Powered By Blogger

اتوار, فروری 26, 2023

ایک قبر جو قیادت کررہی ہے!* ✍️ ہمایوں اقبال ندوی ارریہ ، بہار

*ایک قبر جو قیادت کررہی ہے!* 
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️ ہمایوں اقبال ندوی
 ارریہ ، بہار 

ضلع ارریہ کی معروف ومشہور علمی وسماجی شخصیت جناب پروفیسر الحاج عرفان احمد صاحب آج سپرد خاک ہوگئے ہیں، باری تعالی جنت الفردوس نصیب کرے، قبر میں جنت کی کھڑکیاں کھول دے،اس خاک کے گڈھے کو بقعہ نور میں تبدیل کر دے، آمین یارب العالمین 

شکریہ اے قبر تک  پہچانے والو  شکریہ 
اب اکیلے ہی چلےجائیں گےاس منزل سے ہم

مرحوم پان اور کام کے بیک وقت رسیا تھے،پانچ سال پہلے کی بات ہے،مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ ارریہ کے سامنے کمال صاحب کی پان دکان ہے،پروفیسر صاحب یہاں پان کھانے تشریف لائے، جناب قاری تبریز صاحب بھی موجود تھے، ایک دانشور نےیہ شکوہ کیا کہ اس وقت حضرت قائد کی بڑی کمی ہے،مرحوم نےبرجستہ یہ تاریخی جواب ارشاد فرمایا؛قائد کی کمی نہیں ہے بلکہ قیادت کی آج بڑی کمی ہے،قائد کی کمی کا رونا لوگ روتے ہیں، مگر اپنے حصہ کی قیادت نہیں کرتے ہیں،ہم اسلام کے نام لیوا ہیں، مذہب اسلام میں ہر کلمہ گو قائد ہے ،مرحوم کی زبان سے نکلا یہ تاریخی جملہ دراصل انکی پوری زندگی کا خلاصہ ہے،اپنی زندگی میں اس کو سچ کردکھایا ہے،مرحوم مدرسہ اسکول، کالج ،امارت، جمعیت اور جماعت ہر جگہ پیش پیش رہے ہیں،اس راہ میں اپنی جانی ومالی قربانی بھی پیش کرتے رہےہیں،گویا اپنی عملی زندگی سے مرحوم نے قیادت کی تشریح کردی ہے،ساتھ ہی قیادت کی ابتدا کہاں سے کی جانی چاہئے ہے؟اس سوال کواپنے عمل سے حل فرمادیا ہے،پہلے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت سے اس کی ابتدا کی ہے۔

علاقہ کے مشہور عالم دین جناب حضرت مولانا نبی حسن صاحب مظاہری نے جنازہ کی نماز سے پہلے یہ اعلان کیا ہے کہ؛ ڈھونڈنے سے بھی مرحوم جیسا بیدار مغز انسان ہمیں نہیں مل رہا ہے،انہوں نے اپنے گھر سے قیادت شروع کی ہے ،اپنے بچوں کی دینی وعلمی تربیت پہلے کی ہے،قیادت کرنے کا طریقہ ہمیں مرحوم تعلیم کر گئے ہیں، پھرقوم وملت کے لئے فکر مند اور کوشاں ہوئے ہیں، تمام تنظیموں اور تحریکوں کے لئے خود کو وقف کردیتے ہیں، آج ہزاروں کی تعداد ان کے جنازے کی نماز میں شریک ہے، پورا علاقہ سوگوار ہے،یہ سب سے بڑی دلیل ہے۔

آخری سانس لینے سے پہلے اپنےنور نظر جناب مفتی غفران حیدر مظاہری سے یہ کہا کہ؛ بیٹے مجھے اطمنان ہے کہ تم لوگ میرے نقش قدم پر چلوگے، میرے کام کو لیکر آگے بڑھوگے، مرحوم کے تمام بیٹوں نے اس کا عزم بھی لیا ہے، باری تعالٰی استقامت نصیب کرے، آمین 

