Powered By Blogger

بدھ, نومبر 24, 2021

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے✍️ ڈاکٹر مولانا محمدعالم قاسمیجنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہارامام وخطیب جامع مسجد دریاپور سبزی باغ ، پٹنہ

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
✍️ ڈاکٹر مولانا محمدعالم قاسمی
جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار
امام وخطیب جامع مسجد دریاپور سبزی باغ ، پٹنہ
اکیسویں صدی کے آتے ہی دنیا بہت بدل گئی ہے، ہائی ٹیک دور، ڈیجیٹل آلات اورہرکس وناکس تک اسمارٹ فون کی رسائی نے قدیم اقدار وروایا ت کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ پل پل کی نقل وحرکت کو شیئر کرنے کی عادت نے ایسا عموم حاصل کرلیا ہے کہ شہرت وریاکاری اورتصویر کشی کے مسائل اب صر ف زینت کتاب ہیں، خواص خدام کے ذریعہ اور بغیر خدم وحشم والے کسی نہ کسی ذریعہ اس شوق کو پورا کرلیتے ہیں، تحریری فتویٰ کی رسم بھی صرف ہندی علماء میں باقی ہے۔ اس سے احتراز کرنے والے کو لوگ ترقی یافتہ دنیا سے غافل یا ایک صدی قبل کاانسان باور کرتے ہیں۔ مگر اس چکاچوند دنیا سے الگ تھلک ، شہرت وناموری سے کوسوں دور اپنی دنیا میں مگن ، سادگی منکسرالمزاجی اورنرم مزاجی کے حامل جن چند انفاس قدسیہ کو حالیہ قریب میں دیکھا ان میں سے ایک مولانا ضیاء الرحمن قاسمی ، پتونا ، بسفی مدھوبنی ہیں۔ جو حالیہ دنوں 14 نومبر 2021 کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے، آپ کی نماز جنازہ آپ کے منجھلے صاحبزادے ڈاکٹر مولانا محمد رضوان قاسمی نے پڑھائی اوراپنے آبائی گاؤں پتونا کی سرزمین میں آسودۂ خاک ہوگئے_ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے__آپ کی عمر بوقت رحلت 80 سال سے متجاوز تھی ۔مگر باعتبار سند کم ، اپنی عمر میں بتانے میں بہت محتاط تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ کہیں کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ 
آپ سیدھے سادے خاکسار منکسرالمزاج انسان تھے۔نیک طبیعت کے نرم دل آدمی تھے، نیک اطوار تھے، پاک باز تھے، وضع دار تھے اورخاندانی شرافت کا نمونہ تھے، صاف دل تھے ، حسد وکینہ سے پاک تھے، گلہ وشکوہ سے محفوظ تھے۔ تواضع میں حد اعتدال سے بھی متجاوز تھے۔ اپنے شاگروں اور چھوٹوں کی بھی بات بہت غور سے سنتے ، اورجو کہہ دیتا اس پر یقین کرلیتے۔ اسی تواضع میں بے اعتدالی کااثر تھاکہ قدیم فاضل دیوبند ہونے کے باوجود میں نے کبھی کسی بھی موقع پر کوئی وعظ ونصیحت یا تقریر کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ گوشہ نشیں تنہائی پسند تھے۔ عام بھیڑ بھاڑ سے الگ رہتے تھے، مگر کوئی ملنے جاتا توبڑی خندہ پیشانی سے ملتے اور سب کی بات سنتے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے والد گرامی کے ہم عصر تھے، ان سے قربت کے ساتھ مجھے بھی اپنا عزیز سمجھتے اورگھنٹوں بات کرتے، یہاں تک کہ میرے بڑے صاحبزادے سے بھی نہایت ہی بے تکلفی سے گھنٹوں بات کرتے، اسی باعث ہرشخص انہیں اپنا سرپرست سمجھتا اور اپنے دل کی بات کہتا۔ آپ بے ضرر اوربے نفس انسان تھے، کفایت شعاری اور قناعت پسند ی کے خوگر تھے اوراپنے عمل سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتے، اگر کسی نے کوئی کام کہدیا تو چاہے جتنی مشقت ہو اس کے لئے انتھک کوشش کرتے، آپ ایک چلتی پھرتی انجمن تھے۔ اگرکسی نے روک کر کچھ کہنا چاہا تو اس وقت تک ان کی بات سنتے جب تک کہ کہنے والا خود نہ تھک جائے۔ اس میں اپنے کام کو بھی بھول جاتے، غض بصر پر اتنا سختی سے عمل پیرا تھے کہ آپ ہمیشہ خمیدہ گردن ہی چلتے، شرم وحیا حد سے زیادہ تھی۔ دوسروں کی بہت رعایت کرتے، اور ایسی کسر نفسی تھی کہ عام فرد کے لئے آپ کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ 
مولانا موصوف کا آبائی تعلق ضلع مدھوبنی کا مسلم اکثریتی حلقہ بسفی کے پتونا گاؤں کے شمالی محلہ سے ہے۔ جو اب قاسمی محلہ سے مشہور ہے۔ اس گاؤں کے لوگ عمومی طورپر سیدھے شمار ہوتے ہیں اوردینی تعلیم کا ماحول بھی بہت قدیم ہے۔ مولانا کے والد منشی عبدالطیف قدیم پڑھے لکھے تھے۔ مگر باضابطہ سند یافتہ کے طورپر قاری ابراہیم ہوئے، جو بنارس کے مدرسہ سے حافظ وقاری تھے۔ ان کی کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے۔ انہوں نے حافظ مہرحسین کو بنارس پڑھنے کیلئے بھیجاجو بڑی محنت سے بڑے باکمال حافظ قرآن ہوئے۔ محلہ کے ماحول کو بدلنے میں ان کی بڑی محنت ہے۔ ان کی کوئی صلبی اولاد نہیں ہے۔ مگرشاگردوں کا لمبا سلسلہ ہے۔ انہوں نے نئی مسجد تعمیر کی اور اپنے گاؤں میں ہی تعلیم دینا شروع کیا۔ نہایت بافیض ثابت ہوئے ، اور ان کی محنت سے صرف ایک محلہ میں50 حفاظ کرام تیار ہوئے، جن میں سے ایک یہ حقیر راقم الحروف بھی ہے۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا اور15 فضلائے دیوبند ہوئے۔جس کی بنیاد پر اس محلہ کا نام قاسمی محلہ رکھ دیاگیا۔ فضلائے دیوبندکی پہلی کڑی کے طورپر قاری شعیب قاسمی اور مولانا ضیاء الرحمن قاسمی ہیں۔ ان کے بعد پھر سلسلہ چل پڑا۔ 
مولانا موصوف کی حتمی تاریخ ولادت تو معلوم نہیں ہوسکی چونکہ کئی مرتبہ پوچھنے کے بعد بھی انہوں نے ٹال دیا اورسند میں بعد میں انہوںنے جاکر اندراج کرایاتھا۔ مگر اتنی بات طے ہے کہ میرے والد گرامی سے دو سال چھوٹے تھے اورمیرے والد کی تاریخ ولادت ان کی ڈائری کے مطابق 1939 ہے۔ اس اعتبار سے مولانا کی تاریخ ولادت 1941 کے قریب ہوتی ہے۔ ابتدائی تعلیم گاؤ ں میں ہوئی پھر مدرسہ بشارت العلوم کھرما پتھرا دربھنگہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دیوبند چلے گئے۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کا انتقال 1957 میں ہوگیا۔ ان کے بعد شیخ الحدیث فخرالمحدثین مولانا سید فخرالدین احمد مراد آبادی (1889-1972) ہوئے۔انہیں کے دور میں 1970 کے قریب فراغت ہوئی۔ 
