Powered By Blogger

پیر, اگست 07, 2023

فسادات کی روک تھام کا نبوی طریقہ ہمایوں اقبال ندوی نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ وجنرل سکریٹری ،تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

فسادات کی روک تھام کا نبوی طریقہ 
Urduduniyanews72 
ایک ویڈیو میوات سے موصول ہوئی ہے،ہرادران وطن کی ایک جماعت نےاسے وائرل کیا ہے،اس میں  پہلے ہرشخص نےاپنا نام اور پتہ بتایا ہے، پھر اپنی بات پیش کی ہے، اس کی ابتدا اسطرح ہوتی ہے؛" نمسکار ساتھیو! میرا نام ہے کرن سنگھ، گاؤں سولنبا،تحصیل نوح، ضلع میوات، یہ گاؤں میوات چھیتر میں آتا ہے،دوسرے لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ میوات کے لوگ ہمیں پریشان کرتے ہیں، میوات کو بدنام کرنے کے لئے ایسا کہا جارہا ہے،اور یہاں کے ماحول کو خراب کرنے کے لئے کیا جارہا ہے، ابھی کل پرسوں جو حادثہ ہوا ہے،یہ باہر کے لوگوں نے کیا ہے، سرکار اس کی پوری طرح سے جانچ کرے، اور اس پر اچت کارروائی کرے، اس کے بعد راجیش کمار جی نے کہا ہے کہ؛"ہمارے یہاں بہت بڑھیاں بھائی چارہ ہے،یہاں امن چین سے ہم رہتے ہیں، یہاں ہمیں کوئی دقت نہیں ہے،باہر کے لوگ آکر ماحول خراب کرتے ہیں" نیزدرجن بھر سے زائد برادران وطن نے بھی یہی باتیں  آن کیمرہ اس ویڈیو میں پیش کی ہیں ۔
میوات یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے،فرقہ پرست لوگ اسے آگ کی نذر کردینا چاہتے ہیں، مگر یہ خوشی کی بات ہے کہ ہندو مسلم یہاں ایک ساتھ رہتے ہیں، اور آپس میں بھائی چارہ اور پیار ومحبت کی فضا یہاں بنی ہوئی ہے، اسی لئے فسادیوں کو میوات میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے،دنگائیوں نے گروگرام ودیگر مقامات پراپناغصہ نکالنے کی کوشش کی ہے، ایک مسجد پر رات کی تاریکی میں حملہ کرکے نائب امام کو گولی ماری گئی، نیزمسجد کونذر آتش کرکے اپنے آتش غضب کو ٹھنڈا کرنے کی ناکام سعی کی گئی ہے ، جبکہ گروگرام ہی میں دوسری جگہ فضیحت کا بھی فسادیوں کو سامنا ہوا ہے، سوہنا کی شاہی مسجد پر بھی ایک ہجوم نے حملہ کیاتھا، مگر وہاں پڑوس میں رہنے والے سکھ بھائیوں نے مسجد کے امام صاحب اور پڑھنے والے بچوں کو اپنی جان پر کھیل کر بحفاظت نکال لیا ہے،یہاں پربھی فسادیوں کو منھ کی کھانی پڑی ہے۔
آج ملک میں جہاں بھی دنگا ہوتا ہے، اس کے پیچھے گاؤں وسماج اور شہر کے سمجھدار لوگ نہیں ہیں، گاؤں، شہر اور ریاست سے باہرکے لوگ اس مقصد کے لئے امپورٹ کئے جاتے ہیں، ابھی  دہلی فساد میں بھی یہی دیکھنے میں آیا تھا، اور اب میوات اور ہریانہ فساد میں بھی یہی دیکھنے میں آرہا ہے۔میوات کو فساد میں جھونکے کی کوشش جنید اور ناصر کے قاتلوں نے کی ہے،یہ سبھی جانتے ہیں، یہ میوات سے باہر کے رہنے والے ہیں، ہنوز آزاد گھوم رہے ہیں، مگر سزا مقامی لوگوں کو دی جارہی ہے،میوات میں دکان ومکان بلڈوزگئے جارہے ہیں، دوسری طرف شرپسند عناصر جو باہر کے ہیں نقاب  پہن پہن کر غریبوں پر حملہ کررہے ہیں،ماحول ہنوز پر امن نہیں ہواہے،اس کی اصل وجہ کارروائی صحیح سمت میں نہیں ہورہی ہے،  ہریانہ کی ریاستی حکومت سے بہت زیادہ پر امید ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے،فساد کیوں ہوا؟ اس سوال کے جواب میں ریاستی وزیر داخلہ نے کہاکہ یہاں کی آبادی دو کروڑ کی ہے اور ساٹھ ہزار پولس کیا کرسکتی ہے؟ اس سے تو صاف حکومت کی نااہلی جھلکتی ہے۔
                ہم کو ان سے ہےوفا کی امید 
                جو جانتے نہیں وفا کیا ہے 

