں فرمایا۔عموما معالج حضرات بہت فخر سے ایسی باتیں اپنے کلائنڈ کو اعتماد میں لینے کے لئے کہا کرتے ہیں۔یہ چیزحضرت کے تواضع اور خاکساری کی بڑی دلیل ہے۔اسی پر بس نہیں بلکہ پسماندگان کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ گھر کےمعمولی کام میں بھی حضرت ہاتھ بٹایا کرتے،اپنے ہاتھوں صفائی کا اہتمام فرماتے، اپنا کام خود انجام دیا کرتے، یہ درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل میں کرتے تھے اور آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی احیاء میں بکریاں بھی چرایا کرتے تھے۔رب کریم اس کے عوض میں مولانا مرحوم کو سو شہیدوں کا اجر نصیب کرے، آمین یارب العالمین 
ایں دعا ازمن وجملہ جہاں آمین باد 
ہمایوں اقبال ندوی ارریہ 
۲۵/جنوری ۲۰۲۵ء بروز شنبہ 
مطابق ۲۴/رجب المرجب ۱۴۴۶ھ

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...