یہ بات کہاں کسی کو نصیب ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی ان کی قبر قائدانہ کردار ادا کرے، مرحوم جاتے جاتے بھی قیادت کرگئے ہیں،اپنی ایک بیگھہ نفیس زمین کو عام قبرستان بنا گئے ہیں، پہلی قبر جو اس قبرستان کی قیادت کرنے جارہی ہے وہ مرحوم الحاج عرفان صاحب ہی ہیں۔اکیلے دفن ہونے گئے ہیں، پہلو میں ایک نوزائیدہ بچی بھی آج مدفون ہوئی ہے، اس قبرستان کی آبادی کا بھی کام شروع ہوگیا ہے -

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

گویا یہاں بھی آپ کی قبر قیادت کررہی ہے اور قوم کو یہ پیغام اپنے عمل سےدیا ہے کہ ہم تنہا نہیں جارہے ہیں بلکہ تم سبھوں کو اس قبرستان میں آنا ہے،تمہارے لئے بھی ہم نے جگہ خاص کردی ہے، یہاں آنے کی تیاری شروع کر دو اور موت کا استحضار پیدا کرلو!

آج ڈومریا گاؤں کے کتنے لوگوں نے اپنی قبر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے، اور یہ استحضار کرلیاہےکہ ہمیں الحاج عرفان صاحب کی موقوفہ زمین میں دفن ہونا ہے،منزل ہماری یہی ہے، یہ خیال بھی دل میں ضرور پیداہوا ہوگا کہ مرحوم کے بازو میں جانے سے پہلے اپنی زندگی کو قیمتی بنانی پڑے گی، بچوں کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی، قوم وملت کے لئے مفید بننا ہوگا،علمی خدمات کے لئے خود کو تیار کرنا ہوگا، تبھی صاحب قبر کا حق ادا ہوسکتا ہے، اس کے جوار میں حقیقی جگہ مل سکتی ہے،یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، غور کرنے پر یہاں بھی مرحوم الحاج پروفیسر عرفان صاحب کی قیادت نظر آرہی ہے۔

