Powered By Blogger

منگل, دسمبر 24, 2024

اداس موسم ، مصنف: انور آفاقی

اداس موسم ، مصنف: انور آفاقی
Urduduniyanews72 
انور آفاقی اردو شعر و ادب کے اس قبیل کی نمائندگی کرتے ہیں جہاں پرورشِ لوح و قلم عبادت سے کم نہیں، سو انہوں نے شاعری کو اس طور پر اپنایا کہ دل کی صدا کا اظہاریہ بنا ڈالا ۔ انہوں نے گذشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں شاعری کی شروعات کی ۔ پہلا شعری مجموعہ" لمسوں کی خوشبو "2011 میں شائع ہوا ۔ اس کا دوسرا ایڈیشن بھی منظر عام پر آیا۔ اس کے علاوہ "دیرینہ خواب کی تعبیر " (سفرنامہ کشمیر) "پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی سے گفتگو " (انٹرویو) "نئی راہ نئی روشنی"( افسانوی مجموعہ)دوبدو"(ادبی مکالمہ ) ،"میزانِ فکر و فن" ( مضامین) تصنیفات و تالیفات کے ذریعے انہوں نے اپنی ادبی کاوشوں کو پیش کیا ہے۔ ان کے اولین شعری مجموعہ "لمسوں کی خوشبو "کا ترجمہ جناب سید محمود احمد کریمی نے Fragrance of Palpability نام سے کیا ۔ انگریزی میں 
 " Anwar Afaqi: A Versatile genius"
کے نام سے سید محمود احمد کریمی کی کتاب سے انگریزی داں حضرات کو انور آفاقی کے بارے میں معلومات ہوتی ہیں ۔" انور آفاقی: آئینہ در آئینہ" کے نام سے ڈاکٹر عفاف امام نوری کی ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے جس سے ان کی شخصیت اور ادبی فتوحات کا کم و بیش مکمل احاطہ ہوتا ہے ۔ مذکورہ گفتگو سے انور آفاقی بحیثیت ادیب ان کے مراتب کا اندازہ کیاجا سکتا ہے۔
"اداس موسم" ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے ۔اس میں 60 سے زیادہ غزلیں، بارہ نظمیں ، قطعات اور منتخب اشعار شامل ہیں۔ مشمولات کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاعر کو غزلیہ شاعری سے زیادہ دلچسپی ہے ۔ شاعر کی اس بانگی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شاعری ان کی طبیعت کا حصہ ہے۔ وہ اپنی بات میں لکھتے ہیں کہ " زندگی کے دوسرے حادثات و واقعات کا تجربہ کیا کچھ کر سکا ہوں اس کا مجھے پتہ نہیں مگر مجھے لگتا ہے کہ میرا یہ مجموعہ کلام "اداس موسم "پہلے مجموعہ کلام" لمسوں کی خوشبو" سے قارئین کو مختلف ضرور نظر ائے گا ۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اگر کسی شاعر کا کوئی بھی شعر کسی بھی قاری کے ذہن میں محفوظ ہو جاتا ہے تو اسے شاعری سے بنواس نہیں لینا چاہیے۔ لہذا اس نئے شعری مجموعہ کے ساتھ حاضر ہوں ۔ ایک بات گوش گزار کرتا چلوں کہ اس مجموعہ کلام پر میں نے دانستہ طور پر کسی بھی شخص استاد یا شاعر سے کوئی اصلاح نہیں لی ہے ۔ کسی استاد سے اصلاح کے نام پر غزلیں لکھوا لینا اور پھر مجموعہ کلام چھپوا لینا نہ تو میری فطرت ہے اور نہ ہی میری طبیعت اسے گوارا کرتی ہے"۔
           ان کی شاعری کے مرکز میں محبت کا حسن موجود ہے۔ رنگِ تغزل کمال کا ہے۔ واردات قلبی کا اظہار سکون دیتا ہے ۔ دل سے نکلی محبت کی صدا محسوس کیجئے ۔ یہ اشعار میری پسند کے ہیں۔
سلگتی رات کی تنہائی مار ڈالے گی
 چلے بھی آؤ کہ جینے کی آرزو ہے ابھی
 یہ کس مقام پر دل نے مجھے ہے پہنچایا
 جدھر بھی دیکھوں فقط تو ہی روبرو ہے ابھی 
بس آسمان سے تکتا ہے رات بھر مجھ کو
 وہ چاند چھت پہ بھی اترے یہ آرزو ہے ابھی
 وہ میری نظم و کہانی میں سانس لیتا ہے 
بچھڑ گیا ہے مگر دل سے وہ گیا بھی نہیں
 آنکھیں بھی قتل عام کرتی ہیں 
نام بد نام ہے قیامت کا۔
انور آفاقی الفاظ کے انتخاب میں کافی چوکس رہتے ہیں ۔ شاعری یوں بھی فنون لطیفہ میں اپنی نزاکت اور حسن خیال سے پہچانی جاتی ہے۔ ان اشعار کو گنگنانے کو جی چاہتا ہے۔ کئی دفعہ چھوٹی بحروں کے اشعار خوب متاثر کرتے ہیں۔
 تتلیوں کے حسین جھرمٹ میں
 پھول کو اشکبار ہونا تھا 
رکھ لیا تم نے ہے بھرم ورنہ
 زندگی بھر شرمسار ہونا تھا 
وہ کلی بعد ایک مدت کے 
دیکھ کر مجھ کو کھل گئی ہوگی۔
ان کی شاعری کے مطالعہ میں ایک خوشگوار جذبے کا احساس ہوا۔ وہ ہے اپنے گاؤں کی مٹی سے محبت، وہاں کی فضا، ہریالی وغیرہ جو ان کے ذہن و دل میں رچا بسا ہے ۔ اردو شاعری میں یہ جذبے قابل قدر ہیں ۔ اس قبیل کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے :
ہمارے گاؤں میں پیپل کی چھاؤں کافی ہے 
تمہارے شہر میں ہوٹل ستارہ ہے تو ہے 

