اردودنیانیوز۷۲
✍️ ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
بہار کے ضلع ارریہ میں "گرگدی" نام کا ایک گاؤں ہے، ضلع ہیڈ کوارٹرسے یہ محض گیارہ کلو میٹر فاصلے پرواقع ہے، یہاں کی کل آبادی ۳۵۰۰/سونفوس پر مشتمل ہے،اس بستی میں ۹۰۰/سو برادران وطن بھی بستےہیں، بقیہ سبھی مسلمان ہیں۔
ابھی چند دنوں قبل گاؤں والوں نے ملکر اصلاح معاشرہ کے عنوان پر ایک جلسہ کیا ہےجوآج ہمارا موضوع سخن ہے،خطاب کرنے والے علماء کرام اور شریک ہونے والے سامعین حضرات نے بھی اس پروگرام کوایک تاریخ ساز ویادگار اجلاس قرار دیا ہے۔
خاص بات یہ رہی کہ اسٹیج سےناظم اجلاس جناب مفتی راغب صاحب قاسمی نے کچھ لوگوں کے نام لیکر اظہار تشکر کیا ہےانمیں بطور خاص جناب منصور عالم صاحب، الحاج منظور عالم، الحاج مسرت کریم،ماسٹر وثیق الرحمن، محمد اشتیاق، فخرالدین وغیرہ تووہیں غیر مسلم بھائیوں کی بھی ایک فہرست پیش کی ہے،انمیں جناب دیوپرکاش منڈل جی،سنتوش بھگت،ڈاکٹر رامانند نرالا، لکھی چند شرما،سبودھ منڈل،لال چند رشی دیو،پریم لال منڈل کے نام مجمع عام میں بحیثیت منتظمین اجلاس کےپیش کیا ہے،ساتھ ہی بھاری بھرکھم الفاظ میں ان تمام حضرات کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔
ایک رضاکار جناب بھائی اشتیاق سے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی کہ برادران وطن کی ایک بڑی تعداد آپ لوگوں کے ساتھ اس جلسہ میں شریک ہے،ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیا ہےکہ خالص اصلاح کے موضوع پرجلسہ ہو، اسمیں برادران وطن کی بڑی تعداد شریک ہو،اس کی وجہ کیا ہے؟ موصوف نے وجہ بتائی کہ؛ مولوی صاحب! ہم کسان آدمی ہیں، تعلیم کی ہمارے یہاں بڑی کمی ہے،گاؤں کی تعلیمی حالت کا اندازہ آپ کو اس بات سے بخوبی ہوسکتا ہے کہ صرف چار آدمی گرگدی گاؤں کےسروس میں ہیں، بقیہ ہم سبھی کاشتکاری کرتے ہیں،ابھی کچھ سالوں سے ہمارے نوجوان طبقہ میں بڑی بے راہ روی آگئی ہے،نشہ کی بیماری عام ہوگئی ہے، یہ چیز سیلاب کی طرح ہر مکان میں داخل ہورہی ہے۔ہم سماج سے اس بیماری کا خاتمہ چاہتے ہیں، آئندہ نسل کو بچانا چاہتے ہیں،آج یہ جلسہ بھی اسی مقصد سے منعقد ہوا ہے، ہم آپس میں ملکر اس کے خلاف متحد نہیں ہوئے تو پھر سماج سے نشہ کا خاتمہ نہیں کرسکیں گے، غیر مسلم بھائی ہمارے درمیان ہی رہتے ہیں، اسی سماج کا حصہ ہیں، ہم ان کو لیکر نہیں چلیں گے تو پھر مکمل کامیاب نہیں ہوسکیں گے، ہم نے ان کو کہا تو خوشی خوشی ہمارے ساتھ آئے ہیں، بلکہ ہم سے زیادہ محنت انہیں لوگوں نے کی ہے،اوراب بھی ہمارے شانہ بشانہ کھڑےہیں ،یہ توآپ بھی دیکھ ہی رہے ہیں۔
واقعی گرگدی گاؤں کے لوگوں نے نشہ کے سد باب کے لئے ایک نیا طریقہ تعلیم کیا ہے،ایک کسان اپنی فصل کی حفاظت کے لئے کھیت کے چاروں طرف باڑ اور رکاوٹ کھڑی کردیتا ہے تاکہ اسمیں کوئی جانور گھسنے نہ پائے اور کھیتی کو خراب نہ کردے،اسی طرح اپنی نسل کی حفاظت کے لئے پورے گاوں کو جمع کرکے گویا اس کی حصار بندی کردی ہے،واقعی یہ مثالی کام ہے، ابتک دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ کچھ لوگ کسی برائی کے خلاف متحد ہوتے ہیں، وہ صرف ایک ہی مذہب کے ہوتے ہیں، پورےسماج کے لوگوں کا ساتھ نہیں لیتے ہیں، نشہ کے جراثیم اسی راستے سے در آتے ہیں،روک تھام بیکار چلی جاتی ہےاورکامیابی صد فیصد نہیں مل پاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے سلسلہ میں دس آدمیوں پر لعنت فرمائی یے، شراب بنانے والے پر، بنوانے والے پر،پینے والے پر، اٹھانے والے پر، جس کے لئے اٹھائی گئی ہے اس پر، پلانے والے پر،بیچنے والے پر، قیمت کھانے والے پر، خریدنے والے پر، جس کے لئے خریدی گئی اس پر،(جامع ترمذی )
مذکورہ بالا حدیث میں گویا ان دس لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شراب کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں، نہیں تو یہ سبھی لعنت کے سزاوار اور اس کے فروغ کے ذمہ دار ہیں۔
گویا نشہ کےخاتمے کےلئےپورے سماج کا متحد ہونا ضروری ہے۔اس پر گرگدی گاؤں کے مسلمان بھائئ واقعی قابل تعریف ہیں، بہت پڑے لکھے نہیں ہیں باوجود اس کے انہوں نے ہندو مسلم سب کو یہ سمجھا دیا ہے کہ ہمارے تمہارے غم برابر ہیں، موجودہ وقت میں یہ عمل لائق ستائش ہے اور قابل تقلید بھی ہے،بلکہ ملک سے نفرت کے خاتمے کے لئے بھی ہمیں اس سے بڑی مدد مل سکتی ہے۔
ہمارے غم تمہارے غم برابر ہیں
سواس نسبت سےتم اورہم برابر ہیں