فراغت کے بعد اپنی خدمت کا میدان پٹنہ کو بنایا۔ سبزی باغ کی جامن گلی میں اپنے استاد کے نام پر مدرسہ فخرالعلوم قائم کیا۔ مولانا کاظم قاسمی بھیروا کو یہاں لائے ، پھر مالیات کی فراہمی لوگوں کے تعاون سے خود کرتے اور وہ درس دیتے، کچھ دنوں بعد مولانا کاظم قاسمی مدرسہ حسینہ رانچی چلے گئے اورآپ اپنے گاؤں کے بورڈ کے مدرسہ میںبحال ہوگئے۔ جس سے 2011 میں ریٹائر ہوئے۔ مگر اپنے گاؤں کے مدرسہ سے منسلک ہونے کے باوجود پٹنہ سے رشتہ بدستور باقی رہا، اورسال کا کم ازکم 4 مہینہ پٹنہ میں ضرور گزرتا۔ شعبان، رمضان، شوال کے بعد ذی قعدہ میں واپس جاتے اور پھر گاہے بگاہے بھی آتے رہتے۔ مدرسہ کے مالیات کی فراہمی میں ہمیشہ منہمک رہتے۔پٹنہ کے چپہ چپہ سے واقف تھے اور پورا پٹنہ پیدل ہی روند ڈالتے، پٹنہ جنکشن سے سبزی باغ پیدل گھنٹوں میں پہنچتے، چونکہ درمیان میں بہت سے لوگوں سے ملتے جلتے آتے، آپ کسی چیز کے پابند رہنا نہیں چاہتے، اپنی مرضی سے رہنا ، اپنی مرضی کاکام کرنا، یہاں تک کہ عبادت میںبھی ان سے پابندی نہیں ہوپاتی، پٹنہ میں ان کاقیام جناب شمس الہدیٰ استھانوی مرحوم کے اخبار ’’ہمارا نعرہ‘‘ کے دفتر میں رہتا۔چونکہ وہ دفتر رات بھرکھلارہتا اورانہیں رات میں کسی بھی وقت آنے کی پوری آزادی ہوتی۔ 
مولانا موصوف کا پہلا نکاح اپنے ماموں کی دختر سے نرائن پور پوپری میں ہوا۔ مگرایک سال بعد ہی وہ راہی بقا ہوگئیں۔ تو دوسرا نکاح 1970 کے قریب کٹھیلا بسفی کے جناب ظہور احمد کی صاحبزادی سے ہوا، جو خوشحال اور بااثرفرد تھے۔ ان سے تین صاحبزادے ہوئے، بڑے مولانا محمدسلمان قاسمی ہیں جو ماشاء اللہ حافظ قرآن اورفاضل دیوبند اورامارت سے مفتی بھی ہیں۔ مگر اپنے والد کی طرح گوشہ نشیں تنہائی پسند ہیں اورشہرت وناموری سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ مدرسہ احمدیہ مدھوبنی میں استاد ہیں اورمدرسہ کی چہاردیواری میں اپنے کو محصور کرلیا ہے۔ وہ ہمارے دیرینہ رفیق بھی ہیں۔ 
دوسرے صاحبزادے ڈاکٹر مولانا محمد رضوان قاسمی ہیں جو ماشاء اللہ حافظ قرآن، فاضل دیوبند اور سند یافتہ حکیم ہیں، بیدار مغز اورہوش مند عالم دین ہیں، ساتھ ہی ملنسار ، خوش اخلاق اور خوش مزاج ہیں۔ علماء نواز ہیں اورسماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ خوشحال ہیں، دربھنگہ میں اپنے ذاتی مکان میں مطب چلاتے ہیںجو اہل علم کا مرکز بناہوا ہے۔ تیسرے صاحبزادے حافظ محمد حسان ہیں جو اپنے گاؤں میں مدرسہ چلاتے ہیں۔ بڑے ہنس مکھ اورملنسار ہیں۔ لوگوں سے بڑی محبت سے ملتے ہیں، اور علماء کے قدردان ہیں۔اس طرح مولانا موصوف کو اللہ تعالیٰ نے صالح اولاد سے نوازا ہے اورسب دنیوی نعمت سے بھی سرفراز ہیں۔  ایک صاحبزادی ہوئی جو کم سنی میں جنت نشیں ہوگئیں۔ اہلیہ محترمہ بحمداللہ باحیات اور بعافیت ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت وعافیت سے رکھے۔ مولانا کے گھر سے میرا گہرا تعلق ہے اور اپنے گھر کی طرح ہی سمجھتا ہوں۔
مولانا ضیاء الرحمن قاسمی جیسے سادہ لوح سیدھے سادے بے لوث انسان بہت کم ملتے ہیں۔ جو سب کو اپنا سمجھے ، سب کو گلے سے لگائے، اور ہرشخص کی کامیابی پر خوش ہوں۔ ان کے دل میں سب کے لئے جگہ تھی۔ اسی لئے سبھی لوگ انہیں اپنا سرپرست سمجھتے ۔
شعر:
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشہ کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