تمہارے شہر میں جینا ہے مشکل 
دھواں ہے شور ہے تنہائیاں ہیں
 ہمارے گاؤں میں آکر تو دیکھو
 ہوا ہے کھیت ہے ہریالیاں ہیں
دوران مطالعہ کئی اشعار نے دامنِ دل تھام لیا اور دیر تک محظوظ ہونے کو مجبور کیا ۔ یہ اشعار شاید آپ کو بھی پسند آئیں :
میں نے پلکیں جھکا لیا قصدا 
زندگی اس کو مل گئی ہو گی 
اس کے ہاتھوں میں دیکھا ہے پتھر 
پھول میں جس کو پیش کرتا ہوں
 عشق تو نام ہے عبادت کا 
عشق میں فلسفہ نہیں ہوتا 
زباں سے سخت تھا دل سے وہ پھول جیسا تھا 
چلا گیا ہے تو ہر شخص یاد کرتا ہے۔
اس مجموعے میں ایک توشیحی نظم" مناظر عاشق ہرگانوی" اور" سید محمود احمد کریمی کی نذر" کے بعد "کرونا"، " بہت گہرا اندھیرا چھا گیا ہے" ،" جلتی ہوائیں" ، " خدشہ " ، "غلیل کی زد پہ " ، " انتظار"( ایک منظوم افسانہ) "ذکر تیرا بعد تیرے" مع انگریزی ترجمہ، "بد نصیب لوگ" ، " کربِ تنہائی" ، اور" الوداع الودع اے جانِ پدر" نظمیں پرتاثیر ہیں۔ " انتظار " تو لاجواب تخلیق ہے۔ غزلوں کی پیشکش میں جدت دکھائی دیتی ہے کہ شاعر نے غزل کے کسی ایک مصرع کو شرخی بنایا ہے ۔ یہ نیا تو ہے پر اچھا ہے۔ مجموعہ میں "اداس موسم" نام کو چھوڑ کر کچھ بھی اداس نہیں ہے بلکہ فرحت و تازگی ہر سو بکھری ہوئی ہے۔ مجموعے کے اندرونی فلیپ پہ کامران غنی صؔبا اور احمد اشفاق کی مختصر تحریر میں شاعر کی کارکردگی کو سراہا گیا ہے جبکہ بیک کور پر جناب حقانی القاسمی کی نپی تلی رائے شاعر کے اعتراف و اقرار کی راہ ہموار کرتی ہے۔ یقین ہے کہ شائقین ادب اس مجموعے کو پسند کریں گے۔
*********************************
ڈاکٹر مجیر احمد آزاد 
محلہ۔ فیض اللہ خاں ، حامد کالونی،
دربھنگہ۔ 846004
Mob. 9430 8987 66

