Powered By Blogger

منگل, جون 07, 2022

نوپور شرما اور اہل خانہ کو پولس نے سیکورٹی فراہم کی

نوپور شرما اور اہل خانہ کو پولس نے سیکورٹی فراہم کی

دہلی پولیس نے نوپور شرما اور ان کے خاندان کو تحفظ فراہم کیا ہے، جو پیغمبر اسلام کے بارے میں ایک ٹی وی مباحثے کے دوران ریمارکس کی وجہ سے تنازعات میں گھری ہوئی ہیں۔ نوپور شرما اور اس کے اہل خانہ کی جانب سے پولیس کو شکایت دی گئی کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ اس کے بعد پولیس نے انہیں سیکورٹی فراہم کی۔

نئی دہلی ضلع کی ڈی سی پی امرتا گگلوتھ نے منگل کو کہا کہ نوپور شرما اور ان کے خاندان کو پولیس تحفظ فراہم کیاگیا ہے۔ انھوں نے الزام لگایا تھا کہ انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں اور ان کے بیان کے بعد انھیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ 27 مئی کو ایک نیوز چینل پر جاری بحث کے دوران سابق بی جے پی ترجمان نوپور شرما اور پینل میں بیٹھے ایک اور شخص کے درمیان بحث ہوئی تھی۔ اس دوران نوپور شرما نے ایک مذہب کے ماننے والے پیغمبر کے بارے میں قابل اعتراض تبصرہ کیا تھا۔ تب سے نوپور شرما کو ٹوئٹر پر مختلف آئی ڈیز سے دھمکیاں دی جارہی تھیں۔انہوں نے دہلی پولیس کمشنر کو ٹویٹ کرکے اس کی شکایت کی تھی۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ٹویٹر آئی ڈی کے ذریعے اس کی تشہیر کی جا رہی ہے۔ دھمکیاں دینے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ جس کے بعد دہلی پولیس کے انٹیلی جنس فیوزن اینڈ اسٹریٹجک آپریشنز (آئی ایف ایس او) نے ایک کیس درج کیا تھا۔