حسرت  نے لا رکھا  تیری بزم خیال میں
گلدستۂ نگاہ سویدا کہیں جسے

٭٭٭

انسانی بالوں کی خرید و فروخت کا شرعی حکم از : ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی

انسانی بالوں کی خرید و فروخت کا شرعی حکماز: ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی 9826268925
آج کل عورتوں کے بال جو کنگھی میں آتے ہیں، یا پھر انہیں کاٹ کر بیچا جاتا ہے اس بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ انسانی بالوں کی خریدوفروخت شرعاً جائز نہیں ہے، اس لئے عورتوں کا کنگھی میں ٹوٹے ہوئے بالوں کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ انسانی جسم کا حصہ ہونے کی وجہ سے قابل احترام ہیں، نیز اجنبی مرد کے لئے عورت کے ٹوٹے ہوئے بالوں کو دیکھنا بھی جائز نہیں ہے، اس لیے سر میں کنگھی کرتے ہوئے عورتوں کے جو بال گر جائیں انہیں کسی جگہ دفنا دینا چاہیے،اگر دفنانا مشکل ہوتو کسی کپڑے وغیرہ میں ڈال کر ایسی جگہ ڈال دیے جائیں جہاں کسی اجنبی کی نظر نہ پڑے۔ الدرالمختار (ردالمحتارص نمبر58 ج5)
اس بارے میں حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ "انسان کے اعضاء واجزاءانسان کی اپنی ملکیت نہیں ہیں جن میں وہ مالکانہ تصرف کرسکے، اسی لئےایک انسان اپنی جان یا اپنے اعضاء و جوارح کو نہ بیچ سکتا ہے نہ کسی کو ہدیہ اور ہبہ کے طور پر دے سکتا ہے،اور نہ ان چیزوں کو اپنے اختیار سے ہلاک وضائع کر سکتا ہے۔ شریعت اسلامیہ کے اصول میں تو خود کشی کرنااور اپنی جان یا اعضاء رضاء کارانہ طور پریا بقیمت کسی کو دے دینا قطعی طور پر حرام ہی ہے جس پر قرآن و سنت کی نصوص صریحہ موجود ہیں،تقریبا دنیا کے ہر مذہب و ملت اور عام حکومتوں کے قوانین میں اس کی گنجائش نہیں، اس لیے کسی زندہ انسان کا کوئی عضو کاٹ کر دوسرے انسان میں لگا دینا اس کی رضامندی سے بھی جائز نہیں۔ شریعت اسلام نے صرف زندہ انسان کے کارآمد اعضاء ہی کا نہیں بلکہ قطع شدہ بے کار اعضاء و اجزاء کا استعمال بھی حرام قرار دیا ہے، اور مردہ انسان کے کسی عضوکی قطع و برید کو بھی ناجائز کہاہے،اوراس معاملے میں کسی کی اجازت اور رضامندی سے بھی اس کے اعضاء و اجزاء کے استعمال کی اجازت نہیں دی،اور اس میں مسلم و کافر سب کا حکم یکساں ہے، کیونکہ یہ انسانیت کا حق ہے جو سب میں برابر ہے۔
تکریم انسانی کو شریعت اسلام نے وہ مقام عطا کیا ہے کہ کسی وقت کسی حال کسی انسان کے اعضاء واجزاء حاصل کرنے کی طمع دامن گیر نہ ہو، اور اس طرح مخدوم کائنات اور اعضاء عام استعمال کی چیزوں سے بالاتر ہیں جن کو کاٹ چھانٹ کر یا پیس کر غذاؤں اور دواؤں اور دوسرے مفادات میں استعمال کیا جاتا ہے، اس پر ائمہ اربعہ پوری امت کے فقہاء متفق ہیں، اور نہ صرف شریعت اسلام بلکہ شرائع سابقہ اور تقریباً ہر مذہب و ملت میں یہی قانون ہے

مودی حکومت تین زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کر چکی ہے۔ اس کے باوجود فی الحال کسان تحریک جاری رکھنے کا اعلان کسان لیڈروں نے کیا ہے۔ کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے کہا کہ حکومت نے اعلان کیا ہے تو وہ قرارداد لا سکتے ہیں، لیکن ایم ایس پی اور 700 کسانوں کی موت بھی ایک ایشو ہے۔

26 جنوری سے پہلے ہمارے مطالبات مان لیے گئے تو ہم چلے جائیں گے ، ورنہ ... ' ، راکیش ٹکیت کا الٹی میٹم

مودی حکومت تین زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کر چکی ہے۔ اس کے باوجود فی الحال کسان تحریک جاری رکھنے کا اعلان کسان لیڈروں نے کیا ہے۔ کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے کہا کہ حکومت نے اعلان کیا ہے تو وہ قرارداد لا سکتے ہیں، لیکن ایم ایس پی اور 700 کسانوں کی موت بھی ایک ایشو ہے۔ حکومت کو اس پر بھی بات کرنی چاہیے۔ 26 جنوری سے پہلے تک اگر حکومت ہماری بات مان جائے گی تو ہم چلے جائیں گے۔ الیکشن کے تعلق سے ہم انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کے بعد بتائیں گے۔

اس سے ایک دن قبل لکھنؤ میں ہوئی کسان مہاپنچایت میں راکیش ٹکیت نے کہا تھا کہ جب تک حکومت بیٹھ کر ہر مسئلہ پر بات نہیں کرے گی، تب تک کسان اپنے گھروں کو نہیں جائیں گے۔ جدوجہد ختم کرنے کا اعلان حکومت ہند نے کیا ہے، کسان نے نہیں۔ راکیش ٹکیت نے مزید کہا تھا کہ صرف معافی مانگنے سے کام نہیں چلے گا۔ بیج بل، ایم ایس پی گارنٹی، آلودگی بل، دودھ پالیسی، بجلی شرح جیسے کئی ایشوز ہیں جن کا حل نکلنا باقی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو 17 بل پارلیمنٹ میں لائے جا رہے ہیں، انھیں بھی نافذ نہیں ہونے دیا جائے گا۔