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

امجد اسلام امجد ___✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

امجد اسلام امجد ___
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

مشہور شاعر‘ ڈرامہ اور کالم نگار امجد اسلم امجد کا گذشتہ دنوں 10/فروری 2023 ء بروز جمعہ لاہور میں انتقال ہوگیا‘انہیں سونے کی حالت میں دل کا دورہ پڑا اور صبح وہ اپنے بستر پر اس حالت میں پائے گئے کہ ان کی روح قفص عنصری سے پرواز کر چکی تھی‘ انہوں نے اپنے پیچھے ایک لڑکا علی ذیشان اور دو لڑکیوں کو چھوڑا۔وہ ستارہ امتیازسے1968 ء میں، حسن کارکردگی ایوارڈ سے 1987ء  اورنگار ایوارڈ سے دو بار نوازے جا چکے تھے‘ اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے ایوارڈ’اعزاز و انعامات ان کی جھولی میں آ گرے تھے۔ان میں 23 /دسمبر 2019 ء کو ترکی کا اعلی ثقافتی اعزاز نجیب فاضل انٹر نیشنل کلچر اینڈ آرٹ ایوارڈ بھی شامل ہے۔
امجد اسلام امجد کی پیدائش 4/ اگست 1944ء کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر لاہور  میں ہوئی‘1967ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو میں کیا‘ 1968ء سے ۱1975ء تک ایم اے  او کالج لاہور کے شعبہ اردو میں تدریسی خدمات انجام دیں‘ 1975ئمیں وہ پنجاب آرٹ کونسل کے ڈپٹی ڈائرکٹر بنائے گئے‘ لیکن 1990ء میں پھر سے ایم اے او کالج واپسی ہوئی اورشعبہ تدریس سے منسلک ہو گئے۔وہ پاکستان ٹیلی ویزن سے منسلک ہوتے ہوئے چلڈرن کمپلکس کے پروجیکٹ ڈائرکٹربھی تھے‘ ان تمام مشغولیات کے باوجود انہوں نے پچا س سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔
امجد اسلام امجد نے ادبی دنیا میں شاعر‘ ڈرامہ نگار اور نقاد کی حیثیت سے خوب نام کمایا ’وارث ’دن اور فشار ان کے مشہور ڈرامے ہیں‘ ان کا شعری مجموعہ برزخ‘ ذرا پھر سے کہنا‘ساحلوں کی ہوا‘ زندگی کے میلے میں اور جدیدعربی نظموں کے تراجم عکس اور افریقی شعرا ء کی نظموں کا ترجمہ کالے لوگوں کی روشن نظمیں کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہوئے۔ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ تاثرات کے نام سے منظر عام پر آیا۔امجد اسلام امجد نے ڈرامہ نگاری میں  اپنی مہارت کے جو نقوش چھوڑے ہیں وہ برسوں دیکھنے والے کے ذہن سے محو نہیں ہوں گے۔
امجد نے جمالیاتی شاعری  کے حوالہ سے اپنی شناخت بنائی اور یہی ان کی شاعری کے میدان میں شہرت کا سبب بنی‘ان کی نظموں میں جو صوتی ہم  آہنگ‘ تازہ کاری‘ توانائی اور فکری تنوع ہے‘ اس کی مثال نایاب تو نہیں کم یاب  ضرورہے۔ان کی شاعری کے قدرداں عوام اور خواص دونوں تھے‘ کیوں کہ وہ روز مرہ پیش آنے والے واقعات سے شاعری کا مواد حاصل کرتے تھے  اور اسے فلسفہ بنائے بغیر پیش کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ان کی شاعری نے ایک نسل کی فکری آبیاری کی۔