سفرحج سے پہلے حق اداکیجیے

سفرحج سے پہلے حق اداکیجیے

ریاست بہار سے ۲۳۶۷/خوش نصیب لوگ سفر حج پر روانہ ہو رہے ہیں، پہلی پرواز ۱۷/جون کو سعودی ایئرلائنز کےذریعہ کلکتہ سے ہورہی ہے، عازمین حج کی یہ جماعت پچھلے دوسالوں سے سفر حج کے انتظار میں رہی ہے اب جاکر ان کی دلی مراد پوری ہونے جارہی ہے۔
اس بار عازمین حج کو مشقت بھی زیادہ ہوئی اور مال بھی زیادہ خرچ کرنا پڑا ہے،اس سے رنجور ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، وہ اس لیے کہ حج نام ہی ہے اس عبادت کا جس میں جسمانی مشقت بھی اٹھانی پڑتی ہے اور مال بھی خرچ کرنا پڑتا ہے۔اس کے عوض حاجی خدا کی خاص خوشنودی کا حقدار ہوجاتا ہے، گناہوں سے مغفرت کا پروانہ لیے اپنے گھروں کو واپس ہوتا ہے، اسی کو حج مبرور یعنی مقبول حج کہتے ہیں۔
حدیث کی معروف ومشہور کتاب مسلم شریف میں رسول اکرم صلی اللہ  علیہ وسلم کا ارشاد ہے:"حج پچھلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے "
اس کے لیے دوچیزیں نہایت ہی ضروری ہیں، پہلی چیز خلوص نیت ہے،قرآن کریم میں خدا کا ارشاد ہے:حج وعمرہ خالص خدا کے لیے پورا کرو،(سورہ بقرہ)
اس کا مطلب صاف اور واضح ہے کہ حج کے اس عمل کو ریااور دکھاوے کی نیت سے پاک کرنے کا حکم دیا جارہا ہے، یہ نہیں کہ  ہم نے حج پر سب سے زیادہ مال خرچ کیا، ہماری خوب شہرت ہونی چاہیے، بلکہ حج کے سنن وآداب میں فقہاء کرام نے یہ بات لکھی ہے کہ ایک حاجی کے لیے خرچ میں کشادگی کرنا چاہیے،مگر دکھاوے کے لیے اس عمل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
عموما حج کے سفر پر روانگی سے قبل عازمین حج اپنے گھر میں رشتہ داروں کو جمع کرتے ہیں، اس کا مقصد اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں  سے معافی چاہنا ہے اور اس کی درخواست کرنا تو درست ہے، اس کے برعکس مقصد تشہیر ہے اور ریا ہے تو پھر اس کی شرعا اجازت نہیں دی گئی ہے۔
دوسری چیزحج مقبول کےلیے مال کا حلال ہونا ضروری ہے، قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:
حج کے مہینے( شوال، ذوقعدہ  اور ذوالحجہ )سب کو معلوم ہیں، جو شخص ان مہینوں میں حج کرنے کا فیصلہ کرلے اس کو چاہیے کہ اس پوری مدت میں شہوانی بات نہ کرے اور نہ لڑائی جھگڑا کرے ،جونیک کام تم کرتے ہو اللہ اس کو جانتا ہے ،اورحج میں جانے سے پہلے زاد راہ یعنی راستے کا خرچ لے لو اور بہترین زاد راہ خدا کا خوف اور پرہیزگاری ہے، تو اے عقل والو!میری نافرمانی سے ڈرتے رہو، (سورہ بقرہ،۱۹۷)
حج تو اسی شخص پر فرض ہے جو خانہ کعبہ تک پہونچنے کی استطاعت رکھتا ہے،اسقدرمال کا مالک ہے ،یہاں قرآن میں راستے کے خرچ کے لیےمال کے ساتھ تقوی اور پرہیزگاری کا بھی حکم دیا گیا ہے، خالص خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مال بھی خالص ہو اور خدا کی نافرمانی سے بھی بچنے کا خیال ہو،فقہ کی مشہور کتاب شامی میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے کہ اگر حج کے سفر پر نکلنے والے پر قرض ہے تو اسے صاحب معاملہ سے اجازت لیکر سفر کرنا چاہئے،آج تو معاملہ اس سے زیادہ سنگین ہے، ایک آدمی جو اپنے والد کے انتقال کے بعد متروکہ جائداد پر قابض ہوگیا ہے، اپنے بہن بھائی ودیگر ورثاء کو اسمیں حصہ نہیں دیا ہے، یا اگر دیا بھی ہے تو بہت معمولی حوالے کیا ہے،بقیہ پوری جائیداد پر قابض ہے،اب حج کے سفر پر روانہ ہورہا ہے، تو رسمی انداز میں معافی تلافی کی بات کہتا ہے، ایسے میں وہ کیسے حج مقبول کے اجر وثواب کا مستحق ہوسکتا ہے؟
حج سے گناہ ضرور معاف ہوتے ہیں مگر جو گناہ حقوق اللہ سے متعلق ہیں وہ معاف ہوتے ہیں، حقوق الناس سے معافی اسی وقت ملتی ہے جب وہ اس کی ادائیگی کردیتا ہے۔
ایک صاحب نے تو عجیب بات کہی ہے، یہ واقعہ کئی سال پہلے کا ہے، ایک حاجی صاحب جب حج کے سفر پر روانہ ہو رہے تھے تو ان کے ایک قریبی رشتہ دار نے یہ کہا کہ آپ اپنی بہن کا شیئر دےدیجیے پھر سفر کیجیے، حاجی صاحب خفا ہوئے اور کہنے لگے کہ میں سب کچھ بانٹ دوں اور مفلوک الحال ہوجاؤں،؟ ایسی سوچ واقعی افسوسناک ہے اور سنت وشریعت سے ہٹی ہوئی بات یے، ترمذی شریف حدیث کی کتاب ہے،اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی موجود ہے، "حج گناہ کو بھی دور کرتا ہے اور فقر ومحتاجگی کو بھی "
مشاہدہ یہ کہتا ہےاور ہم نے آج تک  کسی ایسے حاجی صاحب کو نہیں دیکھا ہے جو حج کے بعد مفلوک الحال ہوئے ہوں۔
میراث کو قرآن کریم میں اللہ تعالٰی کا مقرر کیا ہوا حصہ کہا گیا ہے، اور اسے حدود اللہ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے،اس لئے خدا کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کے لئے اور حج مبرور کی دولت سے مالا مال ہونے کے لئے جو حقوق ایک عازم حج سے متعلق ہوں، پہلے اسے ادا کردینا چاہئے تاکہ وہ ہرطرح کے گناہوں سے پاک وصاف ہوسکے،حج مبرورتو اسی کا نام ہے۔ 
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۶/ذوالقعدہ، ۱۴۴۳ھ