پٹنہ کی سڑکوں پر لالو یادو کا الگ انداز دیکھا گیا ، خود جیپ چلا کر لوگوں کو حیران کر دیا , ویڈیو دیکھیں

پٹنہ کی سڑکوں پر لالو یادو کا الگ انداز دیکھا گیا ، خود جیپ چلا کر لوگوں کو حیران کر دیا , ویڈیو دیکھیں

راشٹریہ جنتا دل کے صدر اور بہار کے سابق وزیر اعلی لالو یادو کا بدھ کو رابڑی کی رہائش گاہ پر ایک الگ ہی روپ دیکھنے کو ملا۔ سابق سی ایم کھلی جیپ میں گاڑی چلاتے ہوئے ڈاکٹر راجندر پرساد کے مجسمے کے پاس گئے۔ پھر گاڑی واپس کی اور واپس آگئے۔ اس دوران پارٹی کے حامی زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ خود جیپ چلاتے ہوئے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لالو نے لکھا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والا ہر شخص کسی نہ کسی شکل میں ڈرائیور ہوتا ہے۔

ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لالو نے لکھا، 'آج برسوں بعد اپنی پہلی کار چلا رہا ہوں۔ اس دنیا میں پیدا ہونے والے تمام لوگ کسی نہ کسی شکل میں ڈرائیور ہیں۔ آپ کی زندگی میں محبت، ہم آہنگی، یگانگت، مساوات، خوشحالی، امن، صبر، انصاف اور خوشی کی گاڑی ہمیشہ مزے سے چلتی رہے

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے✍️ ڈاکٹر مولانا محمدعالم قاسمیجنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہارامام وخطیب جامع مسجد دریاپور سبزی باغ ، پٹنہ

