Powered By Blogger

پیر, مارچ 10, 2025

*گرتوبرانہ مانے۔۔۔۔۔ *

*گرتوبرانہ مانے۔۔۔۔۔ *
Urduduniyanews72
مدرسوں کی سفارت بہت اہم اورنازک مسئلہ ہے۔تلخ نوائی معاف مگر حقیقت یہ ہےکہ مدارس کی سفارت کاواحد مقصد بس اب یہ رہ گیا ہے کہ 
مسلم معاشرہ کے غریب ونادارمسلمانوں کے حقوق سمیٹ کر مدرسہ میں لایا جائے اوراس میں سےہر ماہ تنخواہ لے کر اقربا پروری کی جائے۔ آخر مدرسہ والے مدرسوں کے اخراجات کےلیےخودکفالتی کے طریقے کیوں نھیں اختار کرتے کہ چندہ چٹکی کے لیے در در بھٹکنانہ پڑےاورغریبوں، یتیموں اور مسکینوں تک ان کا حق پہنچتارہےاوران کے حالات بھی بدل سکیں۔ ان کے سارے حقوق مدرسےوالےسمیٹ لے جاتے ہیں اور مسلم معاشرہ غریبی کی دلدل سے کبھی باہر ، نھیں آپاتا۔ مدرسوں کے منتظمین کوان ذرائع کے متعلق بھی غور کرناچاہئیے جن کے سبب چندہ وصولی کا دروازہ ہی بند ہو جائے اورمدرسہ اپنے آپ میں خود کفیل ہو۔ مدرسوں میں تجارتی شعبہ جات کیوں نھیں قائم کیےجاتےجن کی آمدنی سے مدرسہ کےاخراجات پورے ہوں! یہ ناممکن تونھیں۔کیا ضروری ہےکہ مدارس کے طلباء کی پرورش اسی مال سے کی جائے جسے نبی کریمﷺ نے مال کامیل کہا ہے۔ مدرسوں کے منتظمین کو چاہئیے کہ وہ علمائے کرام سے چندہ وصولی نہ کرایں۔ یہ ان کے منصب کے منافی ہے۔ بلکہ انتظامیہ ایسے وسائل واسباب اختیار کرےکہ ذکاۃ اور فطرہ وخیرات وصول کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔مدرسوں میں الگ سے ایک تجارتی شعبہ ہو جسے تنخواہ دار ملازمین کے ذریعے چلایاجاناچاہئیے۔ ان پر نگراں مقررہو۔ محاسب ہو۔ دیکھ دیکھ کرنے والے ہوں۔ مسلم معاشرہ کے افراد کو ملازمتیں مل سکیں۔ یہ بھی اسی فعال عمل سے ممکن ہے مگر نھیں سب سے آسان طریقہ اختیار کیاگیاکہ رسیداوررودادعلماء کے ہاتھوں میں پکڑادواورکہوکہ وہ سفرپرنکلیں اور ففٹی ففٹی پرسنٹ پر چند ہ وصول کر لائیں اور اگر کوئی غیرت مند عالم انکارکرےتوملازمت سے سبکدوشی کی دھمکی دی جائے۔ کیا یہ استحصال نھیں ہے۔؟مدرسہ چلانے والے عہدہ داروں کی ذمہ داری ہےکہ وہ اس کی آمدنی اور اخراجات کےکےلیےدیگرذرائع کے متعلق غوروفکر کریں اورذکوٰۃ وفطرہ اور خیرات کومسلم معاشرہ کےکمزورافرادکےلیےچھوڑدیں۔ مگر افسوس کہ عامتہ المسلمین کے ذہنوں میں یہ بات بھی بٹھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہےکہ مدرسہ میں ذکٰوۃ نھیں دوگےتوذکٰوۃ ادا ہی نھیں ہوگی۔ایک کروڑ روپئے کے بجٹ والےمدرسےپچاس لاکھ روپئے میں تجارتی شعبہ کیوں نھیں کھولتے۔؟جس کی آمدنی سے مدرسےکاخرچ اٹھایا جاسکے۔ 
سب کچھ ممکن ہے، اگر آدمی کرنا چاہے۔ چھوٹے اوربہت کم بجٹ والے مدرسوں کی مجبوریوں کو سمجھا جاسکتا ہے مگر وہ مدرسےجولاکھوں لاکھ اور کروڑوں کا بجٹ رکھتے ہیں اور سفارت کاروں کو چندہ وصولی کےلیےدربہ دربھٹکنے، اور ذلیل ورسواہونےپرمجبورکرتےہیں۔انھیں کیا کہا جائے اور ان کے سفیروں کے ساتھ کیابرتاؤکیاجائے۔؟ 

  انس مسرورانصاری
قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن

سامان کی قیمت معلوم ہے رمضان کی نہیں!

