Powered By Blogger

ہفتہ, دسمبر 04, 2021

ہندوستان کے بنیادی ڈھانچے پر 100 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا ہدف : مودی

ہندوستان کے بنیادی ڈھانچے پر 100 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا ہدف : مودی
دہرادون:
 وزیر اعظم نریندر مودی نے ہفتہ کو کہا کہ ہندوستان جدید انفراسٹرکچر پر 100 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کے ارادے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہندوستان کی پالیسی رفتار، طاقت، کام سے دوگنا یا تین گنا تیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ سڑکوں اور رابطوں کی ترقی خطے میں سیاحت، زیارت اور دیگر اقتصادی سرگرمیوں کی ترقی کا باعث بنتی ہے، معیشت مضبوط ہوتی ہے۔
مسٹر مودی یہاں اسمبلی انتخابات کی سمت بڑھ رہے اتراکھنڈ میں 18000 کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھنے اور افتتاح کرنے کے بعد ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہےتھے، انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے اتراکھنڈ میں ایک لاکھ کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کو منظوری دی ہے۔ یہاں کی حکومت 'ان اسکیموں کو زمین پر لا رہی ہے'۔
مسٹر مودی نے کہا کہ اس صدی کے آغاز میں اس وقت کے اٹل بہاری واجپئی کی حکومت نے ہندوستان میں رابطے بڑھانے کی مہم شروع کی تھی۔ وزیر اعظم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ واجپئی حکومت کے دوران شروع کی گئی ہائی وے ڈیولپمنٹ مہم کو بعد کی حکومت نے تتر بتر کر دیا۔
انہوں نے کہا، "لیکن ان کے بعد ملک میں 10 سال ایسی حکومت رہی ، جس نے ملک کا قیمتی وقت برباد کیا، دس سال تک ملک میں انفراسٹرکچر کے نام پر گھپلے ہوتے رہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت نے انفراسٹرکچر کی ترقی کے کام کو ایک بار پھر تیز کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم نے ملک کو ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کے لیے دگنی محنت کی اور آج بھی کر رہے ہیں۔
آج مجھے بہت خوشی ہے کہ دہلی-دہرا دون اقتصادی راہداری منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ اس سے باغپت سے لے کر شاملی تک اتراکھنڈ اور دہلی کے درمیان واقع اضلاع میں اقتصادی ترقی کو تقویت ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ جب یہ ہائی وے پراجیکٹ تیار ہو جائے گا تو دہلی سے دہرادون کے سفر میں لگنے والا وقت تقریباً آدھا رہ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کیدار وادی اس حقیقت کی ایک مثال ہے کہ سڑک کے رابطے میں اضافہ سیاحت اور یاترا میں تیزی کا باعث بنتا ہے۔ کیدارناتھ سانحہ سے پہلے 2012 میں پانچ لاکھ 70 ہزار لوگوں نے درشن کئے تھے ۔ اس وقت یہ ایک ریکارڈ تھا۔

پیام صبا میرے مطالعہ کی روشنی میں✍️ عبدالرحیم ابن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیا”پیام صبا” برادر محترم جناب کامران غنی صبا کا پہلا شعری مجموعہ ہے اور اس کی اشاعت محکمہ کابینہ سکریٹیریٹ حکومت بہار کے مالی تعاون سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی نے کی ہے۔