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
✍️ ڈاکٹر مولانا محمدعالم قاسمی
جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار
امام وخطیب جامع مسجد دریاپور سبزی باغ ، پٹنہ
اکیسویں صدی کے آتے ہی دنیا بہت بدل گئی ہے، ہائی ٹیک دور، ڈیجیٹل آلات اورہرکس وناکس تک اسمارٹ فون کی رسائی نے قدیم اقدار وروایا ت کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ پل پل کی نقل وحرکت کو شیئر کرنے کی عادت نے ایسا عموم حاصل کرلیا ہے کہ شہرت وریاکاری اورتصویر کشی کے مسائل اب صر ف زینت کتاب ہیں، خواص خدام کے ذریعہ اور بغیر خدم وحشم والے کسی نہ کسی ذریعہ اس شوق کو پورا کرلیتے ہیں، تحریری فتویٰ کی رسم بھی صرف ہندی علماء میں باقی ہے۔ اس سے احتراز کرنے والے کو لوگ ترقی یافتہ دنیا سے غافل یا ایک صدی قبل کاانسان باور کرتے ہیں۔ مگر اس چکاچوند دنیا سے الگ تھلک ، شہرت وناموری سے کوسوں دور اپنی دنیا میں مگن ، سادگی منکسرالمزاجی اورنرم مزاجی کے حامل جن چند انفاس قدسیہ کو حالیہ قریب میں دیکھا ان میں سے ایک مولانا ضیاء الرحمن قاسمی ، پتونا ، بسفی مدھوبنی ہیں۔ جو حالیہ دنوں 14 نومبر 2021 کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے، آپ کی نماز جنازہ آپ کے منجھلے صاحبزادے ڈاکٹر مولانا محمد رضوان قاسمی نے پڑھائی اوراپنے آبائی گاؤں پتونا کی سرزمین میں آسودۂ خاک ہوگئے_ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے__آپ کی عمر بوقت رحلت 80 سال سے متجاوز تھی ۔مگر باعتبار سند کم ، اپنی عمر میں بتانے میں بہت محتاط تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ کہیں کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ 
آپ سیدھے سادے خاکسار منکسرالمزاج انسان تھے۔نیک طبیعت کے نرم دل آدمی تھے، نیک اطوار تھے، پاک باز تھے، وضع دار تھے اورخاندانی شرافت کا نمونہ تھے، صاف دل تھے ، حسد وکینہ سے پاک تھے، گلہ وشکوہ سے محفوظ تھے۔ تواضع میں حد اعتدال سے بھی متجاوز تھے۔ اپنے شاگروں اور چھوٹوں کی بھی بات بہت غور سے سنتے ، اورجو کہہ دیتا اس پر یقین کرلیتے۔ اسی تواضع میں بے اعتدالی کااثر تھاکہ قدیم فاضل دیوبند ہونے کے باوجود میں نے کبھی کسی بھی موقع پر کوئی وعظ ونصیحت یا تقریر کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ گوشہ نشیں تنہائی پسند تھے۔ عام بھیڑ بھاڑ سے الگ رہتے تھے، مگر کوئی ملنے جاتا توبڑی خندہ پیشانی سے ملتے اور سب کی بات سنتے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے والد گرامی کے ہم عصر تھے، ان سے قربت کے ساتھ مجھے بھی اپنا عزیز سمجھتے اورگھنٹوں بات کرتے، یہاں تک کہ میرے بڑے صاحبزادے سے بھی نہایت ہی بے تکلفی سے گھنٹوں بات کرتے، اسی باعث ہرشخص انہیں اپنا سرپرست سمجھتا اور اپنے دل کی بات کہتا۔ آپ بے ضرر اوربے نفس انسان تھے، کفایت شعاری اور قناعت پسند ی کے خوگر تھے اوراپنے عمل سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتے، اگر کسی نے کوئی کام کہدیا تو چاہے جتنی مشقت ہو اس کے لئے انتھک کوشش کرتے، آپ ایک چلتی پھرتی انجمن تھے۔ اگرکسی نے روک کر کچھ کہنا چاہا تو اس وقت تک ان کی بات سنتے جب تک کہ کہنے والا خود نہ تھک جائے۔ اس میں اپنے کام کو بھی بھول جاتے، غض بصر پر اتنا سختی سے عمل پیرا تھے کہ آپ ہمیشہ خمیدہ گردن ہی چلتے، شرم وحیا حد سے زیادہ تھی۔ دوسروں کی بہت رعایت کرتے، اور ایسی کسر نفسی تھی کہ عام فرد کے لئے آپ کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ 
مولانا موصوف کا آبائی تعلق ضلع مدھوبنی کا مسلم اکثریتی حلقہ بسفی کے پتونا گاؤں کے شمالی محلہ سے ہے۔ جو اب قاسمی محلہ سے مشہور ہے۔ اس گاؤں کے لوگ عمومی طورپر سیدھے شمار ہوتے ہیں اوردینی تعلیم کا ماحول بھی بہت قدیم ہے۔ مولانا کے والد منشی عبدالطیف قدیم پڑھے لکھے تھے۔ مگر باضابطہ سند یافتہ کے طورپر قاری ابراہیم ہوئے، جو بنارس کے مدرسہ سے حافظ وقاری تھے۔ ان کی کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے۔ انہوں نے حافظ مہرحسین کو بنارس پڑھنے کیلئے بھیجاجو بڑی محنت سے بڑے باکمال حافظ قرآن ہوئے۔ محلہ کے ماحول کو بدلنے میں ان کی بڑی محنت ہے۔ ان کی کوئی صلبی اولاد نہیں ہے۔ مگرشاگردوں کا لمبا سلسلہ ہے۔ انہوں نے نئی مسجد تعمیر کی اور اپنے گاؤں میں ہی تعلیم دینا شروع کیا۔ نہایت بافیض ثابت ہوئے ، اور ان کی محنت سے صرف ایک محلہ میں50 حفاظ کرام تیار ہوئے، جن میں سے ایک یہ حقیر راقم الحروف بھی ہے۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا اور15 فضلائے دیوبند ہوئے۔جس کی بنیاد پر اس محلہ کا نام قاسمی محلہ رکھ دیاگیا۔ فضلائے دیوبندکی پہلی کڑی کے طورپر قاری شعیب قاسمی اور مولانا ضیاء الرحمن قاسمی ہیں۔ ان کے بعد پھر سلسلہ چل پڑا۔ 
