سفرحج سے پہلے حق اداکیجیے
ریاست بہار سے ۲۳۶۷/خوش نصیب لوگ سفر حج پر روانہ ہو رہے ہیں، پہلی پرواز ۱۷/جون کو سعودی ایئرلائنز کےذریعہ کلکتہ سے ہورہی ہے، عازمین حج کی یہ جماعت پچھلے دوسالوں سے سفر حج کے انتظار میں رہی ہے اب جاکر ان کی دلی مراد پوری ہونے جارہی ہے۔
اس بار عازمین حج کو مشقت بھی زیادہ ہوئی اور مال بھی زیادہ خرچ کرنا پڑا ہے،اس سے رنجور ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، وہ اس لیے کہ حج نام ہی ہے اس عبادت کا جس میں جسمانی مشقت بھی اٹھانی پڑتی ہے اور مال بھی خرچ کرنا پڑتا ہے۔اس کے عوض حاجی خدا کی خاص خوشنودی کا حقدار ہوجاتا ہے، گناہوں سے مغفرت کا پروانہ لیے اپنے گھروں کو واپس ہوتا ہے، اسی کو حج مبرور یعنی مقبول حج کہتے ہیں۔
حدیث کی معروف ومشہور کتاب مسلم شریف میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:"حج پچھلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے "
اس کے لیے دوچیزیں نہایت ہی ضروری ہیں، پہلی چیز خلوص نیت ہے،قرآن کریم میں خدا کا ارشاد ہے:حج وعمرہ خالص خدا کے لیے پورا کرو،(سورہ بقرہ)
اس کا مطلب صاف اور واضح ہے کہ حج کے اس عمل کو ریااور دکھاوے کی نیت سے پاک کرنے کا حکم دیا جارہا ہے، یہ نہیں کہ ہم نے حج پر سب سے زیادہ مال خرچ کیا، ہماری خوب شہرت ہونی چاہیے، بلکہ حج کے سنن وآداب میں فقہاء کرام نے یہ بات لکھی ہے کہ ایک حاجی کے لیے خرچ میں کشادگی کرنا چاہیے،مگر دکھاوے کے لیے اس عمل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
عموما حج کے سفر پر روانگی سے قبل عازمین حج اپنے گھر میں رشتہ داروں کو جمع کرتے ہیں، اس کا مقصد اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں سے معافی چاہنا ہے اور اس کی درخواست کرنا تو درست ہے، اس کے برعکس مقصد تشہیر ہے اور ریا ہے تو پھر اس کی شرعا اجازت نہیں دی گئی ہے۔
دوسری چیزحج مقبول کےلیے مال کا حلال ہونا ضروری ہے، قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:
حج کے مہینے( شوال، ذوقعدہ اور ذوالحجہ )سب کو معلوم ہیں، جو شخص ان مہینوں میں حج کرنے کا فیصلہ کرلے اس کو چاہیے کہ اس پوری مدت میں شہوانی بات نہ کرے اور نہ لڑائی جھگڑا کرے ،جونیک کام تم کرتے ہو اللہ اس کو جانتا ہے ،اورحج میں جانے سے پہلے زاد راہ یعنی راستے کا خرچ لے لو اور بہترین زاد راہ خدا کا خوف اور پرہیزگاری ہے، تو اے عقل والو!میری نافرمانی سے ڈرتے رہو، (سورہ بقرہ،۱۹۷)
حج تو اسی شخص پر فرض ہے جو خانہ کعبہ تک پہونچنے کی استطاعت رکھتا ہے،اسقدرمال کا مالک ہے ،یہاں قرآن میں راستے کے خرچ کے لیےمال کے ساتھ تقوی اور پرہیزگاری کا بھی حکم دیا گیا ہے، خالص خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مال بھی خالص ہو اور خدا کی نافرمانی سے بھی بچنے کا خیال ہو،فقہ کی مشہور کتاب شامی میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے کہ اگر حج کے سفر پر نکلنے والے پر قرض ہے تو اسے صاحب معاملہ سے اجازت لیکر سفر کرنا چاہئے،آج تو معاملہ اس سے زیادہ سنگین ہے، ایک آدمی جو اپنے والد کے انتقال کے بعد متروکہ جائداد پر قابض ہوگیا ہے، اپنے بہن بھائی ودیگر ورثاء کو اسمیں حصہ نہیں دیا ہے، یا اگر دیا بھی ہے تو بہت معمولی حوالے کیا ہے،بقیہ پوری جائیداد پر قابض ہے،اب حج کے سفر پر روانہ ہورہا ہے، تو رسمی انداز میں معافی تلافی کی بات کہتا ہے، ایسے میں وہ کیسے حج مقبول کے اجر وثواب کا مستحق ہوسکتا ہے؟
حج سے گناہ ضرور معاف ہوتے ہیں مگر جو گناہ حقوق اللہ سے متعلق ہیں وہ معاف ہوتے ہیں، حقوق الناس سے معافی اسی وقت ملتی ہے جب وہ اس کی ادائیگی کردیتا ہے۔
ایک صاحب نے تو عجیب بات کہی ہے، یہ واقعہ کئی سال پہلے کا ہے، ایک حاجی صاحب جب حج کے سفر پر روانہ ہو رہے تھے تو ان کے ایک قریبی رشتہ دار نے یہ کہا کہ آپ اپنی بہن کا شیئر دےدیجیے پھر سفر کیجیے، حاجی صاحب خفا ہوئے اور کہنے لگے کہ میں سب کچھ بانٹ دوں اور مفلوک الحال ہوجاؤں،؟ ایسی سوچ واقعی افسوسناک ہے اور سنت وشریعت سے ہٹی ہوئی بات یے، ترمذی شریف حدیث کی کتاب ہے،اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی موجود ہے، "حج گناہ کو بھی دور کرتا ہے اور فقر ومحتاجگی کو بھی "
مشاہدہ یہ کہتا ہےاور ہم نے آج تک کسی ایسے حاجی صاحب کو نہیں دیکھا ہے جو حج کے بعد مفلوک الحال ہوئے ہوں۔
میراث کو قرآن کریم میں اللہ تعالٰی کا مقرر کیا ہوا حصہ کہا گیا ہے، اور اسے حدود اللہ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے،اس لئے خدا کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کے لئے اور حج مبرور کی دولت سے مالا مال ہونے کے لئے جو حقوق ایک عازم حج سے متعلق ہوں، پہلے اسے ادا کردینا چاہئے تاکہ وہ ہرطرح کے گناہوں سے پاک وصاف ہوسکے،حج مبرورتو اسی کا نام ہے۔
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
۶/ذوالقعدہ، ۱۴۴۳ھ