ایک شام ضیاء فتح آبادی کے نام"ضیائے حق فاؤنڈیشن و ینگ مائنڈ ایجوکیشن کی جانب سے مشاعرہ وسیمینار بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا ۔

"ایک شام ضیاء فتح آبادی کے نام"
ضیائے حق فاؤنڈیشن و ینگ مائنڈ ایجوکیشن کی جانب سے مشاعرہ وسیمینار بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا ۔
Urduduniyanews72 
الہ آباد (پریس ریلیز )

ضیائے حق فاؤنڈیشن "وینگ مائنڈ ایجوکیشن"اسکول میں مورخہ 22/دسمبر 2024 بروز اتوار بوقت 03/بجے دوپہر ایک خوبصورت مشاعرہ اور ضیاء فتح آبادی کی حیات وخدمات پر منحصر ایک سیمینار اور ینگ مائنڈ ایجوکیشن کے بچّوں کے پروگرام کا انعقاد کیا گیا ۔
 پروگرام چار حصوں پر مشتمل تھا۔
پروگرام کی شروعات حمدیہ کلام سے ہوا ۔ پہلے حصے میں فاؤنڈیشن اور ینگ مائنڈ ایجوکیشن کا اور سیمنار کا انعقاد عمل میں آیا ،جس کی صدارت الٰہ آباد یونیورسٹی کی صدر شعبہ فارسی پروفیسر صالحہ رشید نے کیں ۔
اس کے بعد فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے ضیائے حق فاؤنڈیشن کا تعارف اور ضیاء فتح آبادی کے حیات وخدمات اور فن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ضیاء فتح آبادی اردو ہندی زبان وادب کے مشہور ومعروف اور مقبول شاعر ،افسانہ نگار، تنقید نگار،سا نیٹ نگار کے ساتھ ساغرؔ نظامی، جوشؔ ملیح آبادی، میراؔ جی اور ساحرؔ ہوشیار پوری کے ہم عصر اور استاد شاعر سیمابؔ اکبر آبادی کے شاگرد تھے۔
ضیاء فتح آبادی کا اصل نام مہر لال سونی تھا۔ وہ کپورتھلہ پنجاب میں اپنے ماموں شنکر داس پوری کے گھر 9؍فروری 1913 کو پیدا ہوئے۔ وہ ایک اردو نظم نگار و غزل گو شاعر تھے۔ انکے والد منشی رام سونی فتح آباد ضلع ترن تارن پنجاب کے رہنے والے تھے اور پیشے کے اعتبار سے ایک مدنی مہندس تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضیاء فتح آبادی کا ادبی سفر اردو شاعری کی ترقی میں ایک اہم باب ہے، جس میں ان کی تخلیقی صلاحیت اور زبان پر گرفت واضح طور پر نظر آتی ہے۔ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں "
 محمد اسامہ(ڈائریکٹر ینگ مائنڈ ایجوکیشن) نے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا"ان کی شاعری میں سادگی اور گہرائی کا امتزاج ہے، جو قاری کو بآسانی متوجہ کرتا ہے اور ان کے دلوں میں جگہ بناتا ہے۔"
مہمان خصوصی اسرار گاندھی نے کہا"ضیاء فتح آبادی کی نظمیں اور غزلیں اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں، ان کی تخلیقات محبت، درد اور معاشرتی حقائق کی عکاسی کرتی ہیں۔"
اس کے بعد پروگرام کی صدارت فرما رہی پروفیسر صالحہ رشید نے پڑھے گئے مقالات اور اسکول اور فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا انھوں نے کہا کہ یہ وہ تنظیم ہے جس نے قوس صدیقی، ناشاد اورنگ آبادی ،شمیم شعلہ ،خالد عبادی، افتخار عاکف، دلشاد نظمی ، شکیل سہسرامی ، اثر فریدی روزنامہ قومی تنظیم ، ڈاکٹر ریحان غنی، برقی اعظمی، اور بھی دیگر شعراء وادباء کو اعزاز سے نواز چکی ہے، ہمیں اس تنظیم کی سرگرمیاں دیکھ کر بیحد خوشی ومسرت اور شادمانی ہوتی ہے، کیونکہ یہ تنظیم اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی کے لئے مستقل کوشاں ہےاور آج اس تنظیم کے زیر انتظام ایک اسکول کا بھی قیام عمل میں آیا،جس میں طلبہ وطالبات اپنی علمی پیاس سکیں گے ،میں خصوصی طور پر ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن کو مبارک باد پیش کرتی ہوں ۔نیز ضیاء فتح آبادی کے حیات وخدمات اور تصنیفات کا اجمالی خاکہ پیش کیا ۔پروفیسر صالحہ رشید نے کہا "ضیاء فتح آبادی کی شاعری میں زندگی کی گہرائیوں اور انسانی جذبات کا منفرد اظہار ملتا ہے، جو قاری کو خود شناسی کی دعوت دیتا ہے۔انھوں نے ضیاء فتح آبادی کے اس شعر کے ساتھ اپنی باتیں مکمل کی :
بڑھ کر مہ و انجم سے ضیائے اردو
رنگینی و دلکشی برائے اردو
اپنی جسے کہہ سکتے ہو ہم سب مل جل کر
ہے کوئی زباں اور سوائے اردو