پیام صبا میرے مطالعہ کی روشنی میں

✍️ عبدالرحیم ابن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیا
”پیام صبا” برادر محترم جناب کامران غنی صبا کا پہلا شعری مجموعہ ہے اور اس کی اشاعت محکمہ کابینہ سکریٹیریٹ حکومت بہار کے مالی تعاون سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی نے کی ہے۔ اس کی قیمت محض200/-روپیہ ہے ۔ اس کو بک امپوریم ،سبزی باغ پٹنہ، ناولٹی بکس، قلعہ گھاٹ، دربھنگہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ شعری مجموعہ کو المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ دربھنگہ کے زیر اہتمام ٢٠١٧ء میں شائع کیا گیا ہے۔ کامران غنی صبااردو شعر و ادب کا ایک ایسا نام ہے جو کم وقت اور کم عمر میں ہی میں اپنی ایک شناخت قائم کر چکا ہے۔ جن لوگوں نے کامران غنی صبا کو نہیں دیکھا ہے وہ یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ شاید وہ کوئی عمر دراز شاعر ہوں گے۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہے۔ کامران غنی صبا نے کتاب کا انتساب خدا کے نام کیا ہے جبکہ عام طور پر لوگ اپنے ماں باپ یا استاد کے نام کرتے ہیں مگرکامران غنی صبا کی فکر کتنی بلند ہے کہ انہوں نے انتساب کو خدا ئے برتر کے نام کیا ہے۔ حرف آغاز میں انہوں نے اپنی بات بہت ہی سلیقہ سے پیش کی ہے۔کتاب کے پہلے حصہ میں نظم”مجھے آزاد ہونا ہے” (جو کامران غنی صبا کی شناخت اور پہچان کا ذریعہ بنی) کے تعلق سے ڈاکٹر اقبال واجد، ڈاکٹر عبدالرافع، ڈاکٹر منصور خوشتر، نسترن احسن فتیحی، ڈاکٹر احسان عالم، سیدہ تسکین مرتضی، انور الحسن وسطوی، حسیب اعجاز عاشر، سیدہ زہرہ عمران اورسلمان فیصل کے مضامین شامل ہیں۔ دوسرے باب میں حمد ، نعت، منقبت ہیں جو ٦ ہیں ۔ التجا، لب پہ ذکر حبیب خدا چاہئے، نہ طلب ہے نام و نمود کی، ایک ایسی نعت پاک لکھا دے مرے خدا، جب روح جسم سے ہو خدایا جدا مری، حسین سا کوئی ہے بتائو…..

اس کے بعد والے باب میں نظمیں ہیں جن کی تعداد بیس ہے۔ کچھ نظمیں پابند ہیں، کچھ معریٰ اور کچھ آزاد، لیکن سبھی نظموں میں تسلسل روانی اور موسیقیت ہے۔الفاظ اتنے عام فہم ہیں کہ عام قارئین بھی اسے سمجھ سکتے ہیں۔ ایک نظم امی کے نام ہے، جو ان کی سالگرہ پر کامران غنی نے پیش کی تھی:

پیاری امی!
سالگرہ پر
آپ کو کون سا تحفہ دوں میں؟
پھول تو کل مرجھا جائیں گے
اور خوشبو بھی اڑ جائے گی
پیاری امی ! سالگرہ پر
لفظوں کی میں کچھ سوغاتیں
لے کر خدمت میں حاضر ہوں
لفظ دعائوں کی صورت میں
لفظ عقیدت، لفظ محبت
بابری مسجد کی شہادت پر بھی آپ کی ایک نظم ہے جس کے چند اشعار یہ ہیں:
تئیس سال ہوئے آج ہی کا دن تھا جب
ہمارے ملک میں جمہوریت کا قتل ہوا
تم پھر یہ جھوٹ نہ بولو ہمارے ہم وطنو!
”ہمارے ملک میں جمہوریت سلامت ہے”
مرا وجود، عید کا چاند، ایک باپ کی بیٹے کو نصیحت، محبت ایک عبادت ہے، گیت (ہندوستانی بچوں کے لئے) جیسی اہم نظمیں بھی اس مجموعہ میں شامل ہیں۔

آخری باب میں ٢٨ غزلیں ہیں۔ کامران غنی صبا اچھی نظموں کے ساتھ اچھی غزلیں بھی کہتے ہیں۔ تمام غزلیں بھی خوب ہیں۔ زندگی کتنا آزمائے گی، سجدہ شوق میں سر میراجھکا ہے کیا، چلو کہ جسم کا رشتہ تمام کرتے ہیں، ہم ان کی بارگاہ میں شام و سحر گئے جیسے اہم عنوان کی غزلیں موجود ہیں۔ سب پر تبصرہ سے مضمون کے طویل ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ کامران غنی صبا صرف ایک اچھے شاعر ہی نہیں ہیں بلکہ ایک اچھے استاد بھی ہیں اور نتیشور کالج مظفرپور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ صحافت ، شعر وشاعری ، درس و تدریس سارا کام ایک ساتھ انجام دے رہے ہیں جو سب کے بس کا نہیں ہے۔ روز نامہ پندار کے ادبی صفحات کے بھی انچارج ہیں۔ اردو نیٹ جاپان کے مدیر اعزازی بھی ہیں۔ ابھی پی ایچ۔ڈی پٹنہ یونیورسیٹی سے کر رہے ہیں۔

باب کے آخر میں شاعر کا مختصر تعارف بھی ہے ۔ کتاب کا سرورق بہت عمدہ ہے ۔ طباعت بھی اچھی ہے۔ کتاب کے بیک کور پر سلمیٰ بلخی کے تاثرات پیش کیے گئے ہیں۔ سلمیٰ بلخی کامران غنی صبا کی والدہ ہیں وہ لکھتی ہیں ”کامران کو اشعار فہمی اور شعر گوئی کی صفت ورثے میںملی ہے۔ ان کا نام (کامران) ایک بڑے عالم اور بزرگ سید اسمٰعیل شمسی روح نے رکھا تھا۔”

