Powered By Blogger

بدھ, جولائی 12, 2023

ترکیہ اور اس کی قیادت ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

ترکیہ اور اس کی قیادت  _
Urudduinyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ترکیہ (سابق نام ترکی) سے ہندوستانی مسلمانوں اورعالم اسلام کا بڑا گہرا تعلق رہا ہے ، یہاں کی خلافت عثمانیہ سولہویں اور سترہویں صدی میں دنیا کی سب سے بڑی سیاسی قوت تھی ، چھ سو اکتیس (631)سال تک قائم اس حکومت کے زوال کا آغاز پہلی جنگ عظیم سے ہوا، جب اس نے جرمنی کا ساتھ دیا اور شکست کھانے کے بعد سیورے معاہدہ کے مطابق فاتح اتحادی قوتوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے تقسیم کر دیا ، 19؍ مئی 1919ء کو اس جارحیت کے خلاف ترکوں نے مصطفیٰ کمال پاشا کی قیادت میں تحریک آزادی کا اعلان کیا اور 18؍ ستمبر 1922ء کو غیر ملکی افواج سے ملک کو خالی کرالیا گیا  اور جمہوریہ ترکی کے نام سے ایک نئی ریاست تشکیل پائی ، یکم نومبر 1922ء کو ترکی کی مجلس پارلیمان نے خلافت کا خاتمہ کر دیا ، جس کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں اضطراب اور بے چینی پیدا ہوئی، ہندوستان میں خلافت کے احیاء کے لیے تحریک چلائی گئی ، جو تاریخ میں خلافت تحریک کے نام سے موسوم ہے اور جنگ آزادی کی تحریک کے بعد ہندوستان کی سب سے بڑی تحریک سمجھی جاتی ہے ۔
مصطفی کمال پاشا اپنی سیاسی حصولیابی کے طفیل اتاترک (ترکوں کا باپ) بن بیٹھا ، اس نے ملک میں اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا اور مذہبی تشخص کے خاتمہ کی جتنی کوششیں ہو سکتی تھیں، کر ڈالیں ، اس نے عربی پر پابندی لگایا ، ترکی زبان کے رسم الخط کو بھی عربی سے لاطینی کی طرف منتقل کر دیا اور ملک میں لا دینی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ، 1938ء میں مصطفی کمال پاشا کے انتقال کے بعد ان کے نائب عصمت انونو بھی اسی کے نقش قدم پر چلتے رہے اور اصلاح کا عمل جاری رکھا ۔ 
ترکی کے آئین کے مطابق’’ مسلح افواج ترک آئین وسلامتی کی محافظ ہے‘‘ ، اس جملے کا سہارا لے کر فوج نے متعدد بار جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا ، سب سے بڑی بغاوت 1960ء میں وزیر اعظم عدنان میندرس کے خلاف ہوئی تھی ، عدنان کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنی اصلاحات کے ذریعہ ترکوں کوسیکولرزم کے نئے معنی ومفاہیم سے آشنا کیا اور مذہب اسلام پر مصطفی کمال پاشا کے ذریعہ لگائی گئی پابندیوں کے اختتام کا اعلان کیا ، فوج کو یہ گوارہ نہیں ہوا، اور عدنان کا تختہ پلٹ کر فوج نے اسے تختہ دار پر چڑھا دیا۔