مساجد کا تحفظ اور اس کا طریقۂ کار

مساجد کا تحفظ اور اس کا طریقۂ کار ___
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بھاجپا کے ایک ترجمان کے مطابق تیس ہزار سے زائد مساجد اس وقت فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہے ، بابری مسجد ہاتھ سے نکل گئی ، گیان واپی مسجد پر عدالتی کارروائی چل رہی ہے اور جلد ہی اس کے بارے میں کوئی فیصلہ سامنے آنے والا ہے، دہلی کی درجنوں مسجد میں نماز پر پابندی لگانے کے لیے عدالتوں میں درخواستیں زیر غور ہیں، قطب مینار کے قریب احاطہ میں واقع مسجد میں نماز پر پابندی لگادی گئی ہے اور پوجا کی اجازت کے لیے عرضی لگائی جا چکی ہے، جمہوریت کے تمام ستون اس طرح منہدم ہو چکے ہیں کہ اقلیتوں کی کوئی سن نہیں رہا ہے اور ایک خاص فرقہ کو خوش کرکے تکثیری سماج کے بل پر سب کچھ بدلا جا رہا ہے، ایسے میں پورا ملک یہ جاننا چاہ رہا ہے کہ موجودہ حالت میں مساجد کے تحفظ کی کیا شکل ہو سکتی ہے، مسلم تنظیموں کے ذریعہ مختلف سطح پر میٹنگیں ہو رہی ہیں ، لیکن یہ الگ الگ میٹنگیں مسلمانوں کے درمیان آپسی اختلاف وانتشار کی مظہر ہیں، اتحاد امت کی کوشش کو اس سے بھی نقصان پہونچ رہا ہے، اس لیے ملت کے کاز اور مساجد کے تحفظ کے لیے متحدہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے، جو بد قسمتی سے مختلف میٹنگوں کے باوجود عملی طور پر اب تک مسلمانوں کے سامنے نہیں آسکا ہے، اس سلسلے کی پہلی میٹنگ ماضی قریب میں محمود پراچہ نے بلائی تھی ، لیکن بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی اور اب محمود پراچہ کے اس کام میں غفلت اور بد عنوانی کے چرچے بھی عام ہیں، اس لیے پہلا کام تو یہی ہے کہ ہم آپس میں اتحاد پیدا کریں، مخلص اورغیر مخلص کو پہچانیں، ہر آدمی کے اندر اللہ رب ا لعزت نے ایک قوت تمیزی رکھی ہے ، جس کے ذریعہ ملک وملت کے مخلصین کی پہچان کی جا سکتی ہے، یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ خلوص کے ناپنے کا کوئی پیمانہ آج تک ایجاد نہیں ہوا، اور یہ خالص دل کی کیفیت کا نام ہے، لیکن جب دل کی کیفیت عمل کے سانچے میں ڈھلتی ہے تو پتہ چل جاتا ہے کہ کون ملت کی بر تری کے لیے کام کر رہا ہے اور کس کے پیش نظر ملت فروشی ہے، تاریخ کا اگر آپ کے پاس تھوڑا بھی علم ہے تو کئی لوگ سے آپ بھی واقف ہوں گے ۔ 
دوسرا کام اپنے عمل کی اصلاح ہے، ایمان وعقیدہ کی پختگی کے ساتھ عمل صالح کو زندگی کالازمہ بنانا چاہیے، ایمان تصدیق قلبی ہے اور عمل صالح اس کا خارجی مظہر اسی لیے ایمان کے ساتھ قرآن کریم میں بار بار عمل صالح کا ذکر کیا گیا ہے، خسران اور گھاٹے سے نکلنے کے لیے جن چار چیزوں کا قرآن میں ذکر ہے ان میں دو ایمان اور عمل صالح ہے، ہم دونوںمیں کمزور واقع ہوئے ہیں ، مواقع ملتے ہی ہمارا ایمان ڈگمگانے لگتا ہے اور ہمارے اعمال شرعی کم، غیر شرعی اور سماجی قسم کے زیادہ ہو گیے ہیں، ہم نے رسم ورواج اور اوہام کو اس قدر اوڑھ لیا ہے کہ دین کی اصل تصویر اور شبیہ غائب سی ہو گئی ہے، ایسے کمزور ایمان اور ایسی بد عملی اور بے عملی کے ساتھ اللہ کی نصرت کس طرح آسکتی ہے اور ہم اللہ کی نصرت قریب ہے، کا اعلان کن بنیادوں پر کر سکتے ہیں۔
