Powered By Blogger

جمعہ, دسمبر 09, 2022

پیام انسانیت کے کاموں کو ابنائے ندوہ اپنی سرگرمیوں کا حصہ بنائیں۔

پیام انسانیت کے کاموں کو ابنائے ندوہ اپنی سرگرمیوں کا حصہ بنائیں۔
اردو دنیا نیوز ٧٢
11/دسمبر کو مدرسہ شمس الہدیٰ کے احاطہ میں پیام انسانیت فورم کے تحت لگنے والے بلڈ ڈونیشن کیمپ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور اسے کامیاب بنانے کیلئے تنظیم ابنائے ندوہ سرگرم۔

پٹنہ:(پریس ریلیز )مدرسہ محمدیہ نیو عظیم آباد کالونی کے مہتمم اور جامع مسجد پیر بہور کے امام و خطیب مولانا ثناءاللہ ندوی ازہری کی قیام گاہ پر تنظیم ابناء ندوہ بہار کی ایک خصوصی نشست منعقد ہوئی۔ جسمیں شرکاء نے اس بات کا اظہار کیا کہ تنظیم ابنائے ندوہ بہار تحریک ندوہ کے ضمن میں قائم ہونے والے ملی سماجی و علمی اداروں کے فروغ کو اپنے مشن کا حصہ سمجھتی ہے۔ چنانچہ  تحریک پیام انسانیت کے تحت مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے احاطہ میں مورخہ 11/دسمبر کو منعقد ہونے والے بلڈ ڈونیشن و فری میڈیکل کیمپ کو کامیاب بنانے کے سلسلہ میں تنظیم ابنائے ندوہ سرگرمی کے ساتھ مہم چلارہی ہے۔ تنظیم کے ذمہ داران نے ملت کے نوجوانوں سے بالعموم اور ابنائے ندوہ سے بالخصوص اپیل کی ہے اس کیمپ میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں پہونچ کر غریب مریضوں کی امداد میں اپنے خون کا عطیہ دیکر انکی جان بچانے میں معاون بنیں۔ اور بے سہاروں کا سہارا بن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام انسانیت کو فروغ دینے اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی بقاء و تحفظ میں اپنا کردار اداکرکے مثال پیش کریں۔
اس موقعہ پر لکھنؤ سے تشریف لائے تنظیم کے جوائنٹ کنوینر مولانا نجیب الرحمن ململی ندوی نے کہا کہ اس کیمپ کو زیادہ سے زیادہ مفید اور کامیاب بنانے کیلئے پٹنہ و قرب و جوار میں موجود تنظیم کے کارکنان دو دو چار چار نوجوانوں کو خون کے عطیہ کیلئے تیار کرکے اپنے ساتھ لیکر کیمپ میں پہونچیں۔ تاکہ بلا تفریق مذہب و ملت انسانیت کی خدمت اور غریب مریضوں کی جان بچانے کا ذریعہ بن کر سکون حاصل کرسکیں۔
مولانا غلام سرور ندوی نے کہا کہ گذشتہ ماہ پیام انسانیت کے اجلاس کے موقعہ پر تنظیم ابنائے ندوہ  کے کارکنان کے ساتھ میٹنگ میں تحریک پیام انسانیت کے روح رواں حضرت مولانا بلال حسنی ندوی صاحب نے پیام انسانیت کے پیغام اور مشن کو تحریک ندوہ کی فکر کا حصہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کام ملت کے ہر فرد کو اپنا کام سمجھ کر کرنا چاہئے۔ آجکے ملکی حالات میں نفرت کی فضاء کو ختم کرنے کیلیے یہ ایک بہترین راستہ ہے۔ اور ابنائے ندوہ کو خاص طور پر اس مشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔میٹنگ میں ڈاکٹر نورالسلام ندوی اور حافظ مولانا عارف نثار ندوی نے بھی شرکت کی اور اپنی رائے سے مستفید کیا،میٹنگ میں تنظیمی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور اس کی فعالیت پر زور دیا گیا،

جنسی بے راہ روی کی بد ترین صورت __

جنسی بے راہ روی کی بد ترین صورت __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
مغربی تہذیب وثقافت سے جو چیز ہم نے بر آمد کی ہے اور جس کی وجہ سے معاشرہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہو رہا ہے، ان میں ایک ’’لیو ان ریلیشن شپ‘‘ ہے، لڑکے، لڑکیوں کا ایک ساتھ ایک کمرہ میں رہنا اور ہر طرح کی بے راہ روی سے گذرنا ریلیشن شپ لوازمات میں سے ہے، یہ لیو ان ریلیشن شپ جس عمر کے بھی لڑکے لڑکیوں کو درمیان ہو، نہ عدالت کو اس پر اعتراض ہے اور نہ حکومت کو ، اعتراض ہے تو کم عمر بالغ لڑکے لڑکیوں کے نکاح پر ، کیرالہ ہائی کورٹ اسے پاکسو (PAXO)ایکٹ کے تحت ڈالنے پر مصر ہے، جب کہ دوسرے کئی ہائی کورٹ کا پہلے سے فیصلہ موجود ہے کہ مسلم پرسنل لا اس ایکٹ کے دائرے میں نہیں آتا، مسلم پرسنل لا بورڈ کے ارکان کو اس صورت حال پر سخت تشویش کا سامنا ہے، تفہیم شریعت کے ایک ورک شاپ میں بورڈ کی خاتون ممبر مونسہ بشریٰ نے بہت صحیح کہا کہ’’ہندوستان میں ایسے قوانین بنائے جا رہے جہاں ایک عورت کو رکھیل تو بنا کر رکھا جا سکتا ہے، لیکن اس کو عزت کے ساتھ بیوی بنا کر رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔
لیو ان ریلیشن شپ کے مضر اثرات میں جنسی بے راہ روی کے علاوہ ہوس پوری ہونے کے بعد قتل کے واقعات بھی سامنے آر ہے ہیں، ابھی تازہ واقعہ شردھا والکر کا ہے، جس کو آفتاب امین پونے والا نامی پارسی نے جسم کی طلب ختم ہونے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے مختلف جگہوں پر اس کے اعضا کو منتشر کر دیا اور اب پولیس اس کی تحقیق میں جٹی ہوئی ہے اور آفتاب کا نارکو ٹسٹ کیا جا رہا ہے، تاکہ اس کے تحت الشعور میں جو باتیں اس قتل کے حوالہ سے دبی ہوئی ہیں، انہیں ہیناٹزم کے انداز میں باہر نکالا جائے، قتل کا یہ سلسلہ ’’لیو ان ریلیشن شپ‘‘ میں دراز ہوتا جا رہا ہے۔
 ہندوستان جیسے ملک میں جو مختلف مذاہب اور صوفی سنتوں کی آماجگاہ رہا ہے، کبھی بھی اس قسم کی بیہودگی اجازت نہیں ہونی چاہیے، لیکن مغربی تہذیب سے مرعوبیت کا جو عالم ہم پر طاری ہے اس نے ہر بے ہودگی کو ثقافت اور کلچر کا درجہ دے  دیا ہے، جب کہ پوری دنیا میں مشرقی تہذیب وتمدن کو ہر دور میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا رہا ہے، اس کی بقاوتحفظ کی کوشش کرنی چاہیے، بلکہ مہم چلانی چاہیے کہ ہندوستان میں یہ سلسلہ قانونی طور پر بند ہو، ورنہ اس کے نتیجہ میں جنسی بے راہ روی سے سماج، معاشرہ اور بہت سارے خاندان غلاظت کے اس دلدل میں ڈوبتے جائیں گے، جس سے باہر نکلنا ممکن نہیں ہو سکے گا، وقت رہتے ہمیں اس طوفان بلا خیز کو روکنے کی شکلوںپر غور کرنا چاہیے۔

مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری شریف پٹنہ وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ

نظافت سخن (مجموعہ حمد و نعت) کا تنقیدی وتجزیاتی مطالعہ 
اردو دنیا نیوز ٧٢
مصنف :شکیل سہسرامی

،✍️مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری شریف پٹنہ وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ موبائل نمبر 7909098319

اللہ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازتے ہوئے انہیں بے پناہ نعمتیں دیں اور احسانات کئے ہیں ،ان احسانات کو اگر ہم شمار کرنا چاہیں تو ہرگز انہیں شمار نہیں کرسکتے ہیں، ان احسانات اور نعمتوں میں سے ایک نعمت قوت گویائی ہے، انسان اپنے احساسات وجذبات اور خیالات کے اظہار کے لئے الفاظ کا سہارا لیتا ہے، اور ان الفاظ کو جب خوبصورتی کے ساتھ سجا کر فنی اصول وضوابط کے آداب وعادات کا خیال رکھتے ہوئے اپنے جذبات وخیالات واحسات کا اظہار کرتا ہے تو وہ شاعری بن جاتی ہے، اور جب اس شاعری کو مخصوص لہجہ وفن،اور کائنات کے مالک کی شان میں کہتا ہے تو وہ حمد کہلاتا ہے، 
حمد عربی زبان کا ایک لفظ ہے،جس کے معنی‘‘تعریف‘‘ کے ہیں۔ اللہ کی تعریف میں کہے جانے والے اشعار کو حمد کہتے ہیں، حمد میں اللہ رب العزت کی تعریف، فطرت کے مناظر، اللہ کی قدرت ان سب چیزوں کا تذکرہ ہوتا ہے، کما حقہ اللہ کی تعریف وتوصیف بیان کرنا انسانوں کو اتنی قدرت  وطاقت نہیں کہ وہ اللہ کی حمد وثناء کرسکیں لیکن اس ذات کے احسانات میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے ہمیں وہ کلمات سکھائے جن کے ذریعہ ہم اس ذات مقدس کی تعریف وتوصیف بیان کرتے ہیں، اور آغاز قرآن بھی ترتیبا حمد سے کرکے یہ پیغام دیا کہ ہم اللہ کی تعریف کس طرح بیان کریں، جب یہ دنیا وجود میں نہیں آئی تھی تب بھی فرشتے اور ابلیس اللہ کی حمد وثناء کرتے تھے، اردو زبان وادب کے بھی تقریباً تمام شعراء نے اپنے لئے سعادت سمجھتے ہوئے حمدیہ اشعار کہیں ہیں۔اور جب اس شاعری کا رخ دنیا کی سب سے محترم شخصیت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کرتے ہے تو وہ نعت بن جاتی ہے،
اطاعت خدا اور حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، اطاعت ہی نعت گوئی کا تقاضہ ہے ۔نعت مقدس، بابرکت اور پاکیزہ شاعری کے زمرے میں آتی ہے،
 یہ ادب کی ایک معروف مشہور ومانوس صنف ہے،
پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدحت، تعریف و توصیف، شمائل و خصائص کو نظم کے انداز میں بیان کرنا  نعت خوانی یا نعت گوئی کہلاتا ہے۔ عربی زبان میں نعت کے لیے لفظ "مدحِ رسول" استعمال ہوتا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بہت سے صحابہ کرام نے نعتیں لکھیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ نعت لکھنے والے کو نعت گو شاعر جبکہ نعت پڑھنے والے کو نعت خواں کہا جاتا ہے۔شاعر کو اللہ رب العزت نے بہت حساس وبیباک بنایا ہے، شاعر کی تخیلاتی پرواز بہت بلند ہوتی ہے، وہ سمندر کو ایک کوزے میں بند کرنے کی صلاحیت وقابلیت رکھتا ہے، پوری تاریخ کو دو سطروں میں بیان کرجاتا ہے، 
 دنیا کی ہر زبان میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی نعت لکھی جارہی ہے، پڑھی جارہی ہے ۔ لفط "نعت" اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت کے لئے مختص ہوگیاہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ، سیرت، اور زندگی کے حالات واقعات کو بیان کرنے کے لئے نعت سے زیادہ کوئی شاعری برتر نہیں۔ نعت میں شاعرسرور کونین ﷺکی ذات اقدس سے اپنی محبت کا اظہار اس طرح کرتا ہے کہ اپنی شاعری کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف گوشوں کا احاطہ کرتے ہوئے بڑے خوبصورت الفاظ وانداز میں فن کے مکمل تقاضے کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرکے اظہار محبت واطاعت کے ساتھ بندگی کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔ اکثر شعرا نے نعت گوئی کو باعث سعادت فخر و نجات گردانا ہے۔
شکیل سہسرامی اردو زبان وادب کے مشہور ومعروف شاعر وادیب کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ناظم ہیں،آپ کے والد صاحب کا نام مولوی عبد الوحید خاں غازی شمسی مرحوم ہے، آپ کا اصل نام محمد شکیل خان جبکہ دنیائے ادب آپ شکیل سہسرامی کے نام سے جانتی ہے، آپ کا تعلق بہار کا تاریخی شہر سہسرام سے ہے، حالیہ مقیم سمن پورہ پٹنہ، آپ سرکاری ملازمت سے وابستہ ہیں، اب تک آپ کی چار تصنیفات منظر عام پر آچکی ہیں 
1: آوارجہ : غزلوں کا مجموعہ
2:  نظافت سخن : حمد و نعت و منقبت کا مجموعہ
3:  ابر سخن : مخلوط شعری مجموعہ
4:   گلبانگ چشم و قلم :  تبصروں کا مجموعہ
جبکہ  پانچواں شعری مجموعہ زیرِ طبع ہے،
آپ کی شخصیت وفن دونوں باکمال ہے ۔آپ ایک نیک صفت، حق گو، بے باکی سے اپنی باتیں خواہ وہ نثر ہو یا نظم ہو کہ جاتے ہیں ۔آپ کی تخیلاتی پرواز کے ساتھ ساتھ اصول اور فن پر بھی آپ کو اچھی دسترس حاصل ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب ’’نظافت سخن ‘‘ ( حمد و نعت  کا مجموعہ) ١٢٠ صفحات پر مشتمل حمد و نعت ومنقبت پر ایک شاہکار تصنیف ہے ،جس کا انتساب مصنف نے اپنے والدین کے نام کیا ہے، اس کتاب کی شروعات میں مصنف عرض احوال کے ذریعہ اس کتاب کے سلسلے میں اپنے احساسات وجذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس توفیق وتوثيق پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس تصنیف کو اللہ کے یہاں شرف قبولیت کی دعائیں کی ہیں، ساتھ ساتھ کتاب میں شامل مضامین کا اجمالی خاکہ بہت خوبصورتی سے پیش کرکے مزید دلچسپ بنا دیا ہے،اس کتاب کو تصنیف کرنے کی غرض وغایت، اردو زبان وادب میں حمد اور نعت و منقبت کی اہمیت وضرورت ان سب کو بڑے دلچسپ پیرائے کے ساتھ بیان کرکے کتابوں میں شامل مضامین کا اچھا جائزہ پیش کیا ہے،کسی تصنیف کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کتاب کا مقدمہ اس انداز میں ہو کہ مقدمہ کے ذریعہ تصنیفی خاکہ کا علم ہوسکے ۔

کتاب سے چند حمدیہ اشعار

اس لئے دل میں ہے یہ ڈر تیرا
میں ہوں بندہ ترا بشر تیرا
میرے مولا مرے خدائے پاک
علم تیرا ہے، سب ہنر تیرا
تو طبیبوں کا ہے طبیعت خدا
ہر دوا تیری، ہر اثر تیرا

تجھ پہ ہر چیز ہے عیاں اللہ
کچھ بھی تجھ سے نہیں نہاں اللہ

تعداد کیا گناؤں میں لاکھوں ہزار کی
مخلوق بے شمار ہے پرور دگار کی
ہوتی ہے صبح وشام خدا ہی کے حکم سے
تقدیر وہی لکھتا ہے لیل ونہار کی

رلاتا وہی ہے ہنساتا وہی ہے
وہی مارتا ہے جلاتا وہی ہے

مجھے یقیں ہے کسی فکر میں نہ ڈالے گا
خدا خدا ہے کوئی راستہ نکالے گا

اسی کے حکم سے ہوگا فنا سب
اسی کے حکم سے عالم بنا ہے
اسی کا آسماں بے ستون ہے
اسی کی یہ زمین برملا ہے

اسی کے حکم سے روتا ہے بندۂ مقہور
اسی کے رحم سے عاجز بہل بھی سکتا ہے

رب العزت نے شکیل سہسرامی کو شاعری میں بہت کمال عطاء کیا ہے۔ شکیل صاحب نے حمدیہ کلام کے  تقاضوں کو مجموعی طور پر ملحوظ رکھنے کی بھر پور سعی کرتے ہوئے عجز وانکساری کے ساتھ رب کائنات کے جلال و جمال، سزا وجزا، عذاب وثواب،اور بندگی کے تقاضے کے کئ پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے اقرار واظہار کچھ ایسے دلکش وجاذب ودلچسپ انداز وبیان میں کیا ہے کہ قاری پر ایک سکینہ نازل ہونے لگتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بندہ اپنے رب سے بہت قریب ہو کر اس کی عطاء اس کی رحمت اس کے کرم کا سوالی، اور اس کے قہر وغضب سے پناہ چاہ رہا ہے ۔نیز اگر آپ باریکی سے دیکھیں گے تو قرآنی مفاہیم وتراجم کی جھلکیاں اور پہلو دیکھ سکتے ہیں، ان کے حمدیہ اشعار پر غور کریں تو 
دست قدرت میں فطری مناظر کو اللہ کی تخلیقات کو چاہے وہ سورج ہو چاند ہو زمین ہو یا آسمان ،خشکی ہو یا تری، صحرا ہوں یامیدان، گل ہوں یا خار، نظام لیل و نہار، خزاں و بہار،ہستی وپستی، چاند ستارے، دریا موج کنارے، غنچہ وگل،طوطی و بلبل، کڑ کتے بادلوں، بلند کہسار ، گرتی آبشار، برگ وثمر کا مفہوم لا کر کے شان ربوبیت کو بیان کیا ہے،۔رب کائنات کی صفات اور اسماء کا اظہاربھی بڑے عمدہ طریقے سے کیا ہے۔ وہ بڑی عمدگی سے اللہ تعالی کے اوصاف کو اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہیں

نعتیہ کلام کے چند اشعار

اللہ اللہ کس قدر اعلیٰ ہے نام مصطفیٰ
ہے صراط خیر امت احترام مصطفیٰ

احاطہ کیا کرے کوئی بھلا آقا کی رفعت کا
خدا ہی کو پتہ ہے بس محمد کی حقیقت کا

اوقات اس کے سامنے کیا بحر وبر کی ہے
یہ نعت پاک حضرت خیرالبشر کی ہے

اے حلیمہ تیری تقدیر بڑی اعلیٰ ہے
تیری آغوش نے آقا کو مرے پالا ہے

آنکھیں روشن ہوں مری صورت طیبہ ہوکر
دل دھڑکتا رہے سینے میں مدینہ ہوکر

بڑی گمرہی تھی سیادت سے پہلے
محمد کی اعلیٰ قیادت سے پہلے
سجالے تو دل کو درود نبی سے
در مصطفیٰ کی زیارت سے پہلے

بصیرت جگمگاتی ہے بصارت جگمگاتی ہے
ہر اک فرمان میں ان کی ہدایت جگمگاتی ہے

بہت رسوا ہوئے ہیں عشق میں ہم در بدر ہوکر
ہمیں رہنا ہے اب شہر نبی میں معتبر ہوکر

مری بھی آرزو پوری یہ آخری ہوجائے
در حبیب پہ اپنی جو حاضری ہو جائے

یہ کلام مومنانہ
ہے پیام مومنانہ
تھی مثال آپ اپنی
شہ دین کا گھرانہ

حسیں کتنی مدینے کی گلی معلوم ہوتی ہے
یہاں تو زندگی ہی زندگی معلوم ہوتی ہے

منقبت کے چند اشعار

ذیشان، ذی وقار ہے، ذی احتشام ہے
محبوب کردگار جو خیر الانام ہے
صبر ورضا کا درس یہ ماہ صیام ہے
ماہ صیام رحمت حق کا انعام ہے

شکیل سہسرامی نے بہت محتاط انداز میں نعت گوئی کے دائرے کو ملحوظ رکھا ہے ۔ اور نعتیہ شاعری میں ہر جہت سے فنی اصول وضوابط کے ساتھ ساتھ تخیلاتی پرواز بھی بہت بلند رکھی ہے ۔ اپنے نعتیہ کلام کے ذریعہ اس بات کا واضح ثبوت دیا کہ نعت گوئی در اصل سعادت ہے، عبادت ہے، اور محبت ہے، کیوں کہ یہ وصف بھی خدائی دین ہے ۔ شکیل سہسرامی کی ایک خصوصیت یہ بھی ابھر کر سامنے آئی ہے کہ انہوں نے" با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار" کے مصداق سنبھل سنبھل کر نعت گوئی کا حق ادا کیا ہے۔المختصر ان کے حمدیہ ونعتیہ کلام میں عشق کی چاشنی ،عقیدت ومحبت کی خوشبو ، پیار سے بھرے جذبہ کی روانی، رب کی اطاعت وبندگی کے تقاضے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اصول، در رسول پر حاضری کی تمنا وتڑپ ،فراق و ہجر کی کیفیت، مدینے میں تدفین کی آرزو،شفاعت کی طلب وغیرہ سے معمورہے ۔ انہوں نے اپنے پاکیزہ جذبات کو شعری اظہار کا وسیلہ بنا یا ہے۔  برجستگی ، سلاست روانی، فصاحت و بلاغت ان کی شاعری کا خاصہ ہے ۔شکیل سہسرامی کی شخصیت اور فن کے چند پہلوؤں پر تذکرہ وتبصرہ کیا گیا ہے،وہ غزل کے بھی بہت اچھے شاعر ہیں، مشاعروں میں نظامت کے فریضہ کو بہت اچھے انداز میں پیش کرتے ہیں، مزید انہیں اور ان کے فن کو سمجھنے کے لئے ان کی تصنیفات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے،ان سے براہ راست ان سے ملاقات کا شرف حاصل کرسکتے ہیں

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...