Powered By Blogger

جمعہ, دسمبر 03, 2021

جھانسی کے لوگ اب بی جے پی کے جھانسے میں نہیں آئیں گے : اکھلیش یادو

جھانسی کے لوگ اب بی جے پی کے جھانسے میں نہیں آئیں گے : اکھلیش یادو

جھانسی: اتر پردیش کے بندیل کھنڈ میں تین روزہ انتخابی مہم پر گئے سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو نے جمعہ کو جھانسی میں ریاستی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ بندیل کھنڈ کے لوگوں نے بی جے پی کو مکمل حمایت کی لیکن ان کے ساڑھے چار سال کے اقتدار کے بعد یہاں کے لوگ خالی ہاتھ رہ گئے۔ اب جھانسی والے ان کے جھانسے میں نہیں آئیں گے، اس بار بندیل کھنڈ کے لوگ بی جے پی کو بے دخل کر دیں گے، بندیل کھنڈ سے بی جے پی کا دروازہ بند ہو جائے گا۔

یہاں ایک مقامی ہوٹل میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے، ایس پی سربراہ نے کہاکہ بندیل کھنڈ کے لوگوں نے بی جے پی کی ڈبل انجن والی حکومت کو ووٹ دیا لیکن عوام خالی ہاتھ رہ گئے۔ اس حکومت نے بندیل کھنڈ کو خوش کرنے کے لیے کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں لیا۔یہاں تک کہ پرانی حکومت میں جو کام چل رہے تھے، یہ حکومت انہیں بھی مکمل نہیں کر سکی، عوام اب سب کچھ سمجھ چکی ہے۔ جھانسی کی مہارانی لکشمی بائی نے جس طرح انگریزوں کو بھگانے کا کام کیا تھا، اسی طرح بندیل کھنڈ کے لوگ لائن میں کھڑے ہو کر ان کے خلاف ووٹ دیں گے اور انہیں بندیل کھنڈ سے بھگانے کا کام کریں گے۔

نوجوانوں، کسانوں، تاجروں سمیت سماج کا ہر طبقہ بی جے پی حکومت کے دور میں زبردست مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ یاد رہے جب لاک ڈاؤن نافذ تھا تو لوگ پیدل ہی اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ یہ وہی بارڈر ہے جہاں سے مزدوروں کو اندر نہیں آنے دیا جا رہا تھا، کئی دنوں تک بغیر کھائے پیے، بغیر کسی انتظام کے بارڈر پر اسی طرح پڑے رہے۔ جب وہ مجبوری میں اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکے تو انہوں نے بریکیٹ توڑ دی اور مجبوری میں گھر کی راہ لی۔ جو مزدور دوسری ریاستوں میں کام کرتے تھے وہ دوسری ریاستوں میں بغیر کھائے پیئے بغیر نہائے اس طرح پڑے رہتے تھے۔ اس وقت حکومت نے ان کی کوئی مدد نہیں کی، انہیں یتیم چھوڑ دیا۔اس حکومت میں کسانوں پر زبردست مظالم ہوئے۔ حکومت کسانوں پر جیپ چڑھانے والوں کے ساتھ کھڑی ہے، انہیں بچا رہی ہے۔ جب الیکشن سر پر ہے تو کہہ رہے ہیں کہ ہم لیپ ٹاپ دیں گے، ٹیبلیٹ بانٹیں گے، اسمارٹ فون دیں گے۔ اگر حکومت اپنا وعدہ پورا کرتی تو لاک ڈاؤن میں لوگوں کو اتنی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ یہ حکومت صرف سابقہ حکومتوں کے کاموں کا نام بدل کراپنا بتانے والی حکومت ہے۔ نام بدلنے والی اس حکومت کو بدلنے کا کام اب عوام کریں گے۔