مولانا موصوف کی حتمی تاریخ ولادت تو معلوم نہیں ہوسکی چونکہ کئی مرتبہ پوچھنے کے بعد بھی انہوں نے ٹال دیا اورسند میں بعد میں انہوںنے جاکر اندراج کرایاتھا۔ مگر اتنی بات طے ہے کہ میرے والد گرامی سے دو سال چھوٹے تھے اورمیرے والد کی تاریخ ولادت ان کی ڈائری کے مطابق 1939 ہے۔ اس اعتبار سے مولانا کی تاریخ ولادت 1941 کے قریب ہوتی ہے۔ ابتدائی تعلیم گاؤ ں میں ہوئی پھر مدرسہ بشارت العلوم کھرما پتھرا دربھنگہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دیوبند چلے گئے۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کا انتقال 1957 میں ہوگیا۔ ان کے بعد شیخ الحدیث فخرالمحدثین مولانا سید فخرالدین احمد مراد آبادی (1889-1972) ہوئے۔انہیں کے دور میں 1970 کے قریب فراغت ہوئی۔ 
فراغت کے بعد اپنی خدمت کا میدان پٹنہ کو بنایا۔ سبزی باغ کی جامن گلی میں اپنے استاد کے نام پر مدرسہ فخرالعلوم قائم کیا۔ مولانا کاظم قاسمی بھیروا کو یہاں لائے ، پھر مالیات کی فراہمی لوگوں کے تعاون سے خود کرتے اور وہ درس دیتے، کچھ دنوں بعد مولانا کاظم قاسمی مدرسہ حسینہ رانچی چلے گئے اورآپ اپنے گاؤں کے بورڈ کے مدرسہ میںبحال ہوگئے۔ جس سے 2011 میں ریٹائر ہوئے۔ مگر اپنے گاؤں کے مدرسہ سے منسلک ہونے کے باوجود پٹنہ سے رشتہ بدستور باقی رہا، اورسال کا کم ازکم 4 مہینہ پٹنہ میں ضرور گزرتا۔ شعبان، رمضان، شوال کے بعد ذی قعدہ میں واپس جاتے اور پھر گاہے بگاہے بھی آتے رہتے۔ مدرسہ کے مالیات کی فراہمی میں ہمیشہ منہمک رہتے۔پٹنہ کے چپہ چپہ سے واقف تھے اور پورا پٹنہ پیدل ہی روند ڈالتے، پٹنہ جنکشن سے سبزی باغ پیدل گھنٹوں میں پہنچتے، چونکہ درمیان میں بہت سے لوگوں سے ملتے جلتے آتے، آپ کسی چیز کے پابند رہنا نہیں چاہتے، اپنی مرضی سے رہنا ، اپنی مرضی کاکام کرنا، یہاں تک کہ عبادت میںبھی ان سے پابندی نہیں ہوپاتی، پٹنہ میں ان کاقیام جناب شمس الہدیٰ استھانوی مرحوم کے اخبار ’’ہمارا نعرہ‘‘ کے دفتر میں رہتا۔چونکہ وہ دفتر رات بھرکھلارہتا اورانہیں رات میں کسی بھی وقت آنے کی پوری آزادی ہوتی۔ 
مولانا موصوف کا پہلا نکاح اپنے ماموں کی دختر سے نرائن پور پوپری میں ہوا۔ مگرایک سال بعد ہی وہ راہی بقا ہوگئیں۔ تو دوسرا نکاح 1970 کے قریب کٹھیلا بسفی کے جناب ظہور احمد کی صاحبزادی سے ہوا، جو خوشحال اور بااثرفرد تھے۔ ان سے تین صاحبزادے ہوئے، بڑے مولانا محمدسلمان قاسمی ہیں جو ماشاء اللہ حافظ قرآن اورفاضل دیوبند اورامارت سے مفتی بھی ہیں۔ مگر اپنے والد کی طرح گوشہ نشیں تنہائی پسند ہیں اورشہرت وناموری سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ مدرسہ احمدیہ مدھوبنی میں استاد ہیں اورمدرسہ کی چہاردیواری میں اپنے کو محصور کرلیا ہے۔ وہ ہمارے دیرینہ رفیق بھی ہیں۔ 
دوسرے صاحبزادے ڈاکٹر مولانا محمد رضوان قاسمی ہیں جو ماشاء اللہ حافظ قرآن، فاضل دیوبند اور سند یافتہ حکیم ہیں، بیدار مغز اورہوش مند عالم دین ہیں، ساتھ ہی ملنسار ، خوش اخلاق اور خوش مزاج ہیں۔ علماء نواز ہیں اورسماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ خوشحال ہیں، دربھنگہ میں اپنے ذاتی مکان میں مطب چلاتے ہیںجو اہل علم کا مرکز بناہوا ہے۔ تیسرے صاحبزادے حافظ محمد حسان ہیں جو اپنے گاؤں میں مدرسہ چلاتے ہیں۔ بڑے ہنس مکھ اورملنسار ہیں۔ لوگوں سے بڑی محبت سے ملتے ہیں، اور علماء کے قدردان ہیں۔اس طرح مولانا موصوف کو اللہ تعالیٰ نے صالح اولاد سے نوازا ہے اورسب دنیوی نعمت سے بھی سرفراز ہیں۔  ایک صاحبزادی ہوئی جو کم سنی میں جنت نشیں ہوگئیں۔ اہلیہ محترمہ بحمداللہ باحیات اور بعافیت ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت وعافیت سے رکھے۔ مولانا کے گھر سے میرا گہرا تعلق ہے اور اپنے گھر کی طرح ہی سمجھتا ہوں۔
مولانا ضیاء الرحمن قاسمی جیسے سادہ لوح سیدھے سادے بے لوث انسان بہت کم ملتے ہیں۔ جو سب کو اپنا سمجھے ، سب کو گلے سے لگائے، اور ہرشخص کی کامیابی پر خوش ہوں۔ ان کے دل میں سب کے لئے جگہ تھی۔ اسی لئے سبھی لوگ انہیں اپنا سرپرست سمجھتے ۔
شعر:
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشہ کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