 مسجدوں کے تحفظ کے لیے تیسرا بڑا کام جماعت کی پابندی کے ساتھ نما ز کی ادائیگی ہے، جن مسجدوں کو ہم نے خود ویران کر دیا،نقل مکانی کرتے وقت ہمیں یہ یاد نہیں رہا کہ یہاں ایک اللہ کا بھی گھر ہے، پنجاب اور ہریانہ میں بہت ساری مسجدیں ایسی ہیں جہاں سے مسلمان نقل مکانی کر گیے اور آج وہ جانوروں کے طویلہ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، اس کے علاوہ بہت ساری مسجدیں ایسی ہیں جو غیر مسلموں کے علاقہ میں ہیں،انہیں بھی ہم نے اللہ بھرسے چھوڑ رکھا ہے، امام ، مؤذن اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا ہے، اور ہماری حاضری ان مسجدوں میں نہیں ہو رہی ہے، دھیرے دھیرے وہ بھی غیر مسلموں کے قبضے میں چلی جا رہی ہیں، کئی مسجدوں کے بارے میں یہ خبر آتی رہی ہے کہ اس کے تقدس کو غیر مسلموں نے بچا رکھا ہے، کوئی اذان دینے والا نہیں ہے تو ٹیپ رکارڈ کی مدد سے وقت پر اذان ہو رہی ہے، لیکن یہ ہماری بے عملی کا مظہر ہے،اس لیے ہمیں تمام مساجد میں عموما اور غیر مسلم علاقوں میں خصوصا مسجدوں کو آباد رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، ممکن ہے ایسی مساجد ہمارے گھروں سے دور ہوں اور اس کے لیے ہمیں جانا پڑے،لیکن مسجد کے تحفظ کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے، پھر ہر قدم پر ایک نیکی کا فرمان بھی موجود ہے،اللہ کے گھر کو آباد کرنے کے لیے جو قدم آپ کا اٹھے گا اس کے ہر قدم پر ایک نیکی تو پکی ہے، اس کے علاوہ جس نیت سے آپ جا رہے ہیں اس میں اس ثواب کے زیادہ بڑھ جانے کا امکان ہی نہیں، یقین ہے۔
 ملک میں جو نفرت کی لہر چل رہی ہے اور جس طرح غلط بنیادوں پر مسلمانوں کو مطعون کیا جا رہا ہے اور ذرائع ابلاغ جھوٹ کی کھیتی کر اسے پھیلانے میں لگا ہے، ایسے میں یہ بات ضروری ہے کہ مسجد کا اندرونی حصہ بھی ہر وقت ہماری نگاہوںکے سامنے رہے ، اس کے لیے مساجد میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانا بھی تحفظ کے نقطۂ نظر سے ضروری معلوم ہوتا ہے، ہو یہ رہا ہے کہ دوسرے مذہب کے لوگ مسجد میں ممنوعہ اشیاء ڈال کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مہم چلاتے ہیں، سی سی کیمرہ سے حقیقت کا پتہ چلے گا اور ہمارے لیے یہ ممکن ہو سکے گا کہ ہم دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی لوگوں کے سامنے لا سکیں، ہمیں معلوم ہے کہ تمام مساجد میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا، لیکن جتنی مسجدوں کو ہم کیمرے کی زد میں رکھ سکتے ہوں، ہمیں اس کا انتظام کرنا چاہیے۔
۱۹۹۱ء میں مذہبی عبادت گاہوں کے تحفظ کا ایک قانون بنا تھا ، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ۱۹۴۷ء میں جو عبادت گاہ جس طرح تھی اور جس کے قبضے میں تھی اس کے خلاف کسی بھی عدالت میں معاملہ قابل سماعت نہیں ہوگا، اس قانون کی ان دیکھی کی جا رہی ہے، اس قانون کی رو سے عدالتوں کو پہلے مرحلہ میں ہی ایسی عرضیوں کو نا قابل مسموع  قرار دے کر خارج کر دینا چاہیے تھا، لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے ، عدالتیں سروے کا آرڈر بھی دے رہی ہیں اور ان پر سماعت بھی کی جا رہی ہے، یہ صراحتاً ۱۹۹۱ء کے قانون کے خلاف ہے، اگر ہم عدالت کو یہ سمجھا سکیں اور ہمارے قابل وکلاء جج حضرات کے سامنے اس قانون کے تقاضوں کو برتنے کی ضرورت واضح کر سکیں تو فرقہ پرستوں نے جو طویل سلسلہ مساجد اور عبادت گاہوں کو نزاعی بنانے کا شروع کر رکھا ہے اس پر لگام لگائی جا سکتی ہے، حکومت تو انہیں کی ہے اس لیے حکومت سے کوئی امید لگانا تو فضول اور احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے، لیکن عدالتیں اگر اپنے تحفظات سے اوپر اٹھ کر کام کریں تو اس قانون کا اطلاق ونفاذ محال نہیں ہے۔