سامان کی قیمت معلوم ہے رمضان کی نہیں!      
Urduduniyanews72
امسال رمضان کا مہینہ سردی وگرمی کےملےجلے احساسات لیکر آیا ہے ،سردی ہے نہ زیادہ گرمی ہے، بھوک وپیاس برداشت ہے،اورسب کچھ سازگار وخوشگوارہے۔اس سے حوصلہ پاکر چھوٹے چھوٹے بچے بھی روزہ رکھ رہے ہیں، اس پر خدا کا شکرہم پر لازم ہے، اور یہ رمضان ہم سے زیادہ سے زیادہ اعمال کا مطالبہ کرتا ہے،اس ماہ مبارک کا حق صرف روزہ سے ہم ادا نہیں کرسکتےہیں ،یہ بات ملحوظ رہے کےاس برکت والے مہینے کے دامن میں اور بھی ہیرےو موتی ہیں، رمضان درحقیقت نزول قرآن کے جشن کا مہینہ ہے،کتاب الہی سے اس کو نسبت خاص حاصل ہے،اسی لئےتراویح میں قرآن کےپڑھنے ومکمل کرنے کا حکم ہے،جس طرح ایک روزہ دار کو ایمان واحتساب کے ساتھ روزہ پر پچھلے تمام گناہوں کی بخشش کی بشارت دی گئی ہے بالکل اسی طرح قیام اللیل پر بھی سابقہ گناہوں سے معافی کا پروانہ ملتا ہے،اس حدیث سے بات سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان کادن بھی مبارک ہے اور اس کی راتیں بھی برکت والی ہیں،اور یہ سب کچھ قرآن کریم کے صدقے ہے۔نزول قرآن کےاس مہینے میں تلاوت پر نیکیوں میں یوں بھی اضافہ ہوجاتا ہے کہ عام دنوں میں ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں مگر رمضان میں ہرایک نیکی کا ستر گنا ملتا ہے، نفل نماز کا ثواب فرض کے برابر ،اور فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر کردیا جاتا ہے۔اس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ نوافل کا اھتمام بھی اعمال رمضان میں شامل ہے،اس لئے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ نوافل کااھتمام ہم اس ماہ مقدس میں کریں۔ رات ودن کے ان قیمتی لمحات کا بہترین استعمال دعائیں کرنا بھی ہے۔دعا عبادت کا اصل ہے،ملکی حالات آئے دن ابتر ہوتے چلے جارہے ہیں، ساری تدبیریں الٹی پڑرہی ہیں، مسجد، مدرسہ، عیدگاہ، درگاہ،خانقاہ سب کچھ نشانے پر ہیں، خطرناک قسم کی سازشیں ہورہی ہیں، ایسی تدبیریں کہ پہاڑ بھی اپنی جگہ چھوڑ دے، ان حالات میں ایک صاحب ایمان کے لئے دعا زبردست ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیں ملک کی سلامتی، دین اسلام کی اشاعت وحفاظت کے لئے اس ماہ مبارک میں خاص اھتمام کرنا چاہئیے۔
آج لوگوں رمضان کا حق صرف روزہ اور افطاری وسحری کی تیاری کو سمجھ لیا ہے،" میرا روزہ ہے،افطاری کرنی ہے،سحرکھانا ہے"،پورا رمضان اسی پر محیط ہوتا ہے۔یہ چیزیں ٹھیک ٹھاک رہیں تو کہتے ہیں کہ ;اب کی بار تورمضان بڑا اچھا گزر ا" 
پورے رمضان اشیاء خوردنی پرہی خاص توجہ رہتی ہے، اس کی قیمت کا بھوت دماغ پر سوار رہتا ہے، بازار میں اور گھر میں اسی بات کا چرچا ہے کہ;" رمضان شروع ہواتو پپیتا مہنگا ہوگیا، تربوز کی قیمت بڑھ گئی، کیلے مہنگے ہوگئے،ڈرائی فروٹ کی قیمت آسمان پر پہونچ گئی"،وغیرہ ۰۰۰مگر اس بات کا ذکر نہیں ہوتا کہ;" یہ نیکی کا مہینہ ہے، ہر نیکی کی قیمت بڑھا دی گئی ہے اور کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے"، یہ بڑی نادانی اور ناواقفیت کی بات ہے،اچھے خاصے پڑے لکھے لوگ اس عنوان کو رمضان میں موضوع سخن نہیں بناتے ہیں، عام لوگوں کا تو کہنا ہی کیا ہے، نیکیوں کے چرچے پر بھی اجر ملتا ہے اورعوام الناس کا اس سے مزاج بنتا ہے اور نیکی کی چاہت دل میں پیدا ہوتی ہے۔
آج یہ سب چیزیں ہم ملک میں دیکھ رہے ہیں کہ غلط اور بے بنیاد باتیں اسقدر چرچے میں لائی جاتی ہیں کہ لوگ صحیح سمجھنے لگتے ہیں۔ہمارے پاس توخدا کا کلام ہے، قرآن ہے اور ماہ مبارک رمضان ہے،باوجود اس کے قرآن وحدیث کی باتوں کو عام کرنے اور چرچے میں لانےکی فکر نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ رمضان میں ہمیں کچھ 
  ایسے لوگ اپنی صف میں نظر آتے ہیں جو صحت مند ہوتے ہوئے بھی روزہ نہیں رکھتےہیں، ان بدنصیبوں کواس بات کا علم نہیں ہے کہ رمضان کے ایک روزہ کی قیمت کیا ہے؟پوری زندگی روزہ کی حالت میں گزاردینے سے بھی رمضان کے روزوں کی تلافی ممکن نہیں ہے۔رمضان کی سعادت اور روزہ کی توفیق کے لئے خدا بندے کے لئے فضا سازگار بناتا ہے، روزے اور نیکی کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو دور کرتا ہے،
  شیطان کو قید کردیتا ہے۔بخاری ومسلم شریف کی حدیث میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ آسمان کے دروازے کھول دیئےجاتےہیں، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں۔نفلی عبادت کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب اس ماہ مبارک میں ستر فرض کے برابر کردیا جاتا ہے۔روزہ دار کے لئے دو خوشی کے مواقع آتے ہیں، ایک جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسرا جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرتا ہے۔حدیث میں اللہ کا فرمان یہ بھی ہے کہ ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے مگر روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔
یہ سب کچھ اسی لئے ہوتا ہے کہ بندہ روزہ کی برکتیں حاصل کرلےاور خدا کی خاص خوشنودی کا حقدار ہوجائے۔
یہ روز وشب یہ صبح وشام یہ بستی یہ ویرانہ سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہوجائے     

مفتی ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۹/رمضان المبارک ۱۴۴۶ھ بروز دوشنبہ

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...