Powered By Blogger

جمعہ, فروری 25, 2022

کہنہ مشق قاری،ماہرفن استاذ قاری عبد الصمد صاحب کاانتقالچینئی (ساجد حسین ندوی


کہنہ مشق قاری،ماہرفن استاذ قاری عبد الصمد صاحب کاانتقال
چینئی (ساجد حسین ندوی) کہنہ مشق قاری،تجربہ کار استاذِ حفظ اور اپنے فن اور تجربے سے ہزاروں افراد کو حفظِ قرآن کی دولت سے مالا مال کرنے والے خادم قرآن،استاذ الاساتذہ، شہرکانپور کی قدیم اور مرکزی درسگاہ مدرسہ جامع العلوم پٹکاپور، کانپور کے سابق استاذِ حفظ حضرت قاری عبدالصمد صاحب فرقانی ؒکا بتاریخ 23 اکتوبر 2022 بروز بدھ کو تقریبا دوپہر 1بجکر  40 منٹ میں حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
گذشتہ ہفتہ مرحوم کو اچانک برین اسٹوک ہوگیا تھاجس کے بعد ان کو فوری طور پرتمل ناڈو گورنمنٹ سوپر اسپیشلٹی، ماونٹ روڈ چینئی میں داخل کیا گیا جہاں ماہرڈاکٹروں کی نگرانی میں علاج ہوا اور طبیعت بحال ہونے لگی، ایک دو دن میں ڈاکٹر نے ڈسچارج کرنے کو کہا تھا لیکن 23/ فروری کو تقریبا دو پہرساڑھے بجے طبیعت بگڑنے لگی، ڈاکٹروں نے آخری حد تک کوشش کی،لیکن وقت موعود آچکا تھا۔اللہ کے فیصلے کے سامنے انسانی طاقت بے بس ہوگئی اور 1/ بجکر 40منٹ پر قاری صاحب کی روح دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرگئی۔ 24فروری کو 1:45بجے قائد ملت جمعہ مسجد چینئی میں قاری صاحب کے منجھلے فرزند قاری محمد اسجد صاحب نے جنازے کی نماز پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں لوگو ں نے شرکت کی اور سوگواروں کی موجودگی میں امیرالنساء قبرستان رائے پیٹھہ میں سپرد خاک کیا گیا۔
 قاری صاحب مرحوم کی پیدائش بہار کے ضلع مونگیر کے ایک گاؤں محلہ حاجی سبحان میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم پنج ویر نامی ایک گاؤں میں حاصل کی، اس کے بعد جامعہ محمودیہ،گوگری ضلع کھگڑیا،بہار میں قرآن کریم کا دور مکمل کرنے کے بعد لکھنو کی مشہور درسگاہ مدرسہ تجوید الفرقان میں قرأت کی تعلیم مکمل کی۔ قرأت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تدریسی خدمات کے لیے آپ کا تقرر شہر کانپور کی قدیم درسگاہ مدرسہ جامع العلوم،پٹکاپور،کانپور میں ہوا،جہاں آپ نے تقریبا 24/ سالوں تک بحیثیت استاذ حفظ خدمات انجام دی اور لاکھوں کی تعداد میں حفاظ تیار کئے۔ کچھ ناگزیر حالات کی وجہ سے آپ نے مدرسہ جامع العلوم سے استعفی دے دیا اس کے بعد دارالعلوم آگرہ، مدھیہ پردیش اور مدرسہ اشاعت العلوم کانپور میں صدر شعبہ حفظ کے طور پر کام کرتے رہے۔ اسی دوران قاری صاحب کی رفیق حیات کا انتقال ہوگیا اس کے بعد قاری صاحب کافی ٹوٹ گئے اور تدریسی خدمات چھوڑ کر شہر مدراس میں اپنے لڑکوں کے ساتھ رہنے لگے۔لیکن تدریس ان کی طبیعت میں رچی بسی تھی، اس لیے فارغ رہنا ان کے لیے مشکل لگنے لگا۔بہر کیف وہ شہر مدراس سے سیدھا اپنے گاؤں آگئے اور پنج ویر مدرسہ جہاں سے آپ نے ابتدائی تعلیم اور حفظ مکمل کیا تھا وہیں درس وتدریس میں لگ گئے۔ آخری عمر تک اسی ادارہ سے منسلک رہ کر قرآن کی خدمت کرتے رہے۔
قاری صاحب کے انتقال پر ہزاروں علماء،حفاظ، قراء اور شاگردوں نے اپنے رنج و غم کا اظہار کیا اور پسماندگان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے رفع درجات اور مغفرت کے لیے دعائیں کی۔
پسماندگان میں قاری صاحب کے چار لڑکے اور ایک لڑکی ہے، الحمدللہ چاروں لڑکے حافظ و قاری ہیں اور شہرمدراس میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرماکر درجات کو بلند فرمائے اوراپنے نیک بندوں میں شامل فرمائے۔ پسماندگان اور شاگردوں کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین، ثم آمین۔
اللھم اغفرلہ وارحمہ واعف عنہ وادخلہ الجنۃ بغیر حساب

سر پر رہے اے بیٹیو ہر آن ڈوپٹہشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

سر پر رہے اے بیٹیو ہر آن ڈوپٹہ
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
آج کل اسلام دشمن قوتوں نے عجیب پروپیگنڈہ شروع کر دیا ہے جس سے مسلمان عورتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں پر بہت زیادہ پابندیاں لگا دی ہیں ہمارے معاشرے کی پڑھی لکھی مستورات خواتین اور بچیاں غلط فہمی کا شکار ہو جاتی ہیں اور وہ یہ سمجتی ہیں کہ شاید ہمارے جائز حقوق نہیں دیے گئے حالانکہ بات ہرگز ایسی نہیں ہے سب سے پہلی بات تو یہ کی جاتی ہے کہ اسلام نے پردے میں رہنے کا حکم دیا ہے جبکہ غیر مسلم معاشرہ میں عورت بے پردہ پھرتی ہے تو یہ بات سمجھنی بہت آسان ہے کہ عورت پردہ میں رہے تو اس کا فائدہ عورت کو بھی ہے مرد کو بھی 
کتاب اللہ کے بعد اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا مطالعہ کریں تو آپ یقین کریں کہ پردہ کے بارے میں اس قدر احادیث ہیں کہ تعجب ہوتا ہے کہ بعض لوگ کیسے حضور  صلی اللہ وسلم کا نام بھی لیتے ہیں اور بے پردگی بھی کرتے ہیں عشق  کے دعوے بھی کرتے ہیں اور زمانہ سازی کے لئے بہو بیٹیوں کو عریانیت کی اجازت بھی دیتے ہیں بلکہ بعض تو نماز بھی پڑھتے ہیں حج بھی کرتے ہیں صدقہ خیرات بھی کرتے ہیں لیکن محض قدامت پرستی اور دقیانوسیت کے طعنوں سے بچنے کے لیے بے غیرتی بھی کرتے ہیں زمانۂ جاہلیت میں عورتوں کا دستور تھا کہ دوپٹوں سے اپنے سروں کو ڈھانک کر باقی دوپٹہ کمر پر ڈال لیتی تھیں مسلمان عورتوں کو حکم ہوا کہ اپنے دوپٹوں سے سر بھی ڈھانکیں اور گلے اور سینے پر ڈالے رہا کریں چونکہ صحابیات کے پاس مال و دولت کی اس قدر فراوانی نہ تھی کہ وہ نئے دوپٹے خریدتیں اس لیے انہوں نے اس حکم کو سن کر موٹی موٹی چادروں کے دوپٹے بنالیے اور ان سے اپنے گلوں اور سینوں کو بھی ڈھکنے لگی 
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قال المرأ ۃ عورۃ) عورت سر تا پا پوشیدہ رہنے کے قابل ہے یعنی سر سے پاؤں تک عورت ستر ہے تو سر بھی ستر ہوا پس عورتیں ننگے سر نہ پھرا کریں کہ بے پردگی ہے (ترمذی)
کئی پردہ دار عورتیں برقع کے ساتھ باہر جاتی ہیں استانیہ اسکول جاتی ہیں جب گھر آتی ہیں تو ننگے سر گھر کا کام کاج کرتی ہیں اور ننگے سر پھرتی رہتی ہیں یہ حرام ہے سر چھپانے کی چیز ہے ستر ہے اسے مستور رکھا کریں گھر میں بھی ننگے سر نہ پھرا کریں یہ بات اکثر لڑکیوں اور عورتوں کے لئے سخت کوفت کا موجب ہے بڑی جانکاہ ہے جگر خراش ہے اور اس سے ان پر اتنا بوجھ ہوگا کہ گویا ان کے دل پر ایک پہاڑ پر لا کر رکھ دیا گیا ہے۔ یاد رکھیں اسلام اسی بات کا نام ہے کہ اپنے آپ کو اسلام کے حوالے کر دیا جائے اپنی خواہشات اور چاہت کو اسلام کے حکم کے آگے دبا دیا جائے نفس پر اسلام کے قانون اور حکم کا خنجر پھیر دیا جائے پھر مسلمان ہو سکتے ہیں جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ عورتیں ننگے سر نہ پھریں تو عورتوں کو خدا تعالی کا یہ حکم مان لینا چاہیے اللہ کے حکم کے آگے باتیں نہیں بنانا چاہیے اور نہ انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ احکام الہی سے منہ پھیر یں یا بے اعتنائی برتیں اور پھر یہ عاجز انسان جو ہر وقت اس کے رحم و کرم پر زندہ ہے چلتا پھرتا ہے اور سانس لیتا ہے خدا تعالی کے آگے دم مارے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے حکم سے بولتے ہیں خدا کے احکام کا نور پھیلاتے ہیں ہر عورت مرد کو اس نور میں گام فرسا رہنا چاہیے
حجاب اور پردے کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے اندر بےپردگی کے نتیجے میں جو فتنہ پیدا ہو سکتا ہے اس کا سد باب کیا جائے ۔ حجاب کا حکم اللہ تعالی نے قرآن کریم میں نازل فرمایا اور حضور صلی اللہ وسلم نے احادیث میں اس کی تفصیل بیان فرمائی اور ازواج مطہرات اور صحابیات نے اس حکم پر عمل کرکے دکھایا اب اہل مغرب نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مسلمانوں نے عورتوں کے ساتھ بڑا ظالمانہ سلوک کیا ہے کہ ان کو گھروں میں بند کر دیا ان کے چہروں پر نقاب ڈال دی اور ان کو ایک کارٹون بنادیا تو کیا مغرب کے اس مذاق اور پروپیگنڈے کے نتیجے میں ہم اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم کے ان احکام کو چھوڑ دیں؟  یاد رکھیں جب تک خود ہمارے اپنے دلوں میں یہ ایمان اور اعتقاد پیدا نہ ہو کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے جو طریقہ سیکھا ہے وہی طریقہ برحق ہے کوئی مذاق اڑاتا ہے تو اڑایا کرے کوئی طعنے دیتا ہے تو دیا کرے یہ طعنے تو مسلمان کے گلے کا زیور ہیں انبیاء علیہم السلام جو اس دنیا میں تشریف لائے کیا انہوں نے کچھ کم طعنے سہے؟ جتنے انبیاء علیہم السلام اس دنیا میں تشریف لائے ان کو یہ طعنے دیئے گئے کہ یہ تو پسماندہ لوگ ہیں یہ قیانوس اور رجعت پسند ہیں یہ ہمیں زندگی کی راحتوں سے محروم کرنا چاہتے ہیں یہ سارے طعنے انبیاء کو دیے گئے اور ہم آپ جب مومن ہیں تو انبیاء کے وارث ہیں جس طرح وراثت میں اور چیزیں ملیں گی یہ طعنے بھی ملیں گے کیا ان طعنوں سے گھبرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کو چھوڑ دیں گے؟ اگر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم پر ایمان ہے تو پھر ان طعنوں کو سننے کے لیے کمر کو مضبوط کر کے بیٹھنا ہوگا (اصلاحی خطبات) 
ام المومنین حضرت ام سلمہ کا بیان ہے کہ میں اور میمونہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں کہ اچانک عبداللہ بن ام مکتوم ( نابینا)  سامنے سے آ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے پاس آنے لگے چونکہ عبداللہ نابینا تھے اس لئے ہم دونوں نے پردہ کرنے کا ارادہ نہیں کیا اور اسی طرح اپنی جگہ بیٹھی رہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان سے پردہ کرو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم کیا وہ نابینا نہیں ہیں؟ ہم کو تو وہ دیکھ نہیں رہے ہیں اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم ان کو دیکھ نہیں رہی ہو ؟ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو بھی جہاں تک ممکن ہوسکے مردوں پر نظر ڈالنے سے پرہیز کرنا چاہئے حضرت عبداللہ نابینا تھے پاکباز صحابی تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بیویاں نہایت پاک دامن تھیں اس کے باوجود بھی آپ نے دونوں بیویوں کو حکم فرمایا کہ عبداللہ سے پردہ کریں یعنی ان پر نظر نہ ڈالیں اسلام میں مرد و زن کو حکم ہے کہ وہ اپنی نظروں کی حفاظت کریں تاک جھانک نہ کریں نگاہیں نیچی رکھیں تاکہ مرد اسے دیکھ ہی نہ سکے اگر عورتیں بے پردہ رہیں گی تو وہ صورتحال پیش آۓ گی جسے کسی دل جلے شاعر نے بیان کیا ہے 
سبھی مجھ کو کہتے ہیں نظریں نیچی رکھ اپنی
کوئی ان کو نہیں کہتا نہ نکلیں یوں بے حجاب ہوکر
آیات و احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سر سے لے کر پاؤں تک مستورہ ہے سارا جسم اس کا ستر ہے جسے ڈھانکنا ضروری ہے اب تو کئی عورتیں کہہ دیں گی کہ یہ پردہ تو پنجرہ ہے جس میں ہم کو قید کر دیا گیا ہے یاد رکھیں  کہ اللہ تعالی عورتوں کا خالق ہے وہ ان کی طبیعت مزاج اور جبلت کو خوب جانتا ہے اس نے اپنے علم اور حکمت سے عورتوں کے لیے یہ پردہ کا حکم نازل فرمایا ہے جو قرونِ اولیٰ کی عورتوں نے بسر و چشم قبول کیا اور دین اور دنیا کی خوبیاں اور بھلائیاں سمیٹ کر لے گئیں تاریخ ان کی روحوں پر تحسین اور آفرین کے پھول برساتی ہیں آج اگر عورتیں اپنی خواہش نفس اور ماحول کی کشش اور رواج اور فیشن کی نیلم پری کو خدا تعالی کے حکم کی چھری سے ذبح کر دیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے پردے کو اپنا لیں تو ان کے اولیاء اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہوگا بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں شیطان مایوس ہو گیا تھا کہ اس کی پرستش کی جائے وحی کے نزول کے سامنے اس پر مردنی چھائی ہوئی تھی لیکن آج ابلیس مع اپنی ذریت کے ننگا ناچ رہا ہے تمام دنیا فسق و فجور اور بے حیائی سے بھری ہوئی ہے آج اگر عورتیں شرم و حیا کازلال پی کر پردہ قبول کرلیں تو فرشتے ان پر رحمتوں کے پھول برسائیں  اور حوروں کی عفت انہیں سلام کرے اور یہ اپنے لیے جنت کے دروازے کھلے پائیں 
سر پر رہے اے بیٹیو ہر آن ڈوپٹہ
ہے خانہ نشینوں کی حسیں شان دوپٹہ

حجاب پر سیاستمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

حجاب پر سیاست
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مسلم لڑکیوں کے لیے حجاب کا استعمال اور پردہ ان کی تہذیب وثقافت ہی نہیں، دینی تقاضے کا حصہ ہے، حجاب اور اسکاف استعمال کرنے والی عورتیں سماج میں با وقار سمجھی جاتی ہیں، لیکن فرقہ پرست طاقتوں کو مسلم لڑکیوں کا حجاب میں آنا گوارہ نہیں ہے، وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ اپنی گھر کی عورتوں کو نیم عریاں رکھنا اور دیکھنا پسند کرتے ہیں ویسے ہی مسلم لڑکیوں کے دیدار سے بھی وہ اپنی آنکھیں سینکیں، یہ ایک نفسیاتی برائی ہے، جو انسان کوجسمانی تلذذ اور عیاشی کا خوگر بنا دیتا ہے، اسی لیے شریعت نے عورتوں کو پردہ کا حکم دیا ، تاکہ وہ غیرمردوں کی ہوس بھری نگاہوں سے محفوظ رہیں، کرناٹک اور ملک کی کئی ریاستوں میں حجاب پر سیاست شروع ہو گئی ہے، کرناٹک میں حجاب پہن کر کئی اسکول اور کالج میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے، مسلم لڑکیاں احتجاج کر رہی ہیں، بھگوا بریگیڈ ان کے ساتھ بد تمیزی سے پیش آ رہا ہے، معاملہ عدالت میں ابھی زیر غور ہے، لیکن حجاب پر اس پابندی کی وجہ سے کرناٹک میں ہند ومسلم منافرت زوروں پر ہے ، اب یہ تحریک پورے کرناٹک میں پھیل گئی ہے، حالات اس قدر خطرناک ہو گیے ہیں کہ حکومت نے تین دنوں کے لیے تمام تعلیمی ادارے بندکر دیئے ہیں، عدالت میں سماعت چل رہی ہے، ابھی فیصلہ نہیں آیا ہے، لیکن عدالت نے اپنے تبصرے میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حجاب مسلم لڑکیوں کا حق ہے اور ہم قرآن کو نہیں بدل سکتے ہیں، یہ سب اسکول یونیفارم کے لزوم کے نام پر کیا جا رہا ہے، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ جب سکھ لڑکے پگڑی باندھ کر کلاس کر سکتے ہیں، تو مسلم لڑکیوں کا حجاب کیوں یونیفارم کے خلاف سمجھ میں آ رہا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...