ایک اور مسئلہ جس کی طرف ہماری توجہ کم جاتی ہے وہ ہے نئی تعمیرکے وقت مساجد میں استعمال ہونے والے سامان کا انتخاب، ہمیں چاہیے کہ ہم جو مساجد بلکہ گھر بھی تعمیر کریں تو ایسی اینٹیں نہ لگائیں جن کا برانڈ رام، گوپال، سیتا، کرشن، کنہیا وغیرہ ہو، اسی طرح تمام تعمیرات میں اسلامی ثقافت کو نمایاں رکھیں، غیر مسلم عبادت گاہوں کے طرز وانداز سے سختی سے گریز کریں، کیوں کہ ایک سو سال کے بعد ان مساجد سے نکلنے والی اینٹیں اور ان کے نقش ونگار مندر کے کھنڈرات معلوم ہوں گے اور ان پر قبضہ کی مہم چلے گی ، اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو لیکن احتیاط کرنے میں حرج ہی کیا ہے ۔
 ہماری مسجدیں اپنی ملکیت والی زمینوں پر تعمیر ہیں،یہ ایک حقیقت ہے، اسی لیے نیشنل ہائی وے کو فور لائن کرتے وقت ہماری مسجدیں اس کی زد میں نہیں آتیں، جب کہ ایک خاص فرقہ کی عبادت گاہیں کثرت سے سڑک کی زمین پر واقع تھیں، جنہیں منتقل کرنا پڑا، آئندہ بھی ہماری کوشش رہنی چاہیے کہ چھجے وغیرہ کی حد تک بھی ہم غیر قانونی طور پر تعمیرات کو آگے نہ بڑھائیں، تاکہ تجاوزات کے نام پر ہماری مسجدوں پر بلڈوزر نہ چلایا جائے، ہمیں معلوم ہے کہ جب ظالم کی نیت بدلتی ہے تو دلیل اور حجت کام نہیں آتی، پھر بھی ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔
 مساجد کی آراضی اور عمارت کے تحفظ کا ایک طریقہ رجسٹریشن ہے، یہ رجسٹریشن وقف بورڈ میں بھی کرایا جا سکتا ہے اور ٹرسٹ کے ذریعہ بھی ، وقف بورڈ کی جو حالت رہی ہے اس میں ایسا دیکھا گیا ہے کہ متولی اور کمیٹی کے بدلنے کے نام پر مقامی اور سرکاری سطح پر نئے نئے تنازعات سامنے آتے رہتے ہیں، اس لیے وقف بورڈ سے رجسٹرڈ کرانے میں وثیقہ جات میں ایسے اندراجات وکلاء کے مشورے سے ہونے چاہیے جس کی وجہ سے آئندہ کسی قسم کا نزاع نہ پیدا ہو، یہ نزاعات مسلک کے نام پر نئی کمیٹی بنا کر بھی کھڑے کیے جا تے رہے ہیں، میں نے مسلک کے نام پر مساجد کی قیمت لگاتے ہوئے مسلمانوں کو دیکھا ہے، ان سب سے بچانے کے لیے مضبوط دستاویز بنا یا جائے اور وہی وقف بورڈ میں داخل کیا جائے اس کے لیے وقف بورڈ میں ایک فارم دستیاب ہے اس کو بھر کر جمع کرنے کے بعد انکوائری ضلعی کمیٹیوں کے ذریعہ کرائی جاتی ہے اور رپورٹ کو سامنے رکھ کر اسے وقف بورڈ میں رجسٹرڈ کردیا جاتا ہے۔
رجسٹریشن ٹرسٹ کے ذریعہ مقامی رجسٹری آفس میں بھی کرایا جا سکتا ہے، ٹرسٹ میں خدشات کم ہیں اور معاملہ ٹرسٹ کے ممبران تک محدود رہتا ہے، لیکن قانونی طور پر اس عمل سے مسجد کو تحفظ حاصل ہوجاتا ہے، ابھی اوقاف کے سروے کا کام چل رہا ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی مساجد ، قبرستان ، مدارس وغیرہ کو اس میں رجسٹرڈ کرادیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پہلے سے جو اوقاف رجسٹرڈ نہیں ہیں ، ان کا بھی سروے میں اندراج کرایا جا سکتا ہے، کیوں کہ وہ زمانہ قدیم سے اسی کام کے لیے وقف ہیں، اورمنشاء واقف کے مطابق کام ہو رہا ہے، البتہ وہاںاندراج پر سخت نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے، ورنہ سرکاری کارندے کبھی قبرستان کو ’’کبیر استھان‘‘ اور گورستان کو’’ گئو استھان‘‘ لکھنے سے بھی باز نہیں آتا، اگر ایسا ہوا تو سروے کے بعد بھی مسائل کھڑے ہوں گے، ضرورت مسلمانوں کو مستعد ہونے اور رہنے کی ہے، ورنہ نفرت کی آندھی میں سب کچھ اڑتا چلا جائے گا