پاکستانی ٹیلی ویزن کے لیے ش انہوں نے  کئی کامیاب سیریز لکھے‘ جن میں دہلیز‘ سمندر‘ رات‘ وقت‘ اور اپنے لوگ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔امجد اسلام امجد در اصل اس وقت پاکستانی ادب کا چہرہ تھے‘ ایک ایسا چہرہ جس کو پاکستان سے باہر مختلف اصناف ادب میں خدمت کی وجہ سے وقار و اعتماد حاصل تھا‘ وہ معروف بھی تھیاور مقبول بھی‘ انہوں نے ادب کی دنیا میں بہت لوگوں کو آگے بڑھایا‘ وہ باصلاحیت لوگوں کی قدر  کرتے اور ان کے بس میں جس قدر ہوتا آگے بڑھانے کی کوشش ہی نہیں جتن بھی کیا کرتے تھے۔آج کے اس دور میں جب بیش تر بڑے برگد کا پیڑ بنے بیٹھے ہیں‘ ان کے زیر سایہ کوئی تناور درخت نہیں اگ نہیں سکتا‘ وہ اپنی ہی سونڈزمین میں گاڑنے پر یقین رکھتا ہے ایسے میں امجد اسلام امجد کا یہ طریقہ کار قابل ستائش بھی تھااور لائق تقلید بھی۔
امجد اسلام امجد مجلسی آدمی تھے‘ ان کی گفتگو برجستہ اور بذلہ سنج ہوا کرتی تھی‘ انہیں مجلس کو قہقہہ زار بنانا بھی خوب آتا تھا‘ انہیں اپنے فن اور مقبولیت پر غرور بھی نہیں تھا‘ وہ ہر اہل قلم کی قدر کرتے تھے اور اپنے سے چھوٹوں کی عزت کرتے تھے’یہ عزت اور پذیرائی کا سلسلہ خورد نواز ی کے آخری مرحلہ تک جا پہونچتا تھا۔
ہندوستان،پاکستان کے درمیان سرحدی خلیج کی وجہ سے میرا ان سے ملنا کبھی نہیں ہوا،ہندوستان مختلف موقعوں سے ان کا آنا ہوا؛لیکن ان مواقع کا استعمال ملاقات کے لئے میں نہیں کر سکا،البتہ ان کی تخلیقات کو مختلف رسائل و جرائد میں پڑھتا رہا،اس سے ان سے ایک ذہنی قربت سی ہو گئی تھی‘ ان کے بعض اشعار نے اس قدر متاثر کیا کہ وہ آج بھی ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ ہیں، ان کے انتقال کی خبر سن کر وہ سب نہاں خانوں سے باہر آنے کے لئے بے چین ہیں،کچھ آپ بھی پڑھ لیجئے؛کیونکہ شاعر پر کوئی تحریر نمونہ کلام کے بغیر ادھوری رہ جاتی ہے،امجد اسلام امجد کے یہ اشعار ان کی ذہنی رو اور عصری حسیت کے عکاس ہیں۔
میرے کاسہ شب و روز میں کوئی شب ایسی بھی ڈال دے
سبھی خواہشوں کو ہراکرے سبھی خوف دل سے نکال دے
امجد کی ذہنیت کو سمجھنے کے لئے اس شعر کو بھی پڑھئے۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرز منافقت
دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں
دھوپ آنکھوں تک آجائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں
واقعہ یہ ہے کہ امجد اسلام امجد کا اس دنیا کو چھوڑ جانا شعرو ادب‘ ڈرامے اور کالم نگاری کا بڑا نقصان ہے‘ اللہ جب کسی کو اٹھاتا ہے تو اس کی تلافی کی شکلیں پیدا کرتا ہے۔ علم و ادب تنقید کے میدان میں آج کل جو ادباء اور اہل قلم سرگرم ہیں وہ اس کی تلافی بھی کریں گے۔ اللہ رب العزت امجد اسلام امجد کی مغفرت فرمائے اور ان کے گناہوں کو معاف فرمائے‘ اب یہی دعا ان کے لئے مفید اور کارگر ہے۔ ہم نے دعا کردیا آپ بھی کردیجئے۔

حقانی القاسمی کی آمد پر پٹنہ میں ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ کی جانب سے استقبال

حقانی القاسمی کی آمد پر پٹنہ میں ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ کی جانب سے استقبال 
Urduduniyanews72

پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 26/فروری 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم)
حقانی القاسمی صاحب کا پٹنہ آنا ہم سب کے لئے عید کی طرح رہا۔ اُن کی آمد سے سارے شہر میں خوشیوں کی لہر دوڑ گئی۔ محترم حقانی القاسمی اردو زبان وادب کے درخشندہ ستارہ کے مانند ہیں، آپ مشہور ومعروف وبیباک ادیب ناقد کے ساتھ ساتھ ایک نیک دل، ملنسار، بلند سوچ، مخلص، مربی، ہمدرد،وفا شعار، وفا شناس ہیں ۔آپ نے اپنے مخلصانہ عمل وخدمات اور علوم وفنون سے جو مقام ومرتبہ پیدا کیا ہے وہ خود میں ایک مثال ہے، آپ کی ظاہری شکل شباہت بھی سراپا محبت والفت کا سرچشمہ ہے، آپ کے سینے میں قوم وملت کے لئے دھڑکنے اور تڑپنے والا دل ہے، اور یہ بات آپ کے عمل وکردار سے ظاہر باہر ہے، آپ کئی اہم کتابوں کے مصنف و مؤلف ٹھہرے،آپ کی تحریر تقریر اساتذہ طلبہ کے لئے لائحۂ عمل ہے،آپ کئ تنظیموں سے وابستہ ہیں، آپ سے ہر خاص وعام مشورہ طلب کر کے مثبت نتائج پاتے ہیں۔واضح رہے کہ حقانی القاسمی صاحب کی آمد پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ان کے استقبال میں فاؤنڈیشن کے ترجمان محمد ضیاء العظیم قاسمی نے ان سے خاص ملاقات کرکے دعائیں لیں، انہیں اعزاز کے طور پر سند سے نوازا گیا، ساتھ ساتھ کئ اہم ادبی شخصیات ملاقات کی ، اس موقع پر ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن نے محمد ضیاء العظیم قاسمی سے بات چیت کے درمیان حقانی القاسمی کی شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ حقانی القاسمی جیسی شخصیت کی توجہ ہماری جانب مرکوز ہے، یقیناً ان کی شخصیت اس وقت اردو زبان وادب کے لئے غنیمت ہے، صدیوں میں ایسی شخصیت جنم لیتی ہے، حقانی القاسمی بے لوث بے غرض محبت کرنے والے ہیں، ہماری بدقسمتی رہی کہ ہمارے لئے موقع نہ مل سکا کہ پٹنہ کا سفر کرکے سر سے ملاقات کرتی، میں دل کی گہرائیوں سے محمد ضیاء العظیم قاسمی کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے میری نمائندگی کی، حقانی القاسمی صاحب ضیائے حق فاؤنڈیشن کے اہم رکن ہیں، اور فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں میں انہوں نے بہت مدد کی ہے، وہ ہمیشہ نیک مشورے سے ہمیں نوازتے رہتے ہیں، اس فاؤنڈیشن کو بام عروج پر پہنچانے میں حقانی القاسمی صاحب کا نام سر فہرست ہے،محمد ضیاء العظیم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حقانی القاسمی صاحب کی شخصیت ایک روحانی شخصیت ہے، تحریر وتقرر پڑھنے سننے کا موقع تو کئ دفعہ ملا مگر زندگی کی پہلی ملاقات تھی اور ایسا محسوس ہوا کہ برسوں کی شناسائی ہے،
چند منٹ کی ملاقات نے مجھ پر جو اثر ہوا گویا میری طبیعت معطر ہو گئ، طبیعت نہیں چاہی کہ چھوڑ کر واپس جاؤں لیکن تھکاوٹ آپ کے چہرے سے نمایاں تھیں اسی وجہ سے چند منٹ ملاقات کے بعد واپس ہونا پڑا، یقیناً آپ کی شخصیت خود میں ایک دنیا ہے ،آپ سے مل کر طمانیت قلب حاصل ہوا ۔
اللہ رب العزت نے انسانوں کو بڑی خوبیوں سے نوازتے ہوئے اسے اس روئے زمین پر اپنا نائب بناکر بھیجا ہے، اور زمین آسمان کا اسے وارث بنایا ہے، انسانوں کی تمام ضروریات کی تکمیل فرماتے ہوئے اسے کئ اہم وصف عطا کئے ہیں، جن سے دیگر مخلوق محروم ہیں،انسان اپنی محنت رب العزت کے فضل اور جہد مسلسل سے اپنا مرتبہ اپنی اہمیت اور اپنی شناخت قائم کرتا ہے، پھر زمانہ اسے مبلغ، محدث، مؤرخ، محقق، مقرر، مصلح، مربی و محسن کے خطابات عطا کرتا ہے۔ ایسے شخص کی زندگی خالص علم و عمل، سراپا مجاہدہ اور عالم انسانیت کے لیے سرچشمہ ہوتی ہے۔ وہ زندہ رہتا ہے تو محترم و مکرم ہو کر زندگی کے لمحات گزارتا ہےاور اس عالمِ فنا سے منہ موڑتا ہے تو اپنے پیچھے نہ بھلائے جانے والے کارناموں کی ایک تاریخ رقم کر جاتا ہے۔ ایک پورا زمانہ، ایک پورا عہد اس کی شخصیت سے منسوب ہو جاتا ہے۔ مستقبل کے محرر و مؤرخ اسے اوراقِ تاریخ میں یاد گار زمانہ قرار دیتے ہیں، اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خلق خدا جس سے محبت کرتی ہے یقینا خالق بھی اس سے محبت کرتا ہے، ایسی شخصیت سراپا رحمت برکت اور محبت کی علامات ہوتے ہیں ۔واضح رہے کہ 
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...