Powered By Blogger

جمعہ, اپریل 15, 2022

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور "آوازہء لفظ و بیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور "آوازہء لفظ و بیاں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبصر : فخرالدین عارفی 
رابطہ : 9234422559 
۔.......................................
 محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی ایک کتاب " آوازہء لفظ و بیاں " آج ہی مجھے ملی ہے ۔ مفتی صاحب کی کوئی نصف درجن کتابیں مجھے گزشتہ چند ماہ میں ملی ہیں ۔ مفتی صاحب بہت مصروف انسان ہیں ، پھر بھی وہ ادب کے لیےء اتنا وقت کیسے نکال لیتے ہیں ؟اس بات پر مجھے بہت حیرت ہوتی ہے ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مصروف لوگ ہی دنیا کو مصروف رکھتے ہیں ۔ میرے خیال میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی انگلی ہمیشہ وقت کی نبض پر ہوتی ہے ۔ وہ وقت کی اہمیت اور اس کی قدرو قیمت خوب جانتے ہیں ۔ یہ بہت بڑی بات ہے ۔  اس بڑی بات سے مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب بھی اچھی طرح واقف ہیں ۔ 
مذکورہ بالا کتاب کی اہمیت اور افادیت میرے لیےء اس لیےء بھی بہت بڑھ جاتی ہے کہ اس کتاب کے آخری فلیپ پر مفتی صاحب نے اس خاکسار کی تحریر کو جگہ دی ہے اور "حرف چند " میں اس خاکسار کے لیےء بھی چند قیمتی جملے قلم بند کیےء ہیں ۔ اس عنایت خاص کے لیےء میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کا از حد ممنون و مشکور ہوں ۔ 
مذکورہ بالا کتاب دراصل مذہبی،ادبی،تعلیمی اور  تاریخی کتابوں ں پرمفتی صاحب کے قیمتی پیش لفظ،تقریظ،تاثرات تبصرے اور عملی تنقید پر مشتمل  نگارشات  کا  بیش قیمت تازہ ترین مجموعہ ہے ، جس کی اشاعت کے لیےء مالی تعاون "اردو ڈائریکٹوریٹ حکومت بہار نے پیش کیا ہے ۔ جس کے لیےء اردو ڈائرکٹوریٹ کے ساتھ ساتھ جناب احمد محمود بھی مبارک باد کے مستحق ہیں جو فی الوقت اردو ڈائریکٹوریٹ کے فعال اور متحرک سربراہ ہیں ۔ کتاب میں 304 صفحات ہیں اور قیمت صرف 300 روپےء ہے ۔ سال اشاعت 2022 ہے اور یہ کتاب " دی پرنٹو اسٹیشنری دریا پور ، سبزی باغ پٹنہ سے شائع ہوئ ہے ۔ اب پٹنہ میں بھی اچھی ، عمدہ اور خوب صورت کتابوں کی اشاعت ممکن ہے یہ کتاب اس بات کی تصدیق و توثیق کرتی ہے ۔ اس کتاب کو مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے مختلف ابواب میں تقسیم کردیا ہے ۔ پہلا باب مذہبی نوعیت کی کتابوں پر تبصرے  کے لیےء وقف کیا گیا ہے ۔  اس باب میں 55 کتابوں پر مفتی صاحب کی تحریریں  جمع کی گئ  ہیں ۔ ساری کتابیں  اہم اور ہماری روز مرّہ کی زندگی سے متعلق  ہیں ۔ یہ کتابیں  سب کی سب مذہبی موضوعات پر تحریر کی گئ ہیں ۔ چند اہم کتا بچوں کے نام درج ذیل ہیں  
مساجد کی شرعی حیثیت اور ائمہ کرام کی ذمہ داریاں ، مسائل صوم و رمضان ، درس حدیث ، خطبات جمہ، شراب ایک تجزیاتی مطالہ ، قرآن کریم کا تاریخی معجزہ ، ازدواجی زندگی اور حجاب کے فوائد اور بے حجابی کے نقصانات وغیرہ ۔۔۔۔

باب دوم ادبی کتا بوں پر تبصرے  کے لیےء قائم کیا گیا ہے ۔ اس باب میں ادب کی مختلف اصناف پر تصنیف کی گئ کتا بوں کے تعلق سے تاثراتی مضامین قلم بند کیےء گےء ہیں ۔ بعض اہم ادبی شخصیتوں کی ادبی خدمات پر بھی بھر پور روشنی ڈالی گئ ہے ۔ جن میں انوار قمر کا نام خاص اہمیت کا حامل ہے ۔  ان تبصروں میں ملک کی مختلف اہم ریاستوں کی ادبی سرگرمیوں اور سمت و رفتار پر بھی اطمینان بخش گفتگو کی گئ  ہے ۔
باب سوم کا تعلق تاریخی کتابوں سے ہے  جبکہ باب چہارم  تعلیم اور تعلیمی سرگرمیوں سے متعلق کتا بوں کے تبصروں پر مشتمل ہے   ۔ 
کتاب میں میرے چھوٹے بھائی پروفیسر صفدر امام قادری کا ایک دیباچہ " مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی : مبصر کی حیثیت سے " کے عنوان سے شریک اشاعت ہے ۔ یہ مضمون 7 صفحات پر مشتمل ہے اور برادرم صفدر امام قادری نے بعض اہم نکات کا اچھا تجزیہ کیا ہے ۔ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی تحریریں اس لیےء بھی بہت اہم ہوجاتی ہیں کہ موصوف کم از کم تین زبانوں عربی ، فارسی اور اردو پر قدرت رکھتے ہیں ۔ اس کتاب کے نام میں بھی مفتی صاحب نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ عرب کی خوشبو کے ساتھ ساتھ عجم کا رنگ و آہنگ بھی اہل ہند تک پہونچے اور "ریختہ " کی روحانیت میں بھی اضافہ ہو ۔ اس خوب صورت احساسات و جذبات کی خوب صورت آمیزش کا نادر نمونہ پیش کرنے پر میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کو اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں ۔ 
مبصر : فخرالدین عارفی 
محمد پور ، شاہ گنج ، پوسٹ آفس مہندرو ۔ پٹنہ 800006 ( بہار )

روزگار کے مواقع کی تلاش مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ

روزگار کے مواقع کی تلاش 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ 
 انتخاب کے موقع سے رائے دہندگان کو سبز باغ دکھانے کی جو روایت رہی ہے ، وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے ، ہر پارٹی اپنے منشور اور مینی فیسٹو میں بڑے بڑے اعلان کرتی ہے، جن کے پورے کرنے کی نوبت عام طور سے نہیں آتی ہے، سیاسی لیڈران خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ تو وعدہ ہے اور وعدوں کا کیا کرنا ۔
 ان وعدوں میں ایک بڑا وعدہ بے روزگاری دور کر نے اور نئی بحالیوں کے مواقع اور امکانات تلاش کرنے کا ہے، لیکن سب جگہ یا تو لوگ پہلے سے ہی ضرورت سے زائد ہیں یا پھر مشینوں کے استعمال کی وجہ سے افرادی قوت کی ضرورت کم ہو گئی ہے، بڑے بڑے اسٹیل پلانٹ، صنعتی کار خانے اور کمپنیوں میں پہلے کی بہ نسبت چوتھا ئی لوگوں سے کام چلا یا جا رہا ہے، جو سبکدوش (ریٹائر) ہو گیا اس کی جگہ نئی بحالیاں نہیں ہو رہی ہیں، کورونا نے چھوٹی صنعت اور غیر منظم سکٹر کے کام کو بری طرح متاثر کیا ہے اور کام بند ہوجانے کی وجہ سے بہت سارے لوگ بے روزگار ہو گیے ہیں۔
 ایسے میں بیس ، پچیس لاکھ روزگار کے نئے مواقع کس طرح پیدا ہو سکتے ہیں، نئی آسامیاں کس طرح نکالی جا سکتی ہیں، یہ ایک سوال ہے جو حکمراں طبقہ کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اپنے بجٹ بھاشن میں اس موضوع پرکہا کہ پائپ لائن کا جو کام حکومت کے زیر غور ہے اس میں اگلے پانچ سالوں میں ساٹھ(۶۰) لاکھ ملازمت کے مواقع ہیں، یعنی سالانہ بارہ (۱۲)لاکھ نوکریاں ۔ کیا یہ بے روزگار نو جوانوں کے لیے کافی ہے؟ یقینا یہ کافی نہیں ہے ، اس کے علاوہ ہر سال ایک کروڑ اسی لاکھ لڑکے اٹھارہ سال کے ہوجاتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کو بھی کام چاہیے، زراعتی میدان میں جو لوگ کام سے لگے ہوئے ہیں،ا نہیں بھی کم تنخواہ اور مختلف زمینی وآسمانی آفتوں کی وجہ سے اس حلقہ کو خیر آباد کہنا پڑ رہا ہے، ایک اندازہ کے مطابق زراعت کے میدان سے ہٹ کر دس کروڑ لوگ دوسرے کاموں میں مشغول ہو کر اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں، ایسے افراد بھی بے روزگار کے زمرے میں داخل ہوجاتے ہیں، اس طرح دیکھیں توکم وبیش ہر سال بیس(۲۰) کروڑ لوگ بے روزگار ہوتے ہیں اور انہیں روزگار فراہم کرنا آسان نہیں ہے ، وزیر اعظم نریندر مودی کی تجویز کے مطابق پکوڑے اور پان بیچنے والوں کو بھی بر سر روزگار مان لیا جائے تو بھی یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا ۔
 اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ نئے پروجکیٹ شروع کیے جائیں، ایک کروڑ کی آبادی والے ہر علاقہ میں نئے شہر آباد کرنے کا منصوبہ بنایا جائے تو ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے بہت سارے لوگوں کی ضرورت پڑے گی، یہ ضرورت ملازمت میں تبدیل ہو سکتی ہے، چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کے فروغ کے ذریعہ بھی بڑی حد تک بے روزگاری دور کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے لیے سرکاری سطح پر مالیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا، جو کار خانے پہلے سے کام کر رہے ہیں ان کی پیدا واری صلاحیت بڑھا نے کے منصوبوں میں بھی بہت سے لوگ کھپ سکتے ہیں، پیداوار زیادہ ہوگی تو اس کی مار کیٹنگ کے لیے بھی اچھے خاصے افراد کی ضرورت ہوگی ،اسی طرح نئے کار خانے لگا کر ملکی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے ، اور جی ڈی پی (GDP)کی شرح دس فی صد تک بڑھائی جا سکتی ہے، لیکن اس میں بڑی رکاوٹ محنت سے متعلق ہندوستانی قانون ہے، جس میں مذکور شرائط مزدوروں اور بے روزگاروں کے حق میں کم اور مالکان کے حق میں زیادہ ہیں، جس کی وجہ سے کام کرنے الوں کا استحصال ہوا کرتا ہے، جن شرائط اور مطلوبہ صلاحیت کا ذکر ان قوانین میں موجود ہیں، اس کے پیش نظرایک غیر ملکی مزدور تنظیم نے یہ پیش گوئی کی ہے کہ آنے والے سالوں میں صلاحیتوں کی کمی کی وجہ سے ۲۰۳۰ء تک ہمارے پاس دو کروڑ نوے لاکھ نوکریاں متعینہ صلاحیتوں کے نہ ملنے کی وجہ سے کم ہوجائیں گی اور کام رہتے ہوئے بے روزگاری کا تناسب بڑھے گا، اگر یہ پیشین گوئی صحیح ہے تو ہمیں صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے بڑے پیمانے پر تربیتی نظام کی ضرورت ہوگی ، یہ تربیتی نظام سرکار ہی چلا سکتی ہے اس لیے کہ اس میں بھی کثیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے ۔
 ان حالات میں حکومت کو خواہ وہ ریاستی ہو یا ملکی، بہت سوچ سمجھ کر طویل منصوبہ بندی کرنی چاہیے؛ تاکہ ان نا گفتہ بہہ حالات پر قابو پایا جا سکے، نو جوانوں کو روزگار نہیں ملے گا،تو وہ تیزی سے مجرمانہ کاموں کی طرف بڑھیں گے اس طرح ملک کا مستقبل تباہ ہوگا،جو انتہائی غلط ہوگا، خود ان کی ذات کے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...