 1980ء میں مخلوط حکومت کے خلاف فوج نے پھر بغاوت کی اور اقتدار پر قبضہ کرکے ہزاروں مخالفین کو قید کر لیا اور کئی کو سزائے موت دی گئی ، لیکن جلد ہی عوام کے رخ کو دیکھ کر ترکی میں نیا آئین 1982ء میں نافذ ہوا ، لیکن فوج اقتدار پر قابض رہی ، بالآخر 1989ء میں طور غوث اوزال صدر بنے اور فوج اپنے بیرکوں میں واپس گئی ، اوزال نے انتہائی تدبر اور فراست کے ساتھ ترکی کی گرتی ہوئی معیشت کو نئے خطوط پر استوار کیا ، معاشی اصلاحات کی وجہ سے عالمی برادری میں ترکی کا وزن بڑھا ، مئی 1993ء میں ان کے انتقال کے بعد سلیمان دیمرل صدر منتخب ہوئے اور جون 1993ء میں راہ حق پارٹی کی جانب سے پہلی خاتون وزر اعظم تانسو چیرل نے کام شروع کیا ، ملک تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ چلتا رہا ، 1995ء کے انتخاب میں پہلی بار اسلامی افکار ونظریات کے لیے مشہور رفاہ عام پارٹی ترکی میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور نجم الدین اربکان وزیر اعظم بنے، لیکن وہاں کی قومی سلامتی کونسل سے ان کے اختلافات ہوئے، کیونکہ دونوں دو،سِرے پر تھے، اربکان اسلامی نظریات واقدار کو ملک میں رائج کرنا  چاہتے تھے جب کہ کونسل ترکی کے لا دینی نظام اور مغربی افکار ونظریات کو فروغ دینا چاہتی تھی ، اسے خطرہ تھا کہ کہیں ملک اسلامی راہ پر نہ چل پڑے ؛چنانچہ اس نے اربکان پر مستعفی ہونے کے لیے دبا ؤ بنایا، اربکان اس دباؤ کا مقابلہ نہیں کر سکے اور انہیں نہ صرف استعفا دینا پڑا بلکہ ان پر کونسل نے پوری زندگی سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگادی ، اس کے بعد کئی اتار چڑھاؤ آئے، جس کے نتیجے میں بلند ایجوت وزیر اعظم بنے اور 5؍ مئی 2000ء کو ترکی عدالت عالیہ کے سابق سر براہ احمد نجدات صدر منتخب ہوئے، اور 16؍ مئی کو صدارتی عہدے کا حلف لے کر صدارتی محل میں قیام پذیر ہوئے، یہ صدارتی محل انقرہ کے مضافات میں ایک پہاڑی پر واقع ہے ایک ہزار کمروں پر مشتمل یہ محل امریکہ کے وہائٹ ہاؤس اور روس کے کریملن سے کافی بڑا ہے ، اکسٹھ کڑوڑ پچاس لاکھ ڈالر سے زائد اس کی تعمیر پر خرچ ہوئے تھے یہ صدارتی محل ترکی کی شان ، آن بان کا تاریخی طور پر شاہد ہے ۔ 
 موجودہ صدر رجب طیب اردوگان جنہوں نے تیسری بار صدارتی انتخاب میں فتح حاصل کی ہے، اپنے اسلامی خیالات کے لیے مشہور ہیں ، ان کی ایک مشہور نظم ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مسجدیں ہماری چھاؤنیاں ہیں ، گنبد ہمارے خود (سر کی حفاظت کر نے والا لوہے کا ٹوپ) مینار یں ہماری سنگینیں اور مؤمن ہمارے سپاہی ہیں، اردوگان 1954ء میں بحر اسود کے ساحلی علاقے میں ایک گارڈ کے گھر پیدا ہوئے، بعد میں اپنے والد کے ساتھ نقل مکانی کرکے استنبول آئے، معاشی طور پر خود کفیل ہونے کے لیے ا نہوں نے روغنی روٹیاں فروخت کیں ، مدرسہ میں تعلیم حاصل کی ، فٹ بال کے پیشہ ور کھلاڑی رہے ، مرمر یونیورسٹی استنبول سے منیجمنٹ کی ڈگری حاصل کی ، زمانہ طالب علمی میں نجم الدین اربکان کے قریب آئے ، ان کے خیالات سے متاثر ہوئے، 1994ء میں استنبول کے میر(Mayor) بنے اور پورے شہر کو لا لہ زار بنا دیا ، پیڑ پودے اور ہر یالی سے یہ شہر سج سنور گیا ، لیکن 1999ء میں ان پر مذہبی بنیادوں پر اشتعال انگیزی کا الزام لگا کر قید میں ڈال دیا گیا ، جہاں انہیں چار ماہ گذارنے پڑے ، اس سزا کے بعد انہوں نے سیاست میں اپنی پکڑ مضبوط کی ، عوام ان کے لیے فرش راہ ہوئی اور بالآخر اے کے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے 2003ء میں وزیر اعظم اور پھر 2014ء میں صدر کے منصب پر فائز ہوئے ،فوج نے ایک بار بغاوت کی جسے عوام نے کچل کر رکھ دیا، یہ اردگان کی مقبولیت کی انتہاتھی، انہوں نے ناٹو کے رکن ہونے کے با وجود اسلامی اصلاحات کی اپنی کوششیں جاری رکھیں ، اس کوشش کے نتیجے میں ملک میں جو ماحول بنا، اس کی وجہ سے معاشی ترقی ہوئی ، روزگار کے نئے مواقع فراہم ہوئے، ملک سے قرض کا بوجھ کم ہوا، 24 نئے ایر پورٹ بنائے گیے اب ان کی تعداد پچاس ہو گئی ہے ، ہزاروں کلو میٹر نئی سڑکیں اور ہائی اسپیڈ ریلوے لائن بچھائی گئی ، صحت کے محکمہ پر توجہ دی گئی اور غریب عوام کے لیے مفت طبی مراکز بنائے گیے ، بجٹ کا بڑا حصہ تعلیم کے لیے مختص کیاگیا ، یونیورسیٹیوں کی تعداد بڑھائی گئی ،ترک کرنسی لیراکی قدر وقیمت میں غیر معمولی اضافہ ہوا، یہ وہ وجوہات ہیں ، جس نے صدر رجب طیب اردوگان کو ملک میں مقبول بنا رکھا ہے ، اس مقبولیت کا نتیجہ ہے کہ وہ تیسری بار صدارت کے با وقار منصب پر فائز ہوئے ہیں، ان کی مقبولیت کو لوگ ان کی دہشت سے تعبیر کرتے ہیں ، غیر ملکی میڈیا انہیں تانا شاہ اور ڈکٹیٹر باور کرانا چاہتا ہے، جو ان کے دل کے پھپھولے ہیں، تانا شاہ اور ڈکٹیٹر اتنا مقبول ومحبوب نہیں ہوتا کہ مغربی قوتوں کی سخت ترین مخالفت کے باوجود تیسری بار فتح حاصل کرلے۔

نایاب ہورہی فصلیں ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نایاب ہورہی فصلیں ___
Urudduinyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
پوری دنیا میں عموماً اور ہندوستان میں خصوصاً بہت ساری فصلیں اور اناج ہمارے کھیتوں سے رخصت ہوچکے یا ہوتے جارہے ہیں ، عجیب وغریب با ت یہ ہے کہ جانوروں کی بعض نسلوں کے ختم ہونے کی فکر سرکار کو زیادہ ہے اور جن جانوروں کی نسلیں ہندوستان سے نایاب ہورہی ہیں انہیں موٹی قیمت اور بڑے خرچ پر ہندوستان لاکر چڑیا خانے میں رکھا جارہا ہے اور مرکزی حکومت اس کا فخریہ ذکربھی کرتی ہے، مثال کے طور پر چیتا کا ذکر کیا جا سکتا ہے ، جس کے باہر ملک سے لانے پر سوشل اور الکٹرونک میڈیا نے زمین وآسمان کے قلابے ملا دیے اور خوب واہ واہی ہوئی۔
جانوروں کی نسلوں کی جس قدر حفاظت کی فکر حکومت کو ہے ویسی فکر نایاب ہورہی فصلوں، غلوں اور اناج کے سلسلے میں نہیں کی جا رہی ہے۔ اناج کی بہت ساری قسمیں جو غذائیت سے بھرپور تھیں اور صحت کے لئے انتہائی مفیدتھیں ہماری نئی نسلوں نے ان کا نام تک نہیں سنا ہے، جیسے جوار ، باجرہ ، ساما ، کونی، کودو، مڑوا، رام دانا ، کنگنی، الوا(شکرقند) سُتھنی، کٹکی وغیرہ۔ آج کسان اس کو اگانے سے اس لئے بیزار ہے کہ ہماری تھالی سے یہ اناج غائب ہوگئے ہیں۔اناج کا استعمال نہ ہوتو اس کے دام بازار میں نہیں ملتے، کھانے میں ان کی افادیت اور غذائیت جتنی ہو، یہ موٹے اناج کہے جاتے ہیںاور دسترخوان پر مہمانوں کے سامنے اسے پیش نہیںکیا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود ہندوستان جیسے ملک میں جہاں کی آبادی اب چین سے زیادہ ہو گئی ہے ان فصلوں کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔
یہ حالات ایسے ہی نہیں پیدا ہوئے ،۱۹۶۰ کی دہائی میں سبز انقلاب کے نام پر ہندوستان کے روایتی کھانے کو غائب کر کے گیہوں چاول اور مکئی کی کھیتی کو بڑھاوا دیاگیا اور دوسری فصلوں کے مقابلے اس کی قیمت مارکیٹ میں زیادہ مقرر ہوئی، کسان پورے طور پر اس طرف راغب ہوگئے اور دھیرے دھیرے موٹے اناج کا اگانا بند کر دیا۔
ابھی بھی سرکار کی توجہ ان فصلوں کے واپس لانے کی طرف نہیں ہے، زرعی سائنسدانوں کے متوجہ کرنے سے تھوڑا سااحساس جاگا ہے، یہ احساس اندرون ملک کے لیے نہیں ، عالمی برادری کے لیے ہے ، اسی لیے موٹے اناج کے استعمال اور اس کی پیدارار کو بڑھانے کے لیے ہندوستانی حکومت نے اقوام متحدہ کو ایک تجویز بھیجی تھی ، اقوام متحدہ نے اس تجویز کو منظور کرکے ۲۰۲۳ء کو ’’عالمی موٹا اناج سال‘‘ قرار دیا ہے۔ وزیر خزانہ نرملاسیتارمن نے اپنے بجٹ میں جو فروری میں پیش کیا گیا تھا اور جس میں وزیر خزانہ نے موٹے اناج کی اہمیت اور ہندوستان کے روایتی کھانے کو پوری دنیا میں متعارف کرانے کے لیے ’’شری انن یوجنا ‘‘ شروع کرنے کا وعدہ کیا تھا یہ وعدہ اب تک وعدہ کی منزل سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔
موٹے اناج کی فصل اگانے میں محنت بھی کم پڑتی ہے، پانی کا استعمال بھی گیہوں وغیرہ کی طرح نہیں ہوتا ، اور اس میں کیمیاوی کھاداور جراثیم کش دواؤں کے استعمال کی بھی حاجت نہیں ہوتی، فصل کاٹ کر اس کا باقی حصہ جانور کے چارے کے طور پر استعمال کر لیا جاتا ہے ، ان کوجلانے کی ضرورت نہیں ہوتی ، جس کی وجہ سے فضائی آلودگی نہیں پیدا ہوتی اور اس کا خطرہ بھی باقی نہیں رہتا۔ کورونا کے بعد یہ اناج جسم کی دفاعی قوت کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کئے جاتے رہے اور اس طرح ان فصلوں کی اہمیت کسی درجہ میں سامنے آئی ۔
ملک کی زرعی یونیورسیٹیوں میں موٹے اناج پر تحقیق کا کام چل رہا ہے، جن ریاستوں نے اس کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے وہاں ان کی کھیتی بڑے پیمانے پر ہونے لگی ہے، کرناٹک ، راجستھان ، گجرات ، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹرا میں ان فصلوں پر توجہ دی جارہی ہے لیکن شمالی ہندوستان بشمول بہارمیں ابھی کام شروع نہیںہوا ہے، حالانکہ موٹے اناج میں کلشیم، آئرن ، جنک ، فاسفورس، مینگنی شیم ، پوٹاشیم، فائبر، وٹامن ، کیروٹن، لیسی تھین وغیرہ کی موجودگی کی وجہ سے امراض قلب شوگر، تنفس وغیرہ میں راحت ہوتی ہے، تھائرائٹ ، یورک ایسیڈ ،کڈنی، لیورکے امراض بھی ان موٹے اناج کے استعمال سے قابو میں رہتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں عوامی سطح پر بیداری لائی جائے اور اس بیداری کو عملی رنگ وروپ دینے کے لئے سرکار اور حکومت کا تعاون ملے،بازار میں ان فصلوں کی مناسب قیمت سرکار مقرر کرے، ورنہ جس طرح جانوروں کی بعض نسلیں ختم ہوگئیں ان فصلوں کا بھی نام ونشان مٹ جائے گا اور آنے والی نسل جانے گی ہی نہیں کہ کبھی یہ اناج ہماری تھالی کی رونق ہوا کرتے تھے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...