Urduduniyanews72
وقف ترمیمی بل جو دونوں ایوانوں سے پاس ہوتے ہوئے صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد ایکٹ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔اس کے عملی نفاذ کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے، اس سے مسلم تنظیموں اور وطن عزیز کے انصاف پسند لوگوں میں بڑی مایوسی پیدا ہوئی ہے،پورا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے، تکلیف دہ بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال کی محنت رائیگاں چلی گئی ہے،پورا سال اسی ایک بات کو سمجھانے میں گزر گیا کہ یہ وقف ترمیمی بل آئین ہند کے خلاف ہے۔ ضابطہ یہی ہے کہ قانون ساز پارٹی بھی ملکی آئین کے خلاف دستور سازی نہیں کرسکتی ہے، اس کا حق اسے قطعی حاصل نہیں ہے۔اتنی صاف اور سیدھی بات بھی حکومت وقت کی سمجھ میں نہیں آسکی کہ یہ بل جمہوری ملک میں بسنے والے شہریوں کے بنیادی حقوق سے متصادم ہے، ارٹیکل 14،15 کے ذریعے یہاں کے ہر شہری کو مساوات کا حق حاصل ہے، ارٹیکل 25 کے ذریعے مذہب کی ازادی حاصل ہے، ارٹیکل 26 کے ذریعے مذہبی امور کے انتظام کی ازادی کا حق دیا گیا ہے، یہ بنیادی حقوق ہیں،ان سے کھلواڑ نہیں کیا جاسکتا ہے، جبکہ وقف امیڈمینٹ بل ان تمام حقوق پر کھلا ہوا حملہ ہے،پارلیمنٹ میں مذکورہ بالا دفعات کی روشنی میں مدلل اور مفصل بحث بھی ہوئی ہے، غير مسلم ممبران پارلیمنٹ نے تواس عنوان پرتاریخ رقم کی ہے اوربہترین مثال پیش کی ہے،،دنیا بھر میں یہ پیغام گیا ہے اور ہر کسی نے اس کی بڑی پذیرائی بھی کی ہے، اپوزیشن ممبران نے اس بات کو بڑی سنجیدگی سے ہاؤس میں پیش کیا ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کامعاملہ نہیں ہے، بلکہ ملک کی آئین کی بقا اور اس کےتحفظ کا مسئلہ ہے، اگر اس پرفوری قدغن نہیں لگایا گیا تو ملک کا آئین ختم ہوجائے گا، چنانچہ ان تمام احباب نےاپنی ذمہ داری کا بروقت خیال کیا اور اس لمحہ کو یادگار اور تاریخ سازبھی بنادیا ہے،ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، مگر افسوس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ سب کاوشیں دونوں ایوانوں میں سود ہوگئیں ، حزب اقتدار کو قانون بنانا تھا سو بنا لیا گیا، اوربڑی تیزی میں اس کے نفاذ کا بھی اعلان کردیا گیا، یہ سب دیکھ کر انصاف پسند لوگوں میں بڑی بے چینی پیدا ہوئی، بالآخر مجبور ہوکر عدالت عالیہ میں اس قانون کو چیلینج کیا گیا، آج 16/اپریل 2025۶ کی تاریخ میں ان تمام عرضیوں پر پہلی سماعت کی گئی ہے اور بحمدللہ بہت ہی خوش آئندرہی ہے،پہلی شنوائی میں سپریم کورٹ نے یہی باتیں کہی ہے کہ جو گزشتہ ایک سال سے کہی جارہی ہے،جو بات گزشتہ ایک سال سے حکومت کی سمجھ میں نہیں آسکی وہ عدالت عالیہ نے اپنی پہلی سماعت میں واضح کردیاہےاور یہ کہ دیاہے کہ ;یہ پوری طرح دھارمک معاملہ ہے اور اس میں کسی طرح کی مداخلت سویکار نہیں ہے،جن آئینی دفعات کی روشنی میں اس قانون کے خلاف درخواستیں پیش گئی ہیں اور انمیں یہ بات مشترک ہے کہ یہ ملکی آئین کے خلاف ہے گویاعدالت عالیہ نے بھی اسے تسلیم کیا ہے، مذکورہ عدالتی تبصرہ سے یہ دعوٰی کیا جاسکتا ہے، علاوہ ازیں ترامیم کےاہم نکات کو سوالوں کے ذریعہ بھی آج سپریم کورٹ نے صاف کیا ہے اور یہ پوچھ لیا ہےکہ کہ; کیا آپ کسی ہندو بورڈ میں کسی مسلمان کو جگہ دیں گے، چیف جسٹس سنجید کھنہ جی سہ رکنی بینچ کا بذات خود حصہ ہیں، انہوں نے یہ تشویش ظاہر کی ہے کہ وہ وقف کی جائیداد جو طویل عرصے سے وقف کے طور پر استعمال ہورہی ہے اور اس کا کوئی وقف نامہ نہیں ہے، اگر اسے غیر موقوفہ قرار دیا جائے تو سنگین نتائج کا سامنا ہوسکتا ہے۔
وقف کمیٹی کے حوالہ سے بھی باتیں آئی ہیں، عدالت عالیہ کا موقف یہی ہے کہ مرکزی کمیٹی میں مرکزی وزیر اقلتی امور کے علاوہ غیر مسلم کو جگہ نہیں مل سکتی ہے، اور ریاستی وقف کمیٹی میں ریاستی وزیر اقلتی امور کے علاوہ غیر مسلم نہیں ہوسکتے ہیں۔
عدالت عالیہ نے واقعی پہلی بحث میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا ہے،یہ اگر چہ کوئی فیصلہ نہیں ہے مگر اس سے یہ تو واضح ہوگیا ہے کہ ہمارے غم کو ملک کی بڑی عدالت نے سمجھ لیا ہےاور یہ آنسو جو جاری ہیں یہ بے سبب نہیں ہیں بقول عاجز رحمہ اللہ
یہ آنسو بے سبب جاری نہیں ہے
مجھے رونے کی بیماری نہیں ہے
بہت دشوار ہے سمجھانا غم کا
سمجھ لینے میں دشواری نہیں ہے
ہمایوں اقبال ندوی
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری
16/4/2025