آج ہم اپنے طور کیا کرسکتے ہیں؟ فسادات کی روک تھام کے لئے کیا قربانی پیش کرسکتے ہیں؟ اور کونسا طریقہ اپناتے ہیں؟ ان عناوین پر غور وفکرکی ضرورت ہے، میوات سے اپنی ویڈیو کےذریعہ ہندو بھائیوں نے بڑا اہم پیغام دیا ہے،اس طرح کے لوگ ہر گاؤں، ہر سماج ،ہر شہراور ملک کی ہرریاست میں بستے ہیں،  سماج کے ان انصاف پسند لوگوں کو متحد کرکے ہم اندرون وباہر دونوں طرح کے حملوں سے اپنی حفاظت کا سامان کرسکتے ہیں، اپنے گاؤں،شہر اور سماج کو فساد کی شر سے محفوظ کرسکتے ہیں، یہ ذمہ داری ہم مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے، اسلام امن وسلامتی کی گارنٹی دیتا ہے،اور پیغمبر اسلام محمد صلی علیہ وسلم امن کے علمبردار رہے ہیں، قرآن میں یہ اعلان موجود ہے؛حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے، (سورہ احزاب )
قرآن کریم کی اس آیت میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہر معاملہ نبی صلی اللہ کی  ذات کو اپنا آئیڈیل بنانے کی ضرورت ہے،  عقائد وعبادات، معاملات واخلاق، معاشرت ومعاشیات اور سیاست میں بھی آپ صلی علیہ وسلم کی ذات ہمارے لئے نمونہ ہے،
جن حالات سے ملک میں ہم سب اس وقت  دوچار ہیں، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو بھی ان کا سامنا ہوا ہے، مدینہ شہر رسول بھی دشمنوں کے نرغے میں رہا ہے،داخلی وخارجی دونوں طرح کے حملوں کے بیچ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لائحہ عمل کیا رہا ہے؟ اسے معلوم کرنے اور عمل میں لانے کی آج شدید ضرورت ہے۔
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں  طرح کے حملوں کاسد باب مدینہ پہونچتے ہی مسلمانوں اور یہودیوں کےدرمیان معاہدہ  کے ذریعہ ک

یا ہے، سیرت کی کتابوں میں اس کی تفصیل لکھی ہوئی ہے،معاہدہ کےخاص نکات یہ ہیں؛
یہود اور مسلمان باہم دوستانہ برتاؤ رکھیں گے، یہود یا مسلمانوں کو کسی سے لڑائی پیش آئے گی تو ایک فریق دوسرے کی مدد کرے گا، کوئی فریق قریش کو امان نہیں دے گا،مدینہ پر حملہ ہوگا تو دونوں فریق شریک یکدیگر ہوں گے،(سیرت النبی)
 آج اس نوعیت کےمعاہدہ سے ہم تاریخی کارنامہ انجام دے سکتے ہیں، سد بھاونا کےنام پربڑےبڑےاجلاس منعقدکئےجاتےہیں،ہر دھرم کےلوگ اسمیں شامل ہوتے ہیں ،تو پھر کیوں  نہیں گاؤں یا شہر کی حفاظت کے نام پر مقامی لوگوں  کوہم اکٹھا کرسکتے ہیں،  بستی میں جب آگ لگتی ہے تو دھوان ہرجگہ پہونچتا ہے، اور نقصان پورے گاؤں کا ہوجاتا ہے۔راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے؛
          لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں 
           یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

یہی پیغام لیکر حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کھڑے ہوئے تھے، پیام انسانیت کے نام پر لوگوں کو ایک جگہ بلاکر انسانیت کی بات کہتے،اور" مانوتا کا سندیش" کے عنوان پر دراصل معاہدہ والی سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی احیاء فرمارہے تھے، افسوس کہ اس نازک  وقت مولانا ہمارے درمیان نہیں ہیں،مگر ہم زندہ ہیں تو زندگی کا ثبوت پیش کریں،اگر ایسا ہم نے کر لیا تو بڑی کامیابی ہمیں نصیب ہوگی، ان شاء اللہ العزیز ہم ان منصوبہ بند فسادات کا سد باب کرسکتے ہیں، برادران وطن ہمارے ساتھ ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے کی دنیا وآخرت دونوں کامیاب ہوتی ہے۔
ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری ،تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۷/اگست ۲۰۲۳ء

