Urduduniyanews72
ایک ویڈیو میوات سے موصول ہوئی ہے،ہرادران وطن کی ایک جماعت نےاسے وائرل کیا ہے،اس میں پہلے ہرشخص نےاپنا نام اور پتہ بتایا ہے، پھر اپنی بات پیش کی ہے، اس کی ابتدا اسطرح ہوتی ہے؛" نمسکار ساتھیو! میرا نام ہے کرن سنگھ، گاؤں سولنبا،تحصیل نوح، ضلع میوات، یہ گاؤں میوات چھیتر میں آتا ہے،دوسرے لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ میوات کے لوگ ہمیں پریشان کرتے ہیں، میوات کو بدنام کرنے کے لئے ایسا کہا جارہا ہے،اور یہاں کے ماحول کو خراب کرنے کے لئے کیا جارہا ہے، ابھی کل پرسوں جو حادثہ ہوا ہے،یہ باہر کے لوگوں نے کیا ہے، سرکار اس کی پوری طرح سے جانچ کرے، اور اس پر اچت کارروائی کرے، اس کے بعد راجیش کمار جی نے کہا ہے کہ؛"ہمارے یہاں بہت بڑھیاں بھائی چارہ ہے،یہاں امن چین سے ہم رہتے ہیں، یہاں ہمیں کوئی دقت نہیں ہے،باہر کے لوگ آکر ماحول خراب کرتے ہیں" نیزدرجن بھر سے زائد برادران وطن نے بھی یہی باتیں آن کیمرہ اس ویڈیو میں پیش کی ہیں ۔
میوات یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے،فرقہ پرست لوگ اسے آگ کی نذر کردینا چاہتے ہیں، مگر یہ خوشی کی بات ہے کہ ہندو مسلم یہاں ایک ساتھ رہتے ہیں، اور آپس میں بھائی چارہ اور پیار ومحبت کی فضا یہاں بنی ہوئی ہے، اسی لئے فسادیوں کو میوات میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے،دنگائیوں نے گروگرام ودیگر مقامات پراپناغصہ نکالنے کی کوشش کی ہے، ایک مسجد پر رات کی تاریکی میں حملہ کرکے نائب امام کو گولی ماری گئی، نیزمسجد کونذر آتش کرکے اپنے آتش غضب کو ٹھنڈا کرنے کی ناکام سعی کی گئی ہے ، جبکہ گروگرام ہی میں دوسری جگہ فضیحت کا بھی فسادیوں کو سامنا ہوا ہے، سوہنا کی شاہی مسجد پر بھی ایک ہجوم نے حملہ کیاتھا، مگر وہاں پڑوس میں رہنے والے سکھ بھائیوں نے مسجد کے امام صاحب اور پڑھنے والے بچوں کو اپنی جان پر کھیل کر بحفاظت نکال لیا ہے،یہاں پربھی فسادیوں کو منھ کی کھانی پڑی ہے۔
آج ملک میں جہاں بھی دنگا ہوتا ہے، اس کے پیچھے گاؤں وسماج اور شہر کے سمجھدار لوگ نہیں ہیں، گاؤں، شہر اور ریاست سے باہرکے لوگ اس مقصد کے لئے امپورٹ کئے جاتے ہیں، ابھی دہلی فساد میں بھی یہی دیکھنے میں آیا تھا، اور اب میوات اور ہریانہ فساد میں بھی یہی دیکھنے میں آرہا ہے۔میوات کو فساد میں جھونکے کی کوشش جنید اور ناصر کے قاتلوں نے کی ہے،یہ سبھی جانتے ہیں، یہ میوات سے باہر کے رہنے والے ہیں، ہنوز آزاد گھوم رہے ہیں، مگر سزا مقامی لوگوں کو دی جارہی ہے،میوات میں دکان ومکان بلڈوزگئے جارہے ہیں، دوسری طرف شرپسند عناصر جو باہر کے ہیں نقاب پہن پہن کر غریبوں پر حملہ کررہے ہیں،ماحول ہنوز پر امن نہیں ہواہے،اس کی اصل وجہ کارروائی صحیح سمت میں نہیں ہورہی ہے، ہریانہ کی ریاستی حکومت سے بہت زیادہ پر امید ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے،فساد کیوں ہوا؟ اس سوال کے جواب میں ریاستی وزیر داخلہ نے کہاکہ یہاں کی آبادی دو کروڑ کی ہے اور ساٹھ ہزار پولس کیا کرسکتی ہے؟ اس سے تو صاف حکومت کی نااہلی جھلکتی ہے۔
ہم کو ان سے ہےوفا کی امید
جو جانتے نہیں وفا کیا ہے