بی جے پی کے دور میں پولیس نے سب سے زیادہ مظالم ڈھائے، بہت ظلم ہوا ہے۔ حراستی اموات کی سب سے زیادہ تعداد اتر پردیش میں ہے۔ اتر پردیش حکومت کو زیادہ سے زیادہ فرضی انکاؤنٹرز پر این ایچ آر سی نوٹس موصول ہوئے ہیں۔ یہ حکومت قتل و غارت گری اور دھمکیاں دے کر حکومت کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی خوشامد کی نہیں بلکہ شرارت کی سیاست کرتی ہے۔

اکھلیش نے کہا کہ ایس پی وجے یاترا کا پروگرام لگاتار جاری ہے۔ میں عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جہاں بھی پروگرام ہو رہا ہے وہاں عوام کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔ اس بار بھی عوام کی مکمل محبت اور حمایت ایس پی کے حق میں نظر آ رہی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر سماجوادی حکومت بنتی ہے تو کھیتوں میں پانی پہنچانے کا ایسا انتظام کیا جائے گا کہ کم از کم بندیل کھنڈ کے ہمارے کسان دو فصلیں حاصل کر سکیں گے۔ اس مہنگائی کے باوجود ہم ماں بہنوں کو تین گنا عزت دے کر ان کی عزت بڑھانے کا کام کریں گے۔ جھانسی کو بندیل کھنڈ ایکسپریس وے سے جوڑیں گے۔ اس بار کسانوں،جوانوں، خواتین اور تاجروں نے بی جے پی کو شکست دینے کا ارادہ کر لیا ہے۔

دنیا گرم ہو رہی ہے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹںہ ============================= پوری دنیا میں اس وقت جو ماحولیاتی تبدیلی ہو رہی ہے، اس کی وجہ سے انسانی زندگی ہی نہیں، درختوں اور جانوروں کے وجود کو بھی شدید قسم کے خطرات لاحق ہیں،