شادی کا فلسفہ اور مقصد ✍️ مولانامحمد قمر الزماں ندوی

شادی کا فلسفہ اور مقصد 
اردودنیانیوز۷۲
مولانامحمد قمر الزماں ندوی

   معاشرتی زندگی کی بنیاد نکاح ہے،یہ کام شریعت اسلامی میں بہت ہی پسندیدہ اور عند اللّٰہ مستحسن ہے کہ کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے شریعت کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ازدواجی تعلق قائم کرکے اس کے ساتھ اپنی پوری زندگی خوشی خوشی عفت و عصمت اور پاکدامنی کے ساتھ گزارے ۔اسلام میں نکاح جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن ہے، اور رہبانیت یعنی بلا شادی زندگی گزارنا مذموم ہے،نکاح تمام نبیوں کی سنت ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ،،ولقد ارسلنا رسلنا من قبلک و جعلنا لھم ازواجا و ذریتہ ،، (سورہ رعد) اور ہم نے یقینا آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے ان کو بیویاں اور بچے دیے،، ۔۔۔
 حضرت ابن عباس رض سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،،پانچ چیزیں انبیاء کرام کی سنتوں میں سے ہیں حیاء،بردباری وتمحل ،حجامت،خوشبو،اور نکاح ۔۔۔مجمع الزوائد باب الحث علی النکاح ۔۔
  صالح اور نیک کار بندوں نے نیک و صالح بیوی اور اولاد کے لیے دعا کی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ،،ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریاتنا قرت اعین ،،سورہ فرقان ۔۔
اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی راحت عطا فرما ۔۔۔
   شادی شدہ ایک ایسے سکون و اطمینان اور محبت و الفت سے ہمکنار ہوتا ہے، جو کسی اور ذریعہ سے میسر نہیں ہوسکتا ۔۔قرآن مجید میں متعدد آیات میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
   نکاح ایک ایسی دولت اور نعمت ہے بلکہ یہ وہ عبادت ہے، جس کے ذریعہ انسان کو سکون واطمینان اور صحت و عافیت نصیب ہوتی ہے ،اس کے اندر ایثار و قربانی محبت و الفت ،اجتماعی زندگی گزارنے اور مل جل کر رہنے کا جذبہ اور سلیقہ پروان چڑھتا ہے،نکاح کے بے شمار فائدے ہیں ،ایک مومن کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے ذریعہ اس کا نصف ایمان مکمل ہوجاتا ہے اور ایمان ایسی بیش قیمت دولت ہے جس کا دنیا میں کوئی عوض اور بدلہ نہیں ہوسکتا، اس کا بدلہ خدا کی خوشنودی اور جنت ہے ۔
    نکاح شریعت اسلامی کی نظر میں عبادت بھی ہے اور ایک معاہدہ اور پیکٹ بھی، لیکن بدقسمتی سے اکثر لوگ نکاح کو عبادت نہیں سمجھتے، اس کو محض ایک معاہدہ ،رسم اور پیکٹ سمجھتے ہیں ،جبکہ نکاح عقد اور معاہدہ کے ساتھ ایک اہم عبادت بھی ہے ،نکاح کی مجلس میں شرکت کرنے والا ،عقد کرانے والا ،گواہ بننے والا ،ایجاب و قبول کرانے والا ،اور اس مسنون اور مبارک مجلس میں شرکت کرنے والے کا مقام نفلی عبادت کرنے والے سے بڑھ کر ہے ۔
   بقول حضرت علی میاں ندوی رح ،، عام عبادت نماز ،روزہ حج اور زکوٰۃ جز وقتی عبادت ہے ،جس وقت یہ عبادت آپ انجام دیتے ہیں اس وقت آپ کو اس کا ثواب ملتا ہے، پھر دوبارہ جب انجام دیں گے تب ملے گا ،لیکن نکاح ایک کل وقتی یعنی پوری زندگی عبادت ہے، اس کے ثواب کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا، کبھی رکتا اور ختم نہیں ہوتا، آخری سانس تک میاں بیوی کو ایک دوسرے کو دیکھنے پر ،ایک دوسرے کی خدمت کرنے پر ،ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے پر ،میاں بیوی کے باہمی حقوق ادا کرنے پر، ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنے پر ملتے رہتا ہے ،اور اجر و ثواب کا یہ سلسلہ شریکین کے درمیان تاحیات جاری رہتا ہے۔۔۔۔