حسرت  نے لا رکھا  تیری بزم خیال میں
گلدستۂ نگاہ سویدا کہیں جسے

٭٭٭

انجمن ترقی اردو و غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام يوم ذوق کا انعقاد

انجمن ترقی اردو و غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام يوم ذوق کا انعقادنئی دہلی(پریس ریلیز):انجمن ترقی اردو دہلی شاخ کے زیر اہتمام بہ تعاون غالب انسٹی ٹیوٹ شیخ ابراہم ذوق کے یوم وفات پر یوم ذوق کا اہتمام کیا گیا۔ اس جلسے کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے فرمائی۔ اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر قدوائی نے کہا کہ زبان بہت بڑی قوت ہے اور وہ لغت تک محدود نہیں بلکہ اس کی اصل طاقت اس کے تہذیبی رشتے میں پنہاں ہے۔ ذوق اس رشتے کا بھرپور احساس رکھتے تھے۔ ان کی شاعری میں تہذیبی سروکارکا گہرا احساس موجود ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ ذوق اور غالب کے درمیان معاصرانہ چشمک تھی اس لحاظ سے ایوان غالب میں یوم ذوق کا انعقاد یہ ثابت کرتا ہے کہ علمی اختلاف ہمیشہ فائدہ مند نتائج چھوڑتے ہیں۔ ڈاکٹر خالد علوی نے کہا کہ ذوق کی بد قسمتی یہ رہی کہ ان کو بڑے شاعروں کا زمانہ ملا اس لیے ان کا موازنہ بھی بڑے شعرا سے کیا گیا اور اس موازنے نے صحیح نتائج تک نہیں پہنچنے دیا۔ ضروری ہے کہ ذوق کی اپنی بنیادوں کو تلاش کر کے ان کی تفہیم کی جائے۔ پروفیسر ابن کنول نے کہا کہ انجمن ترقی اردو دہلی شاخ اس لحاظ سے قابل مبارکباد ہے کہ وہ ہر سال پابندی سے اردو کے ممتاز شاعر ذوق کو ان کے یوم وفات پر یاد کرتی ہے۔ ذوق کے یہاں زبان کا استعمال نہایت تخلیقی انداز میں ہوا ہے۔ یہ اس عہد کا عام رجحان بھی تھا۔ پروفیسر محمد کاظم نے کہا کہ ہم نے ذوق کے یہاں وہی عناصر تلاش کرنے کی کوشش کی جو میر و غالب کا خاصہ تھے اسی لیے ہم ان کے سلسلے میں صحیح نتائج تک نہیں پہنچ سکے۔ غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ ذوق غالب کے معاصر تھے لیکن غالب سے متعلق جتنی تحقیق سامنے آئی وہ ذوق کے حصے میں نہیں آئی۔ پروفیسر تنویر احمد علوی نے ذوق پر سب سے اہم تحقیق و تنقید کا سرمایہ چھوڑا ہے۔ جناب اقبال مسعود فاروقی صدر انجمن ترقی اردو دہلی شاخ نے اپنے استقبالیہ کلمات میں کہا کہ انجمن ترقی اردو ہند عرصے سے یوم ذوق کا انعقاد کر رہی ہے لیکن اب اس کی مجلس عاملہ نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے دائرۂ کار میں وسعت لائیں اور اہم شعرا سے متعلق بھی پروگرام منعقد کیے جائیں۔ لہٰذا آئندہ دنوں میں آپ ہمارے دائرۂ کار میں وسعت پائیں گے۔ افتتاحی اجلاس کے بعد طرحی مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ مشاعرے کی صدارت بزرگ شاعر جناب وقار مانوی نے فرمائی اور نظامت کے فرائض محمد انس فیضی نے انجام دیے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...