دنیا گرم ہو رہی ہے 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹںہ ============================= پوری دنیا میں اس وقت جو ماحولیاتی تبدیلی ہو رہی ہے، اس کی وجہ سے انسانی زندگی ہی نہیں، درختوں اور جانوروں کے وجود کو بھی شدید قسم کے خطرات لاحق ہیں، اس خطرے کی سنگینی کو پوری دنیا محسوس کر رہی ہے ، اقوام متحدہ نے اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں برطانیہ کی میزبانی میں گذشتہ دنوںعالمی ماحولیاتی کانفرنس(COP26) کا انعقاد کیا تھا، جو یکم نومبر سے ۱۲؍ نومبر ۲۰۲۱ء تک جا ری رہا اور جس میں ایک سو تیس(۱۳۰) ملکوں کے قائدین سفراء ، صحافی اور دانشوران نے شرکت کی اور اس کی سنگینی پر تبادلہ خیال کیا، گو اس اہم کانفرنس میں کئی بڑے ممالک چین ، روس ، جنوبی افریقہ، ایران ، میکسیکو، برازیل، ترکی اور ویٹکن سیٹی کے سربراہان نے شرکت نہیں کی اور مختلف عذر کے سہارے اپنے کو اس اہم ترین کانفرنس سے الگ رکھا۔
 پوری دنیا میں حدت اور تپش تیزی سے بڑھ رہی ہے ،اور دنیا دن بدن گرم ہو رہی ہے، انٹر گورنمنٹل پینل آف کلائمنٹ چینج (IPCC)نے نبی نوع انسان کو اس کے لئے ذمہ دار قرار دیا ہے ، اس حدت کے سبب سمندر میں گرم لہریں اٹھ رہی ہیں، جنگل میں آگ لگ رہی ہے ، سیلاب کے خطرات بڑھ رہے ہیں، آتش فشاں پھٹنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ، اس ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پودوں اور جانوروں کی دس لاکھ نسلوں کے ختم ہوجانے کا خدشہ ہے ، جانوروں کے تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر کی جانے والی کوشش کے باوجود ۲۰۱۶ء تک دودھ پلانے والے جانور کی ۶۱۹۰؍ نسلوں میں سے ۵۵۹ ؍نسلیں ناپید ہو چکی ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال کم وبیش اسی لاکھ ٹن کچڑا سمندر میں پھینکا جا رہا ہے ، جس سے آٹھ سوسے زیادہ سمندری جانورکی نسلیں تباہ ہو نے کے دہانے پر ہیں، ایک سروے کے مطابق ۱۹۸۰ء کے بعد پلاسٹک کے ذریعہ پھیلنے والی آلودگی میں دس گنا اضافہ ہوا ہے ، جن کی وجہ سے ۲۶۷؍ پانی میں بود وباش رکھنے والے جانوروں کی نسل ، مثلا کچھوا، سمندری پرندے اور ۴۳؍ فی صد بحری جانور کے ضیاع کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔چالیس فی صد سمندر آلودہ ہو گیا ہے، مچھلیوں کی تعداد گھٹ رہی ہے ، اور اس تبدیلی کی وجہ سے تین ارب سے زیادہ لوگ اس پروٹین سے محروم ہو رہے ہیں جو سمندر سے انسانوں کو ملا کرتا ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں زیر زمین جو آبی ذخائر ہیں، ان میں سینتیس (۳۷) اہم ہیں، ان میں سے تیرہ (۱۳)تیزی کے ساتھ خالی ہو رہے ہیں، بظاہر ان کے پھر سے بھرنے کی کوئی امید نہیں ہے، ۲۵؍ کروڑ پچاس لاکھ افراد کو ہر سال خشکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے دیگر ترقیاتی کاموں کے ساتھ غذائی اجناس کی پیداوار پر غیر معمولی اثر پڑتا ہے، اندازہ ہے کہ ۲۰۳۰ء تک دنیا کی درجۂ حرارت میں ۵ئ۱؍ ڈگری سنٹی گریڈ کا اضافہ ہوگا، جس سے دنیا شدید آفات اور موسمی بحران میں مبتلا ہوگی۔ یہ صرف خدشہ نہیں ، بلکہ اب تک وقوع پذیر واقعات سے اس کی تائید ہوتی ہے ، ۲۰۱۹ء میں آسٹریلیا کے جنگل میں آگ لگی تھی، جس کی وجہ سے ترسٹھ لاکھ ہیکٹر سبزہ زار ، تیرہ سو گھر اور ستائیس انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں، ایک بلین جانوروں کی بھی موت اس آتش زنی میں ہوئی تھی، امریکہ کا شہر کیلوفورنیا، ترکی کے دکھنی اور اٹلی کے اتری حصے بھی اس سے متاثر ہوئے، جہاں درجۂ حرارت ۸ئ۴۸؍ ڈگری سیلسیس پہونچ گیا، یونان، الجیریا اوریروشلم تک کے علاقے اس کی زد میں آئے، پڑوسی ملک مالدیپ سمندری سطح سے صرف آٹھ فٹ اوپر ہے ، اس کے یہاں یہ مسئلہ اس قدر پریشان کن ہے کہ ۲۰۰۹ء میں مالدیپ کے صدر محمد نشید نے کابینہ کی میٹنگ زیر آب کی تھی، تاکہ حدت کے اس خطرناک مسئلہ کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول ہوسکے۔