  الغرض نکاح یہ ایک عظیم عبادت اور مضبوط معاہدہ ہے، جو تمام نبیوں کی سنت اور طریقہ ہے، اس کے ذریعہ انسان زنا اور دیگر فواحش و منکرات سے محفوظ ہوجاتا ہے اور مختلف قسم کی برائیوں اور تفکرات و تصورات سے آزاد ہوجاتا ہے،اسی کے ساتھ محبت و الفت سکون واطمینان ،راحت و آرام ایثار و قربانی اور نسل انسانی کی افزائش و فروغ کے وہ نمایاں فوائد ہیں ،جن کا حصول دیگر ذرائع سے ممکن نہیں، اس لیے حکم شریعت ہے کہ جو صاحب استطاعت و وسعت ہوں وہ جلد اس مبارک عمل کو انجام دیں اور اس میں تاخیر سے گریز کریں ۔اس کے ساتھ ہی نکاح کی حمکت ،مصحلت ،اغراض و مقاصد ،فوائد اور اس کا فلسفہ شریعت میں کیا ہے؟ وہ بھی ہمارے پیش نظر رہے تاکہ اس کی روشنی میں ہم ازدواجی زندگی کو زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنا سکیں اور نکاح کے بعد زندگی کے کسی موڑ پر تلخی اور ناخوشگواری پیدا نہ ہوسکے اور محبت و الفت اور رآفت و رحمت کی زندگی ہمیں نصیب ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم یہاں 
امام الہند مولانا "ابوالکلام آزاد " کا ایک خط نقل کرتے ہیں، جو انہوں نے ایک عزیز کو شادی کے موقع پر لکھا تھا، جس میں شادی کے فلسفہ پر اسلامی نقطہ نظر سے مدبرانہ اور فاضلانہ طور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ۔ ۔
ملاحظہ فرمائیں :
عزیزی! تمھارا خط پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی،تعلیم کی تکمیل کے بعد اب تمہیں زندگی کی وہ منزل پیش آ گئی ہے جہاں سے انسان کی شخصی ذمہ داریوں کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے یعنی تمھاری شادی ہو رہی ہے میرے لیے ممکن نہیں کہ اس موقع پر شریک ہو سکوں لیکن یقین کرو کہ میری دل کی دعائیں تمھارے ساتھ ہیں اپنی جگہ اپنی دعائیں تمھارے پاس بھیج رہا ہوں۔
اللہ تعالی اس تقریب کو برکت وسعادت کا موجب بنائے اور تمھاری یہ نئی زندگی ہر اعتبار سے کامیاب ہو۔
میں اس موقع پر تمھیں یاد دلاؤں گا کہ بحثیت مسلمان تمھیں چاہیے۔۔۔ازدواجی زندگی یعنی شادی کی زندگی کا وہ تصور اپنے
سامنے رکھو جو قرآن حکیم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ (21)الروم
خدا کی حکمت کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کر دیے ہیں یعنی مرد کے لیے عورت اور عورت کےلیے مرد لیکن خدا نے ایسا کیوں کیا؟
اس لیے کہ تمھاری زندگی میں تین چیزیں پیدا ہو جائیں جن تین چیزوں کے بغیر تم ایک مطمئن اور خوش حال زندگی حاصل نہیں کر سکتے وہ تین چیزیں یہ ہیں : سکون مودت رحمت لتسکنو الیھا وجعل بینکم مودۃ و رحمۃ ۔
"سکون"عربی زبان میں ٹھراؤ اور جماؤ کو کہتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ تمھاری زندگی میں ایسا ٹھراؤ اور جماؤ پیدا ہو جائے کہ زندگی کی پریشانیاں اور بے چینیاں اسے ہلا نہ سکیں۔
"مودت" سے مقصود محبت ہے قرآن کہتا ہے کہ ازدواجی زندگی کی تمام تر بنیاد محبت پر ہے شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے اس لیے رشتہ جوڑتی ہے تا کہ ان کی ملی جلی زندگی کی ساری تاریکیاں محبت کی روشنی سے منور ہو جائیں ۔
لیکن محبت کا یہ رشتہ پائیدار نہیں ہو سکتا اگر رحمت کا سورج ہمارے دلوں پر نہ چمکے رحمت سے مراد یہ ہے کہ شوہر اور بیوی نہ صرف ایک دوسرے سے محبت کریں بلکہ ہمیشہ ایک دوسرے کی غلطیاں اور خطائیں بخش دیں اور ایک دوسرے کی کمزوریاں نظراننداز کرنے کےلیے اپنے دلوں کو تیار رکھیں
"رحمت کا جذبہ خود غرضانہ محبت کو فیاضانہ محبت کی شکل دیتا ہے" ایک خود غرضانہ محبت کرنے والا صرف اپنی ہی ہستی کو سامنے رکھتا ہے لیکن رحیمانہ محبت کرنے والا اپنی ہستی کو بھول جاتا ہے اور دوسرے کی ہستی کو مقدم رکھتا ہے ۔ رحمت ہمیشہ اس سے تقاضا کرے گی کہ دوسرے کی کمزوریوں پر رحم کرے غلطیاں، خطائیں بخش دے ۔ غصہ ، غضب اور انتقام کی پرچھائیاں بھی اپنے دل پر نہ پڑنے دے۔
                  (ابوالکلام آزاد)  

               * دارالتحریر*   

  قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ) 
ترسیل۔۔۔ انس مسرورانصاری
رابطہ/9453347784/
شادی کا فلسفہ اور مقصد 

✍️ مولانامحمد قمر الزماں ندوی

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...