Powered By Blogger

منگل, جنوری 03, 2023

متھلا کے انمول رتن تھے ڈاکٹر نیلامبر چودھری۔ڈاکٹر عبدالودود قاسمی

متھلا کے انمول  رتن تھے ڈاکٹر  نیلامبر چودھری۔ڈاکٹر عبدالودود قاسمی 
اردو دنیا نیوز٧٢
                   آج بتاریخ ۳/ جنوری  ۲۰۲۳ ء کو عظیم سیاسی رھنما ڈاکٹر  نیلامبر چودھری  جی کی ۸۹ ویں یوم ولادت کے موقعہ  پر ایک مخصوص  مجلس منعقد  کی گئی  جس میں دربھنگہ کے  متعدد اصحاب  علم ودانش شریک ہو کر موصوف  کی علمی سیاسی وسماجی کارناموں  کا ذکر کرتے ہوئے موصوف کی تصویر پر گل پوشی کرکے موصوف  کو خراج عقیدت ومحبت  پیش کرتے ہوئے ان کے کارناموں  کا ذکر کرتے ہوئے  ڈاکٹر عبدالودود قاسمی  نے کہا کہ  موصوف قانون ساز کونسل میں اپنے دور میں پورے متھلا میں تعلیمی مشعل کی لو کو تا حیات بڑھانے کے لئے متفکر اور کوشاں رہے جسے فراموش  نہیں کیا جا سکتا ۔ان کی شخصیت  میں سادگی وسنجید گی کے ساتھ موصوف  گنگا جمنی تہذیب کی علامت تھے اپنی سنجیدگی کی وجہ سے ہندو مسلمان سارے طبقات  میں یکساں مقبولیت تھی ۔واقعی میں موصوف  متھلا کے انمول رتن تھے۔ ڈاکٹر  محمد سرفراز عالم نے  کہا کہ ڈاکٹر ڈاکٹر نیلامبر بابو نے متھیلا یونیورسٹی کے قیام میں بھی  نہات اہم کردار ادا کیا، ان کے ذریعہ کئے گئے کاموں پر آج بھی طلباء اور اساتذہ کے درمیان موضوع  سخن بنا ہوا ہے۔مقررین میں ڈاکٹر جمشید عالم،  ڈاکٹر غلام محمد انصاری، عامر سلفی، سہیل ظفر  صاحب، نائب صدر مسٹر رام ناتھ پنجیار، جوائنٹ سکریٹری شیلیندر کمار کشیپ، ترجمان روشن کمار جھا، مسٹر سنگھ، ایڈووکیٹ شاہد  اطہر، شامل تھے۔ جتیندر پٹیل، ایڈوکیٹ بلجیت جھا، پروفیسر مسز پریتی جھا، مسٹر وجے کمار جھا، سوربھ مشرا، ترون جھا، سمر جھا، اشوک جھا وغیرہ مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

سی،ایم،بی،کالج،گھو گھر ڈیہا میں للت نارائن مشر کو خراج عقیدت پیش کیا گیا

سی،ایم،بی،کالج،گھو گھر ڈیہا میں للت نارائن مشر کو خراج عقیدت پیش کیا گیا
 ،
اردو دنیا نیوز٧٢
 متھلا کے عظیم سپوت جناب للت نارائن مشر جی کو ان کے یوم وفات کے موقع پر این،ایس،ایس،اکائی سی ایم،بی،کالج،ڈیوڑھی گھو گھر ڈیہا، مدھوبنی میں بڑی عقیدت ومحبت سے ان کی تصویر  پر کالج کے جملہ تدریسی وغیر تدریسی ملازمین نے گل پوشی کی اس کے بعدموجود طلباء وطالبات سے این، ایس،ایس کے پروگرام افیسر ڈاکٹرعبدالودودقاسمی اور ڈاکٹر  کرتن ساہو پرنسپل  کالج نے تفصیل سے للت بابو کی سیاسی ،سماجی اور تعلیمی خدمات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ"للت نارائن مشر" کی پیدائش 02 فروری 1923 کو سپول ضلع کے باسوپتی گاؤں (بلوا) میں ہوئی۔  طالب علمی کے زمانہ میں ہی سیاست میں آگئے، انہوں نے 1945-48 میں پٹنہ یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا اور 1950 میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے رکن بن گئے۔  1972 میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن چن لئے گئے ،اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران انہوں نے پارلیمانی سکریٹری، منسٹری آف پلاننگ، لیبر اینڈ ایمپلائمنٹ (1957-1960) وغیرہ کے طور پر کام کیا اور 1973 سے 1975 تک ہندوستان کے وزیر ریلوے کے طور پر خدمات انجام دیں۔  غیر ملکی تجارت کے وزیر کے طور پر، نیپال بھارت کے درمیان سیلاب کنٹرول اور کوسی اسکیم میں مغربی نہر کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط کیے ۔  انہوں نے ملک اور بیرون ملک متھلا پینٹنگ (مدھوبنی پینٹنگ) کی ساکھ کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔  بطور ریلوے وزیر متھلانچل میں 36 ریل پروجیکٹوں کے سروے کی منظوری دی، جھنجھار پور-لوکہا ریلوے لائن بھپٹیاہی سے فاربس گنج ریلوے لائن وغیرہ۔  اپنی مادری زبان میتھلی کے فروغ کے موصوف تا عمر کوشاں  رہے ۔  3 جنوری 1975 کو سمستی پور بم دھماکے میں ان کی موت ہوگئی۔ ایشور ان کی ا تمام کو شانتی دے۔خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں  ڈاکٹر  کیپٹن ساہو،ڈاکٹر  اجے کمار،ڈاکٹر پریم سندر،ڈاکٹر  ہری شنکر رائے،ڈاکٹر محمد نوشاد انصاری،ڈاکٹر  جیتیندر کمار،ڈاکٹر سجیت کمار،ڈاکٹر  بریندر کمار،ڈاکٹر  بھاگوت منڈل،ڈاکٹر اوپیندر کمار راوت،ڈاکٹر  آلو ک کمار،ڈاکٹر  رتن کماری  جھا،دلیپ کمار،سچیدانند،ودیانندمنڈل، کے نام شامل ہیں۔

سد بابمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

سد باب
اردو دنیا نیوز٧٢
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ 
اسلام اخوت ومحبت، رافت وحمت،شفقت ومروت ،امن وآشتی، مدارات ومواسات کا مذہب ہے، وہ یکجہتی کی ان تمام کوششوں کوسراہتا ہے، جوا سلامی عقائد ونظریات سے متصادم نہ ہوں، اورجن سے دوسرے ادیان کی مشابہت لازم نہ آتی ہو، اس کے برعکس وہ فتنہ وفساد کی ہر کوشش اور اس کے برپا کرنے کو مذموم قرار دیتا ہے، اس سلسلہ میں اس کا بہت صاف اور واضح اعلان ہے کہ فتنہ قتل سے بڑی چیز ہے ۔اللہ فساد کو پسندنہیں کرتا۔زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ کرو۔ایک دوسری آیت میں ان قوموں کاتذکرہ کرتے ہوئے جنھوں نے فتنہ وفساد کو اپنا شعار بنالیا، ارشاد فرمایا:جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکاناچاہتے ہیں،اللہ تعالیٰ اس کو فرو کردیتے ہیں، اوروہ ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتے۔ایک اورآیت میں حضرت آدمؑ کے دوبیٹوں کا قصہ بیان کرکے جن میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیاتھا۔ ارشاد فرمایا:جوکوئی کسی کی جان لے بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو، یا زمین میں فساد کیاہو، تو گویا اس نے تمام انسانوں کاخون کیا، اورجس نے کسی کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کوبچایا۔اس آیت میں اگر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ انسانی جان کی حرمت وعظمت کا معیار قلت وکثرت پر اسلام نے نہیں رکھا، بلکہ ایک ایک فرد کوپوری سوسائٹی کے قائم مقام بنادیا، اس لیے کہ ایک ایک جان انسانیت کی متاع عزیز ہے اور اس کا ضیاع انسانیت کی ضیاع کے مترادف ہے۔
فساد پھیلانے والے چوں کہ انسانی جان کے ساتھ املاک کوبھی تباہ کردیاکرتے ہیں، پھر ان کے ساتھ حکومت کی مشنری بھی شامل ہوجائے تو یہ فساد اپنے ساتھ اوربھی تباہی لاتا ہے، اس لیے اللہ رب العزت نے ایسی حاکمانہ قوت وطاقت کی بھی مذمت کی، جو اچھے مقاصد میں استعمال ہونے کے بجائے ظلم وستم اورغارت گری کے لیے استعمال کیاجارہاہو۔ ارشاد فرمایا:اور جب وہ حاکم بنتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتاہے،اور کھیتوں اور نسلوں کو تباہ کرتاہے اوراللہ فساد کو ہرگز پسندنہیں کرتا۔
احادیث میں بھی تاجدار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے ارشادات کثرت سے پائے جاتے ہیں، جن میں بے گناہوں کے خون بہانے کو بدترین گناہ کہا گیاہے، حضرت انسؓ بن مالک کی ایک روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنااور قتل نفس ہے۔
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مؤمن اپنے دین کے دائرے میں اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ حرام خون نہیں بہاتا۔قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے جس چیزکا حساب لیاجائے گا وہ نمازہے اور پہلی چیز جس کافیصلہ لوگوں کے درمیان کیاجائے گاوہ خون کے دعوے ہیں۔اسلام نے قتل سے اپنی ناپسند یدگی کا اظہار کرنے کے بعد ان اخلاقی قدروں پرزورد یا جن پر عمل پیرا ہونے سے فساد کا اندیشہ ہی باقی نہیں رہتا، اس سلسلے میں فساد کے تین اہم ذرائع زر، زن، زمین کی محبت واہمیت انسانی قلوب سے نکالنے کی کوشش کی، چنانچہ اللہ رب العزت ارشادفرماتا ہے:مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی ایک رونق ہیں۔ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:تمہارے اموال اوراولاد تمہارے لیے ایک آزمائش کی چیزہیں۔
ایک اور آیت میں انسان کوامراءاورسرمایہ داروں کی طرف حریصانہ نگاہ ڈالنے سے منع کیا اوراسے عارضی بہار قراردیا اور فرمایا:اور اپنی نگاہیں ہرگز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑانا، جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کوآرائش دنیا کی دے رکھی ہےں؛ تاکہ انھیں اس سے آزمالیں، تیرے رب کا دیا ہوا ہی(بہت) بہتر اوربہت باقی رہنے والاہے۔ان آیات واحادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے نہ صرف فتنہ وفساد سے روکا ، بلکہ اس کے رونما ہونے کی جو شکلیں پائی جاتی ہیں، ان کی بے بضاعتی کا احساس دلا کر فتنہ وفساد کے دروازے بند کر دیے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...