عالمی سطح سے ہٹ کر اپنے ملک ہندوستان کا رخ کریں اور یہاں کی صورت حال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان میں ۲۰۱۸ء میں ۲۰۸۱ لوگ قدرتی آفات کی وجہ سے موت کے منہ میں جاسوئے تھے اور ۳۷۸۰۷ ملین ڈالر کا نقصان ہوا تھا، جو ہمارے ملک کی شرح آمدنی کا ۳۶ء ۰ ؍ فی صد ہے۔ آئی پی سی سی کی رپورٹ کے مطابق اگر سمندر کی سطح پچاس سنٹی میٹر بھی بڑھ جاتی ہے تو ہندوستان کے چھ وہ شہر جس میں بندر گاہ ہے یعنی چنئی، کوچی، کولکاتا، ممبئی، سورت اور وشاکھا پٹنم کے ۸۶-۲؍ کروڑ لوگوں کو سیلاب کاسامنا کرنا پڑے گا۔
 یہ خطرات صنعتی انقلاب کی مرہون منت ہیں، کار خانوں سے کاربن ڈائی اکسائڈ اور میتھن گیس جیسی زہریلی چیزیں فضا میں پھیلنے لگیں، ۱۹۹۴ء تک دنیا صنعتی ترقی کے مزے لیتی رہی ، ۱۹۹۵ء میں پہلی کوپ کانفرنس مونٹر یال جرمنی میں منعقد ہوئی، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی، ۱۹۹۷ء میں کیوٹو پروٹو کول کا مسودہ تیار ہوا اور ۲۰۱۵ء میں دو سو سے زائد قائدین نے پیرس معاہدہ کرکے اس پر لگام لگانے کی کوشش کی؛ لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
 مرض بڑھنے کے خوف سے دوا، احتیاط اور تدبیریں چھوڑی نہیں جا سکتیں، اسی لیے گلا سکو عالمی ماحولیات کانفرنس میں سو سے زائد ممالک نے جنگلات کی کٹائی پر روک لگانے اور ۲۰۲۰ء تک میتھن گیس کے اخراج کو تیس (۳۰)فیصد تک کم کرنے پر اتفاق کر لیا ہے ، کوئلہ کے استعمال پر چالیس ممالک نے کمی کرنے کا وعدہ کیا، لطیفہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ کوئلہ استعمال کرنے والے ممالک آسٹریلیا، ہندوستان، چین اور امریکہ نے اس معاہدہ پر دستخط نہیں کیا ہے، یہ پانچ وہ ممالک ہیں جہاں کوئلے کی کھپت زیادہ ہوتی ہے اور کاربن سب سے زیادہ کوئلہ کے جلانے سے ہی پیدا ہوتا ہے ، کوئلہ کے استعمال کے بغیر ہمارے پاور پلانٹ کام ہی نہیں کر سکتے، اس لیے ہندوستان کا شمار گرین ہاؤس گیس خارج کرنے والے ممالک میں تیسرے نمبر ہے، اس نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ہم ۲۰۷۰ء تک کاربن کے اخراج کو صفر تک لانے کی کوشش کریں گے ۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ کانفرنس میں شامل ۴۵۰؍ ادارے نے ماحولیاتی حدت وحرارت میں کمی لانے کے ۱۳۰؍ ڈالر ٹریلین کا فنڈ دیں گے۔
 وعدے ہوتے ہی رہتے ہیں، ۲۰۱۴ء میں بھی اس قسم کا وعدہ اور معاہدہ ہوا تھا، لیکن اس کے نفاذ کی عملی شکل سات سال گذرنے کے بعد بھی نہیں بن سکی،ا ندیشہ ہے کہ اس کانفرنس کی تجاویز بھی کہیں فائلوں میں دب کر نہ رہ جائے۔ جو فنڈ مختص کیا گیا ہے اس کے بندربانٹ میں بھی پریشانیاں آسکتی ہیں، ایسے میں اس کانفرنس کے نتائج پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اگر ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی تو روئے زمین پر بنی نوع انسان کے ساتھ دوسرے چرند وپرند کی زندگی بھی آسان نہیں رہے گی۔
قابل ذکر ہے کہ اس معاملہ میں ہندوستان کی پالیسی بدلی ہے اور اسے بھی حالات کی سنگینی کا احساس ہوگیا ہے اور اب وہ اس کے لیے تیار  ہے کہ ان حالات کو بدلنے میں وہ اپنی بھر پور حصہ داری نبھائے گااور ماحولیاتی توازن کی برقراری کے لیے کام کرے گا، ہمیں اس تبدیل شدہ موقف کی ستائش کرنی چاہیے۔ پوری دنیا نے ہندوستان کے بدلے ہوئے موقف کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔
 (مضمون نگار امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر ہیں)

بہار میں ملک کے سب سے بڑے سونے کے ذخائر ملے ، کان کنی کے وزیر نے پارلیمنٹ میں دی جانکاری ،

بہار میں ملک کے سب سے بڑے سونے کے ذخائر ملے ، کان کنی کے وزیر نے پارلیمنٹ میں دی جانکاری ،

بہار میں ملک میں سب سے زیادہ سونے کے ذخائر ہیں۔ یہ اسٹور جموئی ضلع کے سونو بلاک کے کرماٹیا علاقے میں واقع ہے۔ مرکزی کانکنی وزیر پرہلاد جوشی نے خود بدھ کو پارلیمنٹ میں یہ جانکاری دی۔ پرہلاد جوشی نے انکشاف کیا ہے کہ جموئی کے پاس ملک میں سب سے زیادہ سونے کے ذخائر ہیں۔ جموئی ضلع کے سونو علاقے میں صرف 44 فیصد سونا ہے۔ وزیر کے انکشافات کے بعد ملک کی غریب ترین ریاستوں میں سے ایک بہار کی امیدیں جاگ اٹھی ہیں۔ مقامی لوگ بھی جلد سونے کی کان کنی شروع ہونے کے لیے پرامید ہیں۔

بہار بی جے پی کے صدر اور بیتیہ کے رکن پارلیمنٹ سنجے جیسوال نے بدھ کو لوک سبھا میں مرکزی کانکنی وزیر پرہلاد جوشی سے بہار کی ریاستوں میں سونے کے ذخائر کے بارے میں سوال کیا تھا۔ اس سوال کے جواب میں جانکاری دیتے ہوئے پرہلاد جوشی نے کہا تھا کہ بہار میں ملک کے سب سے زیادہ سونے کے ذخائر ہیں۔ بتایا گیا کہ ملک کے پاس 501.83 ٹن سونے کے بنیادی ذخائر ہیں۔ اس میں 654.74 ٹن سونے کی دھات ہے، جس میں سے 44 فیصد سونا صرف بہار میں پایا گیا ہے۔ ریاست کے جموئی ضلع کے سونو فیلڈ میں 222.885 ملین ٹن سونے کے ذخائر پائے گئے ہیں جن میں 37.6 ٹن دھاتی دھات بھی شامل ہے۔

جموئی ضلع کے سونو بلاک کے چورہیٹ پنچایت کا کرماٹیہ علاقہ کئی دہائیوں سے سونے کے ذخائر کو لے کر بحث میں ہے۔ یہاں کے لوگ بتاتے ہیں کہ بہت پہلے سے یہاں کی مٹی میں سونے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ملے تھے۔ بہت پہلے لوگ کرماٹیہ کے علاقے کی مٹی کو دریا کے پانی میں دھو کر سونا نکالنے کے لیے چھلنی کرتے تھے جس کی وجہ سے تقریباً 15 سال پہلے یہاں سرکاری ادارے کے لوگ آئے اور مہینوں بعد سروے کا کام ہوتا تھا۔
بتایا جا رہا ہے کہ اسی سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جموئی ضلع کے سونو بلاک کے اس کرماٹیہ علاقے میں ملک کے سب سے بڑے سونے کے ذخائر ہیں، کہا جا رہا ہے کہ یہاں 44 فیصد سونا پایا جا رہا ہے۔

جموئی کے سونو کے علاوہ دیگر بلاکس میں بھی کئی قسم کی معدنی دھاتیں پائی جاتی ہیں۔ ابرک کے علاوہ اس میں سلیمانی سمیت کئی قیمتی پتھر بھی شامل ہیں۔ ایسے میں بتایا جا رہا ہے کہ 15 سال قبل جیولوجیکل سروے آف انڈیا کے لوگوں کے سروے کے بعد کھدائی مہنگی ہونے کی وجہ سے دوبارہ شروع نہیں ہو سکی۔ لیکن، جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اب کھدائی پہلے کی نسبت سستی ہوتی جا رہی ہے، اس لیے اب اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ یہاں سونے کی کان کنی جلد شروع ہو سکتی ہے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...