دہلی میں بندتمام مساجدکو کھولا جائے:جمعیۃ علماء ہند

دہلی میں بندتمام مساجدکو کھولا جائے:جمعیۃ علماء ہند

جمعیۃ علماء صوبہ دہلی نے دہلی میں آثار قدیمہ کے تحت بند پڑی تمام مساجد کو نمازیوں کے لئے کھولا جائے اور انکو بے حرمتی سے بچایا جائے نیز ان کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔

جمعیۃ علماء صوبہ دہلی کی مجلس عاملہ کی میٹنگ مولانامحمدمسلم قاسمی صدر جمعیۃ دہلی کی زیرصدارت مدرسہ عالیہ عربیہ مسجد فتحپوری چاندنی چوک میں منعقد ہوئی، جس کا آغاز قاری محمد ساجد فیضی ناظم جمعیۃ علماء دھلی کی تلاوت قرآن پاک اور مولانا جمیل اختر قاسمی ناظم ضلع شمال مشرقی دھلی کے نعتیہ کلام سے ہوا۔

میٹنگ کے اغراض و مقاصد پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے مفتی عبد الرازق مظاہری ناظم اعلیٰ جمعیۃعلماء دہلی نے کہا کہ اس وقت ملک کے حالات انتہائی تشویشناک اور روز بروز خراب سے خراب تر ہوتے جاررہے فرقہ پرست طاقتیں ملک میں ہر دن ایک نیا مسئلہ کھڑا کر نفرت اور تعصب کو نہ صرف بڑھاوا دے رہی ہیں بلکہ ملک کے امن و امان کو آگ لگا کر تباہی کی طرف لے جا رہی ہیں۔

حیلے اوربہانوں سے مساجد نیز مسلم اقلیتوں کی جان ومال کو تباہ کیا جارہا ہے حکومت کی خاموشی فرقہ پرستوں کے حوصلوں کو بڑھاوادےرہی ہے جبکہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ملک کی اکثریت اور اقلیت کے ساتھ یکسا سلوک کیا جائے1991 میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے تمام عبادت گاہوں خاص طور پر مساجد کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔

حضور صلعم کی شان میں گستاخی کرکے مسلمانوں کی دل آزاری اور امن و امان کو غارت کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

دہلی میں آثار قدیمہ کے تحت بند پڑی تمام مساجد کو نمازیوں کے لئے کھولا جائے اور انکو بے حرمتی سے بچایا جائے نیز انکو تحفظ فراہم کیا جائے ۔

میٹنگ میں تمام اضلاع کے ذمہ داران کو ہدایات دیں گئی کہ اپنے اپنے علاقوں میں امن اور بھائی چارے کے فروغ کیلئے قومی یکجہتی کے پروگرام منعقد کئے جائیں اور برادران وطن کے ذہنوں سے غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلئے اسلام کی صحیح تصویر پیش کی جائے۔

امت مسلمہ میں پھیلی ہوئی مختلف طرح کی برائیوں کو دور کرنے کیلئے خاص طور پر خواتین کے لئے اصلاح معاشرہ کے پروگرام منعقد کئے جائیں.