آج ہم اپنے طور کیا کرسکتے ہیں؟ فسادات کی روک تھام کے لئے کیا قربانی پیش کرسکتے ہیں؟ اور کونسا طریقہ اپناتے ہیں؟ ان عناوین پر غور وفکرکی ضرورت ہے، میوات سے اپنی ویڈیو کےذریعہ ہندو بھائیوں نے بڑا اہم پیغام دیا ہے،اس طرح کے لوگ ہر گاؤں، ہر سماج ،ہر شہراور ملک کی ہرریاست میں بستے ہیں، سماج کے ان انصاف پسند لوگوں کو متحد کرکے ہم اندرون وباہر دونوں طرح کے حملوں سے اپنی حفاظت کا سامان کرسکتے ہیں، اپنے گاؤں،شہر اور سماج کو فساد کی شر سے محفوظ کرسکتے ہیں، یہ ذمہ داری ہم مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے، اسلام امن وسلامتی کی گارنٹی دیتا ہے،اور پیغمبر اسلام محمد صلی علیہ وسلم امن کے علمبردار رہے ہیں، قرآن میں یہ اعلان موجود ہے؛حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے، (سورہ احزاب )
قرآن کریم کی اس آیت میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہر معاملہ نبی صلی اللہ کی ذات کو اپنا آئیڈیل بنانے کی ضرورت ہے، عقائد وعبادات، معاملات واخلاق، معاشرت ومعاشیات اور سیاست میں بھی آپ صلی علیہ وسلم کی ذات ہمارے لئے نمونہ ہے،
جن حالات سے ملک میں ہم سب اس وقت دوچار ہیں، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو بھی ان کا سامنا ہوا ہے، مدینہ شہر رسول بھی دشمنوں کے نرغے میں رہا ہے،داخلی وخارجی دونوں طرح کے حملوں کے بیچ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لائحہ عمل کیا رہا ہے؟ اسے معلوم کرنے اور عمل میں لانے کی آج شدید ضرورت ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں طرح کے حملوں کاسد باب مدینہ پہونچتے ہی مسلمانوں اور یہودیوں کےدرمیان معاہدہ کے ذریعہ ک
یا ہے، سیرت کی کتابوں میں اس کی تفصیل لکھی ہوئی ہے،معاہدہ کےخاص نکات یہ ہیں؛
یہود اور مسلمان باہم دوستانہ برتاؤ رکھیں گے، یہود یا مسلمانوں کو کسی سے لڑائی پیش آئے گی تو ایک فریق دوسرے کی مدد کرے گا، کوئی فریق قریش کو امان نہیں دے گا،مدینہ پر حملہ ہوگا تو دونوں فریق شریک یکدیگر ہوں گے،(سیرت النبی)
آج اس نوعیت کےمعاہدہ سے ہم تاریخی کارنامہ انجام دے سکتے ہیں، سد بھاونا کےنام پربڑےبڑےاجلاس منعقدکئےجاتےہیں،ہر دھرم کےلوگ اسمیں شامل ہوتے ہیں ،تو پھر کیوں نہیں گاؤں یا شہر کی حفاظت کے نام پر مقامی لوگوں کوہم اکٹھا کرسکتے ہیں، بستی میں جب آگ لگتی ہے تو دھوان ہرجگہ پہونچتا ہے، اور نقصان پورے گاؤں کا ہوجاتا ہے۔راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے؛
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
یہی پیغام لیکر حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کھڑے ہوئے تھے، پیام انسانیت کے نام پر لوگوں کو ایک جگہ بلاکر انسانیت کی بات کہتے،اور" مانوتا کا سندیش" کے عنوان پر دراصل معاہدہ والی سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی احیاء فرمارہے تھے، افسوس کہ اس نازک وقت مولانا ہمارے درمیان نہیں ہیں،مگر ہم زندہ ہیں تو زندگی کا ثبوت پیش کریں،اگر ایسا ہم نے کر لیا تو بڑی کامیابی ہمیں نصیب ہوگی، ان شاء اللہ العزیز ہم ان منصوبہ بند فسادات کا سد باب کرسکتے ہیں، برادران وطن ہمارے ساتھ ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے کی دنیا وآخرت دونوں کامیاب ہوتی ہے۔
ہمایوں اقبال ندوی
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ
وجنرل سکریٹری ،تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری
۷/اگست ۲۰۲۳ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں