Powered By Blogger

ہفتہ, مارچ 09, 2024

علم اور اہل علم کی قدر*

علم اور اہل علم کی قدر* 
Urduduniyanews72 
*🖋️حضرتمولانانورعالم صاحب جامعی* 
مدرسہ اخلاق العلوم نیوز حیدر گنج لکھنؤ
علم  اللہ تعالی کی وہ عظیم نعمت ہے جس کی فضیلت اور اہمیت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے ۔ یہ ان انعامات میں سے ہے جن کی بناء پر انسان دیگر مخلوقات سے افضل ہے۔ علم ہی ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا فرما کر اس کے ذریعے فرشتوں پر ان کی برتری ثابت فرمائی۔ 
       دینِ اسلام میں حصولِ علم کی بہت تاکید کی گئی ہے اور علم و اہلِ علم  کی متعدد فضیلتیں وارد ہوئی ہیں اور مسلمانوں کو علم کے حصول پر ابھارا گیا ہے۔ اور جس طرح علم کی اہمیت و فضیلت مسلّمہ ہے، اُسی طرح اِس نعمتِ عظیم کے حامل افراد کی فضیلت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ رسول اللہ ﷺ  کی اس امت میں تو بالخصوص اہلِ علم بہت اعلی مقام کے حامل ہیں حتیٰ کہ انہیں انبیائے کرام کا وارث قرار دیا  گیا ہے جیسا کہ فرمانِ نبوی ہے "العلماء ورثة الانبیاء" ۔ اور علم کو فرض قرار دیتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا"طلب العلم فریضة علی کل مسلم و مسلمہ" یعنی دین کا اتنا علم جس سے حلال و حرام کی پہچان ہوجائے، اسکا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔
 عصرِ حاضر میں ہم مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم عصری تعلیم میں اتنا مصروف ہو چکے ہیں کہ دینی تعلیم میں وقت لگانے کو وقت کی بربادی سمجھنے لگے ہیں، اور اسمیں کہیں نا کہیں والدین کا بھی قصور ہے کیونکہ گھر ہی پہلا ادارہ ہوتا ہے ، جب بچہ گھر میں دینی علم اور علماء سے نفرت، عصری علم کیلئے جہد وجہد دیکھے گا تو یہی سیکھے گا اور جب انکی تربیت دینی نا ہو تو یقیناً یہ نیک اولاد نہیں بنیں گے۔ پھر یہی بچے اپنے والدین کو بیت المعمرین (Old age home) میں چھوڑتے ہیں تو والدین کو تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارے بچے اتنے برے کیسے ہوگئے ؟ حالانکہ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ سب انکی دنیاوی تربیت کا خمیازہ ہے جو وہ بھگت رہے ہیں ۔
عصری تعلیم کی محبت اور دینی تعلیم سے دوری کے سبب ہی آج ہم دنیا میں آگے تو ہیں لیکن ہمارے پاس علم اور علماء کی قدر و عزت نہیں، آج ہم مسلمانوں کی صورتحال یہ ہے کہ ہم اہلِ علم حضرات بالخصوص ائمہ مساجد اور علماء کو بالکل حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ہم منتظر ہوتے ہیں کہ ان سے کچھ غلطی ہو اور ہمیں ان پر طنز کرنے کا موقعہ ملے۔ اہلِ علم نیک ہوتے ہیں لیکن وہ بھی بشر ہوتے ہیں نا کہ کوئی فرشتے اور غلطی کرنا ہر بشر کی فطرت ہے۔ اللہ نے جہاں بھی اپنے نیک بندوں کا ذکر کیا وہاں کہا  میرے نیک بندوں سے گناہ بھی ہوتے ہیں لیکن وہ فوراً توبہ کرلیتے ہیں۔ آج ہمارے دلوں سے علماء کی محبت بالکل ختم ہو چکی ہے، اگر دینی علم کے حصول کی بات کی جائے تو کچھ ایسی باتیں ہمارے گوش گزار ہوتی ہیں کہ گھر میں کوئی حافظ بنا لینگے، گھر میں اتنے سارے حفاظِ کرام موجود ہیں کسی کی بھی سفارش سے بخشش ہوجائے گی۔ ہمیں تو یہ جذبہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے کر خود اس قابل بنیں کہ ہم امت کی سفارش کرسکیں ۔ اور جن کی سفارش کے بھروسے ہم بیٹھے ہیں ہم ان کی قدر کرنا بھی نہیں جانتے۔ اور اس غلط فہمی میں ہیں کہ کسی کی بھی سفارش سے ہماری بخشش ہو جائے گی۔ ذرا غور کریں کہ ہماری قبر کی اتنی لمبی زندگی میں ہماری سفارش کون کریگا ؟ 
یہاں صرف ہمارا دینی علم کام آئے گا اور وہ دینی علم جس پر ہم عمل پیرا ہوئے، دینی علوم کا حصول ہم پر فرض ہے اور فرض میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہم سب اس سے واقف ہیں کہ ہمارے معاشرے میں دینی تعلیم کو کس حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جبکہ دینی علم کی فضیلت بھی ہم پر عیاں ہے، میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ عصری تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کی جائے بلکہ میرا مقصد ہے کہ عصری اور دینی دونوں تعلیم کو حاصل کیا جائے کیونکہ دونوں کی اہمیت ہے، اس دار فانی میں رہنے کیلئے عصری تعلیم ضروری ہے جبکہ عالم برزخ اور آخرت کے لئے دینی تعلیم کا حصول لازم ہے، لیکن آج ہم مسلمان دینی تعلیم سے اس قدر دور ہیں کہ ہمیں حلال وحرام اور فرائض و واجبات کا علم تک نہیں۔ اگر ہم دینی علم نہیں حاصل کررہے تو ہمیں کم از کم اہلِ علم یعنی علماء کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ یہ وہ وسیلہ ہے جو ہمیں اللہ کے ہاں محبوب اور مبغوض بنانے کی طاقت رکھتا ہے، اگر ہم علماء سے محبت کریں تو کوئی بعید نہیں کہ اللہ بھی ہم سے محبت کرے اور ہماری آخرت سنور جائے لیکن اگر ہم علماء سے نفرت کریں گے تو ہم ملعون ہوجائینگے، آج کل اکثریت علماء سے اسی لئے نفرت کرتی ہے کیونکہ وہ دینی علوم کے حامل ہیں، لیکن ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے قیامت رکی ہوئی ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے "لا تقوم الساعة حتى يقال الله الله" یعنی قیامت اس وقت تک نہیں آئی گی جب تک روئے زمین پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا ہو ، اور حدیث قدسی میں ہے "من عادى لى وليا فقد آذنته بالحرب" یعنی جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے گا اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے ۔
 ان احادیث سے عیاں ہے کہ کس طرح ہم علماء کی قدر کے ذریعے اللہ کے محبوب بن سکتے ہیں، اور کس طرح آج ہم علماء سے نفرت کرکے اللہ سے جنگ مول لے رہے ہیں۔ اور نبی کریم ﷺ نے تو یہ تک فرما دیا کہ جو ہمارے علماء کی قدر نا کرے وہ ہم میں سے نہیں، اس سے بڑی اور کیا وعید ہو سکتی ہے کہ ہم مسلمانوں اور دین اسلام کی صف سے نکال دیے جائیں، آج اللہ کو حاضر و ناظر رکھتے ہوئے یہ عہد کرلیں کہ ہم اللہ اور رسول کے متعین کردہ مقام و مرتبہ کو علمائے کرام کے سر کا تاج بنائیں گے اور اللہ اور رسول سے محبت و الفت کے ساتھ عمومی طور پر تمام مسلمانوں سے اور خصوصی طور پر علمائے کرام سے محبت و الفت رکھیں گے ان شاءاللہ عزوجل
تکمیل قرآن  شرکت ہوئی ہے  حضرت مولانا انوار صاحب 
مولانا امتیاز احمد صاحب عمران بھائی قاری رضوان احمد صاحب صادق حسین قاری عمر فاروق صاحب ایم رحمانی مولانا عبدالمتین صاحب ندوی کنیز فاطمہ شریک ہیں 

یہ بات کہنا چاہیں گے سارے جہاں سے ہم ____

یہ بات کہنا چاہیں گے  سارے جہاں سے ہم ____
اردودنیانیوز۷۲
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

 سماج کو عربی زبان میں معاشرہ اور انگریزی میں Societyکہتے ہیں ، جس کے معنی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے اور ایک ساتھ رہنے کے آتے ہیں ، ابن خلدون نے معاشرے کوحیوانی جسم کی طرح اور ارسطو نے انسان کو سماجی جاندارسے تعبیر کیا ہے ، علامہ جمال الدین افغانی کا خیال ہے کہ زندگی کی اجتماعی صورت کا ظہور سماج اور معاشرہ ہے اور معاشرہ کی حیثیت ایک جسم کی ہے ، رالف لنٹن  Ralif Lenton)) کے مطابق طویل عرصہ تک ایک جگہ رہنے والے افرا د کا گروہ معاشرہ بن جاتا ہے ، ان کے مابین اشتراک عمل ہوتاہے؛ جس کی وجہ سے وہ سب خود کو ایک جسم کی مانند سمجھتے ہیں۔ انگریزمفکر پروفیسر پیڑک نے لکھا ہے کہ Civics is  A Science Dealing only With Lfie and Prolelems of cites  ان تعریفات کی روشنی میں سماج کا دائرہ افراد کے ہرقسم کے تعلقات تمدنی ، تہذیبی اور ثقافتی احوال وکوائف اور ا ن کے اوصاف حمیدہ اوراخلاق رذیلہ کومحیط ہے ، اس میں نہ تو شعوری غیر شعوری کی تفریق ہے اور نہ ہی انضباط اورغیر انضباط کی ۔سماج کے ساتھ انصاف کو جوڑیں تو مطلب ہوگا کہ سماج کے ہر طبقے کو  ہر سطح پر پھلنے پھولنے اور ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں ، ذات برادری ، علاقہ کی تفریق کے بغیر ان کے حقوق کا تحفظ اور نگہداشت کیا جارہا ہو اس لئے اللہ رب العزت نے انصاف پرزوردیا اور فرمایا کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو ،توانصاف کے ساتھ کرو ،بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، یہ بھی ارشاد فرمایا کہ کسی قوم کی دشمنی انصاف کے راستے میں مزاحم نہ ہو،معاملہ چاہے اپنی ذات، اپنے اعزو اقربااور والدین ہی کا کیوں نہ ہو، کسی بھی حال میں انصاف کا دامن نہ چھوڑا جائے، اس معاملہ میں اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں بہت سے واقعات ملتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی نبوت کا اعلان نہیں کیا ہے ، کعبہ کی تعمیر چل رہی ہے ، بات اس پرآکر رکتی ہے کہ حجراسود کو اس کی جگہ پر کون نصب کریگا ، ہرقبیلہ کے سردار اس کام پر اپنا حق جتا رہے تھے اور اپنے دعوی پر اٹل تھے ،قریب تھا کہ کشت و خوں کا بازا ر گرم ہوجائے، حرم پاک میںتلواریں نکل آئیں ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے، آپ کے اخلاق و کردار کے مکہ کے لوگ قائل تھے اور عرب کے نوجوانوں میں آپ کوسب سے اچھا، امین وصادق سمجھتے تھے ، چنانچہ تمام سردا روں نے آپ کو َحکَم مان لیا ، آپ نے فرمایا ، ابھی سب لوگ اپنے اپنے گھرچلے جائیں ، کل صبح سویرے جو شخص سب سے پہلے حرم شریف  میںآئے گا، اس کے فیصلے کو سب مان لیں گے ، سب مان گئے ، صبح کے وقت سردار ان قریش حرم پہونچے تو دیکھا کہ امین صادق محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے وہاں تشریف فرما ہیں ، سب نے مسرت کا اظہار کیا آپ نے فیصلہ کیا کہ حجراسود کو ایک چادر پر رکھا جائے ، اورہر قبیلہ کا سردار اس چادر کو پکڑ کر کعبہ کی دیوارتک لے جائے ، وہاں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کی طرف سے حجرا سود کودیوار میںنصب کردیا ، جھگڑا بھی ٹل گیا ، اور سب کے حصے میں حجرا سود کو مقام تک پہونچانے کی سعادت بھی حاصل ہوگئی ، ایک اور موقع ہے، اسلام میں حدود وقصاص کے احکام نازل ہوچکے ہیں ، فاطمہ نام کی ایک لڑکی ہے چوری کا ارتکاب کرتی ہے ، جرم شدید ہے ، اسلام میں ہاتھ کاٹنا اس کی سزا ہے ، سفارش میں حضرت زید بن حارثہ ؓ کو لوگ بھیجتے ہیں آپ انہیں بہت چاہتے تھے لوگوں نے سمجھا کہ شاید ان کی بات پر فیصلہ بدلا جاسکے ، حضرت زید ؓ نے جیسے ہی ہاتھ کاٹنے کے عوض کچھ رقم لے کر معاملہ ختم کرنے کی بات کہی ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ٔ مبارک سرخ ہوگیا اور فرمایا؛ تم سے پہلے کے لوگ اسی لئے ہلاک ہوئے کہ کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور کوئی کمزور چوری کرتے تو اس پر سزا جار ی کرتا ، اللہ کی قسم اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو اس کا ہاتھ بھی ضرور کاٹوں گا ، ان ہدایات کی روشنی میںحضرت علی ؓ فرمایا کرتے تھے کہ کفر کے ساتھ حکومت چل سکتی ہے ، ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتی ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اونچ نیچ ، کالے ، گورے عربی عجمی کی تفریق ختم کرکے صاف صاف اعلان کیا کہ تمام انسان بنی آدم کی اولاد ہیں ، اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے ، فرمایا ؛ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کا محبوب وہ ہے جو اللہ کے کنبہ کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ دنیا نے عظمت کے جو خود ساختہ پیمانے بنا رکھے ہیں وہ سماجی انصاف کے پیمانے نہیں ہیں ، سماجی انصاف یہ ہے کہ حکومت کی نظر میں سب برابر ہوں ، اور نسلی ، لسانی اورعلاقائی بنیادوں پر تفریق نہ کی جائے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے غیر مسلم کے بارے میں جو امن و امان سے رہتا ہے اور اسلامی ملک میں مقرر کردہ ٹیکس دیتا ہے ، قتل کرنے سے منع کیا اور فرمایا کہ جو کسی ذمی کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبونہیں پائیگا ؛حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک پائی جاتی ہے ، سماجی انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کے بند ڈھیلے کرائے ، اور ثمامہ بن اثال کو قید سے آزاد کردیا ،آپ کا حسن اخلاق دیکھ کر وہ مسلمان ہوگئے ؛ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدوروں ، غلاموں ، پڑوسیوں،معذوروں ، بیوائوں ، مسکینوں ، یتیموں ، عورتوں ، بچوں ، والدین کے حقوق پرانتہائی منصفانہ احکام جاری کئے اورانسانی بنیادوں پرہرایک کی ضرورت کی تکمیل اور ان کی اعانت ، وخبرگیری کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا ،حدودوقصاص میں آقا اور غلام کے فرق کو مٹادیا ، اور فتنہ فساد کوروکنے کے لئے سخت ہدایات جاری کیں ، ان ہدایات کے علاوہ انسانی خیر کو بیدار کرنے اور ظلم وسرکشی سے اجتناب کرنے کے لئے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشادفرمایا کہ مظلوموں کی بدعائوں سے بچو؛ کیوں کہ اس کی آہ سیدھے عرش تک پہنچتی ہے ۔
سماجی انصاف کے ساتھ حکومت کرنے کی وجہ سے ہی مملکت اسلامی میں امن وامان کی فضا قائم ہوتی اور دوردراز کے علاقوں میں سفر اطمینان کے ساتھ ہونے لگا؛ آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک سفرکرے گا اوراسے اللہ کے علاوہ کسی کاڈر نہیں ہوگا ، واقعہ یہ ہے بے امنی کا ایک خا ص سبب سماجی انصاف سے ر وگردانی ہے ، بدامنی ، احتجاج، مظاہروں کے پیچھے کہیں نہ کہیں محرومی کارفرما ہوتی ہے، محرومی ہی بغاوت کو جنم دیتی ہے ،آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے سماجی مساوات اور انصاف کا جو تصوردنیا کو دیا، وہ اپنے آپ میں بے نظیر ہے۔خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین  نے انہیں بے بنیادوں پر سماجی انصاف کے ساتھ حکومت کے کام کو آگے بڑھایا ، چنانچہ اسی انصاف کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے حضرت عمرؓ نے بیت المقدس کے فتح کے بعد جو امان نامہ دیا اس میں لکھا کہ یہ امان نامہ ان کی جان ومان ، گرجا ، صلیب ، تندرست ،بیمار اور ان کے تمام مذاہب والوں کے لئے ہے، ان کے گرجائوں میںنہ سکونت کی جائیگی نہ ڈھائے جائیں گے ، نہ اس کو اور نہ اس کے احاطے کو کچھ نقصان پہونچایا جائے گا نہ ان کی صلیبوں اور نہ ان کے ما ل میں کچھ کمی کی جائے گی ، مذہب کے بارے میں ان پرجبر نہیںکیا جائے گا ، اور نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہونچایا جائے گا ، ہر دور میں اس پر عمل کیا جاتا رہا ، یہ سماجی انصاف کا ہی تقاضہ تھا کہ امیر المومنین حضرت علی ؓ پر مقدمہ چلا ،عدالت میں ان کی حاضری ہوئی ، اور مقدمہ یہودی کے حق میں فیصل ہوگیا دنیا کے دوسرے مذاہب میں اس کی کوئی نظیر نہیںملتی ، آج کے دور میں ا سکی اہمیت و معنویت بعض خارجی وداخلی احوال کی وجہ سے دوچند ہوگئی ہے ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...