اس کے بعد دوسرے حصے میں مشاعرہ کا باضابطہ آغاز ہوا ۔ جس کی صدارت ڈاکٹر اشرف علی بیگ نے کیں ۔ اس میں الٰہ آباد شہر کے معروف شاعروں نے اپنے کلام کے ساتھ ساتھ ضیاء فتح آبادی کی غزلیں نظمیں پیش کر اُن کو خراج عقیدت پیش کیا ، شاعروں میں راکیش دلبر،حسین جیلانی سلال پھول پوری، پرکاش سنگھ اشک نے اپنا کلام پیش کیا چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
چراغوں کو بُجھا ڈالا ہے لیکن 
ہوا کا رنگ، کالا ہو گیا ہے
(ر اکیش دلبر سلطانپوری)

حسین آؤ چلیں ہم شہر سے پھر گاؤں کی جانب
بڑے ہی خوش نما ہر دور میں دیہات ہوتے ہیں
(ڈاکٹر حسین جیلانی)
یُوں زندگی نے ہم سے بہانے بہت کیے
چلتی رہی بھی ساتھ ٹھکانے بہت کیے
(ا شرف علی بیگ)
بیوفائی جنہیں نہیں آتی
رسم اُلفت وہیں نبھاتے ہیں 
(سلال الٰہ آبادی)

برباد کر کے مجھ کو وہ جانے کدھر گئے
جو زخم بھر چلے تھے وہ پھر سے ابھر گئے
(پرکاش سنگھ اشک)

تیسرے حصے میں اسکول کے بچّوں نے ڈانس ،موسیقی، ہوگا جیسے پروگرام کو پیش کیا جس میں چھ ٹیم نے حصہ لیا 
پروگرام کے چوتھے اور آخری حصے میں "ضیاء فتح آبادی" ایوارڈ سے شاعروں اور ادیبوں کو اُن کی علمی و ادبی خدمات کے لئے نوازا گیا۔جن میں پروفیسر صالحہ رشید کو ان کی ادبی خدمات کے لئے، اسرار گاندھی کو اُن کے افسانوی ادب کے لئے شاعروں میں اور ضیاء فتح آبادی کو اُن کے سوشل ورک کے لئے ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ساتھ ہی ضیاء فتح آبادی کی شخصیت اور فن پر مبنی کتاب "ضیاء فتح آبادی حیات اور کارنامے" مصنف شبّیر اقبال کی رسم اجراء بھی عمل میں آئی ۔
 واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ اتر پردیش کے شہر الہ آباد کے راجا پور میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک اسکول کاقیام "ینگ مائنڈ ایجوکیشن" کے نام سے عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خصوصی طور پر محمد اسامہ، محمد ہاشم ، ڈی کے سونی اور ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن ، نے اپنا تعاون پیش کیا، جبکہ عمومی طور پر جملہ اراکین ضیائے حق فاؤنڈیشن نے تعاون دیا ۔پروگرام کے آخر میں ڈی کے سونی اور ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے تمام مہمانان کا شکریہ ادا کیا۔اور اس پروگرام میں شامل تمام بچّوں ، والدین اور دیگر مہمانان کا بھی شکریہ ادا کیا اور اس طرح یہ پروگرام بحسن وخوبی انجام تک پہنچا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...