کامران غنی صبا ایک اچھے ، بااخلاق انسان ہیں اور ہر کسی کو عزت و احترام دینا جانتے ہیں۔ اللہ ان کے شعری مجموعہ ”پیام صبا” اور کامران غنی صبا کو بھی مقبولیت عطا کرے۔ آمین۔

تحریر : عبدالرحیم ابن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیا

عکس مطالعہ____________مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہڈاکٹر محمد عارف حسن وسطوی بن انوارالحسن وسطوی بن محمد داؤد حسن مرحوم، ساکن حسن منزل آشیانہ کالونی روڈ نمبر 6 حاجی پور ویشالی بڑی تیزی سے نئی نسل کے اہل قلم کے درمیان اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں،

عکس مطالعہ____________
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ڈاکٹر محمد عارف حسن وسطوی بن انوارالحسن وسطوی بن  محمد داؤد حسن مرحوم، ساکن حسن منزل آشیانہ کالونی روڈ نمبر 6 حاجی پور ویشالی بڑی تیزی سے نئی نسل کے اہل قلم کے درمیان اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں، لکھنا ،پڑھنا ،پڑھانا ان کو ورثہ میں ملا ہے، انہوں نے پروفیسر عبدالمغنی حیات اور ادبی کارنامے پر ڈاکٹر ممتاز احمد خاں مرحوم سابق  ایسوسی ایٹ پروفیسر بہار یونیورسٹی مظفر پور کی نگرانی میں اپنا مقالہ مکمل کیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ،ان کی پہلی تالیف داؤد حسن زبان خلق کے آئینے میں 2018 میں منظر عام پر آئی تھی ،جو ان کے کے داداپر مختلف اہل قلم کے ذریعہ لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے، 2019 میں ان کا تحقیقی مقالہ پروفیسر عبدالمغنی ناقدو دانشور کے عنوان سے سامنے آیا اور 2020 میں ان کے مضامین کے مجموعہ عکس مطالعہ نے قارئین ناقدین اور مبصرین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے سال بہ سال تالیفات و تصنیفات کی طباعت کا یہ عالم رہا تو ان کی نگارشات سے اہل علم و فن کو فائدہ پہنچے گا اور بعید نہیں کہ اردو دنیا میں وہ اپنے نامور والد کے صحیح جانشین ثابت ہوں گے، حالانکہ یہ مقام حاصل کرنا آسان نہیں ہے، انوارالحسن وسطوی کو پروفیسرثوبان فاروقی جیسے دیدہ ور نے باباہائے اردو ویشالی کہا ہے ،ڈاکٹر عارف حسن وسطوی کی طرف ارباب دانش و بینش  پوری طرح متوجہ ہیں، تبھی تو 2019 میں دو ایوارڈ سے نوازے گئے ،ایک اکبر رضا جمشید اردو ادبی ایوارڈ بہار و جھارکھنڈ اور اردو ادب ایوارڈ برائے مجموعی کارکردگی ،آخرالذکر ایوارڈ ہمنشیں بہار نے انہیں دیا تھا ۔
عکس مطالعہ ایک سہ بابی کتاب ہے، جس میں مضامین بھی ہیں تبصرے بھی ،دو مضامین مسائل اردو سے متعلق بھی شامل کتاب ہیں، مضامین والے حصے میں شاد عظیم آبادی، سلطان اختر ،ذکی احمد ذکی، پروفیسر شاہد علی، احمد اشفاق کی شاعری ،شین مظفر پوری ،مناظر عاشق ہرگانوی،بختیار ر احمد کی انشائیہ نگاری، کلیم عاجز کی مکتوب نگاری ،سید عبدالرافع کی صحافتی خدمات ،مولانا آزاد کا پھول پودوں سے شوق ،کرشن چندر کا افسانہ کالو بھنگی ، مولانا حسرت موہانی اور جنگ آزادی جیسے متنوع قسم کے مضامین شامل ہیں ،پروفیسر عبدالمغنی پردو مضمون شخصیت اور جہتیں اور ان کی نثر نگاری پراس مجموعہ میں شامل ہیں ،مجتبیٰ حسین، تیری یاد شاخ گلاب ہے، مولانا رضوان القاسمی ؛ایک جوہر کمیاب شخصیت اور پروفیسر قمر اعظم ہاشمی کی یاد میں، یاد رفتگاں کے قبیل کے مضامین ہیں ،جن میں ان کی علمی ،ادبی اور تعلیمی خدمات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے، یہ باب اٹھارہ  مضامین کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، جس کا سلسلہ صفحہ146 پر جا کر ختم ہوتا ہے، اس باب کا آغاز صفحہ نمبر 16 سے ہوا ہے ۔