حالات کے پیش نظر صبر و تحمل اور حکمت عملی کے ساتھ سیرت نبوی اور اکابر جمعیتۃ علماء ہند بطور خاص صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایات پر عمل کیا جائے ۔


میٹنگ میں امیر شریعت متحدہ پنجاب مولانا محمد اسحاق اتاوڑ نوح کے سانحۂ انتقال پر اظہار تعزیت کیا گیا اور ایصال ثواب کیا گیا ۔

میٹنگ کے اہم شرکاء میں مولانا محمد فرقان قاسمی خازن دہلی، مولانا عبدالحنان قاسمی نائب صدر دہلی، مولانا محمد عمر قاسمی نائب صدر، مفتی نظام الدین قاسمی نائب صدر، مفتی اسرارالحق مظاہری ناظم، مولانا محمد عرفان قاسمی ناظم ،مولانا عبداللہ ناظم، مفتی محمد عیاض مظاہری شاستری پارک، مفتی کفیل الرحمٰن جھارکھنڈی شاہدرہ، چودھری محمد اسلام لکشمی نگر، مولانا محمد راشد قاسمی اوکھلا، مولانا انتظار حسین مظاہری قصاب پورہ، مفتی محمد شمیم قاسمی قصاب پورہ، مفتی محمد مستقیم قاسمی اوکھلا، قاری اسرارالحق قاسمی فتح پوری، مولانا محمود احمد قاسمی گووند پوری، مولانا محمد یحییٰ ارسلانی اتم نگر،مولانا عبدالرزاق خان پور ،مولانا محمد راشد حوض رانی، الحاج سلیم رحمانی ویلکم ،حافظ محمد رئیس اتم نگر،مولانا محمد ایوب بوانہ، حافظ محمد یاسین نریلا، حافظ محمد یامین نہال وہار، مولانا محمد قربان نہال وہار، حافظ محمد الطاف اوکھلا وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں

ریلوے نے آن لائن ٹکٹ بکنگ کی حد دوگنی کردی

ریلوے نے آن لائن ٹکٹ بکنگ کی حد دوگنی کردی

نئی دہلی،۔ انڈین ریلوے نے انڈین ریلوے کیٹرنگ اینڈ ٹورازم کارپوریشن (آی آرسی ٹی) کی ویب سائٹ یا ایپ کے ذریعے آن لائن ٹکٹ بکنگ کی حد کو دوگنا کر دیا ہے۔

انڈین ریلوے نے مسافروں کی سہولت کے لیے ایسی صارف آئی ڈی جو آدھار سے لنک نہیں ہے ، ایک ماہ میں زیادہ سے زیادہ 6 ٹکٹوں کی بکنگ کی حد کو بڑھا کر 12 ٹکٹوں تک کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، آدھار سے لنک یوزر آئی ڈی کے ذریعہ ایک ماہ میں زیادہ سے زیادہ 12 ٹکٹوں کی حد کو 24 ٹکٹوں تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے لیے بک کئے جانے والے ٹکٹ کے ایک مسافرکے آدھار کے ذریعے تصدیق کرنا ہوگا۔

فی الحال، انڈین ریلوے کیٹرنگ اینڈ ٹورازم کارپوریشن (آئی آر سی ٹی ) کی ویب سائٹ یا ایپ پر ایسی یوزر آئی ڈی سے جو آدھار سے لنک نہیں ہیں ، ایک ماہ میں زیادہ سے زیادہ 6 ٹکٹس آن لائن بک کیے جاسکتے ہیں، جب کہ آدھار سے لنک آئی ڈی کے ذریعہ آئی آر سی ٹی سی کی ویب سائٹ یا ایپ پر ایک مہینے میںایک یوزر آئی ڈی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ 12 ٹکٹ آن لائن بک کیے جا سکتے ہیں۔ بک کئے جانے والے ٹکٹ میں ایک مسافرکی آدھار کے ذریعے تصدیق کرنا ہوتا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...