تبصرے والے حصے میں اقبال شاعر اور دانشور ،حرف آگہی،امعان نظر، ڈاکٹر ممتاز احمد خاں ایک شخص ایک کارواں، مناظر عاشق ہرگانوی کی نعت گوئی میں ندرت ، مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کا نظریہ تعلیم، سید اجمل فرید؛ یادیں، باتیں ،بہار میں اردو صحافت :سمت ورفتار،مناظر عاشق ہر گانوی کا ناول ،شبنمی لمس کے بعد ،متاع لوح و قلم، بدر محمدی کی شاعری خوشبوکے حوالے سے، انوار قمر، صدبرگ سخن ہائے گسترانہ، صدائے گوہر، سہرے کی ادبی معنویت، اردو ادب ترقی پسندی سے جدیدیت تک اور خیال خاطر ،اس باب میں اٹھارہ کتابوں پر تبصرہ ہے، عارف حسن نے ڈاکٹر ممتاز احمد خاں، مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی،بدر محمدی ،ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق ،ڈاکٹر زہرا شمائل ،ڈاکٹر احسان عالم ،ڈاکٹر منصور خوشتر ،پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی ،مولانا سید مظاہر عالم قمر ،سید مصباح الدین احمد، بختیار احمد ،ڈاکٹر محمد گوہر ،ڈاکٹر امام اعظم ،پروفیسر توقیر عالم اور مولانا رئیس اعظم سلفی کی تخلیقات ،تصنیفات ، تالیفات اور تحقیقات پر اپنے قلم کی جولانی دکھائی ہے اور ان کی تخلیقی ،تنقیدی اور تحقیقی  در وبست کو اجاگر کرنے کے ساتھ فکری اور فنی حیثیت کو بھی قاری کے سامنے رکھا ہے، اس مجموعہ کا اختتام اردو کے مسائل پر کیا گیا ہے، جس کا عنوان ہے  عوامی سطح پراردو زبان کے فروغ میں درپیش مسائل اور ان کا حل  نیز نئی نسل کی اردو سے بڑھتی دوری، اسباب اور سد باب اسے مسک الختام کہنا چاہئے۔
’’عکس مطالعہ ‘‘کا حصہ مضامین والا ہو یاتبصرہ والا دونوں میں ڈاکٹر عارف حسن نے اعتدال اور توازن کے ساتھ اپنا مطالعہ پیش کردیا ہے، ان کے تبصرہ والے مضامین کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے صرف گل چینی ہی نہیں کی ہے؛ بلکہ جہاں کہیں کوئی غلطی نظر آئی، کسی جھول پر نظر ٹک گئی تو انہوں نے برملا اس کا اظہار کردیا ہے ، تنقید کرتے وقت زبان شستہ  رکھی گئی ،سوقیانہ اور شخصیت کو مجروح کرنے والے الفاظ سے انہوں نے گریز کیا ہے ،بات ساری کہہ گئے ہیں؛ لیکن اسلوب ،پیرایہ بیان، جملوں کا انتخاب اس طرح کیا ہے کہ کسی کو اپنی  ہتک عزتی کا احساس نہیں ہوتا ؛بلکہ وہ لب لعل وشکر خارا کی طرح ایک قسم کی مٹھاس لئے ہوے ہے،ان کے الفاظ اور جملوں میں ترسیل کی جو صلاحیت ہے وہ قاری کو اس کے اندرون تک پہنچا دیتی ہے، انہوں نے خود بھی لکھا ہے کہ’’ اعتدال کی راہ ہر جگہ روا رکھی گئی ہے،‘‘ یہی اعتدال اس کتاب کی خصوصیت ہے ۔
 دوسری خصوصیت’’عکس  مطالعہ‘‘ کے مضامین کا تنوع ہے ،جس میں ادب ،شاعری ،خاکے انشائیے ،سبھی کچھ سما گئے ہیں ،ان پر قلم اٹھانے کا مطلب سیدھا سیدھا یہ ہے کہ مضمون نگار کا مطالعہ ان اصناف ادب کے سلسلے میں وسیع ہے ،جن میں گہرائی بھی ہے اورگیرائی بھی ، دو سوچونسٹھ صفحات کی  اس کتاب کا انتساب مصنف نے اپنے دادا مرحوم کے نام کیا ہے، شروع میں حرف افسرابراہیم افسر کا ہے ، اور پیش لفظ مصنف کے قلم سے ہے ،کتاب کی قیمت 160 روپے زائد نہیں مناسب ہے، کتاب المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام روشان پرنٹرس نئی دہلی سے چھپی ہے، آپ اگر پٹنہ میں رہتے ہیں تو بک امپوریم پٹنہ سے خرید سکتے ہیں ،کتاب مصنف کے پتہ کے ساتھ ممتاز اردو لائبریری ساجدہ منزل باغ ملی حاجی پور اور نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی بکساما،ویشالی  سے بھی مل سکتی ہے۔

سورج گرہن کے بارے میں کیا کہتے ہیں NASA سائنسدان ؟ جانیے کیاہیں خرافات اور کیا ہیں حقائق ؟

سورج گرہن کے بارے میں کیا کہتے ہیں NASA سائنسدان ؟ جانیے کیاہیں خرافات اور کیا ہیں حقائق ؟یہ سال کا وہ وقت ہوتا ہے جب چاند سورج اور زمین کے درمیان حرکت کرتا ہے۔ جسے سورج گرہن کہا جاتا ہے۔ جبکہ انٹارٹیکا زمین پر وہ واحد جگہ ہوگی جہاں ہفتہ یعنی 4 دسمبر کو مکمل سورج گرہن کا تجربہ ہو گا۔ سورج گرہن کے دوران سورج، چاند اور ہمارا سیارہ (زمین) کے اوپر ایک سیدھی لکیر میں سامنے ہوگا۔ اس واقعہ سے کئی ممالک اور بالخصوص ہندوستان میں لوگ کئی باتوں کا ذکر کرتے ہیں، جن میں سے بہت سی خرافات بھی ہوتی ہیں۔ دوسری جانب جزوی سورج گرہن سینٹ ہیلینا، نمیبیا، لیسوتھو، جنوبی افریقہ، جنوبی جارجیا اور سینڈوچ آئی لینڈ، کروزیٹ آئی لینڈ، فاک لینڈ آئی لینڈ، چلی، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں رہنے والے لوگوں کو نظر آئے گا۔ اطلاع کے مطابق 4 دسمبر کو طلوع آفتاب یا غروب آفتاب سے پہلے سورج گرہن کا واقعہ رونما ہوسکتا ہے۔ ناسا کے سائنسدانوں نے سورج گرہن کے بارے میں کئی حقائق کی نشاندہی کی ہے۔ آپ کی سالگرہ کے چھ ماہ بعد یا آپ کی سالگرہ پر سورج گرہن صحت خراب کی علامت ہے؟ ناسا (NASA) کے مطابق یہ نجومیوں کے درمیان ایک عام عقیدہ ہے۔ مکمل سورج گرہن اور آپ کی صحت کے درمیان کوئی فزیکل تعلق نہیں ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کی صحت اور چاند کے درمیان کوئی رشتہ نہیں کے برابر ہے۔ لوگوں سے بات چیت کے دوران وقتاً فوقتاً اس طرح کی باتیں سننے کو مل سکتے ہیں، لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مکمل سورج گرہن نقصان دہ شعاعیں پیدا کرتا ہے جو اندھے پن کا سبب بن سکتے ہیں؟ ناسا کے سائنسدانوں کے مطابق مکمل سورج گرہن کے دوران جب چاند کا سایہ سورج کو مکمل طور پر ڈھانپ لیتا ہے، تو وہ برقی مقناطیسی شعاعیں خارج کرتا ہے۔ یہ بعض اوقات سبز رنگت کی بھی ہوتی ہے۔ سائنسدانوں نے اس تابکاری کا صدیوں سے مطالعہ کیا ہے۔ سورج کی روشنی سے دس لاکھ گنا زیادہ بیہوش ہونے کی وجہ سے، کورونل لائٹ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو 150 ملین کلومیٹر خلا کو عبور کر سکے اور ہمارے گھنے ماحول میں گھس سکے اور وہ اندھے پن کا باعث بن سکے۔

تاہم اگر آپ مکمل ہونے سے پہلے سورج کو دیکھتے ہیں، تو آپ کو شمسی سطح کی ایک جھلک نظر آئے گی اور اس سے آنکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے، حالانکہ عام انسانی جبلت کا ردعمل یہ ہے کہ کسی بھی شدید نقصان کے واقع ہونے سے پہلے فوری طور پر نظریں ہٹا لیں۔

قومی، بین الااقوامی، جموں و کشمیر کی تازہ ترین خبروں کے علاوہ تعلیم و روزگار اور بزنس کی خبروں کے لیے نیوز18 اردو کو ٹویٹر اور فیس